دیرپا رشتوں کا اثر
  • عنوان: دیرپا رشتوں کا اثر
  • مصنف: ڈاکٹر نفیس حسنی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 15:35:41 1-9-1403

 

خدا نے انسان کے لئے ہمیشہ یہ چاہا کہ وہ ایک مضبوط سماجی ماحول میں رہے۔ چنانچہ اسلام نے شادی کی تاکید کی اور ایک سے زیادہ شادی کی اجازت بھی شاید اسی لئے دی کہ انسان ہمیشہ محبتوں کے مضبوط رشتوں میں بندھا رہے۔
دین اسلام نے والدین کے ذمہ اولاد کے حقوق رکھے تاکہ بچوں کو ایک بھرپور محبت ملے اور بچوں کے ذمہ والدین کے حقوق رکھے تاکہ والدین کو ان کی پرورش کا بہترین اجر نصیب ہو۔ نیز بوڑھے والدین کی عزت و احترام کا حکم دیا تاکہ ان کو بھی ہمیشہ محبت بھرا مضبوط سہارا نصیب ہو۔
خالقِ ازل نے پڑوسیوں، رشتہ داروں، مسافروں غلاموں، غریبوں، وغیرہ کے حقوق بھی بتائے تاکہ سب کو ایک مضبوط اور محبت بھرا ماحول اور پُرخلوص سہارا نصیب ہو اور ایک بھرپور اور مستحکم معاشرہ تشکیل پائے۔ اس طرح کا معاشرہ عموماً ظلم سے پاک ہوتاہے اور کسی پر کسی بھی طرح کی ناانصافی کو برداشت نہیں کرتا اور اس کے خلاف آواز اٹھاتا اور ضرورت پڑے تو جنگ بھی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ظالم کو طویل عرصے تک پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔
اس کے مقابلے میں ہوس پرست اور شیطان صفت ظالم اور بدقماش لوگوں کی خواہش رہتی ہے کہ ظلم کے ذریعے لوگوں پر اپنی دھاک بٹھا دیں تاکہ عوام الناس کسی بھی طرح آواز اٹھانے اور لڑنے بلکہ اس بارے میں سوچنے سے بھی پرہیز کرے۔ اسی لئے ظالمانہ نظام کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ معاشرہ کمزور رہے اور کوئی شخص کسی کے کام نہ آئے اور نہ کوئی کسی دوسرے کے لئے آواز اٹھائے۔ اس کے لئے مغرب کی مثال دے سکتے ہیں جنہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے جہاں دوسرے بہت سارے اقدامات کئے وہیں پر شادی کے نظام پر بھی زوردار ضرب لگائی اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دیا۔ چنانچہ شادی جیسے دیرپا رشتہ کی جگہ شادی کے بغیر ساتھ رہنے کا نظام رائج کرنے کی کوشش کی جس سے ۔۔۔
۔۔۔ مرد و عورت کے درمیان تعلق تو پیدا ہوا لیکن کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوئی۔
۔۔۔ بچہ کی ولادت تو ہوئی لیکن اس کی تربیت کے لئے باپ موجود نہ تھا۔
۔۔۔ باپ کی غیرموجودگی کی وجہ سے بچہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں گھر سے نکلنے پر مجبور ہوئی تو اس کے اور اس کے بچوں درمیان محبت کی جڑیں گہری نہ ہو سکیں چنانچہ ماں نے بچوں کی پیدائش سے پرہیز شروع کر دیا یا بچے کے دل میں وہ مقام نہ بنا سکی۔
۔۔۔ جب بچہ یا بچی 18 سال کی ہوئی تو اس نے گھر کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی الگ کرلی اور بوڑھے ماں باپ کو Nursery Homes میں رکھ دیا۔
۔۔۔ Privacy کو اتنی اہمیت دی گئی کہ رشتہ دار اور دوست ایک حد سے زیادہ نزدیک نہ ہوئے۔
۔۔۔ بچوں کی نسبت والدین کی اور والدین کی نسبت سے بچوں کی سماجی ذمہ داری حکومت کے حوالے کر دی گئی۔
انجامِ کار اب لوگوں کو اپنے اردگرد کوئی مددگار نظر نہیں آتا اور وہ اپنے آپ کو بالکل اکیلا محسوس کرتے ہیں اور پھر بڑھتے ہوئے اضطراب کی وجہ سے اعصابی کمزوری اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
Rochestin یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہیری ریز (Dr Harry Reis) جنہوں نے رشتوں کے موضوع پر تحقیق کرنے کے بعد Encyclopedia Of Human Relationship نامی کتاب لکھی ہے، کا کہنا ہے کہ محبت اور صحت کا آپس میں ایک عجیب جو ڑہے۔ انسان کی تخلیق میں ملاپ کو رکھا گیا ہے جو اچھا اور پائیدار ہو تو اس کا پھل بھی اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ اس ملاپ سے مراد صرف جسمانی ملاپ نہیں ہے، کیونکہ کم مدت کے جوشیلے جسمانی ملاپ کے بارے میں سائنس نے خاص مثبت اثرات کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طرف سے حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے تو دوسری طرف سے ذہنی کرب اور تکلیف کا بھی سبب بنتا ہے اور سخت Stressfull بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ریز کے مطابق پُرسکون اور پائیدار تعلق اور رشتہ صحت کے لئے مفید ہے۔ اس رشتہ سے مراد صرف پائیدار شادی شدہ رشتہ مراد نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام رشتے شامل ہیں جن سے انسان سماجی بندھن میں مضبوطی سے بندھ جائے، خواہ وہ والدین کے ساتھ ہو، بھائی بہنوں کے درمیان ہو یا دوستوں کے حوالے سے۔ اس کی مخصوص وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو لوگوں کے ساتھ رشتہ میں جڑا ہوا محسوس کریں، جہاں آپ کی عزت ہو، آپ کی اہمیت ہو اور جہاں آپ کی کمی محسوس کی جاتی ہو۔
ڈاکٹر ریز کہتے ہیں کہ سائنس کو اب تک اس کی وجہ نہیں معلوم کہ صحت پر اس رشتہ کے مثبت اثرات کی کیا وجہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق میں معاشرتی اور سماجی ماحول میں رہنے کو ترجیح دی گئی ہے اور جب وہ اس ماحول سے کٹ کر الگ تھلگ اور اکیلا رہتا ہے تو اس کا حیاتیاتی نظام تناو کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک تھیوری یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب آپ لوگوں کے درمیان رہتے ہیں تو لوگ آپ کو برائیوں پر ٹوکتے ہیں اور اچھی عادتوں کی طرف راغب کرتے ہیں اس طرح آپ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں اور تندرست و توانا رہتے ہیں لیکن یہ صرف اس معاشرے میں ہوتا ہے جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے۔

دیرپا محبت کے دس حیرت انگیز فائدے :
١۔ شادی شدہ لوگ ڈاکٹروں کے پاس کم جاتے ہیں اور ہسپتالوں میں ان کا قیام بھی کم ہوتا ہے۔
٢۔ دوسرا مثبت اثر یہ ہے کہ آپ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ سائنس نے ہمیشہ باور کیا ہے کہ اگر آپ سماجی طور پر اکیلے ہیں تو آپ کو ڈپریشن کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ تنہائی کی وجہ سے سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور دوسری نشہ آور چیزوں کے استعمال میں مشغول ہو جاتے ہیں جن کا انسانی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس تنہائی سے گھبراکر خودکشی کر لیتے ہیں۔
٣۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آپ کا B,P بہت بہتر اور کنٹرول میں رہتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا گھریلو ماحول خوشگوار ہو۔ چنانچہ جو جوڑے آپس میں تناو میں رہتے ہیں ان کا بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رہتا۔
٤۔ دیرپا اور مضبوط رشتہ میں بے چینی اور پریشانی کا عنصر مختصر مدت کے اور ڈھیلے ڈھالے رشتہ کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔
٥۔ دیرپا محبت والے رشتہ سے درد کو برداشت کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح کے لوگوں کو سردرد اور کمردرد کی شکایت کافی کم ہوتی ہے۔
٦۔ دیرپا رشتہ سے انسان میں دوسرے ذہنی دباو والے معاملات کو برداشت کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی سکت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ مدد کرنے اور مفید مشورہ دینے کے لئے موجود ہیں۔
٧۔ دیرپا رشتہ میں بندھے لوگوں کا قدرتی جسمانی مدافعتی نظام بھی زیادہ قوی ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو عموماً فلو اور زکام وغیرہ کی بیماریاں بھی کم لاحق ہوتی ہیں۔
٨۔ اسی طرح سے ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دیرپا رشتہ میں بندھے لوگوں کے اندر زخم کو ٹھیک کرنے کی طاقت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی ان کا زخم جلدی ٹھیک ہوجاتا ہے۔
٩۔ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ دیرپا اور بہتر سماجی نظام میں زندگی گذارتے ہیں ان کی زندگی نسبتاً طویل ہوتی ہے ان لوگوں کے مقابلہ میں جو اکیلے اور کمزور سماجی نظام میں زندگی گذارتے ہیں جہاں ان کی مدد ¬ مشورے اور محبت کے لئے لوگ موجود نہیں ہوتے ہیں۔
١٠۔ ریسرچ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ جو لوگ دیرپا محبت والے ماحول میں زندگی گذارتے ہیں چاہے ان کے پاس پیسہ کی فراوانی نہ ہو تب بھی وہ زیادہ خوش رہتے ہیں ان لوگوں کے مقابلہ میں جن کے پاس بہت پیسہ ہے لیکن دیرپا محبت والا ماحول نہیں ہے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ: