ہماری کہانیاں
  • عنوان: ہماری کہانیاں
  • مصنف: سید پیغمبر عباس نوگانوی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 19:19:51 1-10-1403


دنیا میں انسانوں کے درمیان صحیح تبلیغ نہ ہونے کی وجہ سے ہی غلط رسم و رواج اور عقیدے جنم لیتے ہیں ،اور ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں وجود میں آتی ہیں جن کا مذہب اور عقل و منطق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتااور یہ باتیں اکثرتوحید کے منافی یا اس سے متصادم ہوتی ہیں
دوسرے مذاہب کی نسبت شیعہ مذہب نے عقل و منطق کو اہمیت دے کر افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی تاکید کی ہے
اشاعرہ یااہل حدیث کے یہاں صرف حدیث کافی ہے چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو ،عقل کا کوئی دخل نہیں ہے ،جب کہ معتزلہ کے یہاں عقل ہی سب کچھ ہے ، یہ لوگ حدیث کی تاویل بھی اپنی عقل کے مطابق کر ڈالتے ہیں…لیکن شیعوں کے یہاں اعتدال پایا جاتا ہے
مگر دنیا پرستوں نے اعتدال کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی ایسی باتیں بنام دین سماج میں رائج کردیں جو عقل و منطق ،کتاب و سنت دونوں کے منافی ہوتی ہیں اور عوام انہیں کو دین سمجھنے لگتے ہیں…اگر کوئی مُصلح اصلاح کی بات کرتاہے تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی مخالفت ہورہی ہے لہٰذا اصلاحی تحریک کی مخالفت شروع کردی جاتی ہے ،عوام تو عوام ہیں لیکن جب بعض طلاب اور نام نہاد مولوی اصلاحی تحریکوں کی مخالفت کرتے ہیں تو حالات اور بھی بدتر ہوجاتے ہیں اورمعاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے لگتا ہے
اصلاحی تحریکوں کی مخالفت کے باعث ہمارا شیعہ معاشرہ فکری طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے ،اس کا بخوبی اندازہ جوگی پورہ میں ہوا، جہاں سالانہ مجالس کے موقع پر ہندوستانی شیعوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے ،ہم نے سَن ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک ہر سال اِس اجتماع کے موقع پرعلمی و اصلاحی لٹریچر کا اسٹال لگایا ،جس میں سبھی عمر کے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے افکار و عقائد کی اصلاح کے لئے کتابوں کا انتخاب کیاگیا تھا ،مگر افسوس کہ اسٹال پر ۵۰/فی صد مراجعین قصے کہانیوں کی کتابوں کا مطالبہ کرتے تھے ،۳۰ فی صد مراجعین ان نوحوں کی کتابوں کو مانگتے تھے جن کی دھنیں کیسٹوں کے ذریعہ اُن تک پہنچ چکی تھیں اور ۲۰ فی صد میں باقی دوسری کتابیں… غرض کہ جوگی پورہ آنے جانے کا کرایہ جیب سے دے کر یہ کتابیں اسی طرح واپس لانا پڑیں
اگر فکری جمود کی اور مثال دیکھنی ہو تو لکھنوٴ میں دیکھئے جہاں سے ”جدید شریعت“ اور ”کشف الحقائق“ جیسی ضدِروحانیت و مذہب ،گمراہ کنندہ کتابیں شائع ہوگئیں اور کسی نے اعتراض تک نہ کیا…
کیا معاشرے میں کج فکری کی اس سے بڑی کوئی مثال ہوسکتی ہے کہ ہمارا سماج ائمہ ٴ معصومین کی تعلیم کی ہوئی دعاوٴں کے بجائے من گھڑت قصے کہانیوں سے حاجت طلب کرتا ہے!اسی لئے تو قصے کہانیوں کی کتابوں کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے، جن میں سے چند مشہور یہ ہیں :
جناب سیدہ کی کہانی ،دس بیبیوں کی کہانی، چٹ پٹ بی بی کی کہانی،سُگت اماں بی بی شہر بانو کی کہانی، تیسرے چاند کی کہانی،بی بی سگٹ کی کہانی، حضرت عباس کی کہانی، مولا مشکل کشا کی کہانی ،جناب ام کلثوم کی کہانی اور اب آگئی ”سولہ سیدوں کی کہانی“
بک سیلر حضرات تو معاشرے کے بجائے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں لہٰذا وہ تو ایسی کتابیں شائع کراتے ہیں جو زیادہ فروخت ہوں،چاہے معاشرے کا کچھ بھی حشر ہو…یہ بات لکھنوٴ کے کئی بک سیلروں نے مجھ سے خود کہی کہ ہم تو تاجر ہیں مذہب کے خادم نہیں ہیں…!
ان سب کہانیوں میں جناب سیدہ کی اُس کہانی کا کتابوں میں ضرور تذکرہ ملتا ہے جس میں جناب سیدہ یہودی کے یہاں شادی میں تشریف لے گئی تھیں اور جنتی لباس زیب تن فرمایا تھا… لیکن اس میں بھی بہت سی چیزیں اضافہ کرلی گئیں ،البتہ سند کے اعتبار سے یہ بھی ضعیف ہے کیوں کہ اس کے راوی کا نام معلوم نہیں ہے ،علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار کی جلد۴۳،صفحہ ۳۰(مطبوعہ بیروت) میں اس واقعہ کو ”رُوِیَ“سے شروع کیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ”روایت کی گئی ہے“اور جو قول ”قِیْلَ“ سے اور روایت”رُوِیَ“ سے شروع ہوتی ہے وہ سند کے اعتبار سے ضعیف مانی جاتی ہے
باقی جو کہانیاں ہیں وہ عوام ہی میں سے کسی کی ذہنی اختراع ہیں،چونکہ عوام میں علمی شعور نہیں ہوتا اس لئے ان کی وضع کی ہوئی کہانیاں بھی انہی کے جیسی ہوں گی جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن افسوس تو ضلع میرٹھ کے اُس نام نہادطالب علم پر ہے جو وطن عزیز اور اعزأ و اقرباء کو چھوڑ کر علم دین حاصل کرنے کی غرض سے ملکِ شام پہنچا اور اُس پر رقومات شرعیہ بھی خرچ ہوئیں لیکن اُس نے اپنی کسی بھی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا اورمال کے لالچ میں ”سولہ سیدوں کی کہانی “تالیف کرڈالی
یوں تو یہ کہانی کسی سُنّی کی لکھی ہوئی ہے ،کیوں کہ سب سے پہلے ”چمن بک ڈپو“ ،۹۱۴ گلی چاہ شیریں فراشخانہ ،دہلی “ سے یہ کہانی شائع ہوئی تھی لیکن اِس طالب علم نے شاید لفظوں میں رد و بدل کرکے اِسے اپنے نام سے شائع کرایا ہے ،چونکہ اپنے مقدمہ میں صفحہ ۴ پر اِس طالب علم نے خود اعتراف کیا ہے کہ :
”جس وقت اس عظیم کہانی یا عظیم معجزے کا مجھ کو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تو مجھ کو مطالعے کے بعد بڑی خوشی محسوس ہوئی اور میں نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ سہی ہے کہ یہ عظیم معجزہ یا کہانی اپنے مکمل مفہوم کے ساتھ موجود ہے لیکن اگر مزید ترتیب کے ساتھ اس کوبار دیگر الفاظی و ادبی نقطہٴ نظر سے شائع کردیا جائے تو بہتر ہوگا“
اس طالب علم نے کہانی کے آخر میں اپنا” علمی بیان “دے کر جہالت و گمراہی کا ثبوت ہی دے دیا، یہ من گھڑت کہانی اور اس پر نام نہاد ”علمی بیان“ کتابچہ کی شکل میں مارچ ۲۰۰۷ء میں شام سے شائع ہوا ہے
مجھے تعجب ہے !کیا ملکِ شام میں حوزہٴ علمیہ پر کسی بزرگ عالم دین کی نظارت نہیں ہے؟ تاکہ طلاب عزیز ،دین و مذہب کے خلاف کسی فعالیت میں شریک نہ ہوں!
کہانی تو یہ بھی لائق تبصرہ نہیں ہے ،لیکن ایک طالب علم نے عوام کو گمراہ کرنا چاہا ہے لہٰذا اس سے متعلق چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ضروری ہیں:
۱۔ کوئی بھی تالیف تحقیق پر مبنی ہوتی یعنی ایک مولف جب کوئی بات پیش کرتا ہے تو استدلالی ،عقلی،منطقی اور مستند ہوتی ہے ،لیکن سولہ سیدوں کی کہانی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،مثلاً اس کہانی کی ابتدأ اس طرح ہوتی ہے:
”کسی شہر میں ایک بادشاہ رہتا تھا…“
شہر کا نام کیا تھا ؟کس ملک میں واقع تھا؟وہ کس مذہب کا پیرو تھا؟ اس قسم کی کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، جب کہ یہ ساری معلومات ضروری تھیں

