عورت کا مقام و مرتبہ
  • عنوان: عورت کا مقام و مرتبہ
  • مصنف: سید ارشد حسین موسوی کشمیری
  • ذریعہ: بشکریہ باب العلم ڈاٹ کام
  • رہائی کی تاریخ: 15:2:48 1-9-1403

معاشرتی لحاظ سے پوری تاریخ میں ایسے بہت کم موضوع پائے جاتے ہیں جو عورت کی شخصیت یا ہویت کے موضوع کی بہ نسبت زیادہ تنقید وغیرہ کا نشانہ بنے ہوں یا ان کے بارے میں متعدد اور مختلف تشریحات کی گئی ہوں ابھی بھی یورپی اور مشرقی دنیا میں عورت کے بارے میں غلط، بے ڈھنگ اور گمراہ کن نظریات پائے جاتے ہیں
ان سب میں صرف انبیائ ، اوصیائ اور اہل حق کا واحد مکتب ہے کہ جس میں : ’’من اخلاق الانبیاء حبُّ النساء؛ عورتوں سے محبت انبیائ کے اخلاق میں سے ہے‘‘(1) کے ذریعہ افراط و تفریط کے بغیر وحی اور خدا سے رابطہ کے ذریعہ اچھی طرح سے عورت کی منزلت کو بیان کیا جارہا ہے .اور اس کی صاف وشفاف اورہر قسمی تحریف کے بغیر مکمل صورت اور پیغمبر اکرم اور اہل بیت کی صحیح سنت کے ذریعے عورت کی شخصیت، قدر ومنزلت اور اس کی حیثیت کو بیان کیا ہے قرآن و سنت کی بنیاد پر، عورت کا خلقت اور پیدائش کے لحاظ سے مرد سے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے، البتہ مرد کے ساتھ بعض چیزوں میں شریک ہونے کے باوجود خدائے متعال کی حکمت اور لطف کی بنا پر بعض چیزوں میں اس کی استعداد، اس کے وظائف اور حقوق وغیرہ مردوں سے مختلف ہیں
قرآن کریم اور سنت سے جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ یہی ہے کہ عورت لطیف اور رحمت ہے. اس کے ساتھ لطف و کرم اور مہربانی کی جائے، اچھا سلوک کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ اس کے ظریف اور نازک وجود کی تعریف کی گئی ہے نہج البلاغہ میں تقریباً 25 جگہوں پر خطبوں، خطوط اور کلمات قصار میں عورتوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے(2)جن میں سے چند ایک موارد کو چھوڑ کر باقی ایسی احادیث، جملات یا کلمات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنے سے لوگ ابتدا میں یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ نہج البلاغہ میں عورتوں کے متعلق منفی نظریہ پایا جاتا ہے اور یہی چیز کافی ہے کہ جوانوں اور خواتین کے درمیان نہج البلاغہ کے بارے میں شک و تردید پیدا ہو جائےخاص کر آج کل کے زمانے میں کہ جہاں عورتیں سیاسی، تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی امور میں پیش پیش ہیں، اگر ہم اس سلسلے میں ان ابہامات کو دور نہ کرسکیں، ان کے سوالوں کے جواب نہ دے سکیں اور ان شبہات کا جو جوانوں اور خواتین کے ذہنوں میں نہج البلاغہ کی بہ نسبت ایجاد ہوئے ہیں ،کا جواب نہ دے سکیں تو ہمیں ان کے گمراہ اور اسلامی ثقافت سے منحرف رہنے کا شائبہ رہنا چاہیے. اور پھر اس گمراہی اور ضلالت کے ہم خود ہی ذمہ دار ہوں گے اس کے علاوہ ظاہر سی بات ہے کہ آئمہ معصومین خاص کر حضرت امیر المومنین علی کے کلام مبارک کا کوئی تربیتی اثر نہیں ہوگا بلکہ اس طرح کے جوان اور ہمارہ معاشرہ آئمہ کے بارے میں بد ظن ہو کر ان سے دوری اختیار کرے گا اور انہیں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنانے سے اجتناب کرے گ
اس مضمون میں نہج البلاغہ میں عورتوں کے بارے میں موجود عبارتوں کے بارے میں کچھ نظریات ذکر کیے گئے ہیں اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی آخر میں اصلی اور صحیح نظریہ بھی بیان کیا گیا ہے. نیز اس کے بعض تربیتی پہلو بھی بیان کیے گئے ہیں اگر چہ محدودیت کی بنا پر اختصارسے کام لیا گیا ہے لیکن قارئین گرامی خود تحقیق کر کے اس کے دلائل سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں

پہلا نظریہ:

عورت کا شر ہونا نہج البلاغہ کی بعض عبارتوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ حضرت علی نے بھی عورت کو شرقرار دیا ہے.مثلاً حضرت علی فرماتے ہیں:
’’المر شرّ کلّها و شرّ ما فیها انّه لا بدّ منها‘‘ عورت کاپورا وجود شر ہے اور سب سے بڑا شر یہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے(3)
نہج البلاغہ میں اس طرح کے بہت سے موارد موجود ہیں کہ جن میں اگر ابتدائی اور سطحی نظر سے دیکھا جائے تو مخاطب اس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ اس کتاب میں بھی دوسری پرانی کتابوں کی طرح عورت کو ایک شر، آلودہ اور پلید وجودسمجھا گیا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں یہ نظریہ پہلے سے موجود تھا اور بہت پہلے سے انسانوں میں یہ فکر (عورت کا شر یا پلید اور منحوس ہونا) رائج تھی بعض لوگ قائل تھے کہ عورت بائیں پسلی یا شیطان کی پسلیوں سے پیدا ہوئی ہے اور یہ شیطان کی ایک آلہ کار ہے جو مردوں کو اغوا کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے جیسا کہ عہد عتیق میں صراحت کے ساتھ یہ نظریہ بیان کیا گیا ہے اسی وجہ سے مختلف قوموں، ملتوں، امتوں اور تہذیبوںمیں عورت کو ’’ام المفاسد‘‘ (فساد کی جڑ) کے نام سے یاد کیا جاتا تھ وہ قائل تھے کہ عورت فساد پیدا کرنے والی مخلوق ہے لہذااسے کنٹرول کیا جانا چاہیے ورنہ یہ پورے معاشرے کو فساد اور گمراہی میں مبتلا کر سکتی ہے
ابن میثم بحرانی اسی حکمت (238) کے ذیل میں لکھتے ہیں:
عورت ،مرد کیلئے مکمل طور پر شر ہے، سے مرادیہ ہے کہ چونکہ عورت کا نفقہ مرد پر واجب ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے یا پھر اس سے لذت حاصل کرنا مراد ہے کیونکہ یہ بھی خود خدا سے اور اس کی اطاعت سے روکنے اور دور کرنے کا سبب بنتی ہے ہاں مرد کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ کاربھی نہیںہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان کی طبیعت اور اس دنیاوی وجود کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو ہمیشہ اس کی ضرورت رہے اور اپنی ضروریات کو اس سے پورا کرے اور ان ہی ضرورتوں کی وجہ سے مرد عورت کو برداشت کرتا ہے. البتہ عورت کے باطن میں شر کا وجودایک ایسی علت ہے جو معلول سے بھی قوی تر ہے(4)
وہ اسی طرح مولا علی کی اس فرمائش کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ المر عقرب حلو الّلبس‘‘؛ عورت بچھو کی طرح ہے کہ جس کا کاٹنامیٹھا ہوتا ہے‘‘(5)
بحرانی کہتے ہیں:
’’ بچھو کا کام کاٹنا ہے اور چونکہ عورت بھی آزار و اذیت کرتی ہے لہذا اس کیلئے عقرب، استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے صرف یہ کہ اس کے کاٹنے میں لذت اور مٹھاس محسوس ہوتی ہے اور بالکل اس زخم کی طر ح ہے کہ جس کو کھرچنے یا کھجلنے کے بعد تکلیف ہوتی ہے لیکن کھجلتے وقت اس سے خاص مزہ اور لطف آتا ہے
تاریخ بشریت میں عورت کے شر ہونے کا نظریہ اور عقیدہ بہت پرانا ہے سید کمال الدین مرتضویان فارسانی جو کہ خود بھی اس نظریہ کے معتقد ہیں ،نے اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کیلئے ایک کتاب بنام ’’ام المفاسد‘‘ لکھی ہے جس میں ضرب الامثال، اشعار، حکایات، دانشوروں کے کلام اور دوسرے مسائل وغیرہ درج کیے گئے ہیں اور یہ تمام مطالب عورت کے شر ہونے پر دلالت کرتے ہیں مثلاً مولوی کا ایک شعرذکر کیا ہے:
ہر بلا کاندر جہان بینی عیان باشد از شومی زن در ہر مکان
یعنی مولوی کہتے ہیں کہ اس دنیا میں جہاں بھی کوئی بلا اور مصیبت نظر آتی ہے تو وہ عورت کی نحوست کی وجہ سے ہے
اور اسے مختلف دانشوروں سے بھی نقل کیا ہے. مثلاًسقراط کہتے ہیں: ایک عورت کو دیکھا، بیما ر ہے، کہا: یہ شر ہے کہ جس نے شر کو روک کر رکھا ہے‘‘ یا ’’عورتیں ایک عورت کی تشیع جنازہ کر رہی تھیں تو کہا: شر دوسرے شر کے مرنے پر غمگین ہے‘‘ وغیرہ اس کتاب کے نام سے ہی لگتا ہے کہ فارسانی نے عورت کی شخصیت کو بگاڑنے اور اس کی منزلت کو گرانے کے لئے یہ کتاب لکھی ہے جس میں آسمانی کتابوں کی آیات (و عبارات)، انبیائ، آئمہ، حکمائ، شعرائ،اور بادشاہوں وغیرہ سے عورت کی شخصیت اور اس کے شر ہونے کے بارے میں کلام نقل کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ اس کتاب کا مقصد عورتوں کو محدود کرنا اور چار دیواری میں بند کرنا ہے. لیکن اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عورت کو کنٹرول کر کے اسے سیاسی، اجتماعی، تربیتی، علمی میدانوں میں ترقی سے محروم کیا جائے. کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عورت کے وجود میں پوشیدہ شر اور فساد کھل کر سامنے آئے گا .جس سے معاشرے میں فساد کا ڈر ہے اس نظریہ کا مطلب عورت کو کمزور اور ضعیف رکھنا اور قدم قدم پر اسے لگام کس کرکنٹرول کرنا ہےاسی نظریہ کے مطابق عورت کیلئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل یہ ہے کہ اپنے آپ کو مرد کا خادم اور وسیلہ سمجھے اور اپنے شوہر اور بچوں کی چار دیواری سے تجاوز نہ کرے اگر تاریخی حوادث پر سرسری نطر دوڑائی جائے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جب بھی عورت نے اپنے حدود اور دائرہ اختیار سے باہر قدم رکھا ہے تو معاشرہ فساد اور خرابی کا شکار ہوا ہے
افسوس تو یہ ہے کہ یہ فکر دینی ثقافت میں بھی رسوخ کر گئی ہے. یہاں تک کہ بعض لوگ خواتین کو تعلیم و تربیت سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صراحت سے یہ کہتے ہیں کہ عورت کیلئے بہتر ہے کہ گھر کی چار دیواری میں بند رہے بحار الانوار کی پہلی جلد میں امام صادق سے روایت نقل ہوئی ہے:
’’انّ المر خلقت من الرجل و انّما همّتها فی الرّجال فاحبّوا نسائکم و انّ الرّجل خلق من الارض فانّما همّته فی الارض؛(6)
اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آدم براہ راست مٹی سے بنائے گئے اور ان کی اہلیہ (حوا) حضرت آدم سے باقی بچی ہوئی مٹی سے بنائی گئیں اور ان دو ہستیوں کے درمیان ایک ظاہرسا مادی فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مرد کی تمام ہمت، سعی اور کوشش زمین اور اس کو تسخیر کرنا، اس کا حصول اور اس پر غلبہ ہے. جب کہ عورت کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مرد کو پالے اور یہ اصل حرکت کی بنیاد پر ہوتاہے
بقول شاعر :
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش

ہاں ان کی (دونوں کی) معنوی اور روحی ہمت وتوان فقط خدا وند متعال کی ذات اور اس تک پہنچنا ہے .یعنی سیر الی اللہ کیونکہ دونوں ’’نفخت فیہ من روحی‘‘ کے مصداق ہیں، اور فقط دنیاوی اور مادی لحاظ سے ان دونوں میں فرق پایا جاتا ہے.
لہذا علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
’’اب اگر عورت کی ساری تلاش مرد کے حصول میں ہوتی ہے. پس اے مردو(شوہر!) اپنی بیویوں سے محبت کرو کیونکہ عورتوں کی زندگی کا دار و مدار تم پر ہے اور ان کا سارا ھمّ وغم مردوں کی ذات ہے جب کہ مرد ایسا نہیں ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی اجتماعی منزلت کیلئے متفکر بھی ہے اور عورت سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بھی وابستہ ہے اور وہاں پر اپنا ایک خاص مقام بنانے کی فکر میںہے‘‘. بعض کتابوں میں اس روایت میں ’’احبّوا‘‘ کی جگہ ’’احبسوا‘‘ آیا ہے(7)
اپنی عورتوں کو بند رکھو لیکن یہ غالباً راوی کی نسخہ برداری یا فراموش کاری کا نتیجہ ہو سکتا ہے
شہید مطہری اپنی کتاب ’’مسئلہ حجاب‘‘ میں مختلف جگہوں پر تاکید کرتے ہیں
اسلام راضی نہیں ہے کہ عورت پردہ کر کے گھر کی چار دیواری میں محبوس ہو کر رہے اور آیات و روایات بھی اس مطلب کی نفی کرتی ہیں
اب وہ امام جو مولائے کائنات اور امیر المومنین ہیں، عورت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’المر ریحان لیست بقھرمان؛ عورت پھول کے مانند ہے اور خدمت گزار نہیں ہے‘‘. کیسے اس نظریہ کو قبول کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ حضرت اس نظریہ کے قائل ہیں؟
وہ علی جو پیغمبر اسلامکے سب سے بڑے اور ممتاز شاگرد اور سب سے بڑے مربی قرآن ہیں، کیسے ممکن ہے اس نظریہ کے قائل ہوں جبکہ قرآن حضرت مریم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’ولیس الذکر کالانثی؛ مرد عورت کے مانند نہیں ہو سکتا‘‘
جبکہ لوگوں کے درمیان مرد اور عورت کی جنسیت کو معیار نہیں بناتا بلکہ اس کا معیار ’’انّ اکرمکم عند اللہ اتقکم ‘‘تقوی اور پرہیز گاری ہے پس یہ مربی قرآن، قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتا .لہذا یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور اسے امام کی طرف منسوب نہیں کر سکتے

دوسرا نظریہ:

عورت کا ناقص ہونا ایک اور گروہ ہے جو عورت کے ذاتی شر یا شرور ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ یہ شر عورت کے ناقص وجود کی وجہ سے ہے ان کے نظریہ کے مطابق عورت ناقص خلق کی گئی ہے اور اس وجہ سے اس کی عقل بھی ناقص ہے. اور مرد اس موجود سے ایک کامل ہستی کی امید رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ عورت بھی اس کی طرح کمالات کی راہوں کو طے کرے لیکن عورت اس کمال تک نہیں پہنچ سکتی، لہذا مرد اس کا نام شر یا شرارت رکھتا ہے اور اسے شرارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے. اور یہ وہی چیز ہے کہ جس کے وجود کو شر کہا جاتا ہے وہ یا تو نسبی ہے یا عَدَمی اور یہ دونوں چیزیں مادہ کے نقص اور اس کے ضعف کی وجہ سے ہیںاور اس مادی عالم کے نقائص اور محدودیتوں کی بنا پر دوسرے مادی موجودات کیلئے شر ایجاد ہوتا ہے اور شرارت کا سبب بنتا ہے اس بنا پر اگر ایسے ماحول اور فضا میں کہ جہاں کامل وجود عمل کرے اور ایک عورت اس میں مداخلت کرے تو اس کا منفی اثر اور منفی رد عمل ہوتا ہے جسے شرارت کہا جاتا ہے اسی وجہ سے عورت کے وجود کو شرارت کہا جاتا ہے جو اس کے نقص کی طرف پلٹتا ہے اور اس کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے اس نظریہ پر حضرت علی کی فرمائش ہمارے لیے بہترین دلیل ہے، حضرت علی فرماتے ہیں:
’’معاشر الناس انّ النّساء نواقص الایمان، نواقص الحظوظ، نواقص العقول، فاما نقصان ایمانهنّ فقعودهنّ عن الصّل والصّیام فی ايّام حیضهنّ، و امّا نقصان عقولهنّ فشهاد امرآتین کشهاد الرجل الواحد، و اما نقصان حظوظهنّ فمواریثهنّ علی الانصاف من مواریث الرجال.‘‘؛
لوگو! عورتیں ایمان، ارث (وراثت) اور عقل کے لحاظ سے ناقص ہیں ان کا ایمان کے لحاظ سے نقص یہ ہے کہ وہ حیض کے دنوں میں نماز اور روزہ سے محروم ہیں اور عقل کے لحاظ سے ان کا نقص یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے اور ارث کے لحاظ سے ان کا نقص یہ ہے کہ انہیں مردوں کا نصف ارث ملتا ہے(8)
اسی وجہ سے لوگوں میں یہ اصطلاح زیادہ رائج ہے اور جب عورت کو کچھ کہنا ہو تو ناقص العقل کہا جاتا ہے اس نظریہ سے چند ایک نتیجے نکل سکتے ہیں :
1عورتوں کے عقل اور ایمان کے لحاظ سے ناقص ہونے کی وجہ سے انہیں اجتماعی کاموں میں مردوں سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے یا انہیں اصلی اور مقام ومقام نہیں دینا چاہیے اور ان کے نقائص پر توجہ کرتے ہوئے ان کے مشورہ پر عمل نہیں کرنا چاہیے
2 عورتوں کو اپنے اس ذاتی نقص پر توجہ کرتے ہوئے ایسے عمل کرنا چاہیے کہ اس معاشرے پر کوئی برا اثر مترتب نہ ہو. لہذا انہیں اپنے فرائض پر توجہ کرنی چاہیے
3ایسے امور میں کہ جہاں غور و فکر کی زیادہ ضرورت ہے،عورتوں کو شامل نہیں کرنا چاہیے

تیسرا نظریہ:

عورت اور مرد کا برابراور مساوی ہونا گزشتہ دونوں نظریوں کے مقابلے میں ایک اور نظریہ بھی ہے اور انھوں نے نہج البلاغہ کے کلام کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے اس سے بالکل ہٹ کر ایک اور نظریہ ذکر کیا ہے اس گروہ نے قرآن یا نہج البلاغہ نیز احادیث کو دیکھنے سے پہلے ہی ایک الگ قسم کا طرز فکر اختیار کیا ہے اور اس نظریہ کو آج کل کی موجودہ فضا اور روشن فکری کا نتیجہ کہہ سکتے ہیں اس گروہ کے مطابق مرد اور عورت کے وجود، ان کی ذات اور خلقت وغیرہ میں کسی قسم کا فرق نہیں پایا جات اس گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں انسانی صفات کے حامل ہیں اور ان کی خلقت میں کسی قسم کا فرق نہیں پایا جاتا. بلکہ اگر فرق ہے بھی تو ان کے کردار اور ان کی تولید مثل (نسل کشی)میں اس بنا پر خاندانی، اجتماعی، فکری، روحی مسائل اور حقوق یا مختلف کرداروں میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور معاشرے میں ہر طرح کا موجود فرق، ہماری نامناسب تربیت کا نتیجہ اور معاشرے میں غلط رفتاری کا اثر ہے جہاں پر بھی ایک فکری یا ثقافتی انقلاب وجود میں آیا ہے یاجب بھی عورتوں میں ایک تغییر و تحول وجود میںیاہے وہاں پر اس قسم کے تمام اختلافات کو مٹایا گیا ہے، اور اس طرح کے معاشرے میں عورتیں اعلی مقام و منزلت ہر فائز ہوئی ہیں اور صاحب نظر بھی بنی ہیں
یہ نظریہ فیمینسٹوں کے ذریعہ وجود میں آیا ہے اور انہوں نے ہی اس نظریہ کو رائج کیا ہے انٹرنیشنل سطح پر اقوام متحدہ کے کنونشنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس کی تائید کی ہے اس نظریہ کے ماننے والے جب نہج البلاغہ اور مولا علی کے کلام مبارک پر نظر ڈالتے ہیں اور اسے اپنے نظریہ کے خلاف دیکھتے ہیں توامام کی کلام کی مختلف قسم کی تآویلیں کرتے ہیں:
1 امام علی کی تعبیریں، محدود اور چند خاص عورتوں کے متعلق تھیں اس گروہ میں بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نہج البلاغہ میں عورتوں کی مذمت کے بارے میں جو جملے وارد ہوئے ہیں صدر اسلام کی بعض خاص عورتوں کے متعلق ہیں کہ جن کے اشتباہات اور لغزشوں کی وجہ سے بعض مسلمان منحرف اور گمراہ ہوگئے اس بنا پر یہ جملے سب عورتوں کو شامل نہیں ہوتے لیکن قرآن کی طرح اور عربوں کی رسم کے مطابق ان کے نام ذکر نہیں کیے گئے ہیں بلکہ عمومی الفاظ کے ذریعے سب کو مخاطب قرار دیا گیا ہے پس ان عبارتوں کا یہ مفہوم نہیں نکالنا چاہیے کہ اس سے مراد سب عورتیں ہیں
2یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو حضرت علی اور نہج البلاغہ کو نمونہ کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اپنے عقائد میں سختی سے پابند ہیں .لیکن دوسری طرف سے عورتوں اور مردوں میں مساوات کے قائل ہیں لہذا مجبور ہوکر اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے دین و ایمان میں بھی خلل وارد نہ ہو اور اپنے نظریہ میں بھی کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے
2 امام علی کی تعبیریں اپنے زمانے کی عورتوں سے مخصوص تھیں: ایک اور گروہ کا عقیدہ ہے کہ اس زمانے کی خواتین، اس وقت کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کی وجہ سے ان صفات و خصوصیات کی حامل تھیں ان کے عقیدے کے مطابق اس زمانے میں عورتوں کے بارے میں تنگ نظری سے کام لیا جاتا تھ وہ عورتیں تہذیب و تمدن، تعلیم و تعلم، تفکر و اجتماع سے اتنی دور تھیں کہ ہم انھیں اس قسم کی تعبیروں کا مستحق اور مصداق کہہ سکتے ہیں در حقیقت وہ ایک ایسے بچے کے مانند تھیں جو کئی سالوں سے اجتماع اور معاشرے سے دور رہے اور پھر اچانک ایک اجتماع یا معاشرے میں وارد ہوجائے جب اس قسم کے افراد اچانک ایک معاشرہ میں وارد ہوں تو انہیں رشد و کمال کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کیلئے یہی بہتر ہے کہ انہیں ان کی مشکلات کے بارے میں یاد دہانی کرائی جائے تاکہ دوسرے لوگ ان سے معاشرتی نمونہ اور ماڈل بننے کی امید نہ رکھیں اور اس قسم کی صفات سے خود کوبھی دور کریںاس گروہ کی نظر میں مولا علی کا کلام جزئی نہیں بلکہ کلی ہے لیکن فقط مولا علی اور صدر اسلام کے زمانے کی عورتوں تک محدود ہے اور آج کل کی عورتوں پر جوکہ فہمیدہ، دور اندیش اور روشن فکر ہیں اور ان نقائص سے دور بھی ہیں،یہ قول صدق نہیں کرتاہے
3 حضرت علی کے کلام سے مراد دین میں مرد کی حکومت ہے:ایک اور گروہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی کے زمانے میں عورتوںکو معاشرے میں کسی قسم کامقام و منزلت یا حیثیت حاصل نہیں تھی، دین میں مرد ہی اصلی محور اور مرکز تھ لہذا حضرت نے بھی ناچار ہو کر ان حالات کے تحت عورتوں کے بارے میں اس طرح کی تعبیریں استعمال کی ہیںظاہر ہے کہ یہ ایسے لوگوں کا نظریہ ہے جو آئمہ اطہار کے علم قدسی و علم لدنی یا عصمت کے منکر ہیں ورنہ کوئی بھی اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ ایک امام معصوم زمانے کے حالات اور شرائط سے متآثر ہوکر اوردباو میں آکر ایسے بیانات جاری کر دے جو اس کی عصمت یا علم کے منافی ہوں. اور اس نظریہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل بیت ، خاص کر مولا علی علیہ السلام کا کلام ہمارے لیے تربیتی لحاظ سے نمونہ عمل اور آئیڈیل نہیں ہو سکت
4 نہج البلاغہ کے جملات اور روایات میں تحریف کا احتمال: ایک اور گروہ ایسا بھی ہے کہ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ احادیث و روایات منجملہ نہج البلاغہ میں تحریف واقع ہوئی ہے ان لوگوں کا اصرار ہے کہ ہماری بعض روایتیں اسرائیلیات کا جزئ ہیں یا جھوٹ، و افترائ و بہتان ہیں. جن کی آئمہ کی طرف نسبت دی گئی ہے اور چونکہ حضرت امیر کا عورتوں کے بارے میں کلام بھی حقیقت سے دور ہے لہذا کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بھی تحریف واقع ہوئی ہے نتیجہ یہ کہ اس نظریہ کے مطابق بھی نہج البلاغہ کے کلام کو تربیتی لحاظ سے اپنے لئے نمونہ عمل قرار نہیں دے سکتے .کیونکہ تحریف شدہ اور غلط حدیثوں پر مشتمل اور ناقابل تشخیص کلام ہے
5 جس دین میں اس قسم کی تعبیریں ہوں وہ تہذیب و تمدن سے خالی ہے: ایک اور گروہ جو زیادہ روی کا شکار ہے اور ایک خاص غرض سے اس کلام کو دیکھتا ہے، اس کی نطر میں (معاذ اللہ) حضرت علی کی یہ تعبیریں اسلام کی پسماندگی اور دقیانوسی اور تھذیب و تمدن سے دورہونے کی علامت ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر چہ اسلام اپنے زمانے میں ایک ترقی یافتہ اور انسانی دین مانا جاتا تھا لیکن آج کل کے دور میں ذہنوں میں ایجاد ہونے والے سوالات اور مشکلات کو ہر گز حل نہیں کر سکتا .لہذا ہمیں چاہیے کہ جو دین ہمارے اصولوں سے دور ہو اس سے ہم بھی پرہیز کریں اور اس سے ہر گز کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیںپس تیسرے نظریہ کے مطابق مرد اور عورت، لڑکی اور لڑکے میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں ہر لحاظ سے برابر ہیں

چوتھا نظریہ:

عورت اور مرد کا شرافت اور کمالات میں مساوی اور برابر ہونا اس نظریہ میں گزشتہ نظریوں کے تمام مثبت نکات موجود ہیں. جب کہ یہ نظریہ منفی نکات سے خالی اور عاری ہے اس کے علاوہ یہ نظریہ قرآن و سنت سے لیا گیا ہے جس کے مطابق نہج البلاغہ میں عورتوں کے بارے میں موجود روایات سے بحث کی جاسکتی ہے

نہج البلاغہ، قرآن اور حدیث کی دوسری کتابوں میں فرق

جب ہم نہج البلاغہ کے جملات اور مولا علی کے کلام کی تحلیل کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نہج البلاغہ میں اور قرآن کریم میں اور اسی طرح نہج البلاغہ اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بہت زیادہ فرق ہے. کیونکہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں ہر چیز کا ذکر ہوا ہے اور اکثر آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اگر ایک آیت مجمل و مبہم ہو تو دوسری آیتوں کے ذریعہ اسے سمجھا جا سکتاہے لیکن نہج البلاغہ میں مولا علی کا پورا کلام جمع نہیں کیا گیا ، بلکہ اس کابہت ہی کم حصہ اس میں موجود ہےاس بنا پر ہم نہیںکہہ سکتے ہیں کہ نہج البلاغہ میںامام علی کے تمام نظریات موجود ہیں لہذا ممکن ہے کہ نہج البلاغہ میں ایک موضوع کا ایک ہی حصہ بیان ہوا ہو اور دوسرے حصے پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو اور وہ مسائل اب بھی پردہ ابہام میں باقی ہوں نہج البلاغہ کا دوسری کتابوں کے ساتھ یہ فرق ہے کہ حدیث کی کتابوں میں احادیث مضمون اور ابواب کی بنیاد پر جمع کی گئی ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ ایک موضوع کے بارے میں تمام روایتوں کو جمع کیا جائے تا کہ اس کا مطلب کامل اور واضح ہوجائے یہ کام آئمہ کے شاگردوں کے ذریعہ انجام دیا گیا ہے لیکن صد حیف کہ امیر المومنین کے کلام اور حدیثوں کو بنی امیہ کے خلفائ نے ہر گز ثبت و ضبط نہیں ہونے دیا اور جو کچھ ہم تک پہنچا وہ سینہ بہ سینہ تھ اسی بنا پر بعض روایتیں لوگوں نے حفظ کر کے ہم تک پہنچائیں لیکن یہ وہی روایتیں تھیں جو لوگوں کے ذوق و سلیقہ کے مطابق تھیں اور انہیں پسند تھیں. پس انہوں نے اس عظیم مقدار میں سے مختصر سا حصہ حفظ کیا اور عورتوں کے بارے میں بعض روایتیںجو عورتوں کے منفی پہلووں کو ذکر کر رہی تھیں اور اس زمانے کا کلچر بھی ایسی روایتوں کو پسند کرتا تھا ،لہذا انہوں نے صرف یہی جملات اور عبارتیں حفظ کیں اور باقی کو چھوڑ دی

نہج البلاغہ کے کلام میں خوبصورتی اور فصاحت و بلاغت کا معیار ہونا

نہج البلاغہ کی تحقیق و تحلیل کرتے وقت ایک نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ سید رضی نے امیر المومنین کے کلام کو خوبصورتی، خوش بیانی اور فصاحت و بلاغت کی بنیاد پر اس کتاب میں جمع کیا ہے نہ کہ کسی خاص مفہوم یامعنی کو بیان کرنے کیلئے اسی وجہ سے بعض اوقات حضرت امیر کے کلام میں کچھ چیزیں حذف کی گئی ہیں جن کی وجہ سے کلام کا معنی بدل جاتا ہے یا ناقص رہ جاتا ہے دوسرے لفظوںمیں سید رضی نے آئیڈیالوجی اور عقیدتی سسٹم کو بیان کرنے کیلئے حضرت امیر کا کلام جمع نہیں کیا ہے بلکہ ان کا مقصد صرف فصاحت و بلاغت والی عبارتیں جمع کرنا تھمثلاً کسی خطبہ سے پہلے یا درمیان میں ’’و منھا‘‘ لایا گیا ہے جو واضح طور پر تقطیع حدیث پر دلالت کرتا ہے بعض اوقات تو ’’ومنھا‘‘ بھی ذکر نہیں ہوا ہے لیکن اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے کا باقی حصہ حذف کیا گیا ہے نہج البلاغہ کا خطبہ نمبر80 بھی اسی کا ایک نمونہ ہے جو عورتوں کے بارے میں ہے اور یہ خطبہ حمد و ثنا اور کسی مقدمہ کے بغیرذکر کیا گیا ہے جس سے اس کا نقص ظاہر ہو جاتا ہے اور معنی میں بھی خلل وارد ہوتا ہے

نہج البلاغہ کا قرآن اور دوسری کتابوں سے مقایسہ

یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ نہج البلاغہ کی سند اور اس کا اعتبارپوری کتاب کے لحاظ سے صحیح ہے لیکن اس کا ہر جملہ معتبر ہو، اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور ممکن ہے کہ کوئی ایسا بھی جملہ ہو کہ جس کی سند دوسرے کلام کی بہ نسبت معتبر نہ ہو یا اس ایک جملے میں تحریف واقع ہوئی ہو اور پھر ایک کلمہ کے تبدیل یا تحریف یا عبارت کے حذف ہونے سے یا دوسروں کے کلام کو مولا علی کی طرف نسبت دینے سے اس کا پورا معنی اور مفہوم بدل گیا ہو لہذا ایسے موارد کو آیات و روایات کے ذریعہ مقایسہ کر کے بیان اور واضح کرنا چاہیے اور اس کی سند کی تحقیق کرنی چاہیے مثلاً ایک بہترین مثال ہمارے پاس موجود ہے جو آج کل کی چھپی ہوئی نہج البلاغہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے جناب محمد دشتی کی نہج البلاغہ میں عبارت اس طرح ذکر کی گئی ہے ’’یآتی علی الناس زمان فعند ذلک یکون السلطان بمشور النساء‘‘ یہ عبارت بیان کرتی ہے کہ ایسا برا وقت آئے گا جب حکمرانوں کی مشیر عورتیں ہوں گی‘‘. فیض الاسلام کی نہج البلاغہ میں آیا ہے ’’بمشور الاماء کنیزیں حکمرانوں کی مشیر ہوں گی‘‘(9) ان دونوں کلموں کی وجہ سے معنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے

نہج البلاغہ کے فصیح و بلیغ پہلووں پر توجہ کرنا

نہج البلاغہ میں کلام امیر المومنین کی تحقیق کرتے وقت اس کے ادبی، فصاحت و بلاغت اور معنی و بیان پر توجہ کرنی چاہیے کیونکہ بعض اوقات خاص افراد مراد ہیں لیکن عام لفظ استعمال کیا گیا ہے یا عام لوگ مراد ہیں لیکن خاص افراد یا خاص زمانہ،اور وقت وغیرہ کو مخاطب قرار دیا گیا ہے اسی اصول کی بنا پر نہج البلاغہ میں بعض اوقات عبارتیں تمام عورتوں کے متعلق ہیں لیکن توجہ کرنی چاہیے کہ اس میں کون سا گروہ اور کون سا ادبی پہلو مرادہے اگر عورتوں کی ذات کے بارے میں ایک حکم بیان ہوا ہے تو تمام عورتوں کی ذات مراد نہیں ہے بلکہ یہ ثانوی حالت ہے کہ یہ زمانے کی قدرتی و طبیعی شرائط، اس وقت کے رسم و رواج اور عورتوں کے مستضعف ہونے کی بنا پر بعض عبارتیں خاص عورتوں کے متعلق ہیں. بعض عبارتیں حضرت علی کے زمانے کی عورتوں کے متعلق (وہ بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق) اور بعض ہر زمانے کی خواتین کے متعلق ہیں. البتہ بعض عبارتیں ایسی بھی ہیں جو ہر زمانے کی عورتوں کے بارے میں ہیں جیسے ’’المر ریحان ، لیست بقهرمان‘‘

عربی عبارتوں کے ترجمہ میں غور و فکر کرنا

نہج البلاغہ کا مطالعہ کرتے وقت یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ نہج البلاغہ اور عربی کلام کے بعض کلمات اورہماری زبان کے الفاظ مشترک ہیں جبکہ ان کے معنی میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے مثلاً ایک کلمہ عربی زبان میں ایک معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن اردو یا فارسی میں دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا توجہ کرنی چاہیے کہ یہ لفظ عربی میں کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟ مثلاً خطبہ نمبر80 میں ’’عورتوں میں نقص ایمان، نقص عقل اور نقص ارث استعمال ہوا ہے عربی میں نقص سے مراد کم حصہ پانا، یا کم نصیب ہوناہے جبکہ اردو یا فارسی میں نقص سے مراد عیب وغیرہ ہے جو کہ بالکل غلط ہے مثلاً اس حدیث ’’اذا تمّ العقل نقص الکلام‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب عقل کامل ہو جائے تو اس کے کلام میں عیب پیدا ہوجاتا ہے یا وہ باتیں نہیں کر سکتا بلکہ مراد کم باتیں کرنا ہے پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا ایمان یا عقل ناقص نہیں ہے بلکہ وہ اس سے کم استفادہ کرتی ہے کم استفادہ کرنا، کم فائدہ اٹھانا، عقل میں عیب پائے جانے کے برعکس ہے، کیونکہ یہ عورت میں فطری عمل ہے اور خود اس کی ذات کی مصلحت، معاشرے کی ضرورت، اس کی خلقت و پیدائش اور اس کے کردار اور نقش کے مطابق ہے اسے معاشرے میں آنے والی نسلوں کی تربیت اور پرورش کرنی ہے اور اس کیلئے مہرو محبت اور شفقت کی ضرورت ہے اور عورتیں دریائے عشق و محبت اور عطوفت و مہربانی میں غرق ہوتی ہیں. بعض اوقات ان ہی کی وجہ سے ایسے مقامات پر کہ جہاں زیادہ عقل و درایت کی ضرورت ہے مثلاً جج کی کرسی پر مجرم یا بے گناہ کے بارے میں فیصلہ سنانا، اگر احساس نرم دلی ان پر غالب آجائے تو اس بے گناہ کو ناحق سزا مل سکتی ہے اور مجرم آزاد ہو سکتا ہے اسے کہتے ہیں کہ عورت ناقص العقل ہے یعنی اس نے اپنی عقل سے کم فائدہ اٹھایا اور اس پر محبت اور مہربانی کا احساس غالب آگیا ،اور یہ احساس اکثر عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے اور ان میں ایک فطری ضرورت ہے. اگر چہ زمانے کے مطابق قابل تغییر و تبدل بھی ہے البتہ تاریخ میں ایسی خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے کہ جنھوں نے عطوفت و مہربانی کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی عقل سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے لیکن اس کیلئے ایک صحیح ثقافت اور پروگرام، نیز تربیت کی ضرورت ہے اور بہت کم عورتیں اس مقام پر پہنچتی ہیں
اس خطبے میں نقص عقل یا نقص ایمان ذکر ہوا ہے، یہاں پر فلسفہ کی اصطلاح میں ’’عقل مدرک کلیات‘‘ یا روایات کی رُو سے ’’وہ عقل کہ جس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کر کے اس کی عبادت کی جاتی ہے‘‘ مراد نہیں ہے بلکہ اسے اندازہ اور موازنہ کرنے والی عقل کہہ سکتے ہیں اور عام طور پر عورتیں روحی اور عاطفی مناسبات کی بنا پر خاص مقامات پر خطا و اشتباہ کی مرتکب ہوجاتی ہیں. لہذا کہا گیاہے: ’’گواہی میں مرد کے دو برابر ہوں‘‘. یہ عقل کے نقص کیلئے مثال پیش کی گئی ہے لیکن اس سے عورت کے کمالات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی فقط عدالتی مسائل میں کسی کا حق پائمال نہ ہو. اس میں دقت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نقص ایمان میں بیان کیا گیا ہے: ’’عورتیں مخصوص ایام میں عبادت سے محروم ہیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ عبادت سے کم استفادہ کرتی ہیں. حضرت علی دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: ’’ایمان کے تین رکن ہیں، ان ہی تین ارکان میں سے ایک رکن ہے’’ عمل ‘‘. کہ جس میں عورتیں مردوں کی نسبت کم فائدہ اٹھا سکتی ہیں.لہذا ان کے ایمان میں نقص (یعنی کم استفادہ کرنا) پیش آتا ہے اور یہ ایک فطری امر ہے جسے گناہ نہیں کہا جاسکتا .لیکن ہر صورت میں وہ عبادت سے محروم رہ جاتی ہیں جب کہ باقی روایات کی بنا پر ان دنوں میں اگر عورت جائے نماز پر بیٹھ کر تسبیح و ذکر کہے تو اس نقص کی تلافی بھی کی جا سکتی ہے

مذمت کیوں اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟

قرآن کریم، نہج البلاغہ یا حدیثی کتابوں میں انسانوں کے مختلف گروہوں اور اصناف کے بارے میں مذمت وارد ہوئی ہے لیکن جب ہم توجہ کرتے ہیں تو یہ سرزنش اور مذمت، آگاہی اور معرفت وغیرہ کی وجہ سے کی جاتی ہے یعنی خدا چاہتا ہے کہ انسانو ں کو ابتدائی خطرات اور آفات سے محفوظ رکھے اور رشد و کمال کی طرف ترغیب دلائے قرآن مجید میں موجود تعبیریں جیسے ’’انسان عجول، ظلوم، کفور، ھلوع ہے ‘‘ .انسان کی ابتدائی خلقت اور طبیعت، صحیح تربیت اور پرورش سے پہلے ایسی ہی ہے اور یہ انسانی گروہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے مثلاً ’’جوان ناپختہ اور جاہل ہے‘‘ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ جوانوں کی ہتک حرمت کی جارہی ہے بلکہ انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ اپنا خیال رکھیں اور ہوشیار رہیں اور دوسرے لوگ بھی ان سے حد سے زیادہ امید نہ رکھیں

نہج البلاغہ کو قرآن اور سیرہ اہل بیت کے معیارپر تولنا

نہج البلاغہ میں حضرت علی کے کلام کو سمجھنے اور مطمئن ہونے کیلئے اس کا قرآن سے موازنہ کریں اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کریں اور اگر اس کے خلاف ہو تو اس جملے کے صحیح ہونے میں شک کریں مثلا قرآن میں عورت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
’’یا ایها الناس اتقوا ربّکم الذی خلقکم من نفسٍ واحد؛
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک حقیقت سے خلق کیا ہے‘‘(10)
دوسری جگہ قرن مجید، عورت اور مرد کے عمل اور اس کی قیمت کو مساوی قرار دیتا ہے:
’’من عمل صالحاً من ذکر او انثی و ھو مومن فولئک یدخلون الجنّ یرزقون فیھا بغیر حساب؛ جس نے عمل صالح انجام دیا چاہے مرد ہو یا عورت جبکہ مومن ہو تو یہ جنت میںداخل ہوگئے اور وہاں بے حساب روزی پائیں گے‘‘(11)
یہی قرآن حضرت مریم اور حضرت آسیہ کو مومنوں کیلئے نمونہ قرار دیتا ہے(12) اگر عورتیں ناقص الایمان ہوتیں تو پھر مومنوں کیلئے نمونہ اور اسوہ قرار نہ پاتیں اسی طرح آئمہ ، حضرت سیدہ علیہا السلام کو اپنے لیے حجت قرار دیتے ہیں اگر نقص ایمان کا مسئلہ ہوتا تو آئمہ کی نظر سے ہر گز دور نہ رہتا اور وہ اس طرح سے ایک خاتون کو اپنے لیے حجت اور نمونہ قرار نہ دیتے.

عورت کا شر ہونا مرد کی نسبت سے ہے

پہلے نظریہ میں کہا گیا ہے کہ عورت شر ہے، اگر مانا بھی جائے تو بھی عورت کی یہ صفت ذاتی نہیں ہے بلکہ ایک نسبی شئے ہے کبھی کبھار ایک چیز شر نہیں ہوتی لیکن دوسری چیز کی بہ نسبت شر بن جاتی ہے اور دوسری چیز کی وجہ سے اس میں یہ حالت پیدا ہوجاتی ہے مثلاً حضرت علی نے عورت کو عقرب سے تشبیہ دی ہے کہ جس کے انتخاب سے انسان ناگزیر ہے اور اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مرد عورتوں کی طرف جذب اور مائل ہوتا ہے. لہذا عورتوں کا ایک اجتماع میں حضور مردوں کیلئے شر ہے اور اگر مرد ،ان سے تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کے کمال اور ترقی میں رکاوٹ پیش آتی ہے اور رکاوٹ بننا عورت کو مرد کی بہ نسبت شر قرار دیتا ہے جبکہ ابتدائی اور فطری امر میں ان کا تعلق اور واسطہ حیوانی اور حیاتی ہے ہاں اگر یہ اپنے تعلق کے ساتھ معنویت، کمال اور سعادت کو بھی مد نظر رکھیں ، صحیح تربیت اور صحیح پروگرام کے ساتھ آگے بڑھیں تو یہ دونوں کیلئے شر کے بجائے خیر و برکت کا بہترین وسیلہ ہے

صفات حسنہ کے لحاظ سے عورت اور مرد میں فرق

عام طور پر اخلاقی فضیلتوں کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں فرق پایا جاتا ہے اور ان کے مصادیق بھی مختلف ہوتے ہیں لیکن بعض صفات ایسی بھی ہیں جو مردوں میں بری مانی جاتی ہیں لیکن عورتوں میں اچھی شمار کی جاتی ہیں یا بر عکس .اور یہ ان کے روحی شرائط، ان کے نقش و کردار یا فطری شرائط کے تحت ہوتا ہے حضرت علی فرماتے ہیں:
’’خیار خصال النساء شرار خصال الرجال:الزهو والجبن والبخل؛ فاذاکانت المر مزهو لم تکن من نفسها واذا کانت بخیل حفظت مالها و مال بعلها واذا کانت جبان فرقت من کل شیئ یعرض لها‘‘؛
عورتوں کی بہترین خصلتیں مردوں کی بدترین خصلتیں ہیں: تکبر،ڈر اور بخل؛ جب عورت متکبر اور مغرور ہو تو (شوہر کے سوا)کسی کے سامنے نہیں جھکے گی اور جب کنجوس ہوتو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور جب ڈرپوک اور بزدل ہوتو جس چیز سے اسے نقصان پہنچنے کا ڈر ہو، اس سے دوری اختیار کرے گی(13)

عورت اور مرد کے وظائف اورذمہ داریاں

ہر عورت اور مرد کو اس کی خلقت کے مطابق خاص ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں کیونکہ دونوں کی اپنی خصوصیات اور صفات ہیں ؛لہذا ہر ایک کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے میدان جنگ میں معرکہ آرائی اور جہاد مرد کے ذمہ ہے اور یہ کام عورتوں کی لطافت، نزاکت اور ظرافت کی وجہ سے ان کی طاقت سے باہر ہے اس کے بدلے میں حضرت علی فرماتے ہیں: ’’جهاد المرأةحسن التبعل‘‘؛یعنی : ’’عورت کا جہاد، اچھی شوہر داری ہے‘‘(14) یعنی جس طرح ایک مرد محاذ جنگ پر سختیاں برداشت کرتا ہے اور اس کا جہاد اس کے اجر و کمال کا سبب بنتا ہے اسی طرح عورت بھی اپنے شوہر کا اخلاق اورگھریلو پریشانیاں اور سختیاں برداشت کر کے اس مجاہد کے اجر وکمال کی مستحق قرار پاتی ہے
خلاصہ یہ کہ حضرت علی نے عورت کو کمالات کے لحاظ سے مرد کے برابر درجہ دیا ہے اور اگر فرق ہے بھی تو وہ فطری اور قدرتی اور پیدائشی لحاظ سے ہے اس کے نقش و عمل میں فرق ہے نہ کہ اس کے اجر و پاداش اور کمالات میں، اور دوسری طرف اگر عورت میں نقص عقل ہے تو مرد میں بھی نقص عشق و محبت ہے .بلکہ یہ ایک کمال ہے اور اگر کسی عورت میں یہ عطوفت و عشق اور محبت کا عنصر نہ پایا جائے تو وہ فطری لحاظ سے ناقص ہوگی ورنہ یہ اس کیلئے عین کمال ہے اور اگر یہی چیز ایک مرد میں پائی جائے تو اس کیلئے نقص اور عیب شمار ہوگبہرحال یہ فطری امور میں سے ہے اور عورت کی ذات میں اس سے کمی واقع نہیں ہوتی ہے

حوالہ جات
1 تربیت اسلامی، ص90
2 علی انصاریاں، الدلیل، ص1045
3 نہج البلاغہ، حکمت238
4 شرح نہج البلاغہ، ابن ہیثم بحرانی؛ج5، ص361
5 بہج البلاغہ،دشتی، حکت61
6 بحار الانوار، ج1
7 4 وسایل الشیعہ،ج2، ص64
8 نہج البلاغہ،خطبہ80
9 نہج البلاغہ، حکمت:98
10 نسائ1
11 مومن40
12 تحریم11
13 نہج البلاغہ،حکمت234
14 نہج البلاغہ، حکمت136