اقتصاد اور مواھب فطرت سے بھرہ اندوزی کا مسئلہ ان اھم ترین مسائل میں سے ھے جو ھمیشہ حیاتِ بشر کے ساتھ رھے ھیں ۔شروع ھی سے بشر کی ابتدائی ضرورتیں بھی زندگی بشر کے ساتھ وابستہ رھی ھیں ۔البتہ یہ ضرور ھوتا رھا ھے کہ زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ ان میں بھی تغیّر و تبدّل ھوتا رھا ھے۔قدیم زمانوں میں کسب معاش اور فطرت سے استفادہ بھت ھی سادہ اور ابتدائی طریقے سے ھوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ لوگوں کی ملی جلی زندگی اور ملتوں کی ترقی کی وجہ سے کسب معاش اور یہ استفادہ مخصوص طریقے پر ھونے لگا ۔ تقریبا چار سو سال پھلے یعنی سرمایہ داری کے ابتدائی زمانے سے حیات اقتصادی کی تحلیل و تجزیہ کے عنوان پر علم اقتصاد کی بنیاد پڑی ۔
آخر ی صدی میں تمدن کی حیرت انگیز ترقی ، ٹیکنالوجی و صنعتی ترقی کے انقلاب، وسائل ارتباط کی ترقی و تکامل اورملتوں کی بالغ نظری کی وجہ سے علم اقتصاد معاشرے کا اھم ترین مسئلہ بن گیا اور اسی وجہ سے مشرق و مغرب کے دوبلاک بن گئے نیز سرمایہ داری و کمیونزم کے دو الگ الگ نظریئے قائم ھو گئے ۔ مشرق و مغرب کی ساری کشمکش کے پھیّے اسی محور پر گھوم رھے ھیں کہ آخر بشری اقتصاد کا معمّہ کس طرح حل ھو گا ؟ اور ایسا کونسا اقتصادی سسٹم ھو سکتا ھے جو آج کے مشینی دور کے اقتصاد کی گرہ کشائی کر سکے ؟ ایسا کون سا طریقہ ھو سکتا ھے جس سے عوامل تولید کے درمیان ثروت کی عادلانہ تقسیم ھو سکے ۔؟
دنیا کے مفکرین نے طبقاتی نظام کے عظیم شگاف کو پُر کرنے کے لئے جوا ھم طریقہ سوچا ھے وہ ایک تو یہ ھے کہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کر دیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ھے کہ کم سے کم عمومی معیشت کی ذمہ داری ھو سکے ۔ مارکسیزم کا نظریہ بالکل ھی انقلابی ھے ۔انقلاب اکتوبر کے بعد سے روس میں اس نظرئیے پر عمل شروع کیا گیا اور دوسرا طریقہ مختلف عنوان سے یورپی ممالک کے اکثر ملکوں میں لاگو کیا جا رھا ھے ۔
مختلف مکاتب فکر کا نظریہ
دعویٰ ھے کہ وہ استعمار کے ظلم و ستم کو ختم کر سکتا ھے اور دنیا کی مشکلات کا حل پیش کر سکتا ھے ۔ کمیونزم کے نزدیک فردی ملکیت کو ختم کر کے حکومت کو کلی اقتدار سونپ دینا ھی اقتصادی مشکلات کا حل ھے ۔ کمیونزم کا عقیدہ ھے کہ تاریخ کے تمام ادوار میں شخصی ملکیت کا ظلم و ستم سے ھمیشہ چولی دامن کا ساتھ رھا ھے ۔ اس لئے سرمایہ داری کو ختم کر کے تمام وسائل تولید کو قومیا لینے اور ثروت کی عادلانہ تقسیم کرنے سے اقتصادی مسئلہ حل ھو سکتا ھے اور سرمایہ داری کو ختم کر کے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا جا سکتا ھے ۔ تب کھیں جا کے ایک ایسے معاشرے کا وجود یقینی ھو سکتا ھے جس میں صرف ایک ھی طبقہ ھو اور تمام لوگ اپنے امور میں ھم آھنگ ھوں ۔
یھاں پر ایک سوال کیا جا سکتا ھے کہ ایک طبقہ ھونے کے لئے کیا صرف ایک عامل کا یکساں کر دینا کافی ھو جائے گا حالانکہ طبقاتی نظام کے وجود کی علتیں مختلف ھوا کرتی ھیں تو پھر ایک علت میں یکسانیت سے یہ بات کیونکر ممکن ھو گی ؟ کیونکہ یہ طبقے کبھی توعسکری ،کبھی مذھبی اورکبھی سیاسی اسباب کی وجہ سے پیدا ھوتے ھیں لھذا ایک طبقہ بنانے کے لئے تمام مختلف عوامل میں یکسانیت پیدا کرنی ھو گی اور یہ بات سب ھی جانتے ھیں کہ سوشلزم میں اگر چہ سرمایہ دار طبقہ کا وجود نھیں ھے مگر مختلف نام سے مختلف طبقے بھرحال موجود ھیں ۔ مثلا کاریگر ،کسان ، مزدور قسم کے طبقوں کا وجود ھے اور ان میں سے ھر ایک کی سطح زندگی ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ھے ۔ کیا روس میں ایک طبیب اور ایک مزدور کے حقوق مساوی ھیں ؟ کیا ایک معمولی مزدور کو وھی مزدوری ملتی ھے جو ایک انجینیر کو ملتی ھے ؟ نھیںھرگز نھیں ۔ ان چیزوں سے قطع نظر اندیشہ ٴافکار ،میلان طبیعت ، عطوفت ، جسمانی طاقت میںبھی ایک معاشرے کے افراد میں اختلاف ھوا کرتا ھے اور وراثتاً یہ اختلافات ھمیشہ محفوظ رھتے ھیں ۔ ایک کمیونسٹ لیڈر کھتا ھے : مطلق مساوات کی ایجاد عملا ً نا ممکن ھے کیونکہ مدرس ، مفکر ،موجد سب ھی کو ایک درجے میں نھیں رکھا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا کر دیا جائے تو اس کا نتیجہ فکری جمود اور عقلی و فنّی زندگی کے تعطل کے علاوہ کچہ نھیں ھوگا ۔(۱)
سرمایہ داری کا دعویٰ ھے کہ دنیا میں صرف کیپٹلیزم (Capitalism)ھی ایسا مذھب ھے جس سے مشینی سر گردانی کی گرہ کشائی کی جا سکتی ھے ۔ اسی لئے اس نظام ۔سرمایہ داری نے شخصی ملکیت کو ختم نھیں کیا بلکہ کام و مزدوری کے توازن کو برقرار رکھنے اور طبقاتی فاصلے کو محدود کرنے کے لئے کم از کم معیشت کو ضعیف طبقوں کےلئے مخصوص کر دیا ۔ ( ھم اس دعویٰ کو صد در صد قبول بھی کر لیں تو ان رپوٹوں کو کیا کھیئے گا جو امریکہ کے بارے میں شائع ھوئی ھیں ۔مثلا غذائی مسئلے کی تحقیقاتی کمیٹی نے مسلسل نو مھینے مطالعہ و تحقیق کر کے رپورٹ پیش کی ، کہ امریکہ میںایک کڑوڑآدمی بھوک کی تکلیف برداشت کرتے ھیں ۔ اس کمیٹی کے چیرمین نے امریکہ کے صدر جمھوریہ سے خواھش ظاھر کی کہ مسئلے کی اھمیت کے پیش نظر آپ اس کا اعلان کریں اور امریکہ کے ۲۰ صوبوں کے ۲۵۶ شھروں میں ۔ ان شھروں میں اکثر شھر خطرے میں ھیں ۔ فوراً مدد بھیجیں ۔۲۵ آدمیوں پر مشتمل کمیٹی ۔ جس کے بیانات نے امریکہ کی محفلوں میں شدید ھیجان پیدا کر دیا تھا ۔ نے ماہ جولائی سے اپنے مشن کا آغاز کر دیا ۔ اس کمیٹی نے ۔ جو والٹر ر و یٹر صدر فوجی کمیٹی کی حسب ھدایت امریکی لوگوں کی بھوک کا سدّ باب کرنے کے لئے بنائی گئی تھی ۔ والٹرر و یڑیہ وھی شخص ھے جو امریکہ کی موٹر سازی کے مزدوروں کی یونین کا صدر بھی ھے اور یھی وہ شخص ھے جس نے کمیٹی کے تمام مصارف کی ذمہ داری قبول کی ھے ۔ایک کڑوڑ امریکیوں کی گرسنگی کی علت جنگ اور دیگر مناقشات اجتماعی و سیاسی کو قرار دیا ۔ اس کمیٹی نے اپنے بیان میں یہ بھی کھا کہ جنگ کی وجہ سے یہ لوگ اب اس قابل نھیں ھیں کہ کھانے پینے کی ضروری چیزوں کو اپنے لئے بازار سے خرید سکیں ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید سفارش کی کہ حکومت امریکہ کو چاھئے کہ ان ایک کڑوڑآدمیوں کی غذائی کفالت کی ذمہ داری قبول کرے ۔ (۲)
اگر سرمایہ داری اقتصادی مسائل کا حل ھوتی تو امریکہ میں اتنے لوگ فاقہ کش نہ ھوتے ۔
کیا ان اصلاحی اقدامات نے طبقاتی فاصلوں کو ختم کر دیا ؟ کیا یہ طبقاتی اختلاف پسماندہ افراد کے دلوں میں سرمایہ داروں سے نفرت کا قوی سبب نہ ھوگا ؟ کیا یہ بیچار ے عوام ھمیشہ اسی طرح زندگی بسر کرتے رھیں گے ؟ کیا اس عظیم فاصلے کے بعد بھی ۔ جو روز بروز گھٹنے کے بجائے بڑھ رھا ھے ۔ سرمایہ داری معاشرے کی مشکلات کا حل بن سکتی ھے ؟
سوشلزم ھو یا کیپٹلیزم ، دونوں ھی نے مادی مقیاس کو انسانی زندگی کی بنیاد قرار دیا ھے ۔ یہ دونوں انسان کے اخلاقیات و معنویات کی طرف توجہ دئے بغیر صرف اقتصادی و اجتماعی مشکلات پر ریسرچ کرتے رھتے ھیں ۔ ان کی نظر میں دولت و ثروت کی زیادتی ھی اصلی ھدف اور اساسی چیز ھے۔ اس کے ماوراء کسی حقیقت کے قائل نھیں ھیں ۔
اسلام کا نظریه
اسلام نے انسان کو تمام جھات سے مورد توجہ قرار دیا ھے ۔ مادی زندگی کی اصلاح اور درستگی ، ترقی و عروج کے ساتھ ساتھ اپنے تمام احکام و قوانین میں اخلاقی فضائل اور روحانی کمال کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ھے ۔ اسلام دولت و ثروت کو اپنے فطری مقاصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیتا ھے ۔ اسلام کے اقتصادی مکتب کی خصوصیت یہ ھے کہ فکر انسانی کو ترقی دینے کے ساتھ مادی دنیا سے ماوراء ایک اور دنیا کی طرف بھی توجہ کرتا ھے ۔
مغربی دنیا کا قانون سرمایہ دار انہ نظام کی پشت پناھی کرتا ھے یعنی کاریگروں کے مقابلے میں سرمایہ داروں کے منافع کا لحاظ رکھتا ھے ۔روس میں ۔ خود روسیوں کے قول کے مطابق ۔ قانون، مالک و سرمایہ داروں کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاھتا ھے اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں کاری گروں کا لحاظ کرتا ھے لیکن نظام اسلام اور اسلامی اصول چونکہ وحی الٰھی سے ماخوذ ھیں اور انسانی قانون بنانے والوں کے افکار وخیالات کا اس میں کوئی دخل نھیں ھے ۔لھذا اسلام میں ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر ترجیح نھیں دی گئی اور نہ ایک گروہ کے مفاد کو مقدم کر کے دوسرے گروہ کے اوپر ظلم کیا گیا ھے ۔ اسلام ایسے قوانین کے مجموعے کا نام ھے جو کسی خاص گروہ کی مصلحت کی خاطر نھیں آیا اور نہ کسی مخصوص طبقے کی ھوا وھوس کا پابند ھے ۔ اسلام ایسے قوانین کا نام ھے جس کو خدائے بزرگ نے سب کے لئے بنایا ھے ۔ اسی لئے اسلام میںکسی مخصوص طبقے کی حاکمیت و فرماں روائی کا تصور نھیں ھے اور یھی وجہ ھے کہ عدالت سے انحراف کے اسباب بطور کلی اس میں نھیں ھیں ۔ اسلام کا حاکم کسی خاص گروہ یا طبقے کا نمایندہ نھیں ھے بلکہ وہ خود بھی ملت کی ایک فرد ھے ۔ اس کو یہ حق نھیں ھے کہ کسی مخصوص گروہ کو فائدہ پھنچائے یا کسی خاص طبقے کو نقصان پھنچائے ۔ اسلامی حاکم کے پاس جو اقتدار ھوتا ھے اس کا مقصد صرف اتنا ھوتا ھے کہ قانون الٰھی کو نافذ کر سکے یعنی خدائی قانون کے نافذ کرنے کے علاوہ اس کے پاس کسی قسم کی طاقت و قدرت نھیں ھے ۔
یھی وجہ ھے کہ تسلط و اقتدار سے پیدا ھونے والے تکبر و غرور سے اسلامی حاکم محروم ھوتا ھے کیونکہ وہ خود سمجھتا ھے کہ میرا تعلق سرف اتنا ھے کہ خدا وند عالم نے میرے اور تمام دنیا کے لئے جو مساوی قانون بنایا ھے اس کو نافذ کر سکوں ۔ ظاھر ھے کہ ایسی صورت میں لوگوں کو استقلال واقعی اور کامل آزادی نصیب ھو گی اور معاشرے کے افراد عدالت مطلقہ کی بناء پر سکون و اطمینان حاصل کرسکیں گے ۔
چونکہ تمام مکاتب فکر میں ضرورت سے زیادہ نقائص موجود ھیں اس لئے سب سے بھتر طریقہ یھی ھے کہ اسلام کے قوانین کو اپنایا جائے مثلاکیپٹلیزم ،یہ شخصی ملکیت کا بے قید و بند قائل ھے اور آزادی مطلق وغیرمحدود شخصی ملکیت کا پرچار کرتا ھے نیزمعاشرے کو یہ حق نھیں دیتا کہ وہ فرد کی بیجا تعدی کی روک تھام کر سکے ۔ اسلام اس کا مخالف ھے بلکہ اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے بر خلاف فرد کو لائق احترام تو ضرور سمجھتا ھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقتصادی نظام میں معاشرے کی شخصیت کوبھی وسیع مفھوم کے ساتھ قبول کرتا ھے ۔ معاشرے کے لئے بھی اساسی قدر و قیمت کا قائل ھے لیکن اسی کے ساتھ شخصی ملکیت کے قانون کو بھی نظر انداز نھیں کرتا اور شخصی آزادی کا بھی قائل ھے ۔ اسی طرح اسلام کمیونزم( جو رزق مردم کی کلید کو حکومت کے سپرد کردینے کا قائل ھے اور فرد کی قدر و قیمت اور احترام کا سرے سے انکار کرتا ھے ) کی بھی مخالفت کرتا ھے اسلام یہ کبھی نھیں چاھتا کہ لوگ حکومت کے مقابلے میں صرف ایک شکم سیر غلام کے مانند رھیں ۔کمیونسٹوں کا عقیدہ ھے کہ شخصی ملکیت فطری چیز نھیں ھے ۔ یہ لوگ بغیر کسی دلیل کے کھتے ھیں : ابتدائی دور میں شخصی ملکیت کا تصور نھیں تھا ۔ اس وقت لوگ باھمی تعاون و محبت و برادری کے زیر سایہ زندگی بسرکرتے تھے ۔ اس وقت حکومت کمیونزم کے ھاتھ تھی ۔ آج جو شخصی ملکیت کا وجود ھے یہ سب بعد کی پیداوار ھے ۔
مگر سچی بات یہ ھے کہ شخصی ملکیت اکتساب و تربیت کی محتاج نھیںھے بلکہ آدمی کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اس کا بھی وجود ھواھے اور براہ راست آدمی کی فطرت سے اس کا تعلق ھے ۔ دیگر فطری خواھشات کی طرح یہ بھی ایک پیدائشی چیز ھے ۔
فیلسین شالہ لکھتا ھے : ”اگر قلمرو مالکیت میں ایسی وسعت پیدا ھو جائے تو پھر اس کے لئے کوئی حد معین نھیں کی جاسکتی ۔ ملکیت کا دائرہ طول تاریخ میں مختلف طریقوں سے بڑھتا رھا ھے ۔ اس کی دلیل یہ ھے کہ فطرت و طبیعت انسان اور جذبھٴ مالکیت کے درمیان بھت قریبی رشتہ ھے انسان فطرتاً یہ چاھتا ھے کہ اپنی ضروریات کو اپنے اختیار میں رکھے کیونکہ جب تک ایسا نہ ھوگا وہ اپنے کو آزاد نھیں سمجہ سکتا ۔ شخصی ملکیت کی تیسری دلیل اخلاق ھے ۔ اخلاقی نقطھٴ نظر سے انسان اپنی سعی و کوشش سے جن چیزوں کو حاصل کرے وہ اس کی ملکیت میں ھونا چاھیں اور اسی شخص کی طرح اس چیز کابھی احترام ضروری ھونا چاھئے ۔شالہ اقتصادی ترقی اور اجتماعی سرمایہ کی پیداوار کی اھم ترین علت شخصی ملکیت کو سمجھتا ھے ۔چانچہ وہ لکھتا ھے : سب سے بڑی دلیل مالکیت خود معاشرے کا نفع ھے ۔ معاشرہ فرد کی محنت کا محتاج ھوتا ھے ۔ کسی بھی کام کے کرنے کےلئے ایک محرک ھونا چاھئے اور مالکیت سے بڑا کوئی محرک نھیں ھو سکتا ۔ معاشرے کا فائدہ اسی میں ھو سکتا ھے کہ لوگ کچہ نہ کچہ پس انداز کرتے رھیں یعنی اجتماعی سرمائے کے اضافے میں مدد کرتے رھیں ۔لھذا معاشرے پر لازم ھے کہ لوگوں کو پس انداز کرنے کا حق دے اور صرف مالکیت کا تصور ھی ایک ایسی چیز ھے جو لوگوں کو کام کرنے اور پس انداز کرنے پر آمادہ کر سکتی ھے ۔ ( ۳)
اسلام اور فطری تقاضا
اسلام نے اپنے قانون میں اس فطری تقاضے کا لحاظ رکھا ھے اور فطرت انسانی کے موافق ھی اپنے احکام نافذ کئے ھیں۔ صحیح اور قانونی راستے سے حاصل کئے ھوئے اموال کو اسلام شخصی مال سمجھتا ھے ۔ اسلام اس نظریہ کو تسلیم نھیں کرتا کہ شخصی ملکیت فطرتاً اور ذاتی لحاظ سے ظلم و ستم کا منبع ھوتی ھے ۔ در حقیقت اس طرز فکر کی علت یہ ھے کہ یورپی ممالک میں شخصی ملکیت اور ظلم و ستم لازم و ملزوم سے رھے ھیں ۔ ان ممالک میں وضع قانون کا حق ھمیشہ سرمایہ دار طبقے کو رھا ھے اسی لئے وھاں کے سارے قوانین ومصالح سرمایہ داری کے محور پر گھومتے ھیں ۔ لیکن اسلام میں وضع قانون کا حق صرف خدا کو ھے ،لھذا کسی طبقے کو کسی دوسرے پر تفوق کا سوال ھی نھیں پیدا ھوتااور نہ اس میں اس کا لحاظ ھوتا ھے کہ ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پھونچے اور دوسرے مخصوص طبقے کونقصان پھنچے ۔یھی وجہ ھے کہ جس زمانے میں اسلامی قانون کا نفاذ تھا اس وقت شخصی ملکیت کا وجود تھا مگر اس کے ساتھ ظلم و ستم کا شائبہ تک نہ تھا ۔
جن لوگوں نے بھت زیادہ زحمت و مشقت برداشت کر کے کارخانے قائم کئے ھیں اسلام کی نظر میں زبردستی ان سے کارخانوں کو چھین لینا جائز نھیں ھے کیونکہ یہ فعل امنیت اجتماعی اور احترام حقوق افراد، دونوں کا مخالف ھے نیز یہ فعل روح ایجاد کو ختم کر دینے والا بھی ھے ۔ ھاں اجتماعی عدالت کے تحکیم مبانی کے لحاظ سے اور اقتصادی و ملی مصالح و منافع کے لحاظ سے خود حکومت بڑے بڑے صنعتی ادارے بڑے بڑے کارخانے قائم کر سکتی ھے ۔ مختصر یہ ھے کہ اسلام کے اقتصادی نظام نے فرد و اجتماع دونوں کی حیثیت کو بنیادی طور سے مانا ھے اور حیات اقتصادی کی تنظیم اور حل مشکلات کے لئے عدالت اجتماعی کے اساس پر ایک آزاد قانون بنایا ھے جس میں فرد اور معاشرہ دونوں کے مصالح کا بھت ھی دقت نظر کے ساتھ لحاظ رکھا گیا ھے ۔ معاشرے میں شخصی ملکیت کو اساسی چیز مانا ھے اور فطرت کے تقاضوں پر لبیک کھا ھے تاکہ ھر شخص اپنی سعی و کوشش سے وسائل زندگی مھیّا کر سکے اور نفع برداری کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کرے لیکن شخصی ملکیت کو حدود و شرائط میں جکڑ دیا ھے تاکہ لوگوں پر ظلم وستم کے دروازے نہ کھل جائیںاور فرد اپنی آزادی سے غلط فائدہ نہ حاصل کر سکے ۔نیزاجتماع کے مصالح کو برباد نہ کر ڈالے ۔ یقینی طور پر ایسی قید و بند آزادی کے لئے نقصان دہ نھیں ھے کیونکہ معاشرے کی زندگی اور ایسا قانون جو ظلم و ستم سے روکے، لازم وملزوم ھیں اور اس قسم کی پابندی اجتماعی زندگی کی بقاء کی ذمہ دار ھے ۔
اسلام اور شخصی ملکیت
شخصی ملکیت کے سلسلے میں اسلام نے بے لگامی کو قطعاً محدود کر دیا ھے اور اسی کے ساتھ شخصی ملکیت کو قانونی حیثیت بھی بخشی ھے بشرطیکہ وہ مشروع اور صحیح طریقے سے حاصل کی گئی ھو لیکن اگر دولت و ثروت کو غیر فانی اور غیر مشروع طریقے سے حاصل کیا گیا ھے تو پھر اسلام اس پر تسلط کو قبول نھیں کرتا ۔ اسلام نے ظلم و تعدی ،احتکار ، قتل و غارتگری کے ذریعے سے حصول دولت پر پابندی لگا دی ھے اور اس قسم کی دولت کو خلاف شرع سمجھا ھے ۔
اسلام میں شخصی ملکیت کی بنیاد کسی بھی طرح سے سود ، احتکار ، غارت گری ، غصب ، تغلب ، رشوت ، چوری وغیرہ پر نھیں رکھی گئی ،اور کسی کو بھی حق نھیں ھے کہ ان ذرائع سے دولت جمع کرے ۔ اسلام نے مال حلال کے لئے جو قید وبند لگائی ھے اس کا قھری نتیجہ یہ ھوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو خرابی تھی اسلام میں نہ ھو سکے گی اور اسلامی معاشرہ سرمایہ داری کے ان برے نتائج سے جو نا قابل اجتناب ھیں محفوظ رھے گا ۔
آج کا موجودہ سرمایہ داری نظام شخصی مالکیت کے بر خلاف ھے ۔سرمایہ داری کے سارے نظام کا دار و مدار سود اور احتکار پر ھے کیونکہ ماھرین اقتصاد اس بات پر متفق ھیں کہ سرمایہ داری کا سسٹم شروع میںبھت سادہ اور سود مند تھا ،لیکن تغیرات کے ھاتھوں رفتہ رفتہ داخلی قرضوں پر اعتماد کرتے ھوئے موجودہ صورت میں ظاھر ھوا ھے جس طرح چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کا دیوالیہ پن ایک بڑی کمپنی کے وجود کا سبب بنتا ھے اور یہ طریقہ احتکار تک پھونچ جاتا ھے اور اس میں شک نھیں کہ سود اور احتکار سرمایہ داری کی پلید ترین بیماری ھے ۔ اسی لئے اسلام نے ان دونوں چیزوں کو ممنوع قرار دے دیا ھے ۔ یہ سود ھی تو ھے جو بے حساب دولت سرمایہ داروں کی جیب میں انڈیل دیتا ھے اور لوگوں کو محرومیت اور بد بختی سے دو چار کرتا ھے ۔
اسلام کے ذریعے پیش کردہ راہ حل
اسلام نے مختلف طبقوں میں اقتصادی توازن برقرار رکھنے کے لئے اور دولت کو ایک مرکز پر جمع ھونے سے روکنے کے لئے بھت سے طریقے ایجاد کئے ھیں ۔ چند طریقوں کا ذکر کیا جا رھا ھے ۔
۱۔ ٹیکس کا قانون مثلاً لوگوں کو جمع شدہ مال پر خمس ، زکوٰة قسم کے ٹیکس لازم قرار دئے ھیں تاکہ ھر سال مالداروں اور سرمایہ داروں کا مال گھٹتا رھے ۔
۲۔ انفال یعنی عمومی ثروت کو اسلامی حکومت کے سپرد گی میں دے دینا ، مثلا ًجنگلات ، نے زار ، چراگاہ ، بنجر زمینیں ، پھاڑ ، پھاڑوں پر اگے ھوئے درخت ، معدنیات ، موقوفات عامہ ، اموال مجھول المالک ، بغیر جنگ کئے حاصل ھونے والی زمینیں ، کفارات ، لا وارث افراد کی میراث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس قسم کی چیزیں انفال ( ثروت عمومی ) کھلاتی ھیں ۔ اگر چہ ان میں کی کچہ چیزیں رسول(ص) یا امام علیہ السلام سے مخصوص ھیں مگر وہ حضرات ان کے منافع کواپنے اوپر نھیں خرچ کر تے تھے بلکہ رفاہ عام میں صرف کرتے تھے ۔
۳۔ میراث کا قانون بھی ایک ایسی چیز ھے جو دولت کو متحرک رکھتی ھے اور ھر نسل پر دولت تقسیم ھوتی رھتی ھے ۔
۴۔ اضطراری حالت یعنی شخصی مالکیت کا احترام اسلام اسی وقت تک کرتا ھے جب تک اجتماع کسی خطرے سے دوچار نہ ھو اوراگر اضطراری حالت پیدا ھو گئی تو پھر عادل اسلامی حکومت مقررہ شرائط کے ساتھ اپنے اختیارات کو استعمال کر کے معاشرے کو اس خطرے سے بچائے گی ۔ مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت جس وقت بھی مقتضی ھو اور اسلامی اجتماع کا فائدہ ھو تو حکومت شخصی مالکیت میں حسب ضرورت دخل اندازی کریگی ۔اسلامی حکومت کو یہ حق اسی لئے دیا گیا ھے تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کر سکے ۔ اسلامی حاکم کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے ھاتھوں میں دولت کو جمع ھوتا ھوا دیکھے اور دوسروں کی محرومی و گرسنگی پر خاموش تماشائی بنا رھے کیونکہ یہ بات اسلامی اصول کے بالکل بر خلاف ھے ۔ آج کی مغربی دنیا میں جس قسم کی سرمایہ داری ھے اسلام اس کو صحیح نھیں سمجھتا ۔ قرآن میں ارشاد ھے : تقسیم مال کے جو طریقے ھم نے معین کئے ھیں وہ صرف اس لئے کہ تمھارے دولت مندوں کے ایک گروہ کے پاس دولت متمرکز نہ ھو جائے ۔(۴)
چونکہ اجتماع کا نقصان عین فرد کا نقصان ھے اس لئے اسلام نے دونوں کے حقوق میں کوئی تعارض نھیںھونے دیاھے ۔ اسی لئے اسلام نے شخصی ملکیت کو محترم شمار کرتے ھوئے اور انسان کی فطری خواھشات کا لحاظ رکھتے ھوئے ، نیز ان تمام باتوں کو باقی رکھتے ھوئے جن کو سرمایہ دار شخصی ملکیت کے لئے ضروری سمجھتے ھیں ، اس بات کی اجازت دی ھے کہ ضرورت کے وقت فرد کے مال سے اجتماع کو فائدہ پھنچایا جا سکتا ھے ۔
اگر چہ اسلام نے سرمایہ داری کے ظلم و ستم کو قانونی طور سے روک دیا ھے مگر پھر بھی صرف قانون بنا دینے پر اکتفا نھیں کیا بلکہ اور طریقوں سے بھی اس پر پابندی لگائی گئی ھے ۔
۵۔ سخاوت سرمائے کو متحرک کرنے کے لئے لوگوں کو راہ خدا میں انفاق و بخشش پر بھت آمادہ کیا ھے اور اس اخلاقی دعوت کو قانون سے ھم آھنگ کر دیا ھے ۔ اس سلسلے میں ایسے مضبوط دستور بنائے ھیں جو عاطفہ انسانی کے لئے شدید محرک ھیں ، ایسے محرک کہ ان کو دیکہ کر کوئی بھی شخص اپنے ھم جنس کے استحصال پر تیار ھی نھیں ھو سکتا ۔
۶۔ فضول خرچی کی مذمت ، اسلام نے ایک گروہ کے ھاتھ میں ثروت جمع ھو جانے کے جو نتائج ھوتے ھیں ( یعنی سرمایہ داری کے نتائج ) ان نتائج کی شدت سے مخالفت کی ھے تاکہ سرمائے میں جمود نہ ھونے پائے مثلا فضول خرچی ، عیاشی ، خوش گزرانی یہ چیزیں سرمایہ داری کی دین ھیں اور اسلام نے ان چیزوں سے شدت کے ساتھ منع کیا ھے ۔
۷ ۔ بخل کی مذمت ، اسی طرح بخل کی مذمت کر کے مالداروں کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی ھے تاکہ دولت و ثروت چند ھاتھوں میں منجمد ھو کر نہ رہ جائے ۔
۸۔ اجرت روکنے کی ممانعت ، اسی طرح اسلام نے شدت کے ساتھ اس بات سے بھی روکا ھے کہ خبردار مزدوروں کی مزدوری نہ روکو ، کیونکہ اس سے عمومی فقر کا اندیشہ ھے ۔ اسلام کی یہ روحی دعوت انسان و خدا کے درمیان ارتباط کاکام دے گی اور انسان کے ضمیر میں ایسے پاکیزہ احساسات پیدا ھوں گے جن کی وجہ سے انسان اخروی جزا اور رضایت پروردگار عالم کا خواھش مند ھو جائے گا اور جب یہ خواھش بڑھے گی تو اس کے حصول کے لئے تمام دولت و ثروت اور تمام لذتیں بیکار ھو جائیں گی کیونکہ بد نیتی ،حرص ، بے عدالتی ، ستم گری ، یہ ساری چیزیں قیامت پر ایمان نہ ھونے اور خالق و مخلوق کے رابطہ کے منقطع ھونے کی وجہ سے ھوتی ھیں ۔ اورجب خالق سے رابطہ قائم ھو جائے گا تو مرضی ٴ خدا کے حصول کے لئے مال بے قدر و قیمت ھو جائے گا اس کے نتیجے میں دولت میں جمود نھیں پیدا ھو گا ۔
تاریخ میں کھیں نھیں ملے گا کہ جھاں کھیں بھی عبادت الٰھی میں انحراف ھوا ھو اس کی علت آدمی کے افکار و پندار میں انحراف نہ ھو ، اور انسانوں کے آپسی روابط میں کو تا ھی نہ ھو ، یہ تو ممکن ھی نھیں ھے کہ کوئی شخص خدا سے بھت قریب ھو اور اس کے بعد وہ ظلم و ستم کا ارتکاب کرے اور دولت جمع کرنے کے لئے بندگان خدا پر ظلم و جور کرے ۔
اسلام میں فرد و اجتماع کے منافع کی نگرانی حکومت پر رکھی گئی ھے ۔ حکومت کا فریضہ ھے کہ غلط آزادی سے روکے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی قوانین کو نافذ کرے ۔ اجتماع کے اندر اخلاقی فضائل کے نشر کرنے اور نگرانی کے علاوہ بھی حکومت پر لازم ھے کہ معاشرے کو ان تمام انحرافات و پلیدگیوں سے روکے جن سے تمام افراد کا فائدہ ھو اور نتیجے میں فرد کی زندگی ایک فعال عنصر کے مثل ھو جائے ۔
اسلامی نظام جھاں سرمایہ داری بلاک کے نقصانات سے پاک و صاف ھے وھیں کمیونزم سے بھی زیادہ بھتر اور عادل تر ھے ۔ اسلام نہ تو دائیں بازو کی طرف مائل ھے اور نہ بائیں بازو کی طرف ، بلکہ سرمایہ داری اورکمیونزم دونوں سے کھیں بالاتر ھے ۔ اس میں اس کی بھی صلاحیت ھے کہ مشرق و مغرب دونوں میں توازن بر قرار رکھے ۔
ایک قابل توجہ چیز یہ ھے کہ اسلام بدیع نظام ھے ۔ اس نے دنیا کو اجتماعی عدالت کے مفھوم سے روشناس کرایا اور اقتصادی عوامل کے وزن و اعتبار کو سمجھایا ۔ اسلام کی نظر میں انسان مجبوریوں کا غلام نھیں ھے بلکہ اس دنیائے رنگ و بو میں انسان ھی تنھا فعال و مثبت قوت ھے جو اقتصاد کے جبری تحولات کا بندھٴ بے دام ھونے کے بجائے اپنے ارادے و اختیار سے اپنے اقتصاد کی بنیاد رکھتا ھے ۔ دیگر مذاھب کے مقابلے میں اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ھے کہ اس میں جبری تحول کا وجود نھیں ھے ۔
اس دور کے مفکرین و فلاسفہ کاایک بھت بڑا گروہ مثلاً ویلیم جیمس (WILLIAMJAMES)،امریکی فلسفی ھیرو لڈلاسکی (HAROLDLASKI)،جان اسٹریچی( JOHN STRACHEY)،برٹرانڈر اسل ( BERTRAND RUSSELL)،والٹرلپ مین (WALTER LIPPMANN) اور اسی قسم کے دوسرے سر برآوردہ مفکرین نے سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں پر اعتراضات کئے ھیں اور ھر ایک نے اپنی فکر و نظر کے مطابق ایک معتدل راستہ بنانا چاھا ھے۔یہ لوگ کھتے ھیں کہ کمیونزم افراد کی حریت، فطری آزادی ، ارادہ و اختیار کو سلب کرتا ھے اور تمام شخصی و اجتماعی امور میں حکومت کو حاکم مطلق مانتا ھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ فرد کی شخصیت اور اس کی ابتکاری صلاحیتیں زنگ آلود ھو جاتی ھیں اور فردی تکامل ، رشد و ترقی سے رک جاتا ھے ۔ اسی طرح سرمایہ داری میں یہ خرابی بھی ھے کہ فردی آزادی افراط کی حد تک پھونچ جاتی ھے ۔ اجتماعی ھم آھنگی کو ضرر پھنچاتی ھے ۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ تمام منابع ثروت ، دستگاہ تولیدی پر قابض و مسلط ھو جاتا ھے اور لوگوں کو اپنے ارادے کا تابع بناتا ھے نیز سیاست و حکومت پر اپنا پورا پورا اثر و رسوخ قائم کر لیتا ھے ۔
اس لئے بشریت کے لئے ایک تیسرے راستے کی ضرورت ھے جو دونوں کے افراط و تفریط سے محفوظ ھو اور فرد و اجتماع کے منافع کو محفوظ رکھتا ھو لیکن کیا ساری دنیا کے فلاسفہ و مفکرین جو آج کے ناقص سسٹم کو باقاعدہ سمجہ چکے ھیں اسلام سے بھتر کوئی راستہ بتا سکتے ھیں ؟ جس کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پھلے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا ۔ اسلام ھی ایک ایسا معتدل مذھب ھے جو ایک طرف تو فرد کو معقول آزادی عطا کرتا ھے اور دوسری طرف سرمایہ داری کے سر کش اونٹ کو نکیل لگاتا ھے اور بالآخر انسان کو ایسے راستے پر لگا دیتا ھے جو بشریت کو سرگردانی اور بد بختی سے نجات دے سکتا ھے ۔
اسلامی نظام نے اپنے تمام دور حکومت میں اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کیا ھے اور اجتماعی زندگی چاھے وہ مسلمانوں کی ھو یا غیروں کی ، کو بھت ھی وسیع پیمانے پر منظم کیا ھے ۔ اسلامی معاشرہ اپنے طول تاریخ میں کبھی وضع قانون کے سلسلے میں دوسروں کا محتاج نھیں رھا ھے اسی طرح آج بھی اس زمانے کے تمام تحولات کے با وجود دنیا کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ھے اور اسلامی معاشرے کی رھبری کر سکتا ھے اور اس کی ضرورتوں کا صحیح جواب دے سکتا ھے ۔
اسلام ھی وہ آئین ھے جس نے مادی نیاز مندیوں اور روحانی ضرورتوں ( دونوں ) کو خصوصی طور پرمورد توجہ قرادیا ھے ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں ایک نادر اور متوازن قانون وضع کیا ھے ۔ اسلام ھی وہ مذھب ھے جو زندگی سے پوری ھم آھنگی رکھتا ھے ۔جن میں کبھی کھنگی پیدا نھیں ھو سکتی ۔
دنیائے بشریت نے جن مبادی، اصول کو پھچانا ھے ان میں سب سے محکم اور پیشرو اسلام کے مبادی و اصول ھیں ۔ اور اس کے قوانین انسانی نقطھٴ نظر سے تمام دیگر تعلیمات سے برتر اور آسان تر ھیںاگر اسلام کے مبادی و اصول کو دوسرے مکاتب فکر کے مبادی و اصول کے مقابلے میں دیکھاجائے تو یہ حقیقت بھت زیادہ واضح ھو جاتی ھے کہ خدائی قوانین انسانی خود ساختہ قوانین کے مقابلے میں کھیں زیادہ برتر و بالا تر ھیں ۔
دانش کدہ حقوق پیرس نے ۱۹۵۱ءء میں ایک ھفتہ فقہ اسلامی کی تحقیق کا منایا تھا ۔ ذمہ داروں نے دنیا کے علمائے اسلام کو فقہ اسلامی کے سلسلے میں چند موضوعات پر خاص طور سے اظھار خیال کی دعوت دی تھی ۔جن موضوعات پر اظھار خیال کی دعوت دی گئی تھی وہ حسب ذیل ھیں :
۱۔ فقہ اسلامی میں مالکیت کے اثبات کے طریقے ۔
۲۔ اجتماعی اور عمومی مصالح کے پیش نظر املاک خصوصی کے ضبط کر لینے کے شرائط اور ان کے مقامات کی نشان دھی
۳۔ مسئولیت جنائی
۴۔ فقہ اسلامی کے مختلف مکاتب فکر کا تقابل ۔
پیرس کے مرکزی و کلاء کاسربر آوردہ رئیس جو اس کانفرنس کی صدارت کر رھا تھا اس نے اختتام کانفرنس پر اپنے خیالات کا اظھار اس طرح کیا :مجھے نھیں معلوم کہ میں پھلے جو حقوق اسلامی کے جمود اور موجودہ دور کے جدید مسائل میں اس کی عدم صلاحیت کے بارے میں سنا تھا اور آج کی کانفرنس میں جو کچہ میں نے سنا ھے اور سمجھا ، اس کو میں کیونکہ کر جمع کروں ! اس کانفرنس میں یہ بات یقینی طور پر ثابت ھو گئی کہ حقوق اسلامی میں اچھی خاصی گھرائی ھے اور یہ بھت زیادہ وسیع ھیں ۔ ان میں اس بات کی گنجائش ھے کہ موجودہ دور میں پیدا ھونے والے مسائل کا مثبت اور اطمینان بخش جواب دے سکیں ۔ فقہ اسلامی کا ھفتہ جب ختم ھوا تو اس نے اسلام کے بارے میں اپنی یہ رائے ظاھر کی : فقہ اسلامی کے اندر یقینی طور پر ایسی صلاحیت موجود ھے کہ جو موجودہ دور کے منابع قانون گزاری کو پورا کر سکے ۔ فقہ اسلامی کے مختلف مذاھب کے اقوال و آراء کے اندر حقوقی سرمائے اتنے زیادہ ھیں کہ تعجب ھوتا ھے ۔ ان آراء و اقوال کے پیش نظر قطعی طور پر فقہ اسلامی کے اندر یہ صلاحیت موجود ھے کہ وہ آج کی زندگی کی جملہ ضروریات کا مثبت جواب دے سکے ۔
حوالھ: