کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا نھیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا نھیںھوتا۔جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ھے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ھوتا ھے، اور اپنے اطراف میں ھونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ھے۔جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ھے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ نھیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ھوتا ھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ھونے لگتی ھیں، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ھے۔اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ھونے لگتی ھیں، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ھوجاتی ھیں، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ھونے لگتا ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ گناہ بدن پر طاری ھونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ھے، ذاتی نھیں ۔
انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ھوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ھوجاتی ھے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ھے۔گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ھے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ھے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ھوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ھے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ھوجاتا ھے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ھواھو۔گناھگار یہ نھیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ھے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ھے۔
جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ھونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ھے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ھے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں نھیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ھے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ھے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ھے اس سے بھی تو رک سکتا ھے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول نھیں ھے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ھوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔
گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ھے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ھے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ھی کیوں نہ ھوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ھے۔
گناھگار کو اس چیزکا علم ھونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ھے:
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب))۔ 1
"وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ھے "۔
امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھیں:
"وَاَیْقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ"۔
"مجھے اس بات پر یقین ھے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے"۔
اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ھے:
((قُلْ یَاعِبَادِی الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔ 2
"(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں کا
معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے"۔
لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ھونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ھونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی نھیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے "واجب فوری"ھے۔
اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ھے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ھے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:
(( ۔ ۔ ۔ لَوْ اٴَنَّ لِی كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ))۔ 3
"اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ھو جاوٴں "۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
((بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیَاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ))۔ 3
"ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی تھیں تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ھو گیا"۔
روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ھوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:
((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَه مَعَه لاَفْتَدَوْا بِه مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یَكُونُوا یَحْتَسِبُونَ))4
"اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ھی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی نھیں رکھتے تھے"۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ھیں :
خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول نھیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ھے:
" فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَریٰ عَلَيَّ فیه قَضٰاوُٴكَ"۔
"تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ھوگئی ھے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی نھیں رھی "۔
بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت
"عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام کھتے ھیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور رھیں۔
اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے انھیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے۔
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رھے، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے" 5
توبہ، آدم و حوا کی میراث
جناب آدم علیہ السلام روئے زمین پر خداوندعالم کے خلیفہ اور اس کے نائب کے عنوان سے پیداکئے گئے، اور پتلہ بنانے کے بعد اللہ نے اس میں اپنی روح کو پھونکی 6 اور ان کو "اسماء" کا علم دیا، فرشتوں نے ان کی عظمت و کرامت کے سامنے حکم خدا کے سے سجدہ کیا، اس وقت خدا کے حکم سے وہ اور جناب حوّابہشت میں رہنے لگے 7 بہشت کی تمام نعمتیں ان کے اختیار میں دیدیں گئی، اور انھیں تمام نعمتوں سے فیضیاب ھونے کے لئے کوئی رکاوٹ نھیں تھی، مگر دونوں سے یہ کھا گیا کہ فلاں درخت کے نزدیک نہ ھونا، کیونکہ اس کے نزدیک ھونے کی صورت میں تم ظالمین اور ستمگاروں میں سے ھوجاؤگے۔ 8
