بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
”اِنَّاجَعَلْنَافِی اَعْنَاقِهمْ اَغْلاَلاً فَهیَ اِلَی الاَذْقَانِ فَهمْ مُقْمَحُوْنَ وَجَعَلْنَامِن بَیْنِ اَیْدِیْهمْ سَدًّاوَ مِن خَلْفِهمْ سَدًّافَاَغْشَیْنٰهم فَهم لَایُبْصِرُونَ“(سورہ یٰسن آیة ۔۸،۹)
مجھے اس وقت بڑی خوشی ھے کہ آپ سروران گرامی ،علمائے کرام کے سامنے ایک طالب علم کی حیثیت سے حاضر ھوا ھوںتاکہ اس نورانی محفل سے اور آپ سے کچھ حاصل کرسکوں، نہ یہ کہ آپ کوکچھ دے سکوں گا۔
اس نشست کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا گیاھے اور آپ جس امید اور توقع (Expectation)کے ساتھ تشریف لائے ھیں شایداس کا حق ادا نہ ھوسکے کیوں کہ اس موضوع پرگفتگو کرنے کے لئے کم از کم ایک عشرہ چاھئے ۔ھم سب کواس موضوع (عالمی سطح پر اسلامی تبلیغ)پر،تحقیق (research)کرناچاھئے اوراس کے انتخاب پر داد دینی چاھئے ۔
سماجی علو م کا کلیہ ھے کہ انسان ایک اجتماعی مخلوق ھے اور وہ انفرادی طور پر زندگی نھیں گذار سکتا، وہ اجتماع میں رہ کر قدم آگے بڑھاتا ھے ۔ اسی طرح ایک ملک بھی تنھاھی تنھانھیںرہ سکتا، اسکواس کرئہ ارض (Globe)میںرہ کر اس عالمی دنیاسے ملناچاھئے ۔
قرآن کھتا ھے ”اِنَّاجَعَلْنَافِی اَعْنَاقِهمْ اَغْلاَلاً فَهیَ اِلَی الاَذْقَانِ فَهمْ مُقْمَحُوْنَ“ ھم نے انکی گردنوں میںزنجیریں(chains) ڈال دی ھیںاور ظاھر ھے کہ یہ مادی زنجیریں نھیں ھیں،وہ زنجیریںانکی ٹھڈیوں تک آگئی ھیں۔ھمارے یھاں جنوبی ھندوستان میں شادی کے موقع پر دولھا کی گردن میں پھولوں کے ھارڈالے جاتے ھیںجو اس کے لئے ایک مصیبت بن جاتے ھیں کیوںکہ جب گلے میں ھار ڈالتے ھیں تو ھار کے وزن کا تقاضا ھے کہ گردن جھکے ،دوسری طرف وہ گردن جھکانا نھیںچاھتااور کوشش کرتا ھے کہ اسے اپنی طبیعی حالت میں رکھے ،ھار جتنے بڑھتے جاتے ھیںگردن کو سیدھی رکھنے کی کوشش میں وہ اتنا ھی اکڑتاجاتا ھے، وہ در حقیقت اکڑنا نھیں چاھتا بلکہ صرف یہ چاھتاھے کہ اسکی گردن نہ جھکے۔ اورجب ھار بڑھتے بڑھتے ٹھڈیوںتک آجائیں تواس کا نتیجہ یہ ھوتاھے کہ وہ نہ اپنے سامنے دیکھ پاتا ھے اور نہ اپنے دائیں۔بائیں ۔
دین اسلام نے ابتدا ء ھی سے جس بات کا بیڑااٹھایاھے وہ فکری جنگ ھے اس لئے کہ عمل فکر کا نتیجہ ھے اور فکرو ادراک میں جتنی تبدیلی آتی جائے گی عمل میں اتنا ھی فرق آتا جائے گا۔ یہ انسانی تربیت کا ایک اصول ھے جسے ھم تربیت کے وقت بھول جاتے ھیں۔ شوھر اور بیوی کے درمیان جھگڑے اسی لئے ھوتے ھیں کہ ھم ڈائرکٹ عمل پرحملہ (attack )کرتے ھیں اورعمل کی تصحیح اس وقت تک ناممکن ھے جب تک فکرکی تصحیح نہ ھوجائے۔قرآن ایکchallengeلیکرآیاھے جوایک عالمی challengeھے اوروہ یہ کہ قرآن تصحیح فکرکیلئے آیاھے اورفکری تصحیح کے بعد عمل خود بخودصحیح ھوجائے گا۔فکرمیں جتنی گھرائی ھوگی عمل میں اتنا ھی اخلاص ھوگا اسی لئے ھمارے یھاں احادیث میں ملتا ھے ”تفکرساعة خیرمن عبادة سنة “یھاں تک کہ ”سبعین سنھ“۔ یعنی ایک سال کی فکر ستر سال کی عبادتوں سے بھتر ھے ۔ اگر ھم اپنے اوپرسے پھلی زنجیر اتار دیں اوریہ سمجہ لیں کہ اسلام ایک عالمی دین ھے میرافردی اورخاندانی دین نھیںھے اورایک عالمی دین کیلئے عالمی تبلیغ کی ضرورت ھے تو اس کے نتائج سامنے آئیں گے ۔اسکے لئے کام کی ضرورت ھے ھمیں اپنے خول سے باھر آنے کی ضرورت ھے، ھمیں اپنے ابریشم کے تاروں سے باھر آنے کی ضرورت ھے ۔