۲۔ اس کہانی کے صفحہ ۴،۵ پر
” اس من گھڑت کہانی کو ”عظیم معجزہ یا کہانی “ لکھا ہے“
ایک طالب علم سے بعید ہے کہ وہ ایسی بات لکھے جو جاہل مطلق کے علاوہ کوئی نہیں لکھ سکتا ،معجزہ اور کرامت صرف انبیاء و ائمہ معصومین سے مخصوص ہے ،یہ کونسا معجزہ ہے جو من گھڑت کہانی کے مترادف ہوگیا ؟ اور اِس طالب علم نے صفحہ ۵ پر یہ بات کہاں سے لکھ دی کہ ”جو بھی( اس من گھڑت)قصے کوسنے وہ اپنی مرادیں محمد و آل محمد کے صدقے میں پائے گا…محمد وآل محمد تو جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں تو پھر اِس جھوٹے قصے سے کس طرح مرادیں پوری کریں گے؟ غور وفکر کامقام ہے!

۳۔ اس من گھڑت قصے میں لکھا ہے کہ:
”سائل نے منھ پھیر لیا اور بادشاہ سے وہ تھالی لئے بغیر چل دیا… سائل سے انکار کا سبب دریافت کیا تو سائل نے کہا کہ :میں بانجھ گھروں سے کچھ نہیں لیتا“
اگر سائل کو یہ معلوم تھا کہ بادشاہ بے اولاد ہے اور بے اولاد کے ہاتھ سے بھیک نہیں لینا چاہئے ،تو وہ بادشاہ کے یہاں آیاکیوں ؟ اور اگر اُسے معلوم نہیں تھا تو پھر بغیر بھیک لئے واپس کیوں چلا گیا جب کہ کسی نے اُسے بتایا بھی نہ تھا کہ بادشاہ بے اولاد ہے؟!
دوسرے یہ کہ اسلام نے بے اولاد کو کبھی بھی منحوس نہیں سمجھا ہے بلکہ یہ ہمارے سماج پر اغیار کا اثر ہے جس سے ہم بے اولاد کومنحوس سمجھتے ہیں ،اسی وجہ سے سائل نے بھی بے اولاد کو منحوس سمجھا …یاتو سائل خود غیر شیعہ تھا یا وہ غیر شیعوں کے کلچر سے متاثر تھا ،دونوں صورتوں میں سائل اللہ یا ولی اللہ کا نمائندہ نہیں ہوسکتا،اور نام نہاد طالب علم نے اپنے ”علمی بیان “کے صفحہ ۲۱ پر بغیر تحقیق کئے سائل کو اللہ اور ولی اللہ کا نمائندہ لکھ دیا؟!

۴۔ اس قصہ میں لکھا ہے کہ:
” شاہی لباس کو اُس (بادشاہ) نے اپنے تن سے اتار دیا اور اس کے عوض میں فقیری لباس پہن کر اپنی بیوی سے یہ کہتا ہوا کہ اگر رب العزت میری عزت رکھے گا(یعنی صاحب اولاد کرے گا) تو واپس آوٴں گا ،محل سے جنگل کی طرف روانہ ہوگیا“
اولاد کا نہ ہونا بے عزتی نہیں ہے،دوسرے یہ کہ اسلام کے نقطہٴ نگاہ سے اہل و عیال اورکاروبارِ زندگی کو چھوڑ کر جنگل میں چلے جانا انتہائی مذموم ہے اور یہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

…وَ رَهبَانِیَّةَابْتَدَعُوْها مَاکَتَبْنٰها عَلَیْهمْ…“ ”اور رہبانیت (لذات سے کنارہ کشی) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے اُن کو اس کا حکم نہیں دیا تھا“(سورہٴ حدید،آیت ۲۷)
پیغمبر اسلام (ص)کوجب یہ اطلاع دی گئی کہ اصحاب کے ایک گروہ نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑدیا ہے اور گوشہ نشین ہوکر عبادت میں مشغول ہوگیا ہے توآنحضرت نے شدید سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ :
”میں تمہارا پیغمبر ہوں لیکن میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا ہے“ (نہج البلاغہ کی سیر،صفحہ ۲۹۲،تالیف شہید مطہری،ترجمہ و کتابت شعبہٴ اردو مجمع جہانی اہل بیت ایران،ناشر مجمع ٴ جہانی اہل بیت ،ایران)
اس کے علاوہ جب عثمان بن مظعون /اپنے بیٹے کی وفات سے حد درجہ رنجیدہ ہوئے اور کاروبارِ زندگی کو چھوڑ کر مسجد میں صرف عبادت کرنے لگے اور اس کی خبر رسول اسلام(ص)کو پہنچی تو آپ نے فرمایاکہ :
”یَا عثمان! اِنَّ اللّٰه تبارک و تعالیٰ لم یکتب علینا الرهبانیة ،انّما رهبانیة اُمّتی الجہاد فی سبیل اللّٰه …“
”اے عثمان! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لئے رہبانیت کا حکم نہیں دیا ہے ،بتحقیق میری امت کے لئے کوشش کرنا ہی رہبانیت ہے
یعنی ناامید ہوکر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اللہ کی راہ میں برابر کوشش کرتے رہنا چاہئے ،چاہے یہ کوشش تلوار کے ساتھ ہو یا قلم کے ساتھ،زبان کے ساتھ ہویا کسی اور ذریعہ سے… جو لوگ کاروبارِ زندگی چھوڑ کر صرف اللہ کی عباد ت کرنا چاہتے تھے رسول خدا نے ان کی بھی سرزنش فرمائی ،تو پھر وہ بادشاہ !جو کہ پوری رعایا کا ذمہ دار ہوتاہے اور بجائے مسجد کے جنگل میں جارہاتھا سرزنش کا اور بھی زیادہ مستحق قرار پائے گا،ایسے شخص کو جس نے اسلام کے فلسفہٴ حیات کی مخالفت کی ہو اُسے اِس طالب علم نے اپنے نام نہاد”علمی بیان“میں صفحہ ۲۲پر بغیر تحقیق کئے مومن ہونے کی سندبھی دے دی!کیوں؟

۵۔ اس قصے میں لکھا ہے کہ :”راستے میں سولہ تشریف فرما تھے…“
لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ سولہ سید کون تھے؟کس امام کی اولاد تھے؟ وہاں پر کیا کررہے تھے؟شیعہ تھے یا سنی؟کس ملک کے کس شہر سے ان کا تعلق تھا؟ اور کیا یہ سولہ سید علم غیب بھی جانتے تھے ؟اور ان کی تعداد سولہ ہی کیوں تھی؟یہ تمام باتیں تحقیق طلب ہیں
نام نہاد طالب علم نے اپنے ”علمی بیان“میں صفحہ ۲۱ پر سائل کے بارے میں تو لکھ دیا کہ:
”بادشاہ کے دروازے پر آنے والا یہ سائل علم غیب بھی رکھتا تھا“
لیکن سولہ سیدوں کے بارے میں نہ لکھاکہ یہ بھی علم غیب جانتے تھے یا نہیں؟،حالانکہ سائل کے بارے میں بھی جھوٹ بول کر گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ،ورنہ علم غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے ،ارشاد ہوتاہے:

”وَعِنْدَہ مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهااِلَّا هوَ“ اور اُس(خدا) کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا(سورہٴ انعام ،آیت۶۰)
اب رہا سوال یہ کہ خدا کے علاوہ نبی یا امام بھی تو علم غیب جانتے ہیں ،تو یہ چیز خدا وند عالم نے انہیں اسلحہ کے طور پر عطا کی ہے ،اور اللہ ہی اپنی مرضی سے اسے استعمال کراتا ہے،اس کی مثال بلا تشبیہ اس طرح دی جا سکتی ہے :پولس کو جو اسلحہ ملتا ہے وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو اُسے پولس اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتی بلکہ اپنے حاکم کے حکم سے استعمال کرتی ہے
یہ مثال حجة الاسلام محسن قرائتی صاحب نے قم میں ایک کلاس کے دوران ہمیں بتائی تھی ،جب اُن سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ: آٹھویں امام نے زہر آلود انگورکیوں نوش فرمائے،جب کہ آپ کو علم غیب سے معلوم تھا کہ یہ انگور زہر آلود ہیں ؟
تو موصوف نے جواب میں یہی کہا تھا کہ ائمہ کو خدا وند عالم نے علم غیب اسلحہ کے طور پر دیا ہے جب اُس کی مرضی ہوتی ہے علم غیب سے استفادہ کرتے ہیں اور جب اُس کی مرضی نہیں ہوتی تو پھر علم غیب سے استفادہ نہیں کرتے ،ہو سکتا ہے جب زہر آلود انگور نوش فرمائے ہوں خدا کی مرضی سے علم غیب سے استفادہ نہ کیا ہو

