لڑکیوں کی تربیت
  • عنوان: لڑکیوں کی تربیت
  • مصنف: ڈاکٹر سید محمد باقر حجتی
  • ذریعہ: (گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
  • رہائی کی تاریخ: 11:26:59 3-9-1403

 

  جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، لڑکیوں کی پرورش و تربیت کی اہمیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: (من کان له انبة فادبها واحسن ادبها، وغذاها فاحسن غذائها، واسبغ علیها من النعم التی اسبغ الله علیه، کانت له میمنة ومیسرۃ من النار الی الجنة) 1
جس کے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس کے تربیت کرے اور اس کو اچھے عمل کی تعلیم دے اسے کھلائے اور اس کی خوراک میں بہتر ی کو مد نظر رکھے اور جن نعمتوں کو خدا نے اس کے حوالے کیا ھے اسے لڑکی کے اوپر خرچ کرنے میں دریغ نہ کرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔
ایک حکیمانہ ضرب المثل ہے کہ معاشرہ، ماؤں کی محنتوں کا نتیجہ ہے لہٰذا ماں خاندان کا رکن، اور خاندان پورے معاشرے کا رکن ہے۔ اور جب تک آج کی لڑکی کل کی تاریخ ساز ماں ہے پھر یہ کیسے ہو سکتاھے کہ اس گروہ کو نظر انداز کر دیا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لئے کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اسی لئےپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (خیر اولادکم البنات)2 تمہاری بہترین اولاد لڑکیاں ہیں ۔
حقیقت و واقعیت سے دور کی بات نہیں کہہ رہے ہیں کیونکہ ہمارا اعتقاد ہے کہ معاشرتی زندگی میں ترقی گھریلو زندگی میں ترقی سے ہی ممکن ہے اور سماج اور معاشرہ بھی پریوار سے ہی تشکیل پاتا ہے اس لئے کہ پریوار سب سے چھوٹا انسانی معاشرہ ہے لہٰذا پریوار معاشرہ، کی بنیاد ھے اور چونکہ ماں پریوار کا رکن ہوتی ھے اور اس کی معلومات سے خاندانی زندگی کے لیول کو اونچا کرنے میں قابل توجہ اثر رکھتی ہے لہٰذا پہلے مرحلہ میں اسے چاہئے کہ پریوار اور گھریلو امور کو نظم و ضبط دے اور بچوں کی تربیت اور ماحول کو پر سکون اور آرام دہ بنایا اس کی عظیم ذمہ داری ہے۔
اور چونکہ لڑکیوں کی تعداد کائنات میں لڑکوں سے زیادہ ھے اگر ان کی تربیت میں سہل انگاری سے کام لیا گیا تو معاشرہ اپنی آدھی سے زیادہ قوت و طاقت میں نقصان اٹھائے گا، عورت تخلیق کو ثمر بخش بنانے میں اہم کردار رکھتی ہے ۔ زندگی میں کچھ ایسے اعمال ہیں کہ جن کو مرد صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے سکتے جیسے بچوں کی تربیت نونہالوں کی تعلیم، درد مندوں سے ہمدردی بیماروں کی دیکھ ریکھ اور اسی جیسے بہت سے سماجی اور گھریلو کام کہ جنھیں عورتیں ہی بڑے حوصلہ اور صبر شکیبائی کے ساتھ انجام دینے کی قدرت رکھتی ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ مربی لوگ لڑکیوں کے طبیعی حق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی خداداد استعداد اور ان کی شخصیت کو ترقی دینے کی کوشش کریں۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک باعظمت معاشرہ، تابناک مستقبل کا حامل معاشرہ کی بنیاد رکھیں تو پھر ہمیں ان کی تعلیم و تربیت پر کافی اہتمام کرنا ہوگا اور ان کی تربیت میں عورت ذات کی خاص صفات اور ان کے طبیعی رجحانات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے مناسب روش اپنانی ہوگی۔

لڑکی، آئندہ میں ہونے والی زوجہ خاندان کی پرورش کرنے والی ہے