میںایک دیھاتی آدمی ھوںپھلے دیھات میں رھتاتھااوراب بھی اس سے لگاوٴھے۔بنگلورسے قریب علی پورمیراگاؤںھے جھاں زمینداری کے زمانے میںریشم کی بھی کاشت ھوتی تھی ، شھتوت کے ایک پتےّ پر ریشم کے کیڑوں کے ھزاروں انڈے ھوتے ھیں اور تین دن کے بعد وہ انڈے باریک باریک کیڑوں کی شکل میںتبدیل ھوجاتے ھیں ۔ ۲۱دن تک وہ کیڑے پتےّ کھاتے ھیںاوروہ جتنازیادہ پتّے کھاتے ھےں اتناھی زیادہ ریشم اگلتے اوراتنا ھی اپنے بنائے ھوئے تاروں کے اندر مقیدھوتے جاتے ھیں۔ وہ اپنے آپ کو اتنے مضبوط تاروں کے اند ر مقید کرلیتے ھیں کہ آج کی سائنٹفک دینامیں بھی بلٹ پروف west bullet- proof اسی سے بنا یا جاتا ھے۔ ریشم کے ان تاروں سے کتنا مضبوط اور اچھا لباس تیار کیا جاتا ھے !اسی لئے مولاامیرالمومنین (ع) نے فرمایاھے کہ دنیاکی بھترین غذاشھد اوربھترین لباس ریشم ھے اوردونوں کیڑوں کاتھوک ھیںپھر اس دنیاسے کیامحبت کریں۔
اب اسی مثال سے آپ اندازہ لگائیںشایدھم سب کوجوسب سے بڑی پر یشانی لاحق ھے وہ یہ ھے کہ ھم اپنے افکار کے ایسے ابریشم میں مقید ھیں جسے کسی اور نے نھیں بلکہ خو دھم نے تیارکیاھے۔ اس کیڑے کی خوبی یہ ھے کہ جب وہ ریشم تھوکنا شروع کرتا ھے تو اسمیں شروع سے لیکر آخر تک ایک ھی تار ھوتا ھے اسی لئے اس تار کو سات دن کے اندرھی ریشم کی شکل میں نکال لیا جاتا ھے ورنہ اگرآپ نے نھیںنکالاتوساتویں دن وہ کیڑاتار کو کاٹ کر تتلی کی شکل میں اڑجائیگا۔
آج کی دنیا اور ھر دور کی دنیا افکار کے ابریشم میں مقید رھی ھے اور اسکا واحد حل یہ ھے کہ اسکو آزاد کیا جائے اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ھے کہ کھیںھم خوداپنے بنائے ھوئے کسی ابریشم کے تار میں گرفتار نھیں ھیں ۔ اسکے بعد پھر ساری بشریت کو آزاد کرانے کی فکر کریں کیونکہ قرآن نے اعلان کیاھے ”شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہ الْقُرْآنُ ھُدیً لِلنّٰاسِ“ قرآن کسی خاندان او رکسی قوم کی کتاب نھیںبلکہ پوری انسانیت humanity))کا آئین constitution) (ھے قرآن پوری انسانیت کیلئے دستورالعمل ھے، اس بات کوھم نے اپنے بیانات وخطبات اور تقاریرومجالس میںکب اور کس طرح پیش(present)کیاھے ؟ مجھے نھیںمعلوم، میںبچپن سے سنتااور دیکھتا آرھاھوںاور آپ بھی سن اور دیکھ رھے ھیںکہ ھم نے اپنے اردگرد ایک چھاردیواری بنائی ھوئی ھے جسکا دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے چلے جارھے ھیں حتی تعجب کی بات یہ ھے کہ ذرا سے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر اپنے مومنین کو برا بھلا کھہ کر اس دائرے سے خارج کردیتے ھیں اور پھر خوش ھوتے ھیں ۔ یہ بھی کوئی منطق (logic) ھے !میری سمجہ میںنھیںآتا کہ یہ کونسی منطق ھے؟اور اسی وجہ سے ھم فکری زنجیروںمیںمقیدھیں۔ لھذا ھمارا پھلا کام یہ ھے کہ ان زنجیروں کو توڑ دیں اور ھدایت کو تمام بشریت کے لئے عام کریں۔میری آ پ سے گذارش ھے کہ آپ سرسری طور پرھی صحیح تھوڑاسابعثت انبی(ع)ء کا جائزہ لیںکہ انبی(ع)ء کیوں آئے تھے ؟ ان کی بعثت کا ھدف کیا تھا ؟