وہ شیطان جس نے جناب آدم کو سجدہ نہ کرنے میں حکم خدا کی مخالفت کی اور خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا، اسے خدا کی لعنت تکلیف دی رھی تھی، اس کا غرور و تکبر اس بات کی اجازت نھیں دیتا تھا کہ خدا کی بارگاہ میں توبہ کرلے، کینہ اور حسد کی وجہ سے جناب آدم و حوا علیھماالسلام سے دشمنی نکالنے کی فکر میں لگ گیا تاکہ ان کا چھپا ھوا بدن ظاھر ھوجائے، اور اس کی اطاعت کرتے ھوئے اپنی عظمت و کرامت سے ھاتھ دھو بیٹھیں، اور بہشت عنبر سے باھر نکال دئے جائیں نیز خدا کے لطف و کرم سے منھ موڑلیں۔
چنانچہ ان جملوں کے ذریعہ اس درخت کا پھل کھلانے کے لئے انھیں وسوسہ میں ڈال دیا:
"اے آدم و حوا ! خداوندعالم نے اس درخت کا پھل کھانے سے اس لئے منع کیا ھے کہ اگر تم اس کا پھل کھالوگے تو فرشتے بن جاؤگے یا اس ھرے بھرے باغ میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے رہ جاؤگے"۔
اپنے وسوسہ کو ان دونوں کے دلوں میں ثابت و مستحکم کرنے کے لئے اس نے (جھوٹی) قسم کھائی کہ میں تمھارا خیرخواہ ھوں۔ 9 شیطان کا حسین وسوسہ اور اس کی قسم نے دونوں حضرات کے حرص کو شعلہ ور کردیا، ان دونوں کا حرص خداوندعالم کی نھی کے درمیان حجاب بن گیا شیطان ان دونوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ھوگیا، او ر یہ خدا کی نافرمانی میں مبتلا ھوگئے ۔ اس درخت کا پھل کھالیا، ان کا بدن ظاھر ھوگیا، وقار و ھیبت اور نور و کرامت کا لباس اترگیا، اپنے بدن کو بہشت کے درخت کے پتوں سے چھپانا شروع کیا، اس وقت خداوندعالم نے خطاب فرمایا کہ کیا ھم نے تمھیں اس درخت کے قریب جانے سے منع نھیں کیا تھا اور اعلان نہ کیا تھا کہ شیطان تمھارا كُھلا دشمن ھے؟! 10
جناب آدم و حوا بہشت سے نکال دئے گئے، مقام خلافت و علم اور مسجود ملائکہ ھونے سے کوئی کام نہ چلا، اور جو عظمت ان کو دی گئی تھی اس سے ھبوط کرگئے، اور زندگی کے لئے زمین پر بھیج دئے گئے۔
مقام قرب سے دوری، فرشتوں کی ھم نشینی سے محرومی، بہشت سے خروج، نھی خدا پر بے توجھی اور شیطان کی اطاعت کی وجہ سے دونوں غم و اندوہ اور حسرت میں غرق ھوگئے، خود پسندی کے خوفناک اور محدود زندان میں پہنچ گئے، کیونکہ اسی خود پسندی اور خود بینی کی وجہ سے رحمت و عنایت اور لطف و کرم سے محروم ھوچکے تھے، اورغیر اللہ کے جال میں پھنس گئے تھے، اور ایمان، عشق اور بیداری کی فضا میں وارد ھوگئے، جھاں سے دنیاوی فائدے اور آخرت کے لئے بے نھایت فوائد انسان کو ملنے والے ھیں۔
جب آدم و حوّا (علیھما السلام) اس طرح اپنے آپ میں آئے تو فریاد کی کہ ھم انانیت اور غفلت کے سبب فراق یار کے زندان گرفتار ھوگئے ھیں، خودخواھی اور حرص و غرور کے اندھیرے میں غرق ھوگئے اور (( ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا)) سے دچار ھوگئے۔
اپنی حالت پر متوجہ ھونے، حرّیت و آزادی کے میدان میںوارد ھونے، شیطان کے جال سے نجات پانے، خداوندعالم کی طرف متوجہ ھونے اور بارگاہ خداوندی میں تواضع و انکساری سے پیش آنے کا سبب ھے، کہ اگر شیطان بھی اسی طریقہ سے اپنی حالت پر توجہ کرتا تو خداوندعالم کی بارگاہ سے مردود نہ ھوتا اوراس کے گلے میں ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق نہ ڈالا جاتا۔ جناب آدم و حوا علیھماالسلام غور و فکر او راندیشہ، تعقل، توجہ، بینائی اور بیداری کی معنوی اور قیمتی فضاء میں وارد ھوئے، ندامت و پشیمانی اور اشک چشم کے ساتھ اس طرح ادب اور خاکساری دکھائی کہ یہ نھیں کھا کہ: "اِغْفِرْ لَنَا"، بلکہ خدا کی بارگاہ میں عرض کیا: ((وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا))اگر ھمیں نھیں بخشے گا اور ھم پر رحم نہ کرے گا (( لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ۔ )) 11تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ھوجائیں گے۔
اس توجہ، بیداری، تواضع و انکساری، ندامت و پشیمانی، گریہ و توبہ اور خودی سے نکل کر خدائی بن جانے کی بنا پر ھی رحمت خدا کے دروازے کھل گئے، خدائے مھربان کا لطف و کرم شامل حال ھوا اور خدا کی عنایت و توجہ نے بڑھ کر استقبال کیا:
((فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّه كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْه إِنَّه هوَ التَّوَّابُ الرَّحِیم)) 12
"پھر آدم نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی بر کت سے خدانے ان کی توبہ قبول کر لی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ھے "۔
نور ربوبیت نے کلمات میں تجلی کی اور جناب آدم کی روح نے درک کیا، اس تینوں حقیقت یعنی نور ربوبی کی تجلی، کلمات اور روح آدم کی ھم آہنگی کے سبب ھی توبہ وجود میں آئی، وہ توبہ جس نے ماضی کا تدارک کردیا، اور توبہ کرنے والوں کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنادیا۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ھے کہ جن کلمات کے ذریعہ جناب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ھوئی وہ کلمات یہ تھے:
"اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَاغْفِرْلِی، اِنَّكَ خَیْرُ الْغٰافِرِینَ ۔ اَللّٰهمَّ، لا اِلٰه اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی، فَارْحَمْنی اِنَّكَ خَیْرُالرّاحِمینَ ۔ اَللّٰهمَّ، لا اِلٰه اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّی ظَلَمْتُ نَفْسی فَتُبْ عَلَیَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الرَّحیمُ"۔ 13
"پالنے والے! تو پاک و پاکیزہ ھے میں تیری حمد کرتا ھو ںتیرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، پالنے والے میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، لہٰذا مجھے معاف کردے، کیونکہ تو بھترین معاف کرنے والا ھے، تیرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، تو پاک و پاکیزہ ھے، میں تیری حمد کرتا ھو ں، پالنے والے ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو میرے اوپر رحم فرما کہ تو بھترین رحم کرنے والا ھے، پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، تو پاک و پاکیزہ ھے میں تیری حمد کرتا ھو ں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تو میری توبہ کو قبول کرے کیونکہ تو بھت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ھے"۔
اس سلسلے میں یہ روایت بھی ملتی ھے : جناب آدم (علیہ السلام )نے عرش الٰھی پر چند عظیم الشان اسماء لکھے دیکھے، تو انھوں نے ان کے بارے میں سوال کیا تو آواز آئی: یہ کلمات مقام و منزلت کے اعتبار سے تمام موجودات عالم پر فضیلت رکھتے ھیں: اور وہ ھیں:
محمد، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیھم السلام)، جناب آدم نے اپنی توبہ کے قبول ھونے اور اپنے مقام کی بلندی کے لئے ان اسماء گرامی کی حقیقت سے توسل کیا اور ان اسماء کی برکت سے جناب آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ھوگئی۔ 14
جی ھاں! جیسے ھی کلمات کی تجلیات کے لئے خداوندعالم کے الھامات کی بارش جناب آدم کے دانہٴ عشق و محبت پربرسی، تو اپنے نفس پر ظلم کے اقرار و اعتراف کا پودا اُگ آیا، جناب آدم نے دعا و گریہ اور استغاثہ کیا، احساس گناہ کا درخت ان کی روح میں تناور ھوگیا اور اس پر توبہ کا پھول کھل اٹھا:
((ثُمَّ اجْتَبَاه رَبُّه فَتَابَ عَلَیْه وَهدَی))۔ 15
"پھر خدا نے انھیں چن لیااوران کی توبہ قبول کرلی اور انھیں راستہ پرلگادیا"۔
کیا کیاچیزیں گناہ ھیں ؟
