بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم
طٰہ فاونڈیشن کی طرف سے اسلامی موضوعات پرمنعقد ھونے والے لکچرز کے اس سلسلے میں اس سے قبل ، عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ (Universal Invitation of Islam )کے موضوع پر کچھ معروضات آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ھوں ۔ اس موضوع پر ھماری گفتگو دو حصوں میں تقسیم ھوتی ھے ، ایک یہ کہ ھم اسلام کو عالمی (Universal ) دین مانیں ؛یاکہ ایک خاندانی ، قومی اور گروھی دین ۔ میں نے گذشتہ تقریر میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ پھلے ھم اپنے تنگ دائرے سے نکل کر باھر آئیں اور پھر اس بلندی کو حاصل کریں جس کے بعد رنگ و نسل کی تمیز ختم ھو جاتی ھے ۔ ”الصلوٰة معراج المومن“ یعنی نماز مومن کی معراج ھے اور انسان جب عروج حاصل کر لیتا ھے تو بلندی سے اسے سارے رنگ مخلوط نظر آتے ھیں ۔
گذشتہ گفتگو میں میں نے بلال کی مثال پیش کی تھی جو حبش کے رھنے والے ایک سیاہ فام غلام تھے اور ” شین “ کے بجائے ”سین “ تلفظ کرتے تھے۔یہ عرب کے نزدیک ایک بڑا عیب تھا لیکن رسول اللہ نے انھیں اپنا موذن قرار دیا اور وہ اذان میں کھتے تھے: ” اسهد ان لا الٰه الّا الله “۔ عرب جو اپنی عربیت پر آج تک نازاں ھیں اور یہ وھی عربیت ھے جو انھیں تباہ کر رھی ھے اور انھیں کسی مقام تک نھیں پھونچا پا رھی ھے ، وہ بلال کی آواز اذان سن کر رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ !ھم ” سین “ کو ”سین“ ،”شین “ کو ”شین “ اور ضاد ”کو ”ضاد “ کھتے ھیں ، یعنی ھم عرب ھیں پس اذان کھنے کا حق ھم کو ھے ۔ آنحضرت نے فرمایا :” سین بلال عند اللہ شین“ خدا کے نزدیک بلال کی ”سین “ شین ھے ۔ جب بلال ” اسهد ان لا الٰه الا الله “ کھتا ھے تو خدا اسے ” اشهد ان لا الٰه الا الله “ سنتا ھے ۔ اس لئے کہ دل کی گھرائی سے نکلنے والا جملہ مادی و ظاھری قیود سے نکل کر معنوی اور باطنی دنیا میں پھونچ جاتا ھے۔ بلال نے خود کو عالم شھود تک پھونچادیا تھا ۔ عظمت پروردگارکو دیکھا تھالھذا جب اھل مکہ ان کے سینے پر پتھر رکھتے تھے یا ضرب لگاتے تھے تو ان کی زبان سے نکلتا تھا: ”احد “ ”احد“ کیونکہ جو دیکہ چکاھے اور توحید کی عظمت کو لمس کر چکا ھے وہ کیسے خدا کا انکار کر سکتا ھے ۔ ان کو منع کرتے رھے لیکن وہ کھتے رھے۔
رسول اللہ نے بلال کو پیش کر کے بتایا کہ اسلام میں رنگ و نسل کی تمیز نھیں ھے ۔ اسی طرح دوسری مثال سلمان فارسی یا سلمان محمدی کی پیش کی جن کے لئے آپ نے فرمایاتھا :” سلمان منّا اهل البیت “ ۔
دین واحد کے ماننے والوں میں اختلاف کیوں ؟
دین ،دین خدا ھے ، نہ کسی خطّے سے مخصوص ھے نہ کسی فرد سے ۔ کراچی میں جھاں میں عشرہ پڑھتا ھوں وھاں کثرت سے اھلنست برادران بھی آتے ھیں ۔ وھاں کی انتظامیہ کمیٹی نے آخر میں شکریہ ادا کرنے کے لئے مجھ سے دو تین منٹ کی تقریر کرنے کے لئے کھا ۔ میں نے وھاں دو منٹ میں مجمع کے سامنے صرف ایک سوال رکھا کہ دین اسلام آیا تاکہ مومنین کے آپسی اختلافات اور کدورتوں کو دور کر کے انھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دے :” و اذکر نعمة الله علیکم اذ کنتم اعداءً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمته اخوانا “ ( آل عمران /۱۰۳)
پھر ان میں اختلاف کیوں ھے؟ جو دین دو متغایر کو ایک بنانے کے لئے آیا تھا اور جس کا پیغام ھی یھی تھا کہ اسلام میں رنگ و نسل کی تمیز نھیں ھے کیونکہ مومنین ایک دوسرے کے بھائی ھیں ” انما المومنون اخوة“ پھر یہ ایک دوسرے کے دشمن کیوں ھو گئے ؟ میں آج تک یہ نھیں سمجھ سکا جو دین انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے آیا تھا اسی کے نام پر آج مسلمان کیوں اختلاف کر رھے ھیں ؟ یہ میرے لئے ایک سوالیہ نشان ھے ۔ اسی موضوع پر آپ بھی ریسرچ کرتے رھئے اور میں بھی کرتا رھوں گا ۔ اس میں جتنا وقت صرف کریں اور کام کریں کم ھے ۔
اسلام اور عدالت
اگر معاشروں میں عدالت رائج ھو جائے تو نہ جانے کتنی مشکلات خود بخود حل ھو جائیںگی ۔ ابھی تقریباً ایک سال پھلے کا واقعہ ھے ۔ امریکہ کے شھر کیلیفورنیا میں ایک صاحب اپنی زوجہ کے ساتھ گاڑی سے جا رھے تھے ۔انکی بلّی ان کے ساتھ تھی ۔ راستے میں نہ معلوم کیا اختلاف ھوا کہ انھوں نے کھڑکی کھول کر بلّی کو باھر پھینک دیا اور وہ زخمی ھو گئی ۔ پیچھے کی گاڑی والے نے اسے دیکھا اور کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا ۔ case چلا اور عدالتی کاروائی کے بعد اسے تین مھینے کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ امریکہ کی بلّی اتنا حق رکھتی ھے کہ اس کے زخمی ھونے پر ایک انسان کو زندان میں ڈال دیا جائے اور دوسری جگہ اگر انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے ، اس کے گھر کو بلڈوزر سے گرا دیا جائے اور اس سے اس کی عزت اور زندگی کو چھن لیا جائے تو کسی کو بولنے کابھی حق نھیں ھے ۔ یہ امریکی فکر اور آئڈیا لوجی ھے جس میں صرف اپنے منافع کو مد نظر رکھا جاتا ھے اور دوسری طرف عدل و انصاف کے صرف نعرے لگائے جاتے ھیں ۔ یہ عدل و انصاف ایسے ھی ھے جیسے ھمارے ملکوں میں لٹیروں کے گینگ کے افراد دوسروں کا مال لوٹ کر جب آپس میں جمع ھوتے ھیں تو کھتے ھیں کہ آؤ اب اس مال کو انصاف سے آپس میں بانٹ لیں ۔
اسلام جس عدالت کو رائج کرنا چاھتا ھے وہ سب کے لئے ھے :” لقد ارسلنارسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط “ (حدید /۲۵)یعنی ھم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ عدالت کے لئے قیام کریں ۔اسلام انسان کو عدالت کا خوگر بنانا چاھتا ھے ۔ اسلام چاھتا ھے کہ سو سائٹی کا ھر فرد عادل ھو ۔
عدالت تمام انسانی معاشروں کی ضرورت ھے
عدالت تمام انسانی معاشروں کی ایک ضرورت ھے ۔ یہ ضرورت آج بھی ھے اور آئندہ بھی رھے گی ۔ عدالت وہ مشترک عنصر ھے جس پر سب جمع ھو کر کام کر سکتے ھیں خواہ ھندو ھوں یا مسلمان ،عیسائی ھوں یا یھودی ۔ یہ کون سا انصاف ھے کہ عراق میں امریکہ کا ایک فوجی بھی مرتا ھے تو اسے اھمیت دی جاتی ھے اور عراق کی عوام حتیٰ دانشمندوں کے خون کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ ان کے زندانوں میں داروغھٴ زندان زور سے گفتگو نھیں کر سکتا لیکن عراقی و افغانی زندانوں میں کس قدر بے رحمی اور بد اخلاقی کا مظاھرہ کیا جا رھا ھے ۔
ظلم و جور کی اس دنیا کو عدالت کی ضرورت ھے ۔ سر کار رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ نے فرمایا ھے: جب میرا آخری فرزند آئے گا تو ”یملاء الارض قسطاً و عدلاً بعد ما ملئت ظلماً و جوراً“ یعنی وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ھو گی ۔ آنحضرت نے یہ نھیں فرمایا ” یملا ء الارض اسلاماً و ایماناً کما ملئت کفراً ونفاقا ً“ اس لئے کہ عدالت کے بغیر اسلام و ایمان بے معنی ھو کر رہ جاتا ھے ۔
عدالت ھر ایک کی طلب کا نام ھے لھذا عدالت کے نام پر آپ ھر گھر میں تبلیغ کر سکتے ھیں اور اپنی آواز پھونچا سکتے ھیں ۔
عدالت علوی
مسیحی مصنف جارج جرداق اپنی کتاب ” الام علی(ع) :صوت عدالة الانسانیة “ (امام علی: عدالت انسانی کی آواز ) میں لکھتا ھے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ھیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ھے۔ جب آپ (ع) نے اھل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ھے جو بھوکا ھو تو سب نے کھا : یا علی ! آپ حاکم ھیں، اب یھاں کوئی بھوکا نھیں ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس لباس نہ ھو ؟ سب نے کھا : یا علی ! اب سب کے پاس لباس ھے ۔ سوال کیا کوئی ھے جس کے پاس مکان نہ ھو ؟ سب نے کھا : یا علی ! سب کے پاس مکان ھے ۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکہ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ھے ۔
جارج جرداق اس واقعہ کا بھی ذکر کرتا ھے جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یھودی کو کوفہ میں بھیک مانگتے ھوئے دیکھاتھا ۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رھا ھے ۔ اس نے کھا : یا علی ! کل تک مجھ میں قوت تھی ، میں کام کرتا تھا لیکن اب مجھ میں قوت نھیں رھی ۔ امام نے فرمایا : اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماھانہ وظیفہ دیا جائے ۔ کسی نے کھا : یا علی !یہ یھودی ھے ۔ آپ نے فرمایا : یہ ایک انسان ھے جب تک اس کے جسم میں قوت تھی اس نے معاشرے کی خدمت کی ھے ۔ اب حکومت کی ذمہ داری ھے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے ۔ یہ علی بن ابی طالب(ع) ھیں جنھوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کی ھے ۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ھے اور عدالت کے حدود عالمی حدود ھیں ۔ اس پر غور و فکر ھونا چاھئے ،اس پر گفتگو اور کام ھونا چاھئے ۔ ھم دیکھیں کہ ھمارے گھر میں ، ھمارے محلّے میں ، ھمارے شھرمیں کھا ں پر بے انصافی ھو رھی ھے اور وھاں پر عدالت کے لئے کام کریںاور اگر ایسا کر لیا گیا تو آپ کے ساتھ ھر ایک ھو گا ۔
عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ
امام جعفر صادق (ع) کی درسگاہ میں چار ھزار شاگرد ھوتے تھے جن میں ھر مکتب فکر کے لوگ ھوتے تھے اوراب یہ ھماری مجلسیں ھیں جو محدود سے محدود تر ھو تی جارھی ھیں ۔ مکتب اھلبیت (ع) میں ھر فکر کے شاگرد موجود ھیں ۔ آج آپ افریقہ کے کسی جنگل میں بھی امام خمینی کی تصویر دکھا یئے تو دیکھنے والا پھچان جائے گا کیونکہ آپ نے عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ کی ھے ۔ یہ اور بات ھے کہ ابھی ھم نے امام خمینیۺ کو نھیں پھچانا لیکن دشمن نے اچھی طرح پھنچان لیا ھے اور جو حکومت قائم کی اس سے باطل خوف زدہ ھے ۔ آپ کی آواز پوری دنیا میں پھیل گئی اس لئے کہ آپ نے پوری دنیا کے مستضعفین کے لئے آواز بلند کی تھی ۔ آپ نے عدالت کے لئے آواز اٹھائی تھی ۔ پورا عالم اسلام آپ کی طرف متوجہ ھو گیا اس لئے کہ آپ نے اسلام کے نام پر آواز بلند کی تھی ۔ ھماری مجالس ایسی ھونی چاھئیں کہ ایک غیر آئے تو وھاں سے اسلام سمجھ کر واپس جائے ۔
تبلیغ میں یہ پھلا مرحلہ ھے کہ اسلام کو پوری بشریت کی ھدایت کے لئے پیش کیا جائے ۔ قرآن کھتا ھے :” شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدیً للناس “ قرآن نازل ھوا ھے پوری بشریت کی ھدایت کے لئے نہ کہ فقط شیعوں کے لئے ، یعنی اگر میں مبلغ ھوں تو میری نظر میں انسان ھونا چاھئے نہ کہ کوئی شیعہ۔
ایک زمانہ تھا جب ھماری مجلسوں میں ھر مذھب کے لوگ شرکت کرتے تھے لیکن اب نھیں آتے اس کی کیا وجہ ھے ؟ اس کے اسباب و علل پر غور کرنا چاھئے ۔ ھم نے اپنا دائرہ اتنا تنگ کیوں کر رکھا ھے جبکہ اسلام اس طرح کے حدود کو توڑنا چاھتا ھے ۔ میں دو تین آیتوں کے ذریعہ اس مطلب کو واضح کرنا چاھتا ھوں ۔ قرآن تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کھتا ھے :” و اعتصموا بحبل الله جمعیا و لا تفرقوا “ ( آل عمران /۱۰۳) یعنی تم سب لوگ خدا کی رسی کو جو دین الٰھی ھے ، مضبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ھو ۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ھے کہ یہ بات ممکن ھے کہ تمام مسلمان ایک جگہ جمع ھو جائیں ۔
پھر قرآن نے اور آگے بڑہ کر تمام اھل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا :” یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبدالّا اللّه ولا نشرک به شیاً“ ( آل عمران /۶۴) یعنی آؤ ھم ایک ایسے کلمہ پر متحد ھو جائیں جو ھمارے اور تمھارے درمیان مشترک ھے اور وہ یہ کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرارنہ دیں ۔ پھر قرآن نے اور آگے بڑہ کر پوری بشریت کو ایک نکتہ کی طرف دعوت دی :” یا ایها الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم “ ( بقرہ / ۱۰۱) سب مل کر اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں خلق کیا ھے ۔ قرآن نے کتنے وسیع پیمانے پر گفتگو کی ھے اور ھماری گفتگو کتنی محدود ھوتی ھے ۔
قرآن نے تین دائرے بیان کئے ھیں ۔ پھلا دائرہ مومنین کا ، دوسرا دائرہ اھل کتاب کا اور تیسرا دائرہ پوری انسانیت کا ۔ عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ کر نے کے لئے ھمیں اپنی ذات کو اس منزل تک لانا ھے جھاں ھم ان مسائل کو درک اور محسوس کر سکیں ۔
یہ دنیا اسباب و مسبب اور علل معلول کی دنیا ھے ۔ اس میں جو جتنی محنت کرے گا اسے اتنا ملے گا ۔ امریکہ محنت کرے گا تو اسے ملے گا ۔ مسلمان محنت کرے گا تو اسے ملے گا ۔ آپ کو تعجب ھو گا کہ اگر آپ امریکہ اور یوروپ کی یونیورسٹیوں میں جائیں اور وھاں ھندوستان و پاکستان کے کسی دیھات کا نقشہ طلب کریں تو وہ آپ کو ails detمیں ایسا نقشہ فراھم کر دیں گے جو آپ کو ھندوستان و پاکستان میں بھی نھیں ملے گا ۔ اسی طرح اور دیگر مسائل میں بھی انھوں نے محنت کی ھے اور جو محنت کرے گا اسے اس کا نتیجہ ملے گا ۔یہ قرآنی اصول ھے ۔ اسی طرح قرآن نے زندگی کے بھت سے اصول بیان کئے ھیں۔ ان اصولوں کو جو بھی اپنائے گا اسے اسکا result مل جائے گا ۔ امام علی (ع) نے قرآن کے سلسلے میں وصیت کی تھی کہ ھوشیار رھنا کھیں ایسانہ ھو کہ قرآن پر عمل کرنے میں تمھارا غیر تم سے آگے بڑہ جائے ۔ اس لئے کہ قرآن میں اصول ( Prinsiples) بیان ھوئے ھیں اور ان اصولوں کو کوئی بھی اپنا سکتا ھے اور ان پر عمل کر کے کامیاب بھی ھو سکتا ھے ، جیسا کہ کامیاب بھی ھوتے ھیں ۔
عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ اورلوگوں کی ھدایت کے لئے ھمیں یہ دیکھنا ھو گا کہ گمراھی نے اپنا جال کھاں کھاں تک پھیلا رکھا ھے ، اور جب ھم اس نکتے پر فکر کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ شیطان نے حتیٰ ھمارے بیڈ روم تک احاطہ کر رکھا ھے ۔ آج زمین فساد اور گمراھی سے پُر ھے: ” ظهر الفساد فی البر و البحر بما کسبت “ اور یہ فساد کھیں اوپر سے نھیں آیا بلکہ ”بما کسبت اید ی الناس “ یہ خود انسانوں کے ھاتہ کا کارنامہ ھے ۔ اگر اوپر سے عذاب یا بلائیں آرھی ھیں تو یہ بھی انسانوں ھی کے اعمال کا نتیجہ ھے ۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ھوتی ھے لیکن اس کا سرچشمہ خود زمین میں موجود ھے ۔
عالمی سطح پر تبلیغ کرنا ھے تو مجمع کو اس بلندی پر لے جا کر گفتگو کریں جو اسلام چاھتا ھے یعنی جس بلندی پر قرآن نے گفتگو کی ھے ۔ پھر اختلافی ( controversial)گفتگو نہ ھو بلکہ عالمی (universal) گفتگو ھو اور اگر اس طرح کی گفتگو ھو رھی ھے تو آپ اس میں حصہ لیں اس میں شریک ھوں ۔ میں نے کراچی میں تربیت اولاد پر ایک عشرہ پڑھا ۔ شارجہ میں ایک مومن بھائی نے مجھ سے کھا کہ میں کیسٹ سن رھا تھا میرے ساتھ ایک ھندو تھا ۔ میں پھلی مجلس سن کر ٹیب ریکارڈر آف کرنے جا رھا تھا کہ اس نے کھا اسے آف نہ کرو! میں بھی سننا چاھتا ھوں ۔ پھر اس نے مجھ سے مجالس کا پورا set فراھم کرنے کے لئے کھا ۔ میں نے اس سے کھا کہ تم تو مسلمان نھیں ھو، ان مجلسوں کا set لیکر کیا کرو گے ۔ اس نے کھا : اس میں مسلمان و غیر مسلمان کی بات ھی نھیں ھے ۔ تربیت اولاد کا مسئلہ ھر انسان کے لئے اھمیت رکھتا ھے ۔
قرآن کی کوئی آیت ایسی نھیں ھے جو عالمی نہ ھو ۔
تبلیغ میں ھمیں اور آپ کو کبھی مایوس نھیں ھونا چاھئے ۔ مایوس اسے ھونا چاھئے جسے خدا کی ذات پر یقین نہ ھو: ” هو الّذی ارسل رسوله بالهدی و دین الحق لیظهرہ علی الدین کلّه و لو کره المشرکون “ ( توبہ / ۳۳) یہ دین یقینا کامیاب ھو گا کیونکہ یھی دین دین پروردگار ھے: ” ان الدّین عند اللّه الاسلام “ خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ھے ۔ ” و ما عند ک ینفد و ما عند اللہ باق “ اور جو کچھ تمھارے پاس ھے وہ ختم ھو جائے گا لیکن جو خدا کے پاس ھے وہ باقی رھے گا ۔ اسلام کبھی ختم ھونے والا نھیں ھے کیونکہ خدا کادین ھے ۔ اگر میں اسلام کے لئے کوئی کام کروں تو اس میں میرا شرف ھے ۔
قرآن کا تبلیغی انداز
اس وقت ھمارے سامنے بھت بڑے بڑے چیلنج ھیں۔ طرح طرح کے فراعین سے مقابلہ ھے جو زمین خدا پر طغیان و سرکشی کر رھے اور گمراھی پھیلا رھے ھیں اور قرآن کا حکم وھی ھے جو موسیٰ و ھارون کے لئے تھایعنی ” اذھب الی فرعون انہ طغیٰ “ یعنی اے موسیٰ و ھارون !تم فرعون کی طرف جاؤ کیونکہ وہ بغاوت اور سر کشی پر اتر آیا ھے: ” و قولا له قولاًلینا “لیکن اگر فرعون کے پاس بھی تبلیغ کے لئے جانا ھے تو نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنا لھذا اے موسیٰ و ھارون! تم اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ۔ یہ سب قرآن کا عالمی پیغام ھے ۔کسی کے جذبات کو ٹھیس پھونچا کر اس سے اپنی بات نھیں کھی جا سکتی۔ ایک نا فرمان بچے کو اگر محبت دی جائے تو وہ آپ کی بات سننے کے لئے تیار ھو جائے گا ۔ ھمارے سامنے انسان کی تربیت کا مسئلہ ھے ۔ اسلام تمام انسانوں کی تربیت کرنا چاھتا ھے اور اس کے لئے بڑے اقدام کی ضرورت ھے ۔ امام حسین (ع) اگر کھتے کہ مجھے چھوڑ دو ،مجھے نمازیں پڑھنے دو ، مجھے عبادتیں کرنے دو تو یزید امام حسین (ع) کا مخالف نہ ھوتا بلکہ خوش ھوتا اور اعلان کرتا کہ ان سے بڑا پرھیزگار کوئی نھیں ھے لیکن امام حسین (ع) نے فرمایا :” انا اهل بیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة بنافتح اللّه بنا ختم و یزید رجل فاسق ،شارب الخمر ، قاتل نفس المحرمة ، معلن بالفسق “ ھم اھل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمدو رفت کا مقام ھیں ، ھمارے ذریعے خدا نے آغاز کیا اور ھمارے ھی ذریعہ اختتام ھو گا اور یزید شارب خمر ، قاتل نفس محرمہ اور کھلے عام فسق کرنے والا ھے۔ پھر فرمایا: ” و مثلی لا یبایع مثله “ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کر سکتا ۔ امام یہ نھیں فرمارھے ھیں کہ میں یزید کی بیعت نھیں کر سکتا بلکہ فرمایا مجھ جیسا یزید جیسے کہ بیعت نھیں کر سکتا ۔ اس کا مطلب ھے کہ حسینیت اور یزیدیت کا یہ سلسلہ جاری رھے گا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ھے ۔