اسلام میں عورت کا مقام
  • عنوان: اسلام میں عورت کا مقام
  • مصنف: الشیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:43:14 2-10-1403


حمد و ثناء کے بعد
اسلام نے عورت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اسکا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے ۔ اسے سر بلند کیا ہے ، عالی مقام دیا ہے اور اسکی قدر و منزلت بڑھائی ہے ۔ عورت کا اسلام میں بڑا بلند مقام ہے ۔ اسے ایک قابل احترام شخصیت قرار دیا گیا ہے اسکے حقوق متعین کۓ گۓ ہیں اور اسکے فرا‏‏ئیض و واجبات طے کۓ گۓ ہیں ۔
مرد و زن میں یکسانیت : اسلام میں عورت کو مرد کی ھم جنس ھم نسل قرار دیا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی اصل سے پیدا کۓ گۓ ہیں تاکہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے سے انس و محبت پائییں اور خیر و صلاح کے ساتھ سعادت و خوشی سے سرفراز ھوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم
کا ارشاد گرامی ہے : { عورتیں مردوں کی ھم جنس و ھم نسل ہیں }
( مسند احمد ۔ صحیح الجامع = 1983 )
اسلامی تعلیمات کی رو سے شرعی احکام میں عورت بھی مرد کی طرح ہے ، جو مطالبہ مردوں سے ہے وہی عورت سے اور جن افعال کے کرنے یا نہ کرنے پر جو مرد کو ہے وہی عورت کو بھی ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
{اور جو نیک کام کرے گا ، مرد ھو یا عورت ، اور وہ صاحب ایمان بھی ھو گا تو ایسے لوگ جنت میں داخل ھونگے ، اور انکی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جاۓ گی } ( النساء : 144 )
جبلی و فطرتی فرق : عورت زندگی کے تمام معاملات میں امانتیں سنبھالنے میں بھی مردوں کی طرح ہے سواۓ ان معاملات کے جن میں مرد و زن میں فرق کرنے کا مطالبہ کوئی بشری ضرورت یا فطرت و جبلت کریں ، اور اسلام میں بنی آدم کی عزت و تکریم کے اصول و قواعد کا یہی تقاضا ہے ۔
چنانجہ ارشاد الہی ہے :
{ ھم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی } ( بنی اسرائییل : 70 )
عورت ایک نعمت : برادران ایمان !اسلام نے عورت کی فضیلت اسکا مقام و مرتبہ اور رفعت و شان بیان کرتے ھوۓ اسے ایک عظیم نعمت اور اللہ کا ایک قیمتی تحفہ قرار دیا ہے اور اس کی عزت و تکریم اور رعایت و نگرانی یا خاص خیال رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
{ آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہی صرف اللہ تعالی کے لۓ ھے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ، جسے چاہتا ہے ، بچیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا بیٹوں ( اولاد نرینہ ) سے نوازتا ہے اور کسی کو نرینہ و مادینہ دونوں طرح کی ملی جلی اولاد عطا فرماتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ۔ }
( الشوری : 50 )
مسند امام احمد میں ہے :
{ جس کے بچی پیدا ھوئی ، اس نے اسکو زندہ درگور نہیں کیا ، اس کی اھانت و تحقیر نہیں کی اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دی ، اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا } ( مسند احمد )

اسلام میں بچی کا مقام :

اسلامی تعلیمات کے زیرسایہ عورت اسلامی معاشرے میں پوری عزت و تکریم سے زندگی گزارتی ہے ۔ اور یہ عزت و تکریم اسے اس دنیا میں قدم رکھنے سے لیکر زندگی کے تمام حالات سے گزرتے ھوۓ حاصل رہتی ہے ۔ اسلام نے عورت کے بچپن کی بڑی رعایت کی ہے اور اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور اس پر احسان و حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے ۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشاد نبوی ہے :
{جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ بلوغت کو پہونچ جائییں ، وہ قیامت کے دن یوں میرے ساتھ ( جنت میں ) ھو گا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کیا } ( صحیح مسلم )
اور صحیح مسلم میں ہی ایک اور حدیث میں ہے ، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ جس کی تین بیٹیاں ھوں اور وہ انکے معاملہ میں صبر کرے اور اپنی کمائی سے انھیں کپڑا پہناۓ ( کھلاۓ پلاۓ ) وہ اس کے لۓ جہنم کی راہ میں دیوار بن جائییں گی } ( صحیح مسلم )

اسلام میں ماں کا مقام و مرتبہ :

اسلام نے عورت کو ماں ھونے کی صورت میں ایک خاص درجہ کے اکرام و احترام سے نوازا ہے اور اس کا خصوصی خیال رکھنے اور خدمت و حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد الہی ہے :
{ تیرے رب کا یہ فیصلہ صادر ھو چکا ہے کہ تم لوگ اسکے سوا کسی کی عبادت ہرگز نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ } ( بنی اسرائییل : 23 )
بلکہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کو والد سے بھی زیادہ اہمیت دی ۔ چنانجہ صحیح بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی آیا او اس نے عرض کیا :
{اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! میں کس کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کروں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : اس کے بعد ؟ تو فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ۔ اس نے عرض کیا : اسکے بعد ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ ۔ اور اس نے کہا : اسی کے بعد : تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اپنے باپ کے ساتھ } ( متفق علیہ )

اسلام میں بیوی کا درجہ :

اسلام نے عورت کے بیوی ھونے کی حیثیت سے بھی بڑے حقوق بیان کۓ ہیں اور شوہر پر انکی آدائییگی کو ضروری قرار دیا ہے جن میں سے ہی اس کے ساتھ اچھے طریق ، حسن سلوک ، نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
{ خبردار عورتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرو ۔ وہ ( اللہ کی طرف سے ) تمھارے زیردست کنیزیں ہیں } ( متفق علیہ )
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرکی عورتوں کے لۓ اچھا ہے ۔ } ( ابوداؤد ، ترمذی ، مسند احمد )

بہن ، پھوپھی اور خالہ کے حقوق :

اسلام نے عورت کے بہن ، پھوپھی اورخالہ ھونے کی صورت میں بھی انکے حقوق کا بڑا خیال رکھا ہے ۔ چنانجہ ابوداؤد و ترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
{اگر کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا رہا ھو تو وہ جنت میں داخل ھو گا }
( ابوداؤد ، ترمذی )
عورت چاہے کوئی بھی ھو : عورت کے اجنبی ھونے کی شکل میں بھی اسلام نے اسکی مدد و تعاون کرنے اور اس کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے ۔چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے:
{کسی بیوہ و مسکین کی مدد کرنے والا ایسے ہے جیسے کہ کوئی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ھو ، یا پھر وہ ایسے ہے جیسے کوئی بلاناغہ راتوں کو تہجد گزار ھو ، یا پھر کوئی مسلسل روزے رکھنے والا ھو ۔ } ( بخاری و مسلم )

معاشرتی حیثیت :

مسلمانو ! اسلام میں عورت کی معاشرتی حیثیت اور اسکا مقام و مرتبہ بڑا بلند اور محفوظ ہے ۔ اسے تمام حقوق حاصل ہیں اور اسلام نے انکے دفاع و تحفظ کی ذمہ داری لی ہے اور اگر کسی طرف سے لاپرواہی یا حقوق کی پامالی ھو رہی ھو تو اسے اپنے حقوق طلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
{ صاحب حق کو مطالبہ کرنے کی اجازت ہے }
حق خود ارادیت :اسلام نے عورت کو اپنی زندگی میں حق اختیار و خود ارادیت عطا کیا ہے وہ اپنی زندگی کے معاملات میں تصرف کا حق رکھتی ہے ۔ شرعی قواعد میں سے ہی ایک قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ انھیں ( نکاح کرنے سے ) مت روکو ۔ } ( البقرہ : 232 )
ایسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ کسی بیوہ و مطلقہ عورت سے اسکی زبانی اجازت لۓ بغیر اسکا نکاح نہ کیا جاۓ اور کسی کنواری لڑکی سے اجازت کا اشارہ لۓ بغیر اسکا نکاح نہ کیا جاۓ ۔} (صحیح مسلم )

عورت قابل اعتماد و مشورہ :

اسلام کی نظر میں عورت ایک قابل اعتماد شخصیت ہے اور اس سے مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے ، حتی کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جو کہ تمام انسانوں سے زیادہ علم والے اور سب سے بڑھ کر صائیب الراۓ تھے ، اسکے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں سے کئی مواقع اور بڑے اھم مسائیل و معاملات میں مشورہ لیتے تھے ۔
اقتصادی و مالی اور تجارتی حقوق : برادران اسلام ! اسلام میں عورت کو تجارت یا کوئی بھی تجارت کرنے کی مکمل اقتصادی آزادی حاصل ہے ۔ وہ بھی مرد کی طرح ہر جائیز طریقہ و شکل سے کمائی کر سکتی ہے ۔ وہ اپنے مال و جائییداد میں اپنی مرضی سے جو چاہے تصرف کر سکتی ہے ۔ اس پر کہیں بھی اور کوئی بھی جبرا وصی و گارڈین نہیں بن سکتا ۔
چنانچہ اس سلسلہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اور یتیموں کو انکے بالغ ھو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رھو، پھر(بالغ ھونے پر ) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کے مال انکے حوالے کر دو ۔ } ( النساء : 4 )

اقتصادی تحفظ :

صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے عورت کو اقتصادی تحفظ دینا بھی فرض قرار دیا ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ اسکی اسلام سے قبل کسی دوسرے دین میں مثال تک نہیں ملتی ۔ اسلام نے عورت کے ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی حتی کہ اجنبی ھونے کی شکل میں بھی اسکے نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھائی ہے تاکہ وہ کام کاج کرنے اور کمانے کی تمام فکروں سے آزاد ھو کر پورے اطمینان قلبی سے اپنے فرائیض منصبی اور فطری ذمہ داریاں ادا کر سکے ۔
مومنو ! اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ کی یہ صرف چند جھلکیاں ہیں بلکہ جسے سمندر سے چند قطرے یا مشتے نمونہ از خروارے کہا جاتا ہے یہ صرف وہی ہے ۔

دشمنان اسلام کی چالیں :

مسلمانو ! دشمنان اسلام کی نیندیں ان عالی قدر اسلامی تعلیمات نے اچاٹ کر رکھی ہیں اور وہ راتوں کو اپنے بستروں پر پڑے بھی بے چین رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اور انہی کے ھم نوالہ و ھم مشرب لوگوں نے عورت کے معاملات و حقوق کے معاملہ میں اپنے تصورات و زعم کے مطابق دخل اندازی کرنا شروع کر رکھا ہے جس کے شور میں فضیلت و کرامت اور عزت و شرف کا دم گھٹ رہا ہے اور اخلاقیات کا دیوالیہ نکل گیا ہے ۔
وہ ایسے ایسے نعرے لیکر سامنے آ گۓ ہیں جو عورت کو اس کے دین سے آزادی دلانے اور اسلام سے خارج کرنے کا باعث ہیں ۔ ایسے اصول و مبادیات گھڑ لاۓ ہیں جو اسکی فطرت سے متصادم اور ایمانی قدروں کے سراسر منافی ہیں ۔
ایسے سبز باغات اور نعرے جو گندی و بدبودار تھذیبوں ، فاسد و بگڑے ھوۓ پیمانوں اور مہلک و تباہ کن اصولوں سے جنم لیتے ہیں وہ شر و فساد اور بگاڑ لانے والی چیزوں کو انتہائی پر فریب اور چمک دمک والے ناموں سے بنا سنوار کر پیش کر رہے ہیں ۔

مسلم نوجوان نسل :

اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض مسلمان نسل کے جوان جن کی فکر میں کجی اور نظر میں خلل ہے وہ بھی وہی نعرے لگا رہے ہیں اور انہی گمراہ کن ضلالات کو اپناۓ ھوۓ اور انحراف پذیرنظریات کو اختیار کۓ ھوۓ انھیں ہی دوسرے مسلمانوں میں رواج دینے کے لۓ کوشاں نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انکے قلم اپنی اصل و نسل اور اسلامی وراثت کے خلاف زہراگلتے ہیں ۔
عورت کی عزت پردے میں : برادران اسلام ! اعداۓ دین اور دشمنان اسلام کو یہ بات معلوم ھو چکی ہے کہ یہ دین اسلام عورت کو عظیم مقام و مرتبہ اور مکمل تحفظ دیۓ ھوۓ ہے ۔اور انھیں اس بات کا علم ھو چکا ہے کہ اصل الاصول یہی ہے کہ عورت اپنی مملکت اور گھر کے اندر رہے اور پورے سکون و اطمینان سے رہے اور صاحب استقرار اور خاندانی فضا والے گھروں میں ٹک کر رہے ۔ عورت کے حقوق خاندان کی نگرانی میں رہتے ھوۓ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر منحصر ہیں اور عورت کا گھروں سے بلاضرورت و عذر باہر نکلنا باعث مؤاخذہ ہے
گھروں میں ہی اس کی عزت و حشمت ہے اسی میں اسکے ایمان و عصمت کا تحفظ ہے اور اسی میں اس کی کرامت و عفت کا راز ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اور تم اپنے گھروں میں ٹکی رھو اور عھد جاھلیت کا سا اظہار زینت نہ کرو ۔ } ( الاحزاب : 33 )
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : { ان کے گھر ان کے لۓ بہتر ہیں }

کفار و معاندین اسلام کی کوششیں :

اسلام کی ان تعلیمات نے کفار و معاندین اسلام کا ناک میں دم کر رکھا ہے وہ ہر وسیلے اور طریقےسے کوشاں ہیں تاکہ عورت کو اسکے گھر کے پرامن ساۓ اور پراستقرار ٹھکانے سے باہر نکال دیں تاکہ وہ چادر اور چاردیواری سے نکل کر مطلق العنان اور بے مہار ھو جاۓ ۔ وہ عورت کو اسلامی تعلیمات سے باغی کرنے اور اخلاقی اقدار سے آزاد کروانے کے لۓ ہلکاں ھوۓ جا رہے ہیں کھبی آزادیء نسواں کے نعرے سے ، کبھی آزادی و مساوات کے نام سے کبھی جھوٹی ترقی و عروج کے حوالے سے ۔ ایسی اصطلاحات کہ جن کا ظاہر تو عورت کے ساتھ رحم و کرم اور بھلائی و بہتری والا لگتا ہے لیکن دراصل وہ سراسر شر ہیں ۔ ان کی بنیاد ہی اخلاقی اقدار کو تلپٹ کرنے ، مفاہیم و معانی کو الٹا کر رکھ دینے اور تمام روابط و اقدار ، خاندانی ذمہ داریوں اور معاشرتی حقوق سے عورت کو آزاد کروا دینے پر رکھی گئی ہے اور نتیجہ یہ کہ عورت لذت و شہوت رانی کے بازاروں میں بکنے والا مال بن کر رہ جاتی ہے ۔
ان لوگوں کی نظر میں عورت اپنے گھر کے معاملات اور اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں آزاد ہے اور کمانے ، بھاگ دوڑ کرنے اور دوسروں کی نگاھوں کی اپنی طرف کھینچنے جیسے تمام امور خود اسے ہی سر انجام دینے ہیں اور اسے اسکی آزادی قرار دے رکھا ہے اگر چہ اس میں اسے اپنی عفت و عصمت ، اخلاق و کردار سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونے پڑیں اور خاندان کو اخلاقی اقدار کی بربادی ہی کیوں نہ سہنی پڑے ۔ اور پھر اس شکل میں نہ تو وہ اپنے رب کی اطاعت کرتی ہے نہ اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کی پابند ، نہ اس کا ایک پاک معاشرہ قائیم کرنے میں کوئی رول ھوتا ہے ، اور نہ ہی نسل نو کی تربیت کرتی ہے ۔

برادران اسلام !
یہ ان کفار اور معاندین اسلام کے نظریات آزادی ہیں جو انسان کو ضائیع کر کے رکھ دیتے ہیں ، اسکی شرافت و کرامت کو مٹا دیتے ہیں انسان کا اسکے اصل اغراض و مقاصد سے ہٹا دیتے ہیں اور اخلاقی اقدار کا فقدان ان کا لازمی نتیجہ ہے ۔
جبکہ اسلامی نقطۂ نظر سے عورت معاشرے کا ایک اھم عنصر ہے اور اصل یہ ہے کہ عورت ہی نسل نو کی مربی ھوتی ہے ۔ وہی ہیروز کو جنم دیتی ہے ۔
اور اس کے باوجود اسلام میں عمل خیر کا بڑا مقام و مرتبہ ہے ۔
اسلام کی تعلیمات عورت کو ایسے انداز سے میدان عمل میں اترنے سے ہرگز نہیں روکتیں کہ جن سے اسکا نفس ، اخلاق عزت و کرامت ، شرم و حیاء ، عفت و عصمت میں کوئی خرابی نہ آنے پاۓ اور جن میں وہ اپنے دین و بدن ، عزت و آبرو اور دل کا تحفظ کرنے پر قادر ھو اور یہ صرف ایسے ہی کاموں میں ممکن ہے جو اسکی طبیعت و فطرت ، اسکے طبعی میلانات و رجحانات اور صلاحیتوں سے مناسبت رکھتے ھوں ۔ اسی اصول کے پیش نظر اسلام عورت کو ہر اس کام سے پوری قوت سے روکتا ہے جو دین کے منافی ھو ، اخلاق سلیمہ و اقدار عالیہ کے بر عکس ھو ۔ عورت کے کام کرنے کے لۓ شرط یہ ہے کہ وہ عزت و باوقار ، مظاھر فتنہ سے دور ، مردوں کے ساتھ میل جول سے پاک ، بے پردگی سے محفوظ اور گناہ و فجور کی دعوت دینے والا نہ ھو ۔ اور اگر ھم اس حقیقت واقع کو جاننا چاہیں جو کہ ھمارے اس منھج اسلامی کے مخالف ہے تو پھر ایک مغربی مصنف کی یہ تحریر پڑھ کر دیکھیں ۔

آزادیء نسواں ،

بعض اھل مغرب کی نظر میں وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت و ثروت مہیا ھو مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمین بوس ھو کر رہ جاتی ہے کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچے پر حملہ کر کے خاندان کی بنیادوں کو ھلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات و روابط کے سلسلے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔
ایک دوسری مغربی مصنفہ جو کہ ڈاکڑ بھی ہے ، وہ اپنے مغربی معاشرے کے اندر رونما ھونے والے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ھوۓ لکھتی ہے :
[ خاندانی زندگی میں رونما ھونے والے بحرانوں کا سبب اور معاشرے میں جرائیم کے بکثرت ھو جانے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ عورت نے گھر کی چاردیواری کو الوداع کہا تاکہ خاندان کی آمدنی دوگنا ھو ، اور واقعی آمدنی تو بہت بڑھ گئی مگر اس سے معیار اخلاق بہت گھٹ گیا ] اور آگے چل کر لکھتی ہے:
[ تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ آج نسل نو جس بحران میں مبتلا ہے ، اسے اس سے بچانے اور نکالنے کا صرف ایک راستہ و طریقہ ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ عورت کو دوبارہ اسکے اصل مقام ( گھر ) میں واپس لایا جاۓ ]
اسلام نے معاشرے کی تعمیر و ترقی اور تحفظ پر جو توجہ دی ہے اسکی مختلف صورتوں میں سے ہی ایک یہ ہے کہ اس نے زندگی کے تمام شعبوں میں مرد اور عورت کے مابین اختلاط و میل و جول کو ممنوع قرار دے رکھا ہے ، کیونکہ یہ ایک خطرناک وباء ہے جو جس معاشرے میں پھیل جاۓ اس میں ھر بلاء اور شر و فساد جنم لیتے ہیں ۔
کوئی بھی جرم جس میں کسی کی عزت لوٹی گئی ھو ، عفت و عصمت پر ڈاکہ ڈالا گیا ھو یا عزت و شرف کو داغدار کیا گیا ھو اس جرم کا تانا بانا انہی تاروں سے بنا جاتا ہے ،جو اسلامی نظام عفت و عصمت سے باہر نکل جاتی ہے اور جہاں مرد و زن کے تعلقات کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ اس چور دروازے سے شیطان داخل ھو جاتا ہے ، اور ایسے لوگوں کو فساد و بگاڑ یا جرائیم پیشہ بنانے میں کامیاب ھو جاتا ہے ۔

ایک عینی شاھد کی نصیحت :

آ‎ئییے ! عورتوں میں سے اس عورت کی بات سنیں جو مخلوط معاشرے میں زندگی گزار چکی ہے ۔ وہ [ مرد و زن کے اختلاط و میل و جول کو روکو ] کے زیر عنوان اپنے مقالے میں اپنی ہی ھم جنس لڑکیوں کے تجربات کو بیان کرتے ھوۓ لکھتی ہے :
[ عرب معاشرہ ہی کامل و سالم ہے اور اس معاشرے کو ہی لائیق ہے کہ وہ اپنی ان تعلیمات اور تقالید اور روایات پر کار بند رہے جو نوجوان دوشیزا‎ؤں اور لڑکوں کو معقول حدود کے اندر رہنے کا پابند کرتی ہیں ] اور آگے چل کر وہ لکھتی ہے :
[ میری یہ نصیحت ہے کہ اپنی تقالید و روایات کو اپناۓ رھو اور مردو زن کے اختلاط و میل و جول کو روکے رکھو اور نوجوان دوشیزہ کی آزادی کو پابندی میں ہی رہنے دو بلکہ حجاب و پردہ کے زمانۂ خیر کی طرف ہی لوٹ جا‎ؤ ۔ یہی تمھارے لۓ اس اباحیت و بے راہ روی ، آزادی و آوارگی اور فحاشی و گندگی سے بہت بہتر ہے ۔ ]

پیغامِ حرم :

خبردار ! اھل اسلام اپنے بال بچوں اور زیرکفالت و زیردست لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالی کا تقوی و عاقبت اندیشی سے کام لینا چاہیۓ اور انکی روز مرہ کی زندگی میں ان کے چال چلن پر کڑی نظر رکھنی چاہیۓ اور اللہ تعالی نے ان کے زیرنگرانی جو لوگ اور رعایا دے رکھی ہے انھیں انکا مکمل تحفظ کرنا چاہیۓ ۔ انھیں اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی کوتاہی سے ہر ممکن طریقہ سے بچ کے رہنا چاہیۓ اور ضلالت و گمراہی کی طرف لے جانے والی سیڑھیوں پر چڑھنا تو دور کی بات ہے ان کے قریب بھی نہیں آنا چاہیۓ اور نہ ہی فتنے کو آواز دینا چاہیۓ ۔ اللہ تعالی نے اسی سلسلہ میں فرمایا ہے :
{ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو ۔ یہ تمھارے اور انکے دلوں کے لۓ بہت پاکیزگی کی بات ہے ۔ } ( الاحزاب : 53 )
اے مسلمانو ! اس دین اسلام کی تعلیمات کا بھرپور خیال رکھیں اور دشمنان دین و معاندین اسلام کی سازشوں سے چوکنا رہیں ۔
{ سبحان ربك رب العزة عما يصفون و سلام علی المرسلين و الحمد لله رب العالمين }