حضرت امام صادق علیہ السلام "توبہ نامہ "کے عنوان سے بھترین و خوبصورت کلام بیان فرماتے ھیں، جس میں ان گناھوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ھے کہ جن سے توبہ کرناواجب فوری، واجب شرعی اور واجب اخلاقی ھے، اور اگر ان گناھوں کا تدارک نہ کیا گیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے نامہ اعمال کو دھویانہ گیا تو روز قیامت عذاب الٰھی اور دردناک انجام سے دوچار ھونا پڑے گا، امام علیہ السلام گناھوں کو اس طرح بیان کرتے ھیں:
"واجبات الٰھی کا ترک کرنا، حقوق الٰھی جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، جھاد، حج، عمرہ، وضوء، غسل، عبادت شب، کثرت ذکر، کفارہ قسم، مصیبت میں کلمہ استرجاع کہنا، (انا لله و انا الیہ راجعون) وغیرہ سے غفلت کرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال میں کوتاھی ھونے کے بعد ان سے روگردانی کرنا۔
گناھان کبیرہ کا مرتکب ھونا، معصیت الٰھی کی طرف رغبت رکھنا، گناھوں کا انجام دینا، بری چیزوں کو اپنانا، شھوات میں غرق ھونا، کسی خطا کو اپنے ذمہ لینا، غرض یہ کہ عمدی یا غلطی کی بنا پر ظاھری اور مخفی طور پر معصیت خدا کرنا۔
کسی کا ناحق خون بھانا، والدین کا عاق ھونا، قطع رحم کرنا، میدان جنگ سے فرار کرنا، باعفت شخص پر تھمت لگانا، ناجائز طریقہ سے یتیم کا مال کھانا، جھوٹی گواھی دینا، حق کی گواھی سے کترانا، دین فروشی، ربا خوری، خیانت، مال حرام، جادو، ٹوٹا، غیب کی باتیں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرک، ریا، چوری، شراب خوری، کم تولنا اور کم ناپنا، ناپن تول میں خیانت کرنا، کینہ و دشمنی، منافقت، عہد و پیمان توڑدینا، خوامخواہ الزام لگانا، فریب اور دھوکہ دینا، اھل ذمہ سے کیا ھوا عہدو پیمان توڑنا، قسم، غیبت کرنایا سننا، چغلی کرنا، تھمت لگانا، دوسروں کی عیب تلاش کرنا، دوسروں کو بُرا بھلا کہنا، دوسروں کو بُرے ناموںسے پکارنا، پڑوسی کو اذیت پہچانا، دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ھونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباھات کرنا، گناھوں پر اصرار کرنا، ظالموں کا ھمنوا بننا، تکبر کرنا غرور سے چلنا، حکم دینے میں ستم کرنا، غصہ کے عالم میں ظلم کرنا، کینہ و حسد رکھنا، ظالموںکی مدد کرنا، دشمنی اور گناہ میں مدد کرنا، اھل و عیال اور مال کی تعداد میں کمی کرنا، لوگوں سے بدگمانی کرنا، ھوائے نفس کی اطاعت کرنا، شھوت پرستی، برائیوں کا حکم دینا، نیکیوں سے روکنا، زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا، حق کا انکار کرنا، ناحق کاموں میں ستمگروں سے مدد لینا، دھوکا دینا، کنجوسی کرنا، نہ جاننے والی چیز کے بارے میں گفتگو کرنا، خون اور یا سور کا گوشت کھانا، مردار یا غیر ذبیحہ جانور کا گوشت کھانا، حسد کرنا، کسی پر تجاوز کرنا، بری چیزوں کی دعوت دینا، خدا کی نعمتوں پر مغرور ھونا، خودغرضی دکھانا، احسان جتانا، قرآن کا انکار کرنا، یتیم کو ذلیل کرنا، سائل کو دھتکارنا، قسم توڑنا، جھوٹی قسم کھانا، دوسروں کی ناموس اور مال پر ھاتھ ڈالنا، برا دیکھنا، برا سننا اور برا کہنا، کسی کو بری نظر سے چھونا، دل میں بُری بُری باتیں سوچنااور جھوٹی قسم کھانا"۔ 16
واجب چیزوں کو ترک کرنا اور حرام چیزوں کا مرتکب ھونا، حضرت امام صادق علیہ السلام کے اس ملکوتی کلام میں یہ سب باتیں گناہ کے عنوان سے بیان ھوئی ھیں جن سے توبہ کرنا "واجب فوری" ھے۔
گناھوں کے برے آثار
قرآن مجید کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں گناھوںکے برُے آثارنمایاں ھوتے ھیں کہ اگر گناھگار اپنے گناھوں سے توبہ نہ کرے تو بے شک ان کے برے آثار میں گرفتار ھوجاتا ھے۔
((بَلَی مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَاٴَحَاطَتْ بِه خَطِیئَتُه فَاٴُوْلَئِكَ اٴَصْحَابُ النَّارِ هم فِیها خَالِدُونَ))۔ 17
"یقینا جس نے کوئی برائی کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا، تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ھے اور وہ اس میں ھمیشہ رہنے والے ھیں "۔
((قُلْ هل نُنَبِّئُكُمْ بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا۔ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُهم فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَھم یَحْسَبُونَ اٴَنَّهم یُحْسِنُونَ صُنْعًا ۔ اٴُولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهم وَلِقَائِه فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُهم فَلاَنُقِیمُ لَهم یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا))۔ 18
"اے پیغمبر کیا ھم تمھیں ان لوگوں کے بارے میں اطلا ع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ھیں یہ وہ لوگ ھیں جن کی کوشش زندگانی ٴ دنیا میں بہک گئی ھے اور یہ خیال کرتے ھیں کہ یہ اچھے اعمال انجا م دیں رھے رھیں، یھی وہ لوگ ھیںجنھوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، ان کے اعمال برباد ھو گئے ھیں اور ھم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نھیں کریں گے "۔
((فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَهم اللهُ مَرَضًا وَلَهم عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔ ۔ ۔ ))۔ 19
"ان کے دلوں میں بیماری ھے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ھے، اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں دردناک عذاب ملے گا۔ ۔ ۔ "۔
((فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهم۔ ۔ ۔ ))۔ 20
"اے پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ھے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رھے ھیں"۔
((وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهم مَرَضٌ فَزَادَتْهم رِجْسًا إِلَی رِجْسِهم۔ ۔ ۔ ))۔ 21
"اور جن کے دلوں میں مرض ھے ان کے مرض میں مزید اضافہ ھوجاتا ھے اور وہ کفر ھی کی حالت میں مر جاتے ھیں"۔
((إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْكُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْكُلُونَ فِی بُطُونِهم نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا))۔ 22
"جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ھیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رھے ھیں اور وہ عنقریب واصل جہنم ھوں گے "۔
مذکورہ آیہ اور اس سے ملتی جلتی آیتوں کی بناپر بعض محققین کا عقیدہ ھے کہ روز قیامت گناھگاروں کو ملنے والا عذاب یھی اس کے گناہ ھوں گے، یعنی یھی انسان کے گناہ ھوں گے جو روز قیامت دردناک عذاب کی شکل میں ظاھر ھوں گے، اور گناھگار کو ھمیشہ کے لئے اپنا اسیر بناکر عذاب میں مبتلا رکھیںگے۔
((إِنَّ الَّذِینَ یَكْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْكِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِه ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِكَ مَا یَاٴْكُلُونَ فِی بُطُونِهم إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُكَلِّمُهم اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَكِّیهم وَلَهم عَذَابٌ اٴَلِیمٌ۔ اٴُوْلَئِكَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اٴَصْبَرَهم عَلَی النَّارِ))۔ 23