عام طور سے ھدف بعثت کے لئے اس آیت کو پیش کیاجاتا ھے”هوَالَّذِیْ بَعَثَ فیِ الاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاًمِّنْھُمْ یَتْلُواعَلَیْھمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْھمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوامِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ “(جمعہ ۲ ) تلاوت ،تذکیہ نفس اورتعلیم کتاب وحکمت ،جبکہ یہ تبلیغ رسالت کا ایک جزء تھا، قرآن نے تبلیغ رسالت کے اسکے علاوہ بھی اھدا ف بیان کئے ھیں ”وَلَقَدْبَعَثْنَافِی کُلِّ اُمَّةٍرَسُولاً اَنِ اعْبُدُوْااللّٰہ وَاجْتَنِبُوْالطَّاغُوْتَ فَمِنْھُمْ مَنْ ھَدَی اللّٰہ وَمِنْھُمْ مَنْ حَقّتْ عَلَیْہ الضَّلاَ لَةُفَسِیْرُوْافٖی الاَرْضِ فَانْظُرُوْاکَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِیْنَ“(نحل۔۳۶)
انبی(ع)ء کیوںآئے تھے؟ انبی(ع)ء فقط اسلئے تونھیںآئے تھے کہ وہ مومنین سے کھیں، نماز پڑھو،عبادت کرواور پرھیزگار بنو ” وَاجْتَنِبُوْالطَّاغُوْتَ “یہ بھی اھداف انبیاء میں سے ھے اسی لئے حکم ھوا : ”اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہ طَغَی“ (طھ۔ ۲۴) موسیٰ و ھارون کو فرعون کے پاس تزکیئہ نفس کیلئے نھیںبھیجاگیا تھااسلئے کہ جب تک سسٹم چینج نھیں ھوگا،جب تک نظام میں تبدیلی نھیں ھوگی اسوقت تک تزکیئہ نفس ھونے والانھیںھے ۔
آپ جانتے ھیںکہ کارایک فیکٹری سے نکلتی ھے،اس فیکٹری میںکارکی تکمیل کے تمام وسائل( tools) موجود ھوتے ھیں۔اسی لئے وہ مکمل ھوکے نکلتی ھے۔ انسان بھی اس دنیا میں ایک خام مادہ (raw material)ھے ۔ اس کے لئے ایک ایسی فیکٹری کی ضرورت ھے جسمیںوہ تمامs toolموجودھوں جس سے وہ انسان بن کر نکلے اورجب تک معاشرھٴ انسانی درست (correct)نھیںھوگااس وقت تک ایک انسان صحیح نھیںھوگا۔اسی لئے ھمارے یھاں امربالمعروف اور نھی عن المنکرھے ۔رسول اللہ نے امربالمعروف اور نھی عن المنکر سے متعلق بھترین مثال ایک ایسے شخص کی دی جو ایک کشتی میںبیٹھااپنی کرسی کے نیچے سوراخ کررھاھے اور اس کی منطق یہ ھے کہ یہ seat میںنے reserveکی ھے لھذا مجھے کچھ بھی کرنے کا اختیارھے۔ اب اگر یھاں پر کشتی کے دیگر افراد یہ سوچ کر خاموش ھوجائیں کہ وہ درست تو کھہ رھا ھے، وہ اپنی جگہ میںسوراخ کررھاھے توپوری کشتی او راس میں موجود تمام افراد ڈوب جائیںگے ۔
یہ معاشرہ ایک جال(net)کے مانند ھے جو چاروں طرف سے ایک دوسرے سے مربوط ھے اگرمعاشرے کاایک فرد خراب ھوگاتواسکا اثردوسروں پربھی پڑے گا۔اسی طرح سے اس دنیاکے دوسوممالک میں اگرایک ملک بھی خراب ھوگیاتو لازمی طور پر اسکااثر(impact)دوسروں پربھی ھوگاھم یہ نھیںکھہ سکتے کہ امریکہ (America) خراب ھے تو ھو ھم تویھاںٹھیک ھیں۔ ایسا نھیں ھے ،یھاں قم میںدیکھئے کتنے( net cafe)کھلے ھوئے ھیںاورجوان مشغول ھیں ۔قم جو مرکز تعلیم اھلبیت (ع) ھے ،مرکزپرھیزگاری ھے، جسکو آل محمد کا آشیانہ کھا گیا ”ھٰذاعش آل محمد(ع)“لیکن اسکے اثرات یھاں پر بھی موجود ھیںکیوںکہ کوئی معاشرہ دوسروں سے کٹ کر بالکل تنھاترقی (progress)نھیں کرسکتا ،فلاح growth)) نھیںپاسکتا۔اسی لئے دین اسلام پورے انسانی معاشرے (social society)کوٹھیک کرنے کیلئے آیا ھے۔ اسلام کوئی خاندانی یارنگوںاور نسلوںوالا دین نھیںھے۔ اسلام نے ابتداء سے انتھا تک اس فکرکو توڑا ھے ۔جب اذان کی بات آئی تو عرب کے مقابلے میں حبش کارھنے والاایک کالااور بدصورت انسان اذان کھہ رھا ھے، جو شین بھی نھیںکھہ سکتا”اَسْهدُاَنْ لاٰاِلٰه اِلاَّاللّٰه “کھہ رھاھے ۔لیکن رسول ا للہ فکر عرب کو توڑنے کی کوشش کررھے ھیںکیوںکہ جب تک عربیت نھیں ٹوٹے گی اسوقت تک میرا مشن عالمی سطح پرموثر نھیںھو گا۔
بھت سے لوگ سوال کرتے ھیں کہ ھم لوگ مغرب میں رھتے ھیں، ھم یھاں کیا کریں ؟ یھاںسے بھاگ جائیں ؟کیونکہ یھاں کے حالات بھت خراب ھیںیھاں ھمارے بچوں کے مستقبل (future) کا کیا ھوگا، ھم اس کا جواب یھی دیتے ھیں”ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فیِ الاُ مِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ“ اسلام سے قبل کی تاریخ (pre islamic history)پڑھئے ،اسلام سے قبل خانہ کعبہ کے چاروں طرف برھنہ (nude) عورتیں پھرتی تھیں، آج دنیامیںنیوڈکالونیاں ھیںاگر آپ وھاں جائیں گے توآپکوانکا مخصوص اندازاپنانا پڑے گا ، لیکن عبادت گاھوں میںاس طرح سے نھیںھوتا۔
عرب کے اس ماحول میںخدانے پاک پیغمبر کوبھیجاتاکہ اس گندگی کے ماحول کوchallengeکرے، تاکہ اس ماحول کوchange کرے اور پھر سب کچھ changeھوگیا، ماحول سے گھبراکربھاگ جاناکمال نھیںھے ،ماحول کوتبدیل (change) کرنا کمال ھے ۔ماحول کوتبدیل کرنے کیلئے فکری کام کی ضرورت ھے اوراسمیںبھت وقت لگتاھے۔۴۰سال بعداعلان رسالت ھوا،پھر ۱۳ سال مکہ اور ۱۰سال مدینے کی تبلیغ کے بعدحکم ھورھاھے” حَیَّ عَلٰی خَیْرِالْعَمَلِ“ اب فکر کی تصحیح ھو چکی ھے لھذا اب عمل خیر ھوگا۔
عالمی سطح پر تبلیغ کرنے کیلئے ھملوگوں کو فکری طورپر دین کوعالمی سطح پر متعارف کراناھے ،دین کی عالمی وسعت او ر جامعیت کو بیان کرنا ھے ،نہ یہ کہ دین کو ایک خاندانی حیثیت سے متعارف کرایا جائے ۔
پورے پاکستان میںقریب دوھزار مومنین شھید ھوچکے ھیں ، ۹۵ ڈاکٹرصرف کراچی میں شھید ھوئے، اگرایک بارتما م مومنین،تمام عورتیںاور سبھی بچے گھرسے باھرآکر کچھ نہ کرتے صرف جنازے میں شریک ھوجاتے توپھردوسرے کومارنے کیلئے سوچتے ،ھم عالمی سطح کی بات کررھے ھیں لیکن ابھی ھم شیعی سطح تک نھیںپھونچ پائے ھیںابھی ھم اپنے محلوں کے کپڑے سے باھر نھیںآئے ھیں،اپنے خاندان کے ابریشم سے باھر نھیں نکلے ھیں ۔وہ موذن کھہ رھا ھے ”اَسْھَدُاَنْ لاٰاِلٰہ اِلاَّاللّٰہ “ عرب آئے اور کھنے لگے یا رسول اللہ یہ موذن” شین“ کو” سین“ کھہ رھا ھے آیا ھمیں اذان کھنے کا حق ھے۔ سرکار رسالت مآب نے فرمایا کہ بلال #کی”سین “ اللہ کے نزدیک ”شین میں بدل گئی ھے۔ بلال”اَسْھَدُاَنْ لاٰاِلٰہ اِلاَّاللّٰہ “ ضرور کھہ رھا ھے لیکن پروردگار اسکو”اَشْھَدُاَنْ لاٰاِلٰہ اِلاَّاللّٰہ “ سن رھاھے اس لئے کہ زبان سے نکلنے والی آواز کا نام اذان نھیںھے بلکہ دل کی گھرائیوںکی آواز کا نام اذان ھے ۔
آج عربیت کے نام پر کیا ھوا عربیت کھا ںھے؟ سعودی کا عرب الگ ھے ،سیریا کاعرب الگ ھے، فلسطین کا عرب الگ ھے ۔ آج ھمارے سامنے بھت بڑا Challenge ھے، ذرا سا بیدارھونے کی ضرورت ھے ۔ اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج انھیںزنجیروںکو کاٹنا ھے۔ قرآن انھیںزنجیروں کو کاٹنا چاھتا ھے۔ اسلام ان زنجیروںکو کاٹنا چاھتا ھے ۔
آج دنیا، اسلام اور قرآن سے استفادہ کررھی ھے ۔ دنیا کی فکر کو دیکھئے! آج امریکی اور یوروپی یونیورسٹیوں میںبا قاعدہ ایک شعبہ ھے جسمیںدین مبین اسلام کی تعلیم دی جاتی ھے اورتعلیم دینے والے اکثریھودی ھےںاس لئے کہ وہ لوگ سمجہ چکے ھیں ۔ اب یھاںپر امیر المومنین(ع) کی وصیت کا ایک فقرہ بیان کرنامناسب ھے: بیٹا حسن !ھوشیار رھو کھیںایسا نہ ھو کہ تمھاراغیر،قرآن پر عمل کرکے تم سے آگے بڑہ جائے“ اس لئے کہ قرآن اصول کا نام ھے قرآن میں Principlesھیںجنھیں کوئی بھی اپنا سکتا ھے۔ ھم بقول شاعر ”کلمہ پڑھے بغیر مسلمان ھوگئے ‘ ‘ ۔جمال الدین افغانی مغرب سے واپس آئے تو کھا کہ میںنے مغرب میں اسلام دیکھا لیکن مسلمان نھیںملااور جب اپنے وطن آیاتو مسلمان ملا مگر اسلام نھیںملا ۔ جونئیر ٹیم جونئیر سے اور سینئر ٹیم سینئر سے لڑتی ھے ، سینئر کا مقابلہ جونیئرسے نھیںھوتا ھے۔ چھوٹاشیطان چھوٹے مومن کو بھکاتا ھے۔ علماء کا مقابلہ بڑے شیطانوں سے ھوتاھے۔ آج ھمیں خبرنھیںکہ دشمن ھمارے دروازوں پراور ھمارے گھروںمیں آچکے ھیں ، ھمارے گھروںکو ھم سے لے چکے ھیں ، ھماری عورتوں کو لے چکے ھیں ،ھمارے بچوں کو لے چکے ھیں ، ھماری شخصیتوںکو لے چکے ھیں، ھمارے پاس کچھ نھیںھے ۔ اس لئے قرآن نے مسلمانوں کو تبلیغ کی ھے کہ یہ قرآنی اصول اور Principles ھیں ان پر عمل ضروری ھے ورنہ سب کچھ ھاتہ سے جاتا رھے گا ۔ ”وَالْعَصْرِ اِنَّ الاِّنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ اِلاَّالَّذِیْنَ آمَنُو اوَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْابِالصَّبْرِ“(سورہ عصر)ایمان و عمل جسے آپ لازم و ملزوم کھتے ھیں ،لھذا ایمان ھے تو ضروری ھے کہ عمل بھی ھو ۔
آج مسلمان Settelite کے زمانے میں زندگی گذار رھا ھے ، دین کی تبلیغ کےلئے جتنا میدان آج فراھم ھے اس سے قبل کبھی نھیں تھا ۔آج انسان فکری بات کرتا ھے پھلے جذباتی باتیں کرتا تھا ،آج انسان سوال کرتا ھے Why ، What یہ کیا ھے ؟ایسا کیوں ھے؟ایسا کیوں نھیں ھے؟
ھم سب کا پھلا فریضہ یہ ھے کہ دین اسلام کی عالمی سطح پر تبلیغ کرنے کے لئے پھلے اپنی فکری زنجیروں کو توڑیں، دین کو محدود کرنے کی کوشش نہ کریں ، دین لا محدود ھے اور آج کی دنیا بھت محدود ھو گئی ھے۔ آج دنیا کو ایک دیھات اورGlobal village کھا جا رھا ھے ، ایک لمحے میں خبریں ایک مقام سے دوسرے مقام پر پھنچ رھی ھیں ۔آج یہ کھا جا سکتا ھے کہ یہ تقریر جو یھاں ھو رھی ھے اسی وقت دنیا کے دوسرے حصوں پر دیکھی اور سنی جا سکتی ھے ۔ Setteliteکی دنیا نے یہ ثابت کر دیا ھے کہ اگر کوئی اھم شخص ھو تو اس کی زندگی کا ھر لمحہ با قاعدہ طور پر محفوظ کیا جا سکتا ھے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں ھو ، پانچ سال پھلے وہ کھاں تھا یہ فوٹو کے ساتھ حاصل ھو جائے گا ۔
اس دنیا میں ھم اپنے آپ کو محدود کر لیں یہ کھاں کا انصاف ھے ؟میں آپ کو ایک چھوٹی سی فکر دینا چاھتا ھوں ، ھم سب کا یقینی طور پر یہ عقیدہ ھے کہ ”هوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّه وَلَوْ کَرِه الْمُشْرِکُوْنَ “(توبھ۔ ۳۳)ےہ دےن کامےاب ھوگا اور دےن، مکتب اھلبےت کے سوا کچھ نھےں ھے آج ۶۹مسلم ممالک مےں ےہ واضح ھو چکا ھے کہ اس مکتب نے دنےا کے سامنے کےاپےش کےا ھے ۔آج اسلامی دنےا مےںدو افراطی خطوط( Extreme lines) ھےں اےک کا نام طالبان اور دوسرے کا نام Moderationھے ۔ Moderationکاےہ عالم ھے کہ ترکی جیسے مسلم Countryمیں ایک عورت چادر نھیں اوڑہ سکتی اور طالبان کا حال آپ جانتے ھی ھیں ان دونوں لائینوں کے بیچ میں دنیا کو ایک (Midline)راہ اعتدال نظر آ رھی ھے اور وہ ھے مکتب اھلبیت علیھم السلام ۔ ۱۱/ ستمبر کے بعد دنیا میں جو وھابیت کی شناخت ھوئی ھے وہ ھم سب مل کر نھیں کر سکتے تھے ۔ھمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاھئے ،خود نےوےارک کے اخباروں میںدوتین مھینے تک وھابےت کے سلسلے میں articlesلکھے جاتے رھے کہ اس فرقہ کی ابتدا کیا ھے؟انتھا کیا ھے؟اسکو کس نے شروع کیا؟وغےرھ۔
دےن اسلام ایک فطری مذھب ھے۔ مکتب تشےع و اھلبیت(ع) فطرت انسانی سے ھماھنگ ھے۔فطرت (nature) کو کھیں دباےا نھیں جا سکتا۔گھاس پر پتھر رکھیں تو پتا چلے گاکہ دب کر ختم ھوگئی،لیکن چند دنوں بعد وہ چاروں طرف سے اور زےادہ پھیل کر نکلے گی ۔اس لئے کہ یہ فطرت پر نکل رھی ھے” الحق یعلوا ولا یعلیٰ علیھ“ حق خود بخود بلند ھوتا ھے اسے بلند کرنے کی ضرورت نھیں ھے لیکن اسے پھچنوانے کی ضرورت ھے اور یہ کام ھمیں کرنا ھے ۔ کمپیوٹر میں ایک چیز ھے جس کو ھم ٹربو (Turbo)کھتے ھیں،Turboکاکام کمپیوٹر کی speedکو بڑھا دیناھے حتی آج کل کاروں کے لئے بھی ٹربو انجن (Turbo-Engine)آگیا ھے، لیکن انجن یا کمپیوٹر میں speedکا بڑھنا اس وقت ممکن ھے جب وہ startھو، اگر ھم ابتدائی حرکت کریں تو دین میں خود بخود پھیلنے کی صلاحیت موجود ھے۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ دین اسلام پھیلے گا۔اسے کوئی نھیں دبا سکتا یہ وعدئہ پروردگار ھے لیکن شرط یہ ھے کہ مسلمان اپنا کردار ادا کرے اگر مسلمان محنت کرے تو دین speedمیں آجائے گا۔
قرآن نے فرمایا” یُسَبِّحُ لِلّٰه مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْم“ (جمعھ۔۱)پوری کائنات (Universe)تسبیح کی حالت میں ھے، کائنات ،وجود پروردگار کے محور میں گھوم رھی ھے ۔انسان کو بھی اسی محور میں آکر نجات مل سکتی ھے، جس کی مشق حج کے دوران کعبہ کے طواف کے ذریعہ کرائی جاتی ھے۔ محور خدا میں آئے بغیر نجات ممکن نھیں ھے۔ یہ ایک پیغام ھے جو ساری انسانیت کے لئے ھے ۔ آج انسانیت زخمی ھے، آج انسانیت کو دین کی ضرورت ھے، آج انسانیت کو مکتب اھل بیت کی ضرورت ھے، آج انسانیت کو پیغام کی ضرورت ھے۔ افسوس اس بات کا ھے کہ ھندو آکر ھمیں پیغام دے رھے ھیں اورھمارا کام صرف یہ ھے کہ ھم نے فقط اپنی عبادت گاھیں بنا لی ھیں، اس کے علاوہ اور ھم نے کیا کیا ھے؟ اب تک ھم لوگ دفاعی حالت (Defensive line)میں رھے ھیں، اب ھمیں Offensive lineمیںکام شروع کرنا چاھئے تاکہ ھم موٴثر ثابت ھو سکیں۔ کوئی یہ نہ کھے کہ کیسے آگے بڑھوں کوئی مدد کرنے والا نھیں ھے ۔ جس نے یہ کھا وہ اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی آگے نھیں بڑہ سکتا ۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ تجربہ کیا ھے، سات سال کی عمر سے میں تنھا ھوں اور تنھا ھی اپنے آپ کو آگے بڑھا نے کی کوشش کی ھے۔ کبھی بھی کسی کا سھارا قبول نھیں کیا سوائے خدا کے اور یقین کیجئے اس نے ساتھ دیا، یہ اس کا وعدہ ھے ”اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْارَبُّنَااللّٰه ثُمَّ اسْتَقٰمُوْاتَتَنَزَّلُ عَلَیْهمُ الْمَلاَ ئِکَةُاَلاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوْابِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ“(فصلت ۔۳۰)۔ جب میں نے ٹورنٹو میں اپنا مشن شروع کیا تھا تو ھمارے ساتھ کوئی نھیں تھا اور آج ایک ملین ڈالر کا پروجیکٹ پورا ھو گیا ھے، یہ کس طرح ھوا؟ مجھے نھیں معلوم اور اسی طرح تقریباً ایک ملین کا پروجیکٹ علی پور میں مکمل ھوا ۔ یہ کیسے ھوا؟ مجھے نھیں معلوم۔ میں نے کسی کے گھر پر جاکر دستک نھیں دی کہ آ پ میری مددکریں۔
وَالَّذِیْنَ جٰهدُوْافِیْنَالَنَهدِیَنَّهمْ سُبُلَنَاوَاِنَّ اللّٰه لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (عنکبوت ۔۶۹)
آج ھمارے لئے عالمی سطح کے challengesھیں، اب ھمیں اپنے گھروں اور اپنے کمروں میں نھیں رھنا چاھئے، ھمیں اپنے افکار کی تصحیح کرنی چاھئے، اس میں وقت ضرور لگے گا لیکن اس کے نتائج بھت خوبصورت ھیں اور کامیابی یقینی ھے۔
میری گذارش ھے کہ اس پروگرام کو انشاء اللہ جاری رکھیں ، ھمیں امید ھے کہ آپ کے اندر چھپی ھوئی صلاحیتیں ابھرکر سامنے آئیں گی ممکن ھے آپ کے اندر ایک دُرِّ بے بھا ھو، جسے آپ کو تلاش کرنے کی ضرورت ھے اور یقین کیجئے کہ آپ لوگ انشاء اللہ کامیاب ھیں ”اِنّمَا الْمُوٴمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَاللّٰه وَجِلَتْ قُلُوْبُهمْ وَاِذَاتُلِیَتْ عَلَیْهمْ اٰیٰتُه زَاْدَتْهمْ اِیْمَاناًوَعَلٰی رَبِّهمْ یَتَوَکَّلُوْنَ“ (انفال۔۲)
آج افکار کی تشخیص کا معیار انقلاب ھے ، سلمان فارسی کھتے تھے کہ ھم جب کسی کے بارے میں یہ دیکھنا چاھتے تھے کہ مومن ھے یا نھیں تو اس کے سامنے علی(ع) کا ذکر چھیڑ دیتے تھے ۔ آج کی دنیا میں اگر کسی کے بارے میں یہ دیکھنا ھے کہ اس کی سطح فکر بلند ھے یا نھیں تو اس کے سامنے ھم ذکر انقلاب چھیڑ دیتے ھیں پھر معلوم ھو جاتا ھے کہ حقیقیت میں یہ کیا ھے اور اس کی سطح شعور کتنی بلند ھے۔
آج ھماری مشکل بے شعوری ھے، ھمارے پاس صحیح رھنمائی نھیں ھے،نظم( Dicipline)نھیں ھے، انٹرنیٹ پر کثرت سے شیعہ سائٹیں موجودھیں لیکن ان میں بھی صحیح رھنمائی نھیں ھے، انٹر نیٹ پر تبرک ملتاھے، علم بکتے ھیں، ھم کھاں ھیں؟ کس دنیا میںھیں؟ میںایک سال ایک مشھور شھر میں (نام نھیں لینا چاھتا) شب عاشور امام بارگاھوں میں گیا، واپس آیاتو امام زمانھ(ع) کو پکار کر کھا کہ جب ھماری فیکٹریوں ( دینی مراکز) کا یہ عالم ھے تو اس کے پروڈکشن (production)سے گلا نھیں۔
میں آخر میں ایک چیز کی طرف اور اشارہ کر رھا ھوں۔ آج سب سے زیادہ جس موضوع پر گفتگو ھوتی ھے وہ انسانی حقوق (Human Rights)کا مسئلہ ھے اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والوں نے انسانی حقوق کا علم اپنے ھاتھوں میں اٹھا رکھا ھے۔ آپ کو معلوم ھے کہ امریکہ میں ۱۹۴۷ءء یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ بحث چھڑی ھے یعنی ۱۹۴۷ءء سے قبل امریکہ میں کالا گورے کے ساتھ نھیں بیٹہ سکتا تھا، ان کے لئے کاریں بسیں اور ٹرینوں کی بوگیاں الگ تھیں جس طرح سے ھندوستان میں ھندوستانیوں کو انڈین کُتِّے(Indian Dog)کھہ کر الگ رکھا جاتا تھا اور اب یہ ھمیں سکھا رھے ھیں کہ انسانیت کیا ھے؟ اور انسانی حقوق کیا ھیں؟ یہ ھمیں کیا سکھائیں گے؟ ھم اس گھرانے کے ماننے والے ھیں جس نے اپنے گھر میں فضہ کی تربیت کرکے یہ بتایا کہ حبش کی رھنے والی سیاہ فام کنیز بھی ذات پروردگار کی معرفت میں وھی حق رکھتی ھے جو عرب کی رھنے والی ایک خاتون رکھتی ھے۔ فضّہ نے بیس سال تک فقط قرآن سے گفتگو کی ھے۔ بنت نبی نے فضہ کو اتنا بلند کرکے بتایا کہ اگر اسلام کی تاریخ لکھی جائے تو اس تاریخ کا سب سے اھم باب اھل بیت(ع) ھیں جھاں باپ نے بلال کو پیش کیا اوربیٹی نے فِضَّہ کو پیش کیا۔
اگر ھم عالمی سطح پر کام کرنا چاھتے ھیںتو ھم اپنے نو جوانوں کو وہ دیں جو اس زمانے میں ان کی ضرورت ھے، ان کے ذھنوں میں جو سوالیہ نشان بنے ھیںان کا جواب دیں اور ان کو بتائیں کہ دین نے یہ کبھی نھیں کھا کہ تم پیچھے رھوبلکہ دین چاھتا ھے کہ تم آگے رھو، سعی اور کوشش کرو کیونکہ ”لَیْسَ لِلاِنْسَانِ اِلاَّمَاسَعیٰ“ انسان کے پاس اس کی کوشش کے سوا کچھ نھیں ھے۔
اسلام میں نہ فقط انسانوں بلکہ حیوانوں کے بھی حقوق محفوظ ھیں حضرت سلیمان نے چیونٹی کی آواز کو سنا اور اس کاخیال رکھا۔ آج کی پیش رفتہ ٹیکنالوجی کے زمانے میں بھی کوئی ایسا آلہ نھیں بن سکا جو چیونٹی کی آواز کو سمجہ سکے یہ الھی رھبر کی حساس سماعت تھی جو چیونٹی کی آواز سن اور سمجہ رھی تھی اور جب امام زمانھ(ع) کی حکومت ھوگی تو اسی حساسیت کی بنیاد پر ھوگی ۔اسی لئے کھا گیا کہ زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی یہ نھیں کھا کہ زمین اسلام و دین سے بھر جائے گی کیونکہ جوھر دین، عدل ھے۔
جھاں حضرت زھر(ع) نے فضہ کو پیش کیا،جھاں رسول اللہ نے بلال کو پیش کیا، وھیں کربلا میں حسین(ع) نے جون کو پیش کیا ، حسین(ع) نے جون اور دیگر اصحاب کو اتنا بلند کیاکہ اب ان پر سلام کیا جائے گا تو حسین(ع) کے ساتھ۔ السلام علیکم یا اولیاء اللھ۔
یہ دین ھے اور یھی فکر دین ھے۔ امید ھے کہ ھماری فکرمیںوسعت حاصل آئے گی ، عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لئے ھمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ھے۔ خدا کی دی ھوئی صلاحیتوں اور نعمتوں پر شکر کرنے کی ضرورت ھے۔ ”رَبِّ اَوْزِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَیٰ وَاْلِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاه وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“(سورہ نمل۔۱۹) پروردگارا ! ھمیں اس بات کی توفیق دے کہ جو نعمتیں تونے مجہ پراور میرے والدین پر مبذول فرمائی ھیں ان کا شکراداکروں اور کوئی ایسا نیک عمل بجالاوٴں جس کو توپسند فرمالے اور اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میںداخل کر۔
عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ کیلئے پھلا مرحلہ ھے اپنے ھی ھاتھوں سے بنائی ھوئی زنجیروں کو توڑ ڈالیں اور افاقی ، اسلامی فکر میں اپنے کو ضم کرنے کی کوشش کریں۔یقینا یہ مرحلہ بغیر اللہ کی ذات پر بھروسہ کئے اور اھلبیت کے بتائے ھوئے اصولوں پر چلے ھوئے ممکن نھیںھے۔
وآخر دعوانا الحمد للہ رب العالمین