ازدواج، مرد اور عورت کے درمیان اتفاق واتحاد پیدا کرنے کے ایک مقدس ربد کا نام ہے جوکہ ایک نئی عمارت معاشرہ کے اندر کھڑی کرنا ھے اور اس میں عورت کا کردار بہت اھم ہے کہ جسے اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ھے اور وہ اہم کردار اور الٰہی ذمہ داری، بچوں کی ریکھ ریکھ اور ان کی تربیت و پرورش ہے یہ زمہ داری خدائی سنت ہے اور تاریخی واقعات نیز قانون طبیعت بھی اس ذمہ داری کو عورت کے اوپر لازم سمجھتا ہے اور چونکہ ازدواج ایک قسم کا عورت ومرد کے درمیان روحی و مادی اشتراک ہے لہٰذا مرد و عورت کی نزدگی میں خوشی وخوشبختی بھی، محبت، تفاھم اور ایک دوسرے کا احترام و عزت کے بغیر پائیہ کمال کو نہی پہنچ سکتی۔ اور سعادتمندی خانوادگی زندگی کے تمام امور کو صحیح تدبیر سے چلانے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی لہٰذا اس اہم امر کی ذمہ داری پہلے مرحلے میں گھر کی پرورز کرنے والی عورت کے کاندھوں پر ھے۔
اور چونکہ آج کی لڑکی کل کی ہونے والی بیوی ہے لہٰذا معاشرہ اورماں باپ کی ذمہ داریوں می سے ایک یہ ہے کہ اپنی لڑکیون کو میاں بیوی کی زندگی کے معنیٰ و مفہوم سے آگاہ کریں اور اس کی اہمیت کو گوشزد کریں تاکہ وہ آئندہ میں گھریلو زندگی کے تحفظ کے لئے کوشش کرے۔اور لڑکیوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ گھریلو مشکلات کو جانتی رہیں ۔ جو مدارس لڑکیوں کی تربیت کرتےہیں ضروری ہے کہ ان مدارس میں میل جول کا پر سکون ماحول قائم ہو اور وہاں پر یہ سکھا یاجائے کہ کس طرح دوسروں کی خدمت کی جاتی ہے کسی طرح فداکاری اور دوسروں کی مدد کی جاتی ہے۔ اس طرح کی تمرینات کا ثر یہ ہوگا کہ لڑکیاں کل کی شائستہ بیویاں بنیں گی اور اپنے شوہروں کے ساتھ سکون وچین کی زندگی بسر کریں گیاور ہر وقت چاہے خوشی کا موقع ہو یا تکلیف دہ حالات ہوں سب میں شوہر کی بہترین مدد گار ثابت ہوں گی ۔
لڑکی آئندہ میں گھر کی پرورش کرنے والی ہے ۔ اس لئے کہ گھر چلانا ااج کی دنیا میں ایک قابل توجہ فن کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس نے مربیوں کے لئے ضروری بنا دیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے طریقون می تبدیلی لائیں اور ان کی درسیات میں جدید درسی سبجیکٹ اور علمی معارف کا اضافہ کریں تاکہ لڑکیوں کو آمادہ کریں تاکہ وہ آئندہ میں، گھر کے لئے ایک شائستہ پرورش کرنے والی بن سکیں۔
انھیں درسی سبجیکٹ میں سے ایک، حفظان صحت اور تندرستی سے متعلق علوم ہیں ۔ بیماری سے روک تھام اور ان کا مناسب علاج ہے ۔ اسی طرح غذا تیار کر نے اور انھیں مختلف اشتہا دلانے والی جذاب شکل و صورت دینا اور مرغوب بنا نے سے متعلق فنون ہیں ۔ خیاطی (سلائی) کپڑوں کے مختلف قسموں کو پہچاننا اور لباس کے محفوط رکھنے کے ظریقے گھر کے مالی امور کی تدبیر اور اس طرح کے دیگر فنون و معارف بھی ان میں شامل ہونا چاہئے یہ بھی بہت مناسب ہے کہ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ کچ ہنر و فن سے متعلق دوروس کو جو کہ گھر کے لئے مختص ہیں انھیں بھی وہ سیکھیں مثال کے طور پر گھر کے لئے کن اسباب و سائل کو انتخاب کیا جائے پھولوں کو کس طرح سجایا جائے وغیرہ جو کہ سلیم وصحت مند ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔
لڑکیوں کے اندر جو مہم ترین جذبہ، مدرسہ پیداسکتا ہے وہ لڑکی ہونے پر فخر کا جذبہ ہے اور ایسے ہم اعمال پر فخر ومباھات کرنا ہے کہ جو گھر کے مربی کو ضرور انجام دینا چاہئے اسی طرح کی تعلیمات سے لڑکیاں گھریلو امور سے آئندہ ذوق و شوق پید کر لیں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لڑکیاں گھریلو کاموں کو ایک اہم ھنر تصور کریں گی اور ان کے دل کی گہرائیوں می یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ ان کے وجود کا اصلی اور آخری مقصد ۔۔۔وہ خود چاہے جتنی لڑھی لکھی کیوں نہ ہوں۔۔۔ ایک بہترین اور نمونہ کہے جانے کے قابل گھر کو بنانا اور ایک آئیڈیل پریوار کی بنیاد رکھنا ہے اور بالاخر ان کا یہ جذبہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ تیار کرنے میں بڑا موثر ہوگا۔
ایک بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ کوءی تصور کرلے کہ ماں کی ذمہ داری صرف فرزند پیدا کرنا ہے درحالیکہ جو ماں باپ صاحب فرزند ہو جانے کے بعد ان کی تربیت پر توجہ نہ دیں انھوں نے خود اور معاشرہ دونوں کو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ بچوں کی تربیت میں پہلا دور بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کے بارے میں ماہرین نفسیات دانشمندوں اور مربیوں نے بہت سے مقال لکھ ڈلے ہیں کیونکہ اس پہلے دور میں تہذیب وادب اور بچے کہ شخصیت سنوانے والے اسباب و علل کی بنیاد پڑتی ہے واضح سی بات ہے کہ ماں ہی مدرسہ کی تعلیم تربیت سے پہلے کے مرحلہ میں پہلی مربی ہے لہٰذا لازم ہے کہ کل کی ماں بننے کے لئے لڑکیوں کی اچھی طرح تربیت کی جائے اور ماؤں کو چاہئے کہ اپنی لڑکیوں کو بچوں کی زندگی میں آنے والے مختلف ادوار کی تعلیم دیں اور انھیں تربیت کے جملہ امور سے آگاہ کریں۔
رُسو کہتا ہے: بچہ ماں کی چاہت کے حساب سے تربیت پاتا ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا بچہ شرف و فضیلت کا مفہوم درک کرلے تو تمہیں چاہئے کہ بچہ کی ماں کی تربیت کرو۔
شاید سب سے پہلا امر جس پر عنایت و توجہ لازم ہے وہ بچہ کی سلامتی ہو۔اور اس پر توجہ حتیٰ ولادت سے پہلے لے کر ولادت کے بعد بھی جاری رہتی ہے لہٰذا لڑکی کو یہ سکھانے کہ سخت ضرورت ہے کہ حامل ہونے کا مطلب کیا ہے؟ حاملہ ہونے کی صحیح صورت کیا ہے؟ اور جنین (بچہ) پر توجہ کس طرح سے رکھنی چاہئے اسے حفظان صحت کے تمام اصولوں کی حتی الامکان سیکھانا چاہئے اور اسی طرح اپنی اور بچے کی جسمانی ورزش، پاک و پاکیزہ اور کھلی فضا، سورج کی اہمیت اور خوراک و صاف صفائی کے اصولون کو سکھانا چاہئے اسی طرح مناسب لباس کی قسمیں بچے کو بیماریوں سے بچانے کے طریقے اور اگر بیمار ہو جائے تو اس کے علاج معالجہ سے وابستہ امور کی جانکاری رکھنا چاہئے ۔اور ہر گز ان مہم امور کی تعلیم خرافات اور انسانوں کی مدد سے نہیں ہونا چاہئے ۔
واضح ہے کہ لڑکی، اس طرح کے امور کو صرف کتابوں سے اورکلام استاد سے نہیں سیکھتی، بلکہ مدرسہ اور گھر میں اپنے مشاہدات اور تجربات سے بھی سیکھتی ہے ۔ اسی بنا پر لڑکیوں کی مربیوں کو چاہئے کہ اپنی نصیحتین اور مشوروں کو اپنے شاگردوں کے تجربات کے ساتھ ہم آھنگ کر لیں۔ یعنی اگر ممکن ہو تو کچھ عملی کلاسیں لڑکیوں کے لئے رکھیں، خاص طور سے بچے کی صفائی اور نہلانے دھلانے جیسے امور ہیں۔
اس کے علاوہ کی ماں کی توجہ بچے کی جسمی حوائج کی طرف ہونی چاہئے، اخلاقی اور عقلی جہات کی طرف بھی اھتمام ہونا چاہئے ۔لیکن اس میں بچے کے مراحل زندگی اور پرورش کو بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہئے۔ لہٰذا لڑکی کو سیکھنا چاہئے کہ کس بچہ کو بُری عادتوں سے روکا جا سکتا ہے اور کس طرح اطاعت، فرمانبرداری، خود اعتمادی اور دوسروں کے حقوق کا احترام اور اس جیسی اچھی عادتوں کو اس کے اندر پیدا کیا جائے ۔اور جان لے کہ کس طریقے سے کسی مسئلے کو حل کرنا اور اس کا واب ڈھونڈھنے کے احساس کو بچہ کے اندر جگائے اور اس کے اندر تفکر اور استنباط کی طاقت کو ابھارے۔ آئندہ میں ماں بننے کے لئے ایک لڑکی کی تربیت میں بہتر ہے کہ اس جیسی علمی تعلیمات کو عملی طریقوں کے ساتھ مطابقت دی جائے ۔یعنی اسے ذمہ داری دیا جائے کہ گھروں میں اور ٹہلنے کی جگہوں پر بچوں کی دیکھ ریکھ کرے۔ اور بچوں کے سن کی مناسبت سے جو کھیل ہیں انھیں سیکھے تاکہ عملی طور پر بچہ کی حاجتوں کو سمجھ سکے ۔آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ماں کی زندگی کا سب سے اہم کردار اور مظاہرہ، وہ پاکیزہ اور پاک محبت ہے کہ جس کے ساتھ اسے اپنے فرزند سے پیش آنا چاہئے ۔

لڑکی، ایک ارزشمند انسان ہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بہترین حق کو لڑکیوں کے لئے قرار دیا، اور ایک ایسے زمانے میں جب کہ لڑکیاں، انسانی حقوق اور حیات کے حقوق سے بھی محروم تھیں؛ انھیں زندگی کے تمام حقوق دیئے ۔قرآن مجید، لڑکیوں کی دردناک اور تأسف بار حالت کو عصر جاھلیت میں اس طرح تصویر کشی کرتا ہے: (واذا بشر احدهم بالانثی ظل وجهه مسوداً وهو کظیم یتواری من القوم من سوء ما بشر به ایمسکه علی هون ام یدسه فی التراب؟ الا ساء ما یعملون) 3
اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ۔قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بُری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے یقیناً یہ لوگ بہت بُرا فیصلہ کررہے ہیں۔
اب جب کہ صدیاں گذر چکی ہیں بشریت کی دنیا متوجہ ہوگئی ہے کہ لڑکی بھی لڑکے کی طرح ایک انسان ہے کہ جسے بھی حقوق زندگی سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(من کان له انبة فادبهاواحسن ادبها، وغذاها فاحسن غذائها، واسبغ علیها من النعم التی اسبغ الله علیه، کانت له میمنة ومیسرۃ من النار الی الجنة) 4
جس کے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس کے تربیت کرے اور اس کو اچھے عمل کی تعلیم دے اسے کھلائے اور اس کی خوراک میں بہتر ی کو مد نظر رکھے اور جن نعمتوں کو خدا نے اس کے حوالے کیا ھے اسے لڑکی کے اوپر خرچ کرنے میں دریغ نہ کرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔
ابی عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
(البنون نعیم والبنات حسنات یسئل الله عن النعیم و یثیب علی الحسنات) 5

لڑکے نعمت، اور لڑکیاں حسنات ہیں۔

ہاں تک کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ عورتیں، مردوں سے زیادہ خدا ان پر رأفت اور مہربانی کرتا ہے:
(عن ابی الحسن الرضا(ع) قال:قال رسول الله (ص)، ان الله تبارک تعالیٰ علی النساء اراف منه علی ازکور) 6
امام علی رضا علیہ السلام س روایت ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا عورتوں پر مردوں سے زیادہ مہربان ہے۔
اس زمانے میں جب کہ لڑکیوں کو گری ہوئی نظر وں سے دیکھا جاتا تھا جنا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حفاظت اور تربیت کے لئے حکم فرمایا:ایک عاقلانہ تدبیر کے ذریعہ، لوگوں کو اس کی انسانی حیثیت کی طرف متوجہ فرمایا:
حمزۃ بن عمران سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا پیغمبر(ص) کے پاس ایک دوسرا شخص بھی تھا۔ آنے والے آدمی نے اسے بچہ پیدا ہونے کی خوشخبری سنا۴ی اس شخص کا رنگ بدل گیا۔ رسول (ص) نے فرمایا:کیا پیدا؟ اس نے عرض کیا: خٰیر ہے ۔ فرمایا: کہو۔عرض کیا: میں گھر سےنکلاتھا جب کہ میری عورت پیدائش کے درد میں مبتلا تھی مجھے خبر مل کہ اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا: زمین اس کی دیکھ بھال کرے گی اور آسمان اس پر سایہ کرے گا اور خدا اسے روزی پہنچاءے گا ۔ اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جس کے پاس ایک لڑکی ہے اس کا بوجھ وزنی ہے، اور جس کے پاس دو لڑکیاں ہیں اس کی مدد کرنے چاہئے ۔ اور اگر تین لڑکیاں ہوں تو جنگ کا وجوب اس پر سے ہٹا دیا جاتا ہے، اور جس کے پاس چار لڑکیاں ہوں اے خدا بندے! اسے قرضہ دو، اور اے خدا بندے! اس پر ترحم کرو۔7
امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا: جب کوئی اپنی لڑکیوں کی موت کی آرزو کرے تو وہ انکی خدمت کے اجرو ثواب سے محروم ہوتا ہے اور گنہ گابن کر خدا کی ملاقات کرے گا۔ 8
لڑکیوں کے حقوق کی تائید و تثبیت کے لئے اور ان کی دیکھ بھال کے لئے لوگوں کو ترغیب دلانے کے لئے، جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(من قال ثلث بنات اوثلث اخوات وجبت له الجنة، فیل: یا رسول اللہ واثنین؟ قال: اثنین۔ قیل یا رسول اللہ وواحدۃ ؟ قال: وواحدۃ) 9
اگر کوئی شخص تین لڑکیاں یا تین بہنوں کے زندگی کا خرچ چلائے تو جنت اس پر واجب ہو جاتی ہے ۔ عرض کیا گیا: کیا دو لڑکیاں اور دو بہنیں بھی؟ فرمایا: ہاں۔عرض ہوا: کیا ایک لڑکی اور بہن بھی؟ فرمایا: ایک لڑکی اور ایک بہن بھی۔

لڑکیوں کے لئے اونچی پڑھائی

اسلام میں لڑکیوں اور عورتوں کے لئے علم میں آگے بڑھنے کے لئے، کوئی حد نہیں قرا ر دی گئی ہے۔ اور علوم کو ھر انسان چاہے مر د یا عورت کے لئے جہاں تک ممکن ہو اور استعداد بھی ہو اسلام سے مطلوب اور ضروری سمجھتا ہے ۔ اور عورت کو بھی اس جہت سے کبھی بھی محدود نہیں کیا ہے۔
تاریخ اسلام میں ایسی مشہور و نامور عورتیں گذری ہیں جو کہ درجہ عالیۂ اجتہاد اور بعض علوم میں تخصص کے درجہ پر پہنچ چکی ہیں۔۱۰

بچوں کی تربیت کے لئے عورت کی مستعدی زیادہ ہے

باہر کی ہر مشقت کا موں میں عورتوں کی مردوں کے ساتھ شرکت، ایک ایسا موضوع ہے کہ جسے فطرت بشر اور آج کے علوم تمام طور پر اسے تقبیح کرتے ہیں۔ اس لئے کہ عورت طبیعتاً تولید نسل اور تربیت فرزند کے لئے خلق کی گئی ہے ۔ وہ ہر مشقت معاشرتی ذمہ داریوں کو اپنے عہدہ پر نہیں لے سکتی اور مردوں کے ساتھ ان کے طاقت فرساکاموں میں نہیں شریک ہو سکتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے گھر کو چھوڑ دے اور ان کے بچے ۔ جو کہ ماں کی محبت اور حمایت کے سخت محتاج ہیں گلیوں اور سڑکوں پر رہا ہو جائیں۔
عورت کی زندگی کا مرفہ ہونا ایک فطری بات ہے، اسی لئے کے لوگوں نے درک کر لیا ہے کہ عورتیں کو حتی الامکان اور زیادہ تر گھر کے داخلی کاموں میں مصروف ہونا چاہئے، لیکن بعض جگہوں پر وحشی قوم کے لوگ، افریقا اور آسٹریلیا کے جنگلوں میں دوسری طرح زندگی گذارتے ہیں، یعنی مرد تو گھر پر بیکار بیٹھتے ہیں، اور عورتیں گھر سے باہر، بڑی سختی کے ساتھ ہر مشقت کام کر کے اپنے پریوار کے لئے وسائل زندگی فراہم کرتی ہیں اور شوہر کے لئے کھانا پینا لاتی ہیں۔
علم نے اس باتے میں اپنے آخری بیان اور کلام کو اظہار کیا ہے اور ہم یہاں پر، فرانس کے فلسفہ دان اگوست کنت کی کتاب برنامہ سیاسی میں سے ایک خلاصہ لاتے ہیں۔
شائستہ یہ ہے کہ عورتوں کی زندگی سکون وآرام کے ساتھ ہو۔اور مردوں کے کاموں کی ذمہ رادی ا پر نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ اعمال انھیں اپنی طبیعی ذمہ داریوں کے راستے سے ہٹا دیتے اور ان کے فطری مواھب کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی بنا پر عورت کی زندگی کا خرچہ مرد دیتا ہے بغیر اس کے کہ کوئی مادی نفع والا کام اس سے کرانا چاہئے ۔ جیسا کہ مؤلفین فلاسفہ، شاعر پیشہہ لوگ اور تمام دنشمندوں کو اپنے ذوق اور علم سے فائدہ اٹھانے کے لئے سکون اور آرام اور فراغت کی گھڑیاں چاہئے ہیں۔ اسی طرح عورتیں بھی اپنی انسانی اور سماجی ذمہ داریاں جیسے حمل اور پیدائش، بچوں کی تربیت، گھر داری کے لئے، اسی طرح کے اوقات فراغت کا ہونا ضروری ہے۔
ہ پیروا گراف اس فرانسی فلسفہ دان کے نظریوں کا نچوڑ ھے۔
لیکن بعض محققین نے، عورتوں کے لئے اپنی طبیعی فطرت سے کارج ہونا تجویز کیا ہے اور حقائق علمی سے ۔ تجدید حیات اجتماعی کے دعوے سے اور اپنے نوشتوں کو رواج دینے کے لئے۔ چشم پوشی اختیار کیا ہے ۔
اس جیسی باتوں نے چاہے مشرق اور چاہے مغرب میں اپنا اثر دکھا یا ہے، اس لئے کہ لوگ سطحی کتابیں اور قصے۔ جو کہ ان کی شہوت اور جنسی تمایلات سے موافق ہو۔ پڑھنے کی طرف زیادہ رغبت دکھاتے ہیں ۔ اور نتیجتاً ایک عمومی اتفاق اس نظرے کی اصالت پر حاصل ہو گیا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں، آج کے انسانی معاشرے کو جنون سے دو چار کر دیا ہے اور عورتیں گھروں کو چھوڑ کر باہر کے پر مشقت کاموں کا استقبال کرتی ہیں۔ اور مرد وعورت کے ملاپ کا اثر سماجی زندگی میِ ایسی عادتوں کا رواج ہے جو کہ صحیح زندگی سے موافقت نہیں رکھتی ہیں ۔ لڑکیوں کی عزویت رائج ہو گئی اور جریدوں نے بھی لوگوں کے اس شہرت یافتہ نظرے کی تائید میں مددکیا ہے ۔ اور والدین اپنے لڑکیوں کے لئے ایسے جرائد کو پڑھنے کے لئے فراہم کرتے ہیں ۔ وہ بھی اپنے قیمتی اوقات کو ایسے بے ثمر امور میں ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح سے بچے آئندہ میں ہر کام کے علوم ھنر وسے محروم ہیں ۔ البتہ اس طرح کے نوشتوں کے مطالب بچوں کے مزاج پر بہت بڑا اثر رکھتے ہیں۔
لیکن جب انسان میں کسی چیز کی عادت پو جاتی ہے، وہ عادت ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی یہاں تک کہ اپنے منہا درجہ اور سب سے آخری حالت پر پہنچ جائے۔ یہاں تک کہ عورتوں کا نیم برہینہ ہونا، تھیٹر کے اسٹیج پر تقریباً پوری برھنگی میں بدل گئی اور زندگی کے عام مرحلوں میں بھی ایسا ہوا اور اس عادت کا اثر دریاؤں کے کنارے اور فاحشہ خانوں میں عملی طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کیا انسان کی ترقی، یہیں پر رک جاتی ہے؟ گر یہ کہ غیر قابل توقع حوادث پیش آئیں:
(ظهر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقهم بعض الذی عملوا لعلهم یرجعون) 10
لوگوں کے اعمال کے ذریعہ خشکی اور تری میں فساد تباھی ظاہر ہوگئی تاکہ انھیں اپے اعمال کے بعض نیتجے تک پہنچادے، شاید (ان کے بدلے عمل کے نتائج) انھیں اپنے اعمال سے لوٹنے پر مجبور کرے۔
اگر کوئی دنیاوی امور میں مطالعہ کرے اور آج کل کے مختلف معاشروں کے علل اور عوامل میں دقت علمی سے چھان بین کرے، تو سمجھ لے گا کہ عوام کی اکثر شکایتیں اور پیچھے رہنا اور معاشرتی مشکلات اور مالی اور اقتصادی گھبراہٹیں ان کی بنیاد، عورتوں کی بے حدو بی پردگی بیحائی اور تھتک ہے۔
ہاں عورتوں کے عادات اور فطرتوں میں سے ایک، اپنی حفاظت اور حیاء ہے ۔ لیکن مرد ہمیشہ انھیں بہکانے اور اغواکرنے کے چکر میں رہتے ہیں اور رہیں گے ۔ اور چاہتے ہیں کہ اس فطری بات کو ان کے اندر مارڈالیں ۔ اور انھیں بی پردگی اور بیحائی کے میدان میں ڈھکیل دیں۔ اور اس بہکانے میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔
اور قطعی طور پر، اس بہکانے والی آزادی کے مقابلے میں تسلیم ہونے کی وجہ سے عورتیں اپنے تمام حقوق کھو چکی ہیں اور اس کے عوض میں کطبھ بھی حاصل نہیں کیا ہے ۔
عورت، عفت اور صحیح پردے کے سایہ میں، عزت دار تھی، لیکن اب مبتذل اور بے مقدار ہوگئی ہے ۔ اور عورت کی بے پردگی اور بیحائی حقیقت میں اپنا بدن دکھانے میں مبالغہ ہے اور ہر کھلے طور پر دکھائی جانے والی چیز، دھیرے دھیرے مبتذل اور کم مقدار ہوتی جاتی ہے ۔اور جوانوں کی شادی سے روگردانی عورتوں کی مفرط بے پردگی کے آثار میں سے ہے تو عورت اپنے جسم کو دکھانے کی وجہ سے، اپنی عزت کھو بیٹھی ہے ۔
عورت کا وجود گھر کے اندر روحی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے ۔ مردا س کے ذریعہ سے اپنے سکون کو بر قرار رکھتا ہے:
(ومن آیاته ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیها، وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون) 11
اس کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم سے ہی زوج قرار دیئے تاکہ اس کے ذریعہ آرام پاسکو، اور تمہارے درمیان محبت اور دوستی کو قرار دیا ۔ اس بات میں کچھ علامتیں ہیں سوچنے والے لوگوں کے لئے۔
عورت، دنیا میں سب سے اونچی اور اہم ذمہ داری نبھانے کے لئے سب سے اہم سرمایہ ہے، اور وہ زمہ داری؛ بچوں اور نونہالوں کی تربیت ہے اسے چاہئے کہ بچوں کو اخلاق اور ادب کے اصول ومبادی اور فضیلت و انسانیت کو سکھائے ۔ فلسفہ دانوں اور مربیوں نے گھر کی اہمیت اور خاندان کے ماحول کے اثر کے بارے میں بہت باتیں کہی ہیں۔ لیکن عورت آج کل کی دنیا میں غلط اور فاسد تعلیم کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے بہت بہت دور ہو چکی ہے ۔ اور ایسی ذمہ داریاں اس پر آئیں کہ جس کے دباؤ کے نیچے اس نے اپنے نسوانی عزت واحترام کو کھو دیا ہے اور یہ آج کی ذمہ داریاں، فاحشہ خانوں میں آناجانا اپنے آپ کو دکانوں، سینما ہال، اور ٹی وی پر دکھانا ہے ۔ اور شہرت پرستوں نے ھنر کی حمایت کرنے کی آڑ میں عورتوں کی زندگی میں خطرناک حالات کو ایجاد کیا ہے کہ جس کے مفاسد بشریت کتنے کتنے سالوں تک برداشت کرتی رہے گی۔
آج تمام لووں کے لئے، معاشروں کے اخلاقی فسادات، تماماً قابل دید ہے کہ تاریخ بشریت میں ایسا فساد کبھی نہیں دیکھا گیا ہے ۔ اگر انسان کی حیات اور ترقی، شہوت کے دلدل میں پھسنا ہی ہے؛ تو ایک ایسی طرز حیات منتخب کرنا چاہئے جو کہ تمام بڑے انسانی فطریات جیسے ناموس کے بارے میں غیرت رکھنا اور شرف و عفت و پاکدامنی کو دوست رکھنا، ان سب کو ختم کر دینا چاہئے۔
اگر انسان کی خلقت جانوروں کی طرح اور ان جیسی شرائط کے ساتھ ہوتی تو ظاہر سی بات ہے کہ جانوروں کی طرح زندگی گذارتا لیکن انسان، انسان خلق ہوا ہے ۔ وہ اس کے باوجود کہ شہوت کو اپنے اندر محسوس کتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ معنوی بر تریاں اپنے ادر دیکھتا ہے کہ قطعاً جن سے جانور محروم ہے ۔ جو لوگ بیحیائی کو مباح تصور کرتے ہیں بہکانے والے بہانوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ حقیقتوں کو پردہ کے نیچے چھپائے رکھیں اور تصور کرتے ہیں کہ عورتون کی عفت کا مطلب ان کا محدود کرنا ہے ۔ کہنا چاہئے:کیا عورتوں کا اپنی طبیعت کی مناسبت سے ظریف ذمہ دار ریوں میں مشغول ہونا، ان کا محدود کرنا ؟ تو اس صورت میں چاہئے کہ جو بھی اپنی ذمہ داریاں پر عمل کرتا ہے، محدود ہے اور تنگنی میں ہے۔
لیکن عورت کے استقلال کا مسئلہ ۔ ایک طرح سے۔ اس بات کے خلاف ہے کہ وہ ایک مرد کی زوجہ ہو، اس لئے کہ مراد اور عورت کے درمیان کچھ ایسے التزام اور پابندیاں متقابلاً موجود ہیں جو کہ ان کے استقلال کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ لکھنے والے اور قصہ گو افراد محبت اور عشق کے علاوہ اور مرد اور عورت کی خیانت کے قصوں کے علاوہ کوئی اور بیان ان کے پاس نہیں ہے، اس استقلال کی عورتوں کو لالچ دیتے ہیں تاکہ اس کو میاں بیوی اور زوجیت کے مابین التزامات اور تعہدات سے کارج کردیں ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو مادی فعالیت اور سائل زندگی کے حصول سے محروم نہیں ہو نا چاہئے ۔ اگر چہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو مالی استقلال دیا ہے لیکن ان لوگوں کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ عورت، شادی کے زریعہ متعلق اسلام میں ۔اپنی زندگی کے خرچ کو شوہر کے وسیلہ سے چلا سکتی ہے اور چونکہ خدا نے عورتوں کی تعداد کو ۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ مردوں کی تعداد کے برابر قرار دیا ہے، تو عورت اگر ھد سے زیادہ آزد ہو اور مردوں سے معاشرت کرتی رہے، تو وہ زندگی اور دانہ پانی سے محروم ہو جائے گی، اس لئے کہ یہ عمل، غیر مستقیم طریقے سے، عزوبت کو رواج دیتی ہے، اور عزوبت کا رواج معاشرے میں عورتوں کا ایک گروہ وجود میں لائے گا کہ جن کے پاس زندگی کا خرچ نہیں ہے ۔ لہٰذ وہ مبور ہو جا۴یں گی کہ مردوں کے ساتھ سادی امور میں تعاون کریں۔ اور ان کا مردون کے ساتھ ساتھ رہنا متعاکساً عزوبت کو ایجاد کرنے کے عوامل میں سے ہے، اور یہ نکتہ کسی سے چھپا ہو انہیں ہے ۔ ایسی صورت میں عورت طاقت گھٹانے والے کام کو انجام دیتے ہوءے اپنے ظرافت اور عورت کی عزت کو کھو دے گی اس لئے کہ عورت دکان چلا نے اور سامان اٹھانے اور ڈڑائیور بننے کے لئے پیدا نہیں کی گئی ہے ۔ بلکہ پیدا کی گئی ہے تاکہ اپنے شور کے لئے ایک اچھی بیوی اور گھر میں بچوں کی تربیت دینے والے ماں بنے ۔ اور گھر اگر ایک ناچیز چھونپڑی بھی ہو تو عورت کے لئے ایک وسیع محل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وہ گھر کے اندر بہتر اپنے امتیازات کی حفاظت کرسکتی نہ کہ تب جب وہ سامان اٹھانے والی ہو یا گاڑی ڈرائیور ہو۔
تو عورت اپنی مناسبت سے جو وظائف ہیں جیسے کہ بچوں کی پرورش اور داخل حوائج کو پورا کرنا اور ایسے معاشرتی مسائل میں شرکت کرنا جسے اسلام نے تجویز کیا ہے ۔ ان کے انجام دیکر بہتر اپنی حثیت کی حفاظت کرسکتی ہے ۔
ہمیں بلند آواز سے کہنا چاہئے کہ انسانی فطرت ایک عجیب و غریب مھلکہ می پڑچکی ہے اس لئے کہ حدود و نوامیس الٰہی سے کوسوں دور ہو چکی ہے ۔ اور جلد ہی و تمدن جو کہ بہت زمانہ بیتنے کے بعد بشر کی انتھک کوششوں سے بنا ہے، متلاشی ہو جائے گا۔ (من یتعد حدود الله فقد ظلم نفسه)
جو حدود خداوندی سے گذر جاے، اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔
-------
1. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔
2. بحار الانوار، ج۲۳، ص۱۱۳۔
3. سورہ نحل آیت، ۵۸۔۵۹۔
4. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔
5. وہی کتاب اور وہی صفحہ'
6. مکارم الاخلاق، ص۱۳۳۔سورہ روم آیت، ۲۰۔
7. بحار الانوارج ۲۳، ص۱۱۴۔
8. وہی کتاب اور وہی صفحہ۔
9. سورہ روم، آیت ۴۰۔
10. سورہ روم، آیت۲۰۔
11. سورہ معارج، آیت ۱۔