"جو لوگ خدا کی نازل کی ھوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ھیںاور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ھیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رھے ھیں اور خدا، روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ ان کا تذکیہ کرے گا (بلکہ) ان کے لئے دردناک عذاب قرار دے گا۔ یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے گمراھی کو ہدایت کے عوض اور عذاب کو مغفرت کے عوض خرید لیا ھے، آخر یہ آتش جہنم پر کتنا صبر کریں گے "۔
(( مَثَلُ الَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهم اٴَعْمَالُهم كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ لاَیَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَی شَیْءٍ ذَلِكَ هوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ))۔ 24
"جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی مانند ھے جسے آندھی کے دن کی تند ھوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ھوئے پر بھی کوئی اختیار نھیں رکھتے اور یھی بھت دور تک پھیلی ھوئی گمراھی ھے"۔
لہٰذا اس طرح کی آیات سے نتیجہ نکلتا ھے کہ گناھوں کے بُرے آثار اس سے کھیں زیادہ ھیں، مثلاً:
آتش جہنم میں جلنا، عذاب کا ابدی ھونا، دنیا و آخرت میںنقصان اور خسارہ میں رہنا، انسان کی ساری زحمتوں پر پانی پھرجانا، روز قیامت (نیک) اعمال کا حبط (یعنی ختم) ھوجانا، روز قیامت اعمال کی میزان قائم نہ ھونا، توبہ نہ کرنے کی وجہ سے گناھوں میں اضافہ ھونا، دشمنان خدا کی طرف دوڑنا، انسان سے خدا کا تعلق ختم ھوجانا، قیامت میں تزکیہ نہ ھونا، ہدایت کا گمراھی سے بدل جانا، مغفرت الٰھی کے بدلہ عذاب الٰھی کا مقرر ھونا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک تفصیلی روایت میں گناھوں کے برے آثار کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ھیں:
جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں تبدیل ھوجاتی ھیں:
عوام الناس پرظلم و ستم کرنا، کار خیر کی عادت چھوڑ دینا، نیک کام کرنے سے دوری کرنا، کفران نعمت کرنا اور شکر الٰھی چھوڑ دینا۔
جو گناہ ندامت اور پشیمانی کے باعث ھوتے ھیں:
قتل نفس، قطع رحم، وقت ختم ھونے تک نماز میں تاخیر کرنا، وصیت نہ کرنا، لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا، زکوٰة ادانہ کرنا، یھاں تک کہ اس کی موت کا پیغام آجائے اور اس کی زبان بند ھوجائے۔
جن گناھوں کے ذریعہ نعمتیں زائل ھوجاتی ھیں:
جان بوجھ کر ستم کرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز کرنا، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ انسان تک نعمتیں نھیں پہنچتیں:
اپنی محتاجگی کا اظھار کرنا، نماز پڑھے بغیر رات کے ایک تھائی حصہ میں سونا یھاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے، صبح میں نماز قضا ھونے تک سونا، خدا کی نعمتوں کو حقیر سمجھنا، خداوندعالم سے شکایت کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے:
شراب پینا، جوا کھیلنا یا سٹہ لگانا، مسخرہ کرنا، بیھودہ کام کرنا، مذاق اڑانا، لوگوں کے عیوب بیان کرنا، شراب پینے والوں کی صحبت میںبیٹھنا۔
جو گناہ نزول بلاء کا سبب بنتے ھیں:
غم زدہ لوگوں کی فریاد رسی نہ کرنا، مظلوموں کی مدد نہ کرنا، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے الٰھی فریضہ کا ترک کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ دشمن غالب آجاتے ھیں:
کھلے عام ظلم کرنا، اپنے گناھوں کو بیان کرنا، حرام چیزوں کو مباح سمجھنا، نیک و صالح لوگوں کی نافرمانی کرنا، بدکاروں کی اطاعت کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ عمر گھٹ جاتی ھے:
قطع تعلق کرنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی باتیں بنانا، زناکرنا، مسلمانوں کا راستہ بند کرنا، ناحق امامت کا دعویٰ کرنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ امیدٹوٹ جاتی ھے:
رحمت خدا سے ناامیدھونا، لطف خدا سے زیادہ مایوس ھونا، غیر حق پر بھروسہ کرنا اور خداوندعالم کے وعدوں کو جھٹلانا۔
جن گناھوں کے ذریعہ انسان کا ضمیر تاریک ھوجاتا ھے:
سحر و جادو اور غیب کی باتیں کرنا، ستاروں کو موثر ماننا، قضا و قدر کو جھٹلانا، عقوق والدین ھونا۔
جن گناھوں کے ذریعہ (احترام کا) پردہ اٹھ جاتا ھے:
واپس نہ دینے کی نیت سے قرض لینا، فضول خرچی کرنا، اھل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرنا، بُرے اخلاق سے پیش آنا، بے صبری کرنا، بے حوصلہ ھونا، اپنے کو کاھل جیسا بنانااوراھل دین کو حقیر سمجھنا۔
جن گناھوں کے ذریعہ دعا قبول نھیں ھوتی:
بری نیت رکھنا، باطن میں برا ھونا، دینی بھائیوں سے منافقت کرنا، دعا قبول ھونے کا یقین نہ رکھنا، نماز میں تاخیر کرنا یھاں تک کہ اس کا وقت ختم ھوجائے، کار خیر اور صدقہ کو ترک کرکے تقرب الٰھی کو ترک کرنا اور گفتگو کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنا اور گالی گلوچ دینا۔
جو گناہ باران رحمت سے محرومی سبب بنتے ھیں:
قاضی کاناحق فیصلہ کرنا، ناحق گواھی دینا، گواھی چھپانا، زکوٰة اور قرض نہ دینا، فقیروں اور نیازمندوں کی نسبت سنگدل ھونا، یتیم اورضرورت مندوں پر ستم کرنا، سائل کو دھتکارنا، رات کی تاریکی میں کسی تھی دست اور نادار کو خالی ھاتھ لوٹانا۔ 25
حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناھوں کے سلسلے میں فرماتے ھیں:
"لَوْ لَمْ یَتَوَعَّدِ اللّٰه عَلٰی مَعْصِیَتِه لَکانَ یَجِبُ اٴن لا یُعْصیٰ شُكْراً لِنِعَمِه:"26
"اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں کو اپنی مخالفت پر عذاب کا وعدہ نہ دیا ھوتا، تو بھی اس کی نعمت کے شکرانے کے لئے واجب تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے"۔
قارئین کرام! خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں کے شکرکی بنا پر ھمیں چاہئے کہ ھر طرح کی معصیت اور گناہ سے پرھیز کریں اور اپنے بُرے ماضی کی بدلنے کے لئے خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں کیونکہ توبہ استغفار کی بنا پر خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کا لطف و کرم انسان کے شامل حال ھوتا ھے۔
حقیقی توبہ کا راستہ
توبہ(یعنی خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کی رضا و خوشنودی تک پہنچنا، جنت میں پھونچنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراھی کے راستہ سے نکل آنا، راہ ہدایت پر آجانا اور انسان کے نامہ اعمال کا ظلمت و سیاھی سے پاک و صاف ھوجانا ھے)؛اس کے اھم آثار کے پیش نظریہ کھا جاسکتا ھے کہ توبہ ایک عظیم مرحلہ ھے، توبہ ایک بزرگ پروگرام ھے، توبہ عجیب و غریب حقیقت ھے اور ایک روحانی اور آسمانی واقعیت ھے ۔
لہٰذا فقط "استغفر الله" کہنے، یا باطنی طور پر شرمندہ ھونے اور خلوت و بزم میں آنسو بھانے سے توبہ حاصل نھیں ھوتی، کیونکہ جولوگ اس طرح توبہ کرتے ھیں وہ کچھ اس مدت کے بعد دوبارہ گناھوں کی طرف پلٹ جاتے ھیں!
گناھوں کی طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چیز کی بھترین دلیل ھے کہ حقیقی طور پر توبہ نھیں ھوئی اور انسان حقیقی طور پر خدا کی طرف نھیں پلٹا ھے۔
حقیقی توبہ اس قدر اھم اور باعظمت ھے کہ قرآن کریم کی بھت سی آیات اور الٰھی تعلیمات اس سے مخصوص ھیں۔
امام علی علیہ السلام کی نظر میں حقیقی توبہ
امام علی علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے زبان پر "استغفر الله" جاری کیا تھا:
اے شخص ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو جانتا ھے کہ توبہ کیا ھے؟ یاد رکھ توبہ علّیین کا درجہ ھے، جو ان چھ چیزوں سے مل کر محقق ھوتا ھے:
۱۔ اپنے ماضی پر شرمندہ اور پشیمان ھونا۔
2۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا۔
۳۔ لوگوں کے حقوق کاادا کرنا۔
۴۔ ترک شدہ واجبات کو بجالانا۔
۵۔ گناھوں کے ذریعہ پیدا ھونے والے گوشت کواس قدر پگھلادینا کہ ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہ جائے، اور حالت عبادت میں ہڈیوں پر گوشت پیدا ھو۔
۶۔ بدن کو اطاعت کی تکلیف میں مبتلا کرنا جس طرح گناہ کا مزہ چکھا ھے۔
لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد "استغفر الله" کہنا۔ 27
جی ھاں، توبہ کرنے والے کو اس طرح توبہ کرنا چاہئے، گناھوں کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلے، گناھوں کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ ھمیشہ کے لئے اپنے دل سے نکال دے، دوسری، تیسری بار توبہ کی امید میں گناھوں کو انجام نہ دے، کیونکہ یہ امید بے شک ایک شیطانی امید اور مسخرہ کرنے والی حالت ھے، حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ھیں:
"مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِه وَلَمْ یَنْدَمْ بِقَلْبِه فَقَدِ اسْتَهزَاٴ بِنَفْسِه۔ ۔ ۔ "28
"جو شخص زبان سے توبہ و استغفار کرے لیکن دل میں پشیمانی اور شرمندگی نہ ھو تو گویا اس نے خود کا مذاق اڑایاھے!"
واقعاً یہ ہنسی کا مقام اور افسوس کی جگہ ھے کہ انسان دوا او رعلاج کی امید میں خود کو مریض کرلے، واقعاً انسان کس قدر خسارہ ھے کہ وہ توبہ کی امید میں گناہ و معصیت کا مرتکب ھوجائے، اور خود کو یہ تلقین کرتا رھے کہ ھمیشہ توبہ کا دروازہ كُھلا ھوا ھے، لہٰذا اب گناہ کرلوں، لذت حاصل کرلوں !! بعد میں توبہ کرلوں گا!
اگر حقیقی طور پر توبہ کی جائے اور اگر تمام شرائط کے ساتھ توبہ ھوجائے، تو پھر انسان کی روح یقینا پاک ھوجاتی ھے نفس میں پاکیزگی اور دل میں صفا پیدا ھوجاتی ھے، اور انسان کے اعضاء و جوارح نیز ظاھر و باطن سے گناھوں کے آثار ختم ھوجاتے ھیں۔
توبہ بار بار نھیں ھونا چاہئے کیونکہ گناہ ظلمت و تاریکی اور توبہ نور و روشنی کا نام ھے، اندھیرے اور روشنی میں زیادہ آمد و رفت سے روح کی آنکھیں خراب ھوجاتی ھیں۔ اگر کوئی گناہ سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ پھر اسی گناہ سے ملوث ھوجائیں تو معلوم ھوتا ھے کہ توبہ ھی نھیں کی گئی ھے، (یا مکمل شرائط کے ساتھ توبہ نھیں ھوئی ھے۔ )
انسانی نفس جہنم کے منھ کی طرح ھے جو کبھی بھرنے والا نھیں ھے، اسی طرح انسانی نفس گناھوں سے نھیں تھکتا، اس کے گناھوں میں کمی نھیں ھوتی، جس کی وجہ سے انسان خدا سے دور ھوتا چلا جاتا ھے لہٰذا اس تنورکے دروازہ کو توبہ کے ذریعہ بند کیا جائے اور اس عجیب و غریب غیر مرئی موجود کی سرکشی کو حقیقی توبہ کے ذریعہ باندھ لیاجائے۔
توبہ؛ انسانی حالت میں انقلاب اور دل و جان کے تغیر کا نام ھے، اس انقلاب کے ذریعہ انسان گناھوں کی طرف کم مائل ھوتا ھے اور خداوندعالم سے ایک مستحکم رابطہ پیدا کرلیتا ھے۔
توبہ؛ ایک نئی زندگی کی ابتداء ھوتی ھے، معنوی اور ملکوتی زندگی جس میں قلب انسان تسلیم خدا، نفس انسان تسلیم حسنات ھوجاتا ھے اور ظاھر و باطن تمام گناھوں کی گندگی اور کثافتوں سے پاک ھوجاتا ھے۔
توبہ؛ یعنی ھوائے نفس کے چراغ کو گُل کرنا اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے قدم اٹھانا۔
توبہ؛ یعنی اپنے اندر کے شیطان کی حکومت کو ختم کرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم کی حکومت کا راستہ ھموار کرنا۔
ھر گناہ کے لئے مخصوص توبہ
بعض لوگوں کا خیال ھے کہ اگر خدا کی بارگاہ میں اپنے مختلف گناھوں کے سلسلہ میں استغفار کرلیا جائے اور "استغفرالله ربی و اتوب الیہ" زبان پر جاری کرلیاجائے، یا مسجد اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے روضوں میں ایک زیارت پڑھ لی جائے یا چند آنسو بھالئے جائیں تو اس کے ذریعہ توبہ ھوجائے گی، جبکہ آیات وروایات کی نظر میں اس طرح کی توبہ مقبول نھیں ھے، اس طرح کے افراد کو توجہ کرنا چاہئے کہ ھر گناہ کے اعتبار سے توبہ بھی مختلف ھوتی ھے، ھر گناہ کے لئے ایک خاص توبہ مقرر ھے کہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ کرے تو اس کا نامہ اعمال گناہ سے پاک نھیں ھوگا، اور اس کے بُرے آثار قیامت تک اس کی گردن پر باقی رھیں گے، اور روز قیامت اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔
اور ان تمام گناھوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے:
۱۔ عبادت اور واجبات کو ترک کرنے کی صورت میں ھونے والے گناہ، جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، خمس اور جھاد وغیرہ کو ترک کرنا۔
۲۔ خداوند عالم کے احکام کی مخالفت کرتے ھوئے گناہ کرناجن میں حقوق الناس کا کوئی دخل نہ ھو، جیسے شراب پینا، نامحرم عورتوں کو دیکھنا، زنا، لواط، استمناء، جُوا، حرام میوزیک سننا وغیرہ ۔
۳۔ وہ گناہ جن میں فرمان خدا کی نافرمانی کے علاوہ لوگوں کے حقوق کو بھی ضایع کیا گیا ھو، جیسے قتل، چوری، سود، غصب، مالِ یتیم ناحق طور پر کھانا، رشوت لینا، دوسروں کے بدن پر زخم لگانا یا لوگوں کو مالی نقصان پہچانا وغیرہ وغیرہ۔
پھلی قسم کے گناھوںکی توبہ یہ ھے کہ انسان تمام ترک شدہ اعمال کو بجالائے، چھوٹی ھوئی نماز پڑھے، چھوٹے ھوئے روزے رکھے، ترک شدہ حج کرے، اور اگر خمس و زکوٰة ادانھیں کیا ھے تو ان کو ادا کرے۔
دوسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ھے کہ انسان شرمندگی کے ساتھ استغفار کرے اور گناھوں کے ترک کرنے پر مستحکم ارادہ کرلے، اس طرح کہ انسان کے اندر پیدا ھونے والا انقلاب اعضاء و جوارح کو دوبارہ گناہ کرنے سے روکے رکھے۔
تیسری قسم کے گناھوں کی توبہ یہ ھے کہ انسان لوگوں کے پاس جائے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرے، مثلاً قاتل، خود کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کردے، تاکہ وہ قصاص یا مقتول کا دیہ لے سکیں، یا اس کو معاف کردیں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ھوئے سود کے حوالے کردے، غصب کرنے والا ان چیزوں کو ان کے مالک تک پھونچادے، مال یتیم اور رشوت ان کے مالکوں تک پہنچائے، کسی کو زخم لگایا ھے تو اس کا دیہ ادا کرے، مالی نقصان کی تلافی کرے، پس حقیقی طور پر توبہ قبول ھونے کے تین مذکورہ تین چیزوں پر عمل کرنا ضروری ھے۔
1۔ شیطان
لفظ شیطان اور ابلیس قرآن مجید میں تقریباً ۹۸ بار ذکر ھوا ھے، جو ایک خطرناک اور وسوسہ کرنے والا موجود ھے، جس کا مقصد صرف انسان کو خداوندعالم کی عبادت و اطاعت سے روکنا اور گناہ و معصیت میں غرق کرنا ھے۔
قرآن مجید میں گمراہ کرنے والے انسان اور دکھائی نہ دینے والا وجودجو انسان کے دل میں وسوسہ کرتا ھے، ان کو شیطان کھا گیا ھے۔
شیطان، " شطن" اور "شاطن" کے مادہ سے ماخوذھے اور خبیث، ذلیل، سرکش، متمرد، گمراہ اور گمراہ کرنے کے معنی میں آیا ھے، چاھے یہ انسانوں میں سے ھو یا جنوں میں سے۔
قرآن مجید اور اس کی تفسیر و توضیح میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ھونے والی احادیث وروایات میں شیطان جنّ وانس کی خصوصیات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ھے:
قسم کھایا ھوا اور کھلم کھلا دشمن، برائی اور فحشاء و منکر کا حکم کرنے والا، خداوندعالم کی طرف ناروا نسبت دینے والا، صاحبان حیثیت کو ڈرانے والا کہ کھیں نیک کام میںخرچ کرنے سے فقیر نہ بن جائیں، انسانوں کو لغزشوں میں ڈالنے والا، گمراھی میں پھنسانے والا تاکہ لوگ سعادت و خوشبختی سے کوسوں دور چلے جائیں، شراب پلانے کا راستہ ھموار کرنے والا، جوا کھیلنے، حرام شرط لگانے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت کینہ و دشمنی ایجاد کرنے والا، برے کام کو اچھا بناکر پیش کرنے والا، جھوٹے وعدے دینے والا، انسان میں غرور پیدا کرنے والا، اور اسے ذلت کی طرف ڈھکیلنے والا، راہ حق میں رکاوٹ پیدا کرنے اور جہنم میں پہنچانے والے کاموں کی دعوت دینے والا، میاں بیوی کو طلاق کی منزل تک پہنچانے والا، لوگوںمیں گناھوں اور برائیوںکا راستہ فراھم کرنے او رانھیں دنیا کا اسیر بنانے والا، انسان کو توبہ کی امید میں گناھوں پر اُکسانے والا، خودپسندی ایجاد کرنے والا، بخل، غیبت، جھوٹ اور شھوت کو تحریک کرنے والا، کھلم کھلا گناہ کرنے کی ترغیب کرنے والا، غصہ اور غضب کو بھڑکانے والا۔
جب تک انسان شیاطین جن و انس کے جال میں پھنسا رھتا ھے تو پھر وہ حقیقی طور پر توبہ نھیں کرسکتا، کیونکہ جب تک اس کے دل پر شیطان کی حکومت رھے گی، تو توبہ کے بعد شیطان پھر گناہ کرنے کے لئے وسوسہ پیدا کردے گا، اور توبہ کے ذریعہ کئے گئے عہد کو توڑنے اور اپنی اطاعت کرنے پر مجبور کردے گا۔
توبہ کرنے والے کو چاہئے کہ خداوندعالم سے توفیق طلب کرتے ھوئے گناھوں سے ھمیشہ پرھیز کرے اور شیطان سے سخت بیزار رھے، تاکہ آہستہ آہستہ اس خبیث وجود کے نفوذ کو اپنے وجود سے ختم کردے، اور اس کی حکومت کا بالکل خاتمہ کردے، تاکہ انسان کے دل میںتوبہ و استغفار کی حقیقت باقی رھے، اور اس نورانی عہدو پیمان کو ظلمت کے حملے توڑ نہ سکیں۔
2۔ دنیا
تمام مادی عناصر اور انسانی زندگی کی ضروری اشیاء سے رابطہ ھی انسان کی دنیا ھے۔
اگر یہ رابطہ خداوندعالم کی مرضی کے مطابق ھو تو بے شک انسان کی یہ دنیا قابل حمد و ثنا ھے، اور اُخروی سعادت کی ضامن ھے، لیکن اگر انسان کا یھی رابطہ مادی اور ھوائے نفس کی بنا پر ھو جھاں پر کسی طرح کی کوئی حد و حدود نہ ھو تو اس وقت انسان کی یہ دنیا مذموم اور آخرت میں ذلت کا باعث ھوگی۔
بے شک اگر ھوائے نفس کی بنیاد اور بے لگام خواہشات کے ساتھ مادی چیزوں سے لگاؤ ھو تو یقینا انسان گناھوں کے دلدل میں پھنس جاتا ھے۔
اسی ناجائز رابطہ کی بنا پر انسان شھوت اور مال و دولت کا عاشق بن جاتا ھے، اور اس راستہ کے ذریعہ خدا کے حلال و حرام کی مخالفت کرتا ھوا نظر آتا ھے۔
اس طرح کے رابطہ کے ذریعہ انسان ؛مادی چیزوں اور شھوت پرستی میں کھوجاتا ھے، جس کا بھت زیادہ نقصان ھوتا ھے، اور جس کی بدولت آخرت میں سخت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں بیان فرماتے ھیں:
"اَلدُّنْیَا تَغُرُّ وَ تَضُرُّوَ تَمُرُّ۔ ۔ ۔ "۔ 29
”دنيا، مغرور كرتي ھے، نقصان پہنچاتي ھے اور گزرجاتي ھے“۔
خداوندعالم نے اپنے محبوب رسول(ص) كو شب معراج اس مذموم دنيا ميں گرفتار لوگوں كي خصوصيت كے بارے ميں اس طرح فرمايا:” اھل دنيا وہ لوگ ھوتے ھيں جن كا كھانا پينا، ہنسنا، رونا اور غصہ زيادہ ھوتا ھے، خدا كي عنايت پر بھت كم خوشنود ھوتے ھيں، لوگوں سے كم راضي رھتے ھيں، لوگوں كي شان ميں بدي كرنے كے بعد عذر خواھي نھيں كرتے، اور نہ ھي دوسروں كي عذر خواھي كو قبول كرتے ھيں، اطاعت كے وقت سست و كاھل اور گناہ كے وقت شجاع او رطاقتور ھوتے ھيں، ان كي آرزوئيں طولاني ھوتي ھيں، ان كي گفتگو زيادہ، عذاب جہنم كا خوف كم ھوتا ھے اور كھانے پينے كے وقت بھت زياہ خوش و خرم نظر آتے ھيں۔
يہ لوگ چين و سكون كے وقت شكر اور بلاء و مصيبت ميں صبر نھيں كرتے، دوسروں كو ذليل سمجھتے ھيں، نہ كئے ھوئے كام پر اپني تعريفيں كرتے ھيں، جن چيزوں كے مالك نھيں ھوتے ان كي ملكيت كے بارے ميں دعويٰ كرتے ھيں، اپني بے جا آرزوٴں كو دوسروں سے بيان كرتے ھيں، لوگوں كي برائيوں كو اچھالتے ھيں، اور ان كي اچھائيوں كو چھپاتے ھيں۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم نے عرض كيا: پالنے والے! كيا ان عيوب كے علاوہ كوئي دوسرا عيب بھي ان ميں پايا جاتا ھے؟ آواز آئى: اے احمد! دنيا والوں كے عيب زيادہ ھيں، ان ميں حماقت و وناداني پائي جاتي ھے، اپنے استاد كے سامنے تواضع سے پيش نھيں آتے، اپنے كو (بھت) بڑا عاقل سمجھتے ھيں، جبكہ وہ صاحبان علم كے نزديك احمق ھوتے ھيں۔ 30
اگر كوئي شخص اپنے گناھوں سے توبہ كرلے ليكن توبہ كے ساتھ مادي زرق و برق ميں اسير ھو، تو كيا اس كي توبہ باقي رہ سكتي ھے اور توبہ كے ميدان ميں ثابت قدم رہ سكتا ھے؟۔
توبہ كرنے والا اگر اس طرح كي چيزوں كے نفوذ سے آزاد نہ ھو تو پھر اس كے لئے حقيقي طور پر توبہ كرنا ناممكن ھے، كيونكہ ايسا انسان توبہ تو كرليتا ھے، ليكن جيسے ھي مادي چيزوں نے حملہ كيا تو وہ اپني توبہ كو توڑليتا ھے۔
3۔ آفات
غلط رابطے، بے جا محبت، لذتوں ميں بھت زيادہ غرق ھونا، نا محدود شھوات، بے لگام خواہشيں، حرام شھوت اورھوائے نفس يہ سب خطرناك آفتيں ھيں كہ اگر انسان كي زندگي ميں يہ سب پائى
حقيقي توبہ كرنے والوں كے لئے الٰھي تحفہ
معصوم علىہ السلام كا ارشادھے: خداوندعالم توبہ كرنے والوں كو تين خصلتيں عنايت فرماتا ھے كہ اگر ان ميں سے ايك خصلت بھي تمام اھل زمين و آسمان كو مرحمت ھوجائے تو اسي خصلت كي بنا پر ان كو نجات مل جائے:
۔۔۔إِنَّ اللهَ يحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيحِبُّ الْمُتَطَهرينَ۔ 31
”بے شك خدا توبہ كرنے والوں اور پاكيزہ رہنے والوں كو دوست ركھتا ھے“۔
لہٰذا جس كو خداوندعالم دوست ركھتا ھے اس پر عذاب نھيں كرے گا۔
الَّذِينَ يحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَه يسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهم وَيؤْمِنُونَ بِه وَيسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهم عَذَابَ الْجَحِيمِ ۔ رَبَّنَا وَاٴَدْخِلْهم جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهم وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهم وَاٴَزْوَاجِھم وَذُرِّياتِهم إِنَّكَ اٴَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ وَقِهم السَّيئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيئَاتِ يوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَه وَذَلِكَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ 32
”جو فرشتے عر ش الٰھي كو اٹھا ئے ھوئے ھيں اور جواس كے گرد معين ھيں سب حمد خدا كي تسبيح كر رھے ھيں اور اسي پر ايمان ركھتے ھيں اور صاحبان ايمان كے لئے استغفار كررھے ھيں كہ خدايا! تيري رحمت اور تيرا علم ھر شئے پر محيط ھے لہٰذا ان لوگوں كو بخش دے جنھوں نے توبہ كي ھے اور تيرے راستہ كا اتباع كيا ھے اور انھيں جہنم كے عذاب سے بچالے۔پروردگارا! انھيں اور ان كے باپ دادا، ازواج اور اولاد ميں سے جو نيك اور صالح افراد ھيں ان كو ھميشہ رہنے والے باغات ميں جگہ عنايت فرما، جن كا تونے ان سے وعدہ كيا ھے بيشك تو سب پر غالب اور صاحبِ حكمت ھے۔اور انھيں برائيوں سے محفوظ فرما كہ آج جن لوگوں كو تونے برائيوںسے بچا ليا گويا انھيں پر رحم كيا ھے اور يہ بھت بڑي كاميابي ھے “۔
(( وَالَّذِينَ لاَيدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَها آخَرَ وَلاَيقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَيزْنُونَ وَمَنْ يفْعَلْ ذَلِكَ يلْقَ اٴَثَامًا۔ يضَاعَفْ لَه الْعَذَابُ يوْمَ الْقِيامَةِ وَيخْلُدْ فِيه مُهانًا۔ إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِكَ يبَدِّلُ اللهُ سَيئَاتِهم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِيمًا))۔ 33
”اور وہ لوگ خدا كے ساتھ كسي اور خدا كو نھيں پكارتے ھيں اور كسي بھي نفس كو اگر خدا نے محترم قرار ديديا ھے تو اسے نا حق قتل نھيں كرتے ھيں اور زنا بھي نھيں كرتے كہ جو ايسا عمل كرے گا وہ اپنے عمل كي سزا بھي برداشت كرے گا۔جسے روز قيامت دوگنا كرديا جائے گااور وہ اسي ميں ذلت كے ساتھ ھميشہ ھميشہ پڑا رھے گا۔ علاوہ اس شخص كے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل بھي كرے كہ پروردگار اس كي برائيوں كو اچھائيوں سے تبديل كر دے گا، اور خدا بھت بڑا مھربان ھے“۔34
-----------
1. (ورہٴ موٴمن (غافر)آيت 3۔
2. سورہٴ زمر آيت 53۔
3. سورہٴ زمر آيت، 58۔
4. سورہٴ زمر آيت، 59۔
5. سورہٴ زمر آيت، 47۔
6. اصول كافي ج، ص72۔
7. سورہ بقرہ آيات 33 تا 35۔
8. ((وَياآدَمُ اسْكُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلاَمِنْ حَيثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا ہَذِه الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنْ الظَّالِمِينَ))سورہٴ اعراف آيت نمبر19۔
9. ((فَوَسْوَسَ لَهما الشَّيطَانُ لِيبْدِي لَهما مَا وُورِي عَنْهما مِنْ سَوْآتِهما وَقَالَ مَا نَهاكُمَا رَبُّكُمَا هنْ ہَذِه الشَّجَرَةِ إِلاَّ اٴَنْ تَكُونَا مَلَكَينِ اٴَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ۔ وَقَاسَمَهما إِنِّي لَكُمَا لَمِنْ النَّاصِحِينَ)) سورہٴ اعراف آيت نمبر20۔21۔
10. (( فَدَلاَّهما بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهما سَوْآتُهما وَطَفِقَا يخْصِفَانِ عَلَيهما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاھما رَبُّهما اٴَلَمْ اٴَنْہَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاٴَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ))سورہٴ اعراف آيت نمبر22۔
11. سورہ اعراف آيت 32۔
12. سورہٴ بقرہ آيت 37۔
13. مجمع البيان، ج1، ص112؛بحار الانوار ج11، ص157، باب3۔
14. مجمع البيان، ج1، ص113؛بحار الانوار ج11، ص157، باب3۔
15. سورہٴ طہ آيت، 122۔
16. بحار الانوار ج 94، ص 328 باب 2۔
17. سورہٴ بقرہ آيت 81۔
18. سورہٴ كہف آيت، 103۔105۔
19. سورہٴ بقرہ آيت 10۔
20. سورہٴ مائدہ آيت 53۔
21. سورہٴ توبہ آيت 125۔
22. سورہٴ نساء آيت، 10۔
23. سورہٴ بقرہ آيت 174۔175۔
24. سورہٴ ابراھيم آيت، 18۔
25. معا ني الاخبار 270، باب معني الذنوب التي تغير النعم، حديث 2؛وسائل الشيعہ، ج16، ص281، باب 41، حديث 21556؛ بحار الانوار، ج70، ص375، باب 138، حديث 12۔
26. نہج البلاغہ، حكمت 842، حكمت 290؛بحار الانوار ج70، ص364، باب 137، حديث 96۔
27. نہج البلاغہ، 878حكمت 417؛وسائل الشيعہ ج16، ص77، باب 87، حديث 21028؛بحار الانوارج6، ص36، باب 20، حديث59۔
28. كنزالفوائد ج1، ص330، فصل حديث عن الامام الرضا(ع)؛بحار الانوار ج75، ص356، باب 26، حديث11۔
28. نہج البلاغہ، 877، حكمت 415؛غرر الحكم، ص135، الدنيا دارالغرور، حديث 2347؛روضة الواعظين ج2ص441، مجلس في ذكر الدنيا۔
30. ارشادالقلوب ج1، ص200، باب 54؛ بحار الا نوارج74، ص23، باب 2، حديث6۔
31. سورہٴ بقرہ آيت 222۔
32. (2)سورہ غافر(مومن)آيت 7تا 9۔
33. سورہٴ فرقان آيت 68تا70۔
34. كافي ج2ص432، حديث 5؛بحا الانوار ج6، ص39، باب20، حديث70۔