وہ گناہِ کبیرہ جس کے لیے جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے مکر اور غدر یعنی وعدہ خلافی اور دھوکا دینا ہے۔ چنانچہ روایات میں ان تینوں کی سزا آتشِ دوزخ بتائی گئی ہے۔ اصول کافی کی کتاب ایمان وکفر کے باب مکرو غدروخدیعہ میں اس مضمون سے متعلق چھ حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے دو بطور نمونہ یہاں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اگر مکروفریب کی سزا آتش جہنم نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زیادہ مکار ہوتا۔" آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "بلاشبہ دھوکے بازی، عیاشی اور خیانت کی سزا آتشِ جہنم ہے۔" (کافی)
وسائل میں لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "مسلمان کو مکر اور دھوکا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ میں نے جبرئیل سے سُنا ہے کہ مکر اور دھوکے کا نتیجہ جہنم ہے۔" پھر فرمایا: "جو کوئی کسی مسلمان کو دھوکا دے یا اس سے خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۳۷) اور قریب قریب اسی مضمون کی کچھ اور حدیثیں نقل کی ہیں اور ویسے ہی مستدرک میں اس مضمون کی کچھ روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ مثلاً
لوگوں نے امیرالمومنین سے کہا کہ جو آپ کا مخالف (معاویہ) ہے وہ جس حکومت پر قابض ہے اسے اس وقت تک معزول نہ کیجئے جب تک آپ کی حکومت مستحکم نہ ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مکر، فریب اور وعدہ خلافی کا انجام جہنم ہے۔ (مستدرک)
مکر، غد ر اور خدعہ کے معنی
غدر کا جس کے معنی بے وفائی اور وعدہ خلافی کے ہیں۔ مکروفریب اور خدعہ دونوں کے معنی دوسرے کے ساتھ اس طرح بُرائی کرنے کے ہیں کہ وہ سمجھ نہ پائے۔ مثلاً ظاہر میں اس کے ساتھ بھلائی لیکن باطن میں بدی ہو یا ظاہر میں تو یہ جتایا جائے کہ اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اور در پردہ آزار رسانی کی گھات میں رہے۔ غرض مکر اور خدعہ دوغلا پن یعنی منافقت اور دورنگی یعنی ظاہر میں اچھا اور باطن میں بُرا ہونا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں، ایک خدا، پیغمبر اور امام کے ساتھ مکر اور خدعہ اور دوسری قسم لوگوں کے ساتھ مکرو فریب۔
خدا سے دھوکا
خدا سے دھوکے کی بدترین قسم منافقوں کا دھوکا ہے یعنی وہ لوگ جو اپنا کفر چھپائے رکھتے ہیں اور ظاہر میں اسلام اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے:
"وہ خدا اور اہلِ ایمان کا دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں لیکن یہ بات نہیں سمجھتے۔" (آیت۹)
اگر یہ کہا جائے کہ خدعہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ شخص جسے دھوکا دیا جائے بے خبر ہو اور خدعہ کو نہ سمجھے تو پھر یہ خدعہ خدا کے ساتھ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ پیغمبر اور مومنوں سے فریب کرتے تھے تو وہی خدا کے ساتھ فریب کہلاتا ہے یا یہ کہ منافقین خدا سے اس طرح دھوکا اور فریب کرتے ہیں کہ اپنا کفر چھپاتے اور ایمان ظاہر کرتے تھے۔
اس بات کے معنی کہ یہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں یہ ہیں کہ ان کے فریب سے پیغمبر اور مومنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ خود ہی چوٹ کھا جاتے ہیں کیونکہ یہ ہر نیکی اور بھلائی سے محروم رہ جاتے ہیں اور دُنیا میں بدنام اور آخرت میں عذابِ الہٰی میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
خدا سے دھوکا کرنے میں دکھاوے کی عبادت شامل ہے جس کا ذکر شرک کی بحث کے آخر میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔
روحانی مقاما ت کا دعویٰ
خدا کو دھوکا دینے میں بعض بلند دینی مناصب ومقامات کا دعویٰ کرنا شامل ہے جبکہ وہ حقیقت میں ان سے محروم ہو مثلاً صبر، شکر، توکل، محبت، رضا، تسلیم، اخلاص وغیرہ مقامات کا دعویٰ۔ مثلاً وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا معبود خدائے واحد ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور کہتا ہے: "ایاک نعبد"حالانکہ وہ شیطان کو پوجتا ہے یا کہتا ہے "اللّٰہ اکبر" یعنی خدا میرے نزدیک ہر چیز سے بڑا اور اونچا ہے جبکہ مال ومرتبہ اور دنیاوی حیثیتوں نے اس کے دل میں ریشہ دوانی کرکے بڑی اہمیت حاصل کر رکھی ہے۔ چنانچہ اگر اس سے کہیں کہ خدا کی خاطر فلاں گناہ چھوڑ دے تو آمادہ نہیں ہوتا البتہ اگر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس سے اس کے مال، آبرو یا اس کی دوسری دُنیاوی حیثیتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اسے ترک کر دیتا ہے۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جس وقت تم تکبیر کہو تو تمہیں چاہیئے کہ دُنیا کی تمام چیزوں کو خدا کی بزرگی کے سامنے چھوٹا سمجھو کیونکہ جس وقت بندہ تکبیر کہتا ہے اور خدا یہ جان لیتا ہے کہ اس کے دل میں اس کی تکبیر کے خلاف کوئی بات موجود ہے۔ یعنی وہ خدا کے سوا کسی اور کو زیادہ سمجھتا ہے تو خدا اس سے فرماتا ہے
اے جھوٹے! تُو مجھے فریب دیتا ہے۔ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ میں تجھے اپنی یاد کی مٹھاس، اپنی مناجات کے مزے اور اپنے قریب پہنچنے سے محروم کر دوں گا۔" (صلوٰة مستدرک باب ۲)
بزرگا ن دین سے دھوکے بازی
بزرگانِ دین سے دھوکے بازی مثلاً ایک شخص ان سے کہتا ہے: "موال لکم ولا لیائکم"یعنی میں تم سے اور تمہارے دوستوں سے محبت کرتا ہوں حالانکہ دوستوں سے اسے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اہل بیت سے ان کی نسبت کا لحاظ ہی نہیں کرتا یا کہتا ہے: "التارک للخلاف علیکم"جو بات تمہارے خلاف جاتی ہے وہ میں نے ترک کر دی ہے حالانکہ اس نے ہزاروں باہر ان کی مخالفت کی ہے اور کرتا ہے جیسا کہ جھوٹ کی گفتگو میں بیان کیا گیا ہے۔
خدا کے بندوں سے دھوکا
ان آخرت سے بےخبر لوگوں میں جو طرح طرح کی دھوکے بازی ، بہانے بازی اور فریب کاری عام ہے وہ اسی قسم سے متعلق ہے اور سب کی سب حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور جتنا اس کا فساد زیادہ ہوتا اس کی حرمت اور سزا بھی اتنی شدید ہو گی۔
خدا سورة فاطر آیت ۴۲ میں فرماتا ہے:
"دھوکا خود اپنے ہی کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے۔"
یعنی ہر دھوکہ باز کا دھوکا اسی کی طرف واپس آتا ہے اور جو کچھ اس نے دوسرے کے بارے میں سوچا ہے وہ خود اپنے ہی بارے میں مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ ہر مکر، مکر کرنے والی ذات اور گراوٹ کا اور جس سے مکر کیا جاتا ہے اس کی عزت بڑھانے اور درجہ بلند کرنے کا سبب ہو گا یا مکر کرنے والا آخرت میں اپنے بُرے کام کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جائے گا اور جس کے ساتھ مکر کیا گیا ہے اس ظلم کی وجہ سے جو اس پر ہوا ہے بہشت میں بلند مقام پائے گا یا دُنیاوآخرت دونوں میں۔ چنانچہ اس بات کا مطلب کہ دُنیا میں مکر کرنے والا رسوا ہوتا ہے اور اس کے مکر سے اسی کو نقصان پہنچتا ہے اس قدر واضح ہے کہ "منہج الصادقین "میں لکھا ہے کہ یہ جملہ عرب میں کہاوت بن گیا ہے کہ : جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا کہ وہ خود اس میں سر کے بل جا گرے گا۔ اسی طرح ایرانی کہاوت ہے: بُرائی نہ کر جو بُرائی آگے آئے۔ کنواں نہ کھود جو خود اس میں گرے۔ یہ بھی کہتے ہیں :
جو کوئی کسی کے لیے کنواں کھودے گا اس میں پہلے خود، پھر دوسرا گرے گا۔"
(۱) تفسیر منہج الصادقین میں تاریخی کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ دو آدمیوں نے پیسہ جمع کیا اور اسے چوری کے خوف سے ایک معینہ درخت کے اندر چھپا دیا۔ ان دونوں میں سے ایک رات کو چھپ کر آیا اور وہ پیسے اٹھا لیے۔ دوسرے دن جب دونوں پیسے لینے کے لیے آئے تو اس پیسے کو وہاں نہیں پایا۔ وہ آدمی جو رات کو پیسے چوری کر کے لے گیا تھا اس نے دوسرے آدمی کا گریبان پکڑ لیا کہ مال چھپاتے وقت تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں تھا یقینا پیسے تم نے اٹھائے ہیں۔ اس بے چارے نے کافی قسمیں کھائیں لیکن چور اپنی بات پر بضد تھا۔ یہاں تک کہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوا۔ حاکم نے چوری کرنے والے سے گواہ طلب کیے تو اس نے کہا :"درخت خود گواہی
منافقت اور تضاد بھی د ھوکا ہے
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی مسلمانوں سے منافقت اور تضاد برتے گا جب قیامت میں آئے گا تو اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔" (کافی)
حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے:
"وہ شخص کتنا بُرا ہے جو منافقت اور تضاد رکھتا ہے۔ اپنے بھائی کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اسے بُرا کہتا اور اس کا گوشت کھاتا ہے (یعنی اس کی غیبت کرتا ہے)۔ اگر بھائی کو نعمت ملتی ہے تو اس سے جل جاتا ہے اور اگر وہ پریشان ہو جاتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے اور اس کی مدد نہیں کرتا۔ (کافی)
رسولِ خدا فرماتے ہیں: "جو منافق ہے وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کی دو زبانیں ہوں گی، ایک پیچھے کی طرف اور دوسری آگے کی طرف دونوں لٹکتی ہوں گی اور ان سے آگ کی اس قدر لپٹیں نکلتی ہوں گی کہ اس کے تمام بدن میں آگے لگ جائے گی، اس کے بعد کہا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو دُنیا میں منافق تھا اور متضاد باتیں کرتا تھا، قیامت میں بھی دو چہرے اور آگ کی دو زبانیں رکھتا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۴۳)
منا فقت اور تضا د کیا ہے؟
(۱) دو زبان آدمی یعنی وہ شخص جو دو متضاد باتیں کہتا ہے اور موقع کے مطابق دُنیاوی فائدہ
حاصل کرنے کے لیے اور بے ضرورت بھی مختلف باتیں کرتا ہے۔ مثلاً ایک چیز کا اقرار کرتا ہے بعد میں اس سے انکار کر دیتا ہے یا کسی بات کی گواہی دیتا ہے پھر اس کے خلاف بیان دے دیتا ہے یا کسی کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے پیٹھ پیچھے اسے بُرا کہتا ہے۔
(۲) منافق اور دو زبان آدمی یعنی وہ شخص جو دو آدمیوں کے پاس آتا جاتا ہے اور ہر ایک سے اس کے مطابق بات کرتا ہے اور یہی منافقت ہے۔
(۳) اگر کوئی شخص دو ایسے آدمیوں میں سے ایک کی بات دوسرے سے جا کر لگاتا ہے جو آپس میں دشمنی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیٹھ پیچھے خلاف اور نامعقول باتیں کرتے رہتے ہیں تو یہ دو زبانی ہے ۔
(۴) جو دو آدمی آپس میں دشمن ہیں ان میں سے ہر ایک سے ملاقات کے وقت اس کے دشمن اور مخالف کے مقابلے میں اس کی تعریف کرے تو یہ بھی دو زبانی ہو گی۔
(۵) ایسے دو آدمیوں میں سے ہر ایک سے دوسرے کے مقابے میں ساتھ دینے اور مدد کرنے کا وعدہ کرے تو یہ بھی دو زبانی ہے۔ غرض ایسے تمام موقعوں پر اس شخص کو منافق اور دو زبان کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایسے دو شخصوں میں سے ہر ایک سے جو آپس میں دشمن ہیں ایک کی بات دوسرے کے سامنے دہرائے بغیر صرف رفاقت اور دوستی اظہار کرنے، اس کی تعریف کرنے اور مدد کا وعدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ دو زبانی نہیں ہے۔
ملاوٹ بھی لوگوں کے ساتھ دھوکا ہے
لوگوں کے ساتھ دھوکے کی ایک قسم لین دین میں ملاوٹ بھی ہے بِکری کی چیز میں کوئی دوسری جنس اس طرح ملانا کہ ظاہر نہ ہو ملاوٹ کہلاتا ہے مثلاً دودھ میں پانی ملانا یا اچھی اور بُری چیزوں کو ملا کر اچھی بنا کر بیچنا۔
بے ایمانی اور ملاوٹ کرنے کو یکجا کر دیا۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۱۵)
محدث الجزائری نے زہرا الربیع میں نقل کیا ہے کہ اصفہان میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی پٹائی کرنی چاہی اور اسے چند ڈنڈے مارے لیکن اتفاقاً عورت مر گئی حالانکہ وہ آدمی اس کے قتل کا ارادہ نہ رکھتا تھا بلکہ اس کا مقصد عورت کی سزنش کرنا تھا۔ اسے عورت کے رشتہ داروں سے خوف ہوا اور وہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے سوچنے ہوئے گھر سے باہر آیا اور اپنے ایک جاننے والے سے اپنی روداد سنائی تو اس شخص نے عورت کے رشتہ داروں سے چھٹکارے کے لیے یہ مشورہ دیا کہ کوئی خوبصورت جوان تلاش کرو، اسے مہمان بنا کر اپنے گھر لے جاؤ اور اس کا سر کاٹ کر عورت کے پہلو میں رکھ دو اور عورت کے رشتہ داروں کے استفسار پر کہنا کہ میں نے اس جوان کو عورت کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور میں نے دونوں کو قتل کر دیا۔ اس آدمی کو یہ ترکیب پسند آ گئی اور وہ اپنے گھر کے دروازے پر آ کر بیٹھ گیا۔
ایک خوبصورت جوان کا اس کے گرھ کے پاس سے گذر ہوا تو وہ آدمی اسرار کر کے اسے اپنے گھر لے گیا اور اس کے بعد اسے قتل کر دیا۔ جب اس عورت کے رشتہ دار آئے اور دو جنازے دیکھے تو اس آدمی نے اپنی گڑھی ہوئی کہانی سنائی۔ جس پر وہ لوگ مطمئن ہو کر چلے گئے۔ بدقسمیت سے وہ آدمی جس نے اس عورت کے شوہر کو یہ مشورہ دیا تھا اس کا بیٹا اس روز گھر نہیں پہنچا تو وہ بہت پریشان ہوا اور اس عورت کے شوہر کے گھر آیا اور کہا: "وہ مشورہ جو میں نے تمہیں دیا تھا کیا تم نے اس پر عمل کیا؟" اس آدمی نے کہا: "ہاں۔" تو اس نے کہا "اس مقتول آدمی کو دکھاؤ۔" جب وہ جنازے کے سرہانے آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو پایا جو اسی کے مشورے سے قتل کیا گیا تھا۔ پس وہ اس بات کا مصداق ٹھہرا کہ جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا خدا خود اسے اس کنویں میں گرا دے گا۔ ان دونوں واقعات کی مانند بہت سے واقعات تاریخی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب محجة البیضاء میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے جو دھوکا اور حد دونوں کی مناسبت سے ہے اور جس کا حد کی بحث میں ذکر ہو گا۔
سے فرمایا: "تُو نے مسلمان سے آپ نے یہ بھی فرمایا:
"جو کوئی کسی مسلمان کے ساتھ مول لینے یا بیچنے میں ملاوٹ کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور وہ قیامت میں یہودیوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ یہودی ہی ملاوٹ کرتے ہیں۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۵۵)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے ایک شخص سے فرمایا جو آٹا بیچا کرتا تھا:
"ملاوٹ کرنے سے بچنا کیونکہ جو کوئی دوسرے سے ملاوٹ کرے گا خود اس کے مال میں بھی ملاوٹ ہو جائے گی اور اگر مال نہیں ہو گا تو اس کے اہل وعیال کے ساتھ ملاوٹ ہو گی۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۱۵)
اس سے متعلق بہت سی روایتیں ہیں جن میں سے کچھ کم تولنے کے تحت بیان کی جا چکی ہیں۔
مہنگا بیچنا بھی د ھوکا ہے
لین دین میں ملاوٹ کرنے کی طرح غبن کرنا بھی ہے اور وہ بیچنے والے کا قیمت میں دھوکا دینا ہے یعنی کسی چیز کو اس کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت پر اس شخص کے ہاتھ بیچنا ہے جو اس سے بے خبر ہے۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کسی ایسے شخص کو دھوکا دینا اور زیادہ قیمت پر مال بیچنا جو اصلی قیمت سے بے خبر ہے (اور مال والے پر بھروسہ اور اعتبار کرتا ہے) سحت ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت اخیار باب ۱۶) اور "گناہ ۲۵" کی بحث میں "سحت کھانے" کا بیان گذر چکا ہے۔
آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مومن کو لین دین میں دھوکا دینا حرام ہے۔ ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو تجھ پر اعتبار کرتا ہے اسے دھوکامت دے کیونکہ اسے دھوکا دینا حلال نہیں ہے۔
ذخیرہ اندوزی
لوگوں کی غذا گیہوں، جو، چاول اور روغن اکٹھا کر کے اس کے مہنگے ہو جانے کے انتظار میں روکے رکھنا ذخیرہ اندوزی ہے تاکہ لوگوں کو ضرورت پڑے اور پھر نہ مل سکے جو ان کی ضرورت رفع ہو۔ یہ حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے جس کے لیے آتشِ جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے جہنم میں ایک گھاٹی دیکھی جس میں آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ انہوں نے مالک جہنم سے پوچھا: یہ کن لوگوں کی جگہ ہے؟ اس نے کہا: تین گروہوں کی۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے، شرابی، اور دلالی (حرام کاری سے کمائی) کرنے والے۔"
اور آپ یہ بھی فرماتے ہیں:
"گناہگار شخص ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۲۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں:
"جو شخص لوگوں کی غذا خرید کر چالیس دن تک اس لیے روکے رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں مہنگائی ہو جائے تو اتنا سخت گناہ کرتا ہے کہ تمام غلہ بیچ کر اس کی رقم خیرات بھی کر دے تب بھی اس کے کیے ہوئے گناہ کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۲۷)
کچھ روایتوں میں ذخیرہ اندوزوں کو ملعون بھی کہا گیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
"ایک رات بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں پر عذاب نازل ہوا تو صبح تک ان کے چار طبقے ہلاک ہو چکے تھے۔ ڈھول بجانے والے، گویے، ذخیرہ اندوز اور سود کھانے والے مہاجن۔" (مستدرک الوسائل کتاب تجارت باب ۲۱)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں:
"جو شخص چالیس دن سے زیادہ تک ذخیرہ رکھے گا وہ بہشت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا جبکہ بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک پہنچتی ہے اور جب اس پر بہشت کی خوشبو ہی حرام ہے تو پھر خود بہشت کا تو ذکر ہی کیا ہے۔" (مستدرک الوسائل کتاب تجارت باب ۲۱)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں:
"جو شخص مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک لوگوں کی غذا روکے رکھے گا وہ خدا سے کٹ جائے گا اور خدا اس سے بیزار اور بے تعلق ہو جائے گا۔" (مستدرک۔ تجارت باب۲۱)
جاننا چاہیئے کہ اگر کوئی لوگوں کی غذا ایسی صورت میں روک لیتا ہے جب لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی یا اگر ضرورت پڑتی بھی ہے تو پھر مل جاتی ہے کہ وہ انہیں بیچ دیتا ہے اور ان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا وہ مہنگی بیچنے کے لیے نہیں اپنے کنبے کے خرچ کے لیے روک لیتا ہے تو ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت میں ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ حاکم شرع کو چاہیئے کہ وہ اسے اس قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور کرے جس پر وہ خود راضی ہو جائے اور اگر وہ زیادہ قیمت وصول کرنا چاہے تو حاکم شرع منصفانہ نرخ سے اس کی قیمت ادا کر کے اس کے گیہوں حاجت مندوں کو فروخت کرے۔