۶۔ اس قصے میں صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ:
”کل پندرہویں تاریخ ہے ،تم قربةً الی اللہ غسل کرنا اور سحری تناول فرماکر سولہویں کا روزہ رکھنا اور چاررکعت نماز سولہ سیدوں کے نام سے ادا کرنا…“
کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نماز ادا کرنا جائز ہے؟ نہیں! عبادت صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور اسی کے نام پرہوتی ہے ،ارشاد ہوتاہے :

”…وَادْعُوْه مُخْلِصِیْنَ لَه الدِّیْنَ…“ اور اس کے لئے نری کھری عبادت کرکے اس سے دعا مانگو (ترجمہ ،مولانا فرمان علی صاحب)سورہٴ اعراف، آیت ۲۹)
یعنی اگر دعا بھی کرنی ہو تو اللہ سے اور اُس کی خالص عبادت کے بعد، نہ جانے طالب علم نے یہ بات کیسے لکھ دی کہ :
”چار رکعت نماز سولہ سیدوں کے نام کی ادا کرنا…“

۷۔ اس فرضی قصے میں لکھا ہے کہ(سولہ سیدوں نے کہا ) :
”… اور پانچ پیسے کی شیرینی منگاکر ہماری کہانی سننا…“
بالفرض اگر کوئی شخص اِس نام نہاد طالب علم کے بہکائے میں آکر سولہ سیدوں کی کہانی سننے لگے تو کتنے پیسے کی شیرینی منگائے ؟کیونکہ نہ تو پانچ پیسے کا سکہ رائج ہے اور نہ ہی پانچ پیسے کی شیرینی کوئی دوکاندار دینے پر راضی ہوگا

۸۔ اس قصے میں :
”سید بھی سولہ،روزہ رکھنے کی تاریخ بھی سولہ،روزہ رکھنے کے مہینے بھی سولہ تحریر کئے ہیں“
جس سے اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ کہانی کسی سنی کی لکھی ہوئی ہے،ہمارے یہاں کسی عمل میں عدد کی یہ مماثلت نہیں بتائی گئی ہے ،بلکہ خلوص نیت پر زور دیاگیاہے
عدد کی مماثلت پر اہل سنت کے یہاں زور دیاجاتا ہے ،مثلاً ربیع الآخر کی گیارہ تاریخ کو اِن کے یہاں شیخ عبد القادر جیلانی کی فاتحہ آتی ہے چونکہ یہ فاتحہ گیارہ تاریخ کو آتی ہے اس لئے اسے گیارہویں شریف کہتے ہیں اور جن چیزوں پر فاتحہ آتی ہے وہ بھی عدد کے اعتبار سے گیارہ ہوتی ہیں مثلاً:روٹی بھی گیارہ ،کباب بھی گیارہ ،کوفتے بھی گیارہ ،کیلے بھی گیارہ ،آم بھی گیارہ ،فرنی کی پیالیاں بھی گیارہ،اور فاتحہ کہنے اور کھانے والے بھی گیارہ
یہ کہانی سب سے پہلے ”چمن بک ڈپو“ ،۹۱۴ گلی چاہ شیریں فراشخانہ ،دہلی نے شائع کی یہ ادارہ اہل سنت کی کتابیں ہی شائع کرتاہے،البتہ اس ادارہ نے اتنی احتیاط ضرور کی کہ کتابچہ کے اوپر لکھ دیا ”اختراعی داستان“لیکن شیعوں نے اتنی بھی زحمت نہ کی …اس کے بعد جلال پور ،ضلع امبیڈکر نگر سے بظاہر ایک مولوی صاحب نے اسے شائع کرایااور اب ملکِ شام سے بھی اتفاقاً یا عمداً ایک مولوی صاحب نے ہی شائع کرایا ہے

۹۔ اس قصے میں لکھاہے کہ:
”بڑھیا نے جواب میں فرمایا کہ سب سولہ سیدوں کے نام پر روزہ رکھنے کی برکت کا نتیجہ ہے (جومکان اور مال دولت مجھے ملا ہے )
اسلام میں صرف اللہ کے نام پر روزہ رکھنا جائز ہے ،اس کے علاوہ کسی کے نام پر روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے
دوسرے یہ کہ اللہ کے نام پر ماہ رمضان کے ۳۰ روزے رکھنے والے غریب مسلمان بھی سحری ،افطاری اور اُخروی ثواب کے حقدار ہوتے ہیں،بہترین مکانوں اور ثروت کے مالک نہیں بنتے ،تو پھر سولہ سیدوں کے نام پر سولہ روزے رکھنے سے بڑھیا کس طرح مالدار بن گئی،وہ بھی ایک ہی دن میں؟!اِس منھ بولے طالب علم نے ایسا لکھ کر مومنین کو خدا سے دور کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ،اگر کوئی غربت کامارا مسلمان مال کے لالچ میں بجائے خدا کے سولہ سیدوں کے نام پرروزہ رکھ لے تو اِس کاعذاب اِسی طالب علم کوہوگا

۱۰۔ اس قصے میں لکھا ہے کہ:
”لکڑہارا شیرینی منگواکر کہانی سننا بھول گیا…(جس کی وجہ سے لکڑہارے کے ہاتھ میں لوٹاشہزادے کاکٹا ہوا سر بن گیااور قاتل سمجھ کر بادشاہ نے لکڑہارے کو قید خانہ میں ڈال دیا…ابھی قید خانہ میں اس کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہی سولہ سید اس سے کہہ رہے ہیں کہ اے غافل تونے شیرینی منگاکر ہماری کہانی نہیں سنی…“
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اکثر و بیشتر ہماری کہانیوں کے ہیرو لکڑہارے صاحب ہی ہوتے ہیں،بہر حال اسلام میں بھول چوک پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ،مثلاً ”نماز کے واجبات میں سے بعض اس کے رکن ہیں یعنی اگر انسان انہیں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا عمداً ہو یا غلطی سے ہو نماز باطل ہوجاتی ہے“ (توضیح المسائل آیت اللہ سیستانی،صفحہ ۱۵۲،مسئلہ نمبر۹۵۱)
نماز کا واجب رکن چھوٹ جانے پر بھی سزا نہیں ہے صرف نماز دوبارہ پڑھنا پڑے گی…تو پھر سولہ سیدوں کی من گھڑت کہانی سہواً یا عمداً نہ سننا کس لئے باعثِ سزا بنا ؟!

۱۰۔ اس قصے میں :
”جھوٹے واقعات پر پانچ جگہ محمد و آل محمد پر درود بھی بھیجا گیا “
کیا اس عمل سے اہل بیت خوش ہوں گے ؟! نہیں بلکہ ناراض ہوں گے،کیوں کہ اِسی درود کا سہارا لے کر اہل سنّت کے گڑھے ہوئے قصے کو شیعوں میں رواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے اورساتھ ہی تقدس بھی بخشا جارہا ہے ،ورنہ جو قصہ ”چمن بک ڈپو “ دہلی یا جلال پور امبیڈکر نگر سے شائع ہوا ہے اس میں تو ایک جگہ بھی درود نہیں ہے!

۱۱۔ اس قصے کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ :
”لکڑہارے نے جواب دیا کہ : میں شیرینی منگاکر سولہ سیدوں کی کہانی سناکر شیرینی تقسیم کرنا بھول گیا تھا ،جس کی وجہ سے مجھ پر عذاب نازل ہوا“
خدا وند عالم نے گناہوں پر عذاب کا وعدہ فرمایا ہے،شیرینی تقسیم نہ کرنا یا بھول جانا گناہ نہیں ہے تو پھر سولہ سید کس طرح عذاب نازل کررہے ہیں ؟ کیا انہیں یہ اختیار ہے کہ کسی پر عذاب نازل کریں؟!
سولہ نہیں اگر سولہ کروڑ سید بھی مل کر چاہیں کہ کسی پر عذاب نازل کریں تو نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کام صرف اللہ سے مخصوص ہے اور یہ اختیار صرف اللہ کو ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ:

”…یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُ…“ ”(خدا ہر چیز پر قادر ہے) جس پر چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے“(سورہٴ عنکبوت ،آیت ۲۱)
۱۲۔ سولہ سیدوں کی من گھڑت کہانی میں :”کہیں بھی کسی بھی لفظ سے یہ بو نہیں آتی کہ لکڑہارے یا اس کہانی کے کسی دوسرے کردارنے اہل بیت کا واسطہ دے کر دعا کی ہو ؟!تو پھر بزعم خود ”علمی بیان “میں صفحہ ۲۴ پر کس طرح یہ بات لکھ دی:
”سولہ سیدوں کی اس مبارک کہانی میں بادشاہ کے بعد بڑھیا اور بڑھیا کے بعد لکڑہارے کی مراد کا پورا ہونا عالم انسانیت کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ جو بھی انسان سچے دل سے محمد وآل محمد کا دامن تھامتا ہے … تو خداوند عالم اس کی طلب کو رد نہیں کرتا…؟!“
اِس قسم کی کہانیوں کو شیعہ معاشرے میں رائج کرانے کے پیچھے اُس شیعہ دشمن طاقت کا ہاتھ تلاش کرنا چاہئے جس نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ:
”ایسے شیعہ افراد کو تلاش کرکے ان کی مالی مدد کی جائے جو اپنی تحریروں کے ذریعہ شیعہ عقائد اور مراکز پر ضرب لگائیں اور شیعہ بنیادوں کو منہدم کرتے ہوئے اسے شیعہ مراجع تقلید کی اختراع قرار دیں…“(ڈاکٹر مائیکل برانٹ ،امریکی سی آئی اے میں شیعہ سیکشن کے سابق انچارج)کا اعتراف،ماخوذ ”دین اور سیاست “تالیف سید پیغمبر عباس نوگانوی ، صفحہ۱۸۹،ناشر المنتظر ثقافتی مرکز نوگانواں سادات)
ایسی کہانی پڑھ کر دعائیں مانگنا ،اہل بیت کے طریقہ ٴ دعا سے بالکل مختلف ہے ،ہمیں اہل بیت سے محبت بھی ہے اور ہم اُن کے طریقہٴ دعا کو بھی نہیں اپناتے؟ ! جیسا دعا کا طریقہ ہمارے رہبروں نے بتایا ہے ایسا تو کسی بھی مذہب کے پیشواوٴں نے نہیں بتایا ،مگر یہ ہماری بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے اس طریقہ کو چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اپنالیا ہے
اس قوم کو کیا کہئے کہ جس کے پاس ایسے امام و رہبر ہوں جن کی دعائیں اور مناجاتیں قبولیت دعا کی ضمانت ہوں اور وہ پھر بھی ان سے استفادہ نہ کرے ،کیا امام علی کی دعائے مشلول و دعائے کمیل کی تعلیم ہمارے لئے نہ تھی؟ کیا امام زین العابدین - کی دعاوٴں کا مجموعہ ”صحیفہٴ سجادیہ “ ہمارے لئے نہیں ہے؟ کیا دعائے نور و دعائے ندبہ سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچے گا؟ کیا زیارت عاشورہ کا عمل کرکے حاجت بر آنے کی ضمانت ائمہٴ معصومین نے نہیں لی ہے ؟اگر ایسا ہے تو پھر شیعہ سماج میں ائمہ معصومین سے منسوب دعاوٴں اور مناجاتوں کو چھوڑ کر عوام کی گھڑی ہوئی کہانیوں کے ذریعہ حاجت طلب کیوں کی جاتی ہے ؟!
کیا یہی اہل بیت کی پیروی ہے ؟ کیا کبھی آپ نے سنا اور پڑھا ہے کہ ہمارے ائمہ یا فقہائے عظام نے ان کہانیوں کے ذریعہ حاجت طلب کی ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں؟کس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ؟کیا ہم ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعہ آل محمد اور اُن کے فلسفے سے دور نہیں ہورہے ہیں ؟
آئیے ہم سب مل کر یہ کوشش کریں کہ شیعہ سماج میں ائمہٴ معصومین سے منسوب دعاوٴں اور مناجاتوں کو رواج دیں تاکہ معاشرے کی دینی و دنیوی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں