آپ کو کتنا وٹامن ڈی درکار ہے؟
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر علاقوں میں موسم سرما کی آمد کے باعث سورج کی چمک دمک ماند پڑ گئی ہے۔
دھوپ نہ یا کم ہونے سے محض ماحول ہی سرد و ویران محسوس نہیں ہوتا بلکہ انسان ذہنی وجسمانی طور پہ پژمردگی اور اضمحلال کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔
وجہ یہ کہ دھوپ اسے ایک اہم غذائی عنصر، وٹامن ڈی فراہم کرتی ہے۔ چونکہ انسانوں کو دھوپ وافر نہیں ملتی، اس لیے جسم میں وٹامن ڈی بھی کم پیدا ہوتا ہے۔ اس کی کمی سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور وہ جسمانی و ذہنی طور پہ ناتوانی محسوس کرتا ہے۔ نیز یہ ڈپریشن دور کرنے میں بھی معاون بنتا ہے۔
وٹامن ڈی 1922ء میں امریکی معالج، ایلمر میکولم (Elmer McCollum)نے کاڈ لیور آئل میں دریافت کیا تھا۔ تاہم وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ دھوپ بھی انسانی جسم میں یہ حیاتین پیدا کرتی ہے۔ یہ سچائی بعد ازاں دیگر ماہرین کی تحقیق وتجربات سے سامنے آئی۔
ابتدا میں اس حیاتین کو ’’سوکھے کی بیماری‘‘ (rickets)کا شافی علاج قرار دیا گیا۔ یہ بچوں کو لاحق ہونے والا مرض ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی سے ہڈیاں کمزور ونرم ہو جاتی ہیں۔ یوں بچہ معذوری کے عالم میں زندگی گزارتا ہے۔
اکیسویں صدی کی آمد پر امریکی و یورپی طبی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ انسان اگر وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہ لے تو وہ کینسر، امراض قلب، ذیابیطس، بھلکڑ پن (dementia)، ڈپریشن، خودمناعتی بیماریوں (autoimmune diseases) ، فریکچر، سانس کی بیماری اور پارکنسن مرض جیسی خطرناک کیفیات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
عرش سے فرش تک
یوں یہ عام سا حیاتین اچانک وٹامنوں کی دنیا میں ’’سپرمین‘‘ بن گیا۔ ماہرین اس کی خصوصیات بیان کرتی کتب لکھنے لگے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار لینے سے انسان ذہنی و جسمانی طور پہ تندرست اور کئی موذی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔اس حیاتین کو ’’کرشماتی‘‘اور ’’انقلابی ‘‘کہا گیا۔
مغربی ڈاکٹروں نے دنیا کے سبھی انسانوں کو مشورہ دیا کہ وہ دھوپ سے یہ حیاتین حاصل کریں۔ کسی وجہ سے نہ پا سکیں تو کوڈ لیور آئل استعمال کریں یا پھر گولیوں اور غذائی سیپلیمنٹوں کی صورت لیں۔ اس طرح وٹامن ڈی فراہم کرنے والی طبی صنعت نے جنم لیا جس کی مالیت اگلے دو عشروں میں کئی ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
وٹامن ڈی کے گرد مغربی طبی سائنس دانوں نے طاقت و قوت کا جو طلسماتی ہالہ تان دیا تھا، پچھلے چند برسوں سے مگر وہ جدید تحقیق کے نتیجے میں کافور ہو چکا۔ وجہ یہ ہے کہ جب ڈاکٹروں نے کئی امراض دور کرنے کے لیے بطور تجربہ وٹامن ڈی مردوزن کو استعمال کرایا تو ہر تجربے کے نتائج مایوس کن برآمد ہوئے۔
معنی یہ کہ وٹامن ڈی بیشتر امراض دور کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح یہ تصّور کہ محض وٹامن ڈی باقاعدگی سے لینے پر انسان ذہنی وجسمانی طور پہ تندرست وتوانا رہے گا، ایک سراب معلوم ہونے لگا۔
اہم غذائی عنصر
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ وٹامن ڈی ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ ہمارا جسم اسی کی مدد سے غذاؤں سے حاصل شدہ کیشیم اور فاسفورس ہڈیوں اور دانتوں میں جذب کرتا ہے۔
یہ دونوں معدن ہی ہماری ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوطی و استحکام فراہم کرتے ہیں۔ گویا ہڈیوں اور دانتوں کی تندرستی کے لیے یہ حیاتین اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور جیسا کہ بتایا گیا، یہ ہمارے مدافعتی نظام کو بھی مضبوط بناتا ہے۔نیز ہمیں ڈپریشن سے بھی بچاتا ہے۔
یہی وجہ ہے، جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو جائے تو انسان تھکن اور عضلات میں درد محسوس کرتا ہے۔ہڈیوں میں تکلیف رہنے لگتی ہے۔ٹانگوں اور کولھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خصوصاً موسم سرما میں ایسی غذائیں اعتدال سے استعمال کریں جن میں وٹامن ڈی موجود ہوتا ہے۔ مثلاً چکنی مچھلی، کاڈ لیور آئل اور گوشت۔
وٹامن کتنا لیں؟
جدید تحقیق کی رو سے ایک سال کے بچے سے لے کر بالغ انسانوں تک کو روزانہ ’’دس مائکروگرام‘‘ وٹامن ڈی درکار ہوتا ہے۔اس میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک سال تک کے بچوں کو ’’ساڑھے آٹھ سے دس مائکروگرام‘‘ یہ وٹامن چاہیے ہوتا ہے۔ یاد رہے، ایک ملی گرام ایک ہزار مائکروگرام کے برابر ہے۔
اگر آپ کسی وجہ سے غذاؤں کے ذریعے مطلوبہ وٹامن ڈی حاصل نہ کر سکیں تو غذائی سیپلیمنٹ لے سکتے ہیں۔ کئی ایسے سیپلیمنٹوں میں اس وٹامن کی مقدار مائکروگرام نہیں انٹرنیشنل یونٹس یعنی آئی یو (IU)میں بتائی جاتی ہے۔ ایک مائکروگرام چالیس آئی یو کے برابر ہے۔ گویا بالغ انسان کو روزانہ چار سو آئی یو وٹامن ڈی درکار ہوتا ہے۔
دھوپ میں کتنی دیر رہیں؟
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سفید رنگت رکھنے والا انسان اگر دس پندرہ منٹ دھوپ میں بیٹھ جائے تو اسے روزانہ کی وٹامن ڈی کی مقدار حاصل ہو جاتی ہے۔ سیاہ رنگت والے کو کم از کم آدھا گھنٹہ دھوپ میں بیٹھنا چاہیے تاکہ اس حیاتین کی مطلوبہ مقدار پا سکے۔
یہ واضح رہے کہ زیادہ دیر دھوپ میں بیٹھنا نقصان دہ ہے۔ وجہ یہ کہ سورج کی شعاعیں مضر ِصحت اثرات بھی رکھتی ہیں۔ لہٰذا دھوپ میں طویل عرصے رہا جائے تو انسان جلد کے کینسر کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح سورج کی طرف براہ راست بھی نہ دیکھیے کہ یہ عمل آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اب ماہرین طب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دودھ پینے والے نوزائیدہ بچوں اور مخصوص بیماریوں کا شکار انسانوں کے علاوہ عام لوگ دھوپ و غذاؤں سے شافی وکافی وٹامن ڈی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی لیے انھیں بذریعہ گولی و سیپلیمنٹ یہ حیاتین لینے کی ضرورت نہیں۔ مگر جن لوگوں کو اس وٹامن کی کمی کا سامنا ہے، بہتر ہے کہ وہ غذائی سیپلیمنٹ استعمال کریں تاکہ یہ کمی دور ہو سکے۔
وٹامن زیادہ لے لیا تو؟
جدید تحقیق کی روسے انسان کو دن میں زیادہ سے زیادہ ایک سو مائکرگرام وٹامن ڈی ہی لینا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ انسان طویل عرصے زیادہ مقدار میں یہ حیاتین لیتا رہے تو اس کے جسم میں ضرورت سے زیادہ کیلشیم جمع ہو جاتا ہے۔ یہ حالت طبی اصطلاح میں ’’ہائپرکالسیمیا‘‘ (hypercalcaemia) کہلاتی ہے۔اس عارضے کے باعث نہ صرف ہماری ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں بلکہ دل اور گردوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