خلاق کی قدر و قیمت
ھر معاشرہ کی زندگی اور ھر قوم کے تکامل میں اخلاق شرط اساسی ھے ۔ انسانی پیدائش کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بھی تخلیق ھوئی ھے ۔ اخلاقیات کی عمرانسانی عمر کے برابر ھے ۔دنیا کا کوئی عقلمند ایسا نھیں ھے جس کو انسانی روح کی آسائش و سلامتی کے لئے اخلاقیات کے ضروری ھونے میں ذرہ برابر بھی شک ھو ، یا رشد اجتماعی کی بنیاد پر تقویت دینے اور عمومی اصلاحات میں اس کے سود بخش ھونے میں کسی قسم کا شبہ ھو ۔ بھلا کون ایسا شخص ھے جس کو صداقت و امانت سے تکلیف ھوتی ھو ؟ یا وہ کذب و خیانت کے زیر سایہ سعادت کا متلاشی ھو ؟ اخلاق کی اھمیت کے لئے یھی کافی ھے کہ ھر پسماندہ و ترقی یافتہ قوم چاھے وہ کسی دین و مذھب کی پابند بھی نہ ھو اخلاقی فضائل کو بڑے احترام و تقدس کی نظر سے دیکھتی ھے ۔ اور زندگی کی پُر پیچ راھوں میں کچھ سلسلھٴ احکام کی پابندی کو ضروری سمجھتی ھے ۔ انسان اپنی زندگی میں تمام مختلف راھوںکے اختیار کرنے کے باجود ھر جگہ ،ھر شخص اور ھر قوم و ملت کے لئے بلندی اخلاق کو ضروری سمجھتا رھا ھے اور طول تاریخ میں اس کی اھمیت مختلف صورتوں میں باقی رھی ھے ۔
مشھور انگریزی دانشمند ساموئیل اسمایلز کھتا ھے : اس کائنات کی محرک قوتوں میں سے ایک قوت کا نام اخلاق ھے ۔ اور اس کے بھترین کارناموں میں انسانی طبیعت کو بلند ترین شکل میں مجسم کرنا ھے ، کیونکہ واقعی انسانیت کا معرف یھی اخلاق ھے ۔جو لوگ زندگی کے ھر شعبہ میں تفوق و امتیاز رکھتے ھیں ان کی پوری کوشش یھی ھوتی ھے کہ نوع بشر کا احترام و اکرام اپنے لئے حاصل کر لیں۔ تمام لوگ ان پر اعتماد و بھرسہ کریں اور ان کی تقلید کریں ، کیونکہ ان حضرات کے خیالات یہ ھوتے ھیں کہ دنیا کی ھر چیز کا تعلق ان ھی سے ھے اور یہ کہ اگر ان کا وجود نہ ھوتا تو دنیا رھنے کے قابل نہ ھوتی ۔ اگر چہ وراثتی نبوغ خود ھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ھے اور ان کی تعظیم و احترام پر آمادہ کرتا ھے پھر بھی عام لوگوں کا ایسے ا شخاص کی طرف کھنچاؤ فکری نتیجہ کا مرھون ھوتا ھے اور تعظیم و احترام کا تعلق دل ھی سے ھوا کرتا ھے ۔ یہ بات دنیا جانتی ھے کہ ھماری پوری زندگی پر قلب کی حکومت ھوتی ھے اور پوری زندگی کا ادارہ یھی قلب کرتا ھے ۔ جو لوگ اپنی زندگی میں عظمت و ارتقاء کی چوٹی پر پھونچ گئے ھیں وہ حیات بشری کی پر پیچ گلیوں کے روشن چراغ ھیں اور یھی وہ لوگ ھیں جو اپنی ذات سے عالم کو منور کر دیتے ھیں اور لوگوں کو فضائل و تقوی کے راستوں کی طرف ھدایت کرتے ھیں ، لیکن جب تک کسی بھی معاشرہ کے افراد تربیت یافتہ اور خوش اخلاق نہ ھو ں گے چاھے وہ سیاسی بلندیوں کے ھمالہ تک پھونچ جائیں وہ اپنے کو ترقی و بلندی تک نھیں پھونچا سکتے کوئی بھی قوم ھو یا ملت اگر وہ سر بلندی کی یقینی زندگی بسر کرنا چاھتی ھے تو اس کے لئے ملک کی وسعت ضروری نھیں ھے ۔ کیونکہ بھت سی قومیں جو کثرت افراد رکھتی تھیں اور ان کے ملک کی زمیں بھی بھت طویل و عریض تھی لیکن وہ عظمت و تکامل کی زندگی سے عاری تھیں اور یہ حقیقت ھے کہ جس قوم کا سر مایہ اخلاق تباہ ھو جائے وہ بھت جلد فنا کے گھاٹ اتر جاتی ھے ۔
اس انگریزی دانشمند کا قول نظری و فکری اعتبار سے متفق علیہ ھے لیکن دنیا میں لوگوں نے علم و عمل کے درمیان بھت لمبا فاصلہ پیدا کر دیا ھے اور عملی دنیا میں انھوں نے مکارم اخلاق کی جگہ خواھشات نفسانی کے سپرد کر دی اور ایسی جذباتی خواھشات کی تلاش میں لگ گئے جو زندگی کے سمندر میں ناپائدار حباب کی طرح ھوا کرتی ھیں ۔
انسان کار گاہ تخلیق سے ایسے فضائل لے کر آیا ھے جو آپس میں متضاد ھیں (مثلاً ) دل اچھے و برے صفات کا مرکز ھے اس لئے وجود انسانی کو برے صفات سے بچانے کے لئے سب سے پھلی کوشش ھونی چاھئے اور اس سلسلے میں سب سے پھلے ان دو طاقتوں کو مسخر کرنا چاھئے جو تمام حیوانی صفات کا منبع ھیں ۔ یعنی غضب و شھوت، پس جو شخص بھی منزل سعادت و تکامل کی طرف گامزن ھو اس کو چاھئے کہ ان دونوں طاقتوں میں افراط سے پرھیز کرے اور ان دونوں قوتوں کے سخت و مضر میلانات کو مفید و زیبا ترین جذبات سے بدل دے کیونکہ انسان اپنی زندگی میں اپنے عواطف و جذبات سے بھت فائدہ اٹھاتا ھے لیکن اس کے جذبات کاصحیح اظھار اسی وقت ھوتا ھے جب وہ جذبات عقل کے کنٹرول میں ھوں ۔
ایک علم النفس کا ماھر کھتا ھے : انسانی جذبات ایک ایسا خزانہ ھے جو دو چیزوں سے مرکب ھے ایک چیز ایسی طاقتوں کا مرکز ھے جو فشار دینے والی ھیں اور دوسری چیز کے اندر مقاومت کی طاقتوں کو ودیعت کر دیا گیا ھے ۔ اب جو بھی قدرت مقاومتی دستگاہ پر غالب آگئی وھی قدرت ھمارے وجود پر براہ راست حکومت کرے گی اور ھم کو اپنا تابع و فرمانبردار بنا لے گی ۔
جن لوگوں نے اپنی باطنی قوتوں میں توازن بر قرار رکھا ۔ خواھشات میں توافق رکھا اور اپنے عقل و دل میں صلح و آشتی کو قائم کیا ۔ انھیں لوگوں نے مشاکل حیات میں اپنے مستحکم و غیر متزلزل ارادہ کے ساتھ خوشبختی کے مسلم راستہ کو طے کیا ھے ۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ھے کہ آج کل کی زندگی مشینی زندگی بن کر رہ گئی ھے اور انسان نے اپنی فکری قوتوں کے سھارے سمندروں کا سینہ چاک کر ڈالا ھے لیکن تمدن و تھذیب کے سینہ میں جو بد بختیاں موجود ھیں اور نسل بشرجن مشکلات کے تھپیڑوں میں گرفتار ھے اور پورا معاشرہ جس بد نظمی و تباھی کا شکار ھے اسکی علت روحانیت کی شکست اور فضائل اخلاقی سے دوری کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے۔
ڈاکٹر ژول رومان کا کھنا ھے : اس زمانہ میں علوم نے تو کافی ترقی کی ھے لیکن ھمارے اخلاقیات اور غریزی احساسات اپنے ابتدائی مراحل میں ھیں ۔ اگر ھمارے اخلاقیات بھی عقل و دانش کے شانہ بہ شانہ ترقی کرتے تو ھم کو یہ کھنے کا حق ھوتا کہ انسان کی مدنیت بھی ترقی کر گئی ھے !!!
ھاں یہ صحیح ھے کہ جس تمدن پر مکارم اخلاق کی حکمرانی نھیں ھوتی وہ توازن و تعادل کے قانون کے بموجب تباہ و برباد ھو جاتا ھے ۔ معاشروں اور رتمدنوں کے اندر موجود شقاوت و بد بختی، نقص و کمی آج بھی لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کافی ھے کہ وہ اس زمانہ میں بھی اخلاقی اقدار کے ویسے ھی محتاج ھیں جیسے پھلے تھے ۔ مکارم اخلاق کے اندر آج بھی اتنی طاقت و قوت موجود ھے جو اس مردہ معاشرہ کے جسم میں نئی روح پھونک دے ۔
جھوٹ کے نقصانات
سچائی جتنی پسندیدہ چیز ھے جھوٹ اتنی ھی نا پسندیدہ چیز ھے ۔ سچائی بھترین صفت ھے اور جھوٹ بد ترین صفت ھے ۔ زبان ،احساسات باطنی کی ترجمان اور راز ھائے دل کو ظاھر کرنے والی ھے ! جھوٹ اگر عداوت و حسد کی بنا پر ھو تو خطرناک غصہ کا نتیجہ ھے اور اگر طمع، لالچ یا عادت کی بنا پر ھو تو انسان کے اندر بھڑکتے ھوئے جذبات کا نتیجہ ھوتا ھے ۔
اگر زبان جھوٹ سے آشنا ھو گئی اور گفتگو میں جھوٹ نمایاں ھو گیا تو جھوٹ بولنے والے کی عظمت اس طرح پادر ھوا ھو جاتی ھے جیسے موسم خزاں میں درخت کے پتے ! یا شیشوں سے بنے ھوئے مکان پر برستے ھوئے پتھر ! جھوٹ انسان کی ناپاکی و خیانت کی روح کو تقویت دیتا ھے اور ایمان کے بھڑکتے ھوئے شعلوں کو خاموش کر دیتا ھے ۔ جھوٹ رشتھٴ الفت و اتحاد و وفاق کو توڑ دیتا ھے اور معاشرہ میںعداوت و نفاق کے بیج بو دیتا ھے ۔ گمراھیوں کا زیادہ تر حصہ جھوٹے دعووں اور خلاف واقع گفتگووں کا نتیجہ ھوتا ھے ۔ برے لوگ اپنے فاسد مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی شیریں بیانی ، کذب لسانی سے سادہ لوح حضرات کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ھیں اور اپنی رطب اللسانی کی زنجیر میں اسیر کر لیتے ھیں ۔ جھوٹا آدمی کبھی یہ سوچتا ھی نھیں ھے کہ کوئی دوسرا اس کے رازسے مطلع ھو جائے گا ۔ اسی اطمینان کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں غلطیوں اور تناقض کا شکار ھوتا رھتا ھے اور کبھی شدید رسوائی سے دو چار ھو جاتا ھے اسی لئے یہ مثل بے بنیاد نھیں ھے کہ :
دروغ گو را حافظہ نباشد !
اس بری عادت کے عام ھونے کی ایک وجہ جس نے پورے معاشرے کو زھر آلود کر دیا ھے وہ مشھور مقولہ ھے جو زباں زد خاص و عام ھے کھ” دروغ مصلحت آمیز بھتر ازراستی فتنہ انگیز “یھی وہ خوشنما پردہ ھے جس نے اس برائی کی خباثت کو چھپا رکھا ھے اور عموما لوگ اپنے سفید جھوٹ کے جواز کے لئے اسی مقولہ کا سھارا لیتے ھیں ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ عقل و خرد اور شریعت مطھرہ نے مخصوص شرائط کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا ھے چنانچہ عقل و شریعت کا یہ فیصلہ ھے کہ اگر کسی مسلمان کی جان ، آبرو یا مال کثیر کو خطرہ ھو تو اس کا ھر ممکن طریقہ سے دفاع کیا جا سکتا ھے یھاں تک کہ اگر جھوٹ بول کر ان تینوںمیں سے کسی ایک کی حفاظت ممکن ھو تو جھوٹ بھی بول سکتا ھے ۔ لیکن یہ صرف ضرورت ھی کے وقت ھو سکتا ھے کیونکہ ضرورت حرام کو مباح کر دیتی ھے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط ھے کہ انسان بقدر ضرورت ھی استعمال کر سکتا ھے ۔ مقدار ضرورت سے زیادہ جھوٹ نھیں بولا جا سکتا !
اور اگر اس مصلحت کے دائرے کو اپنے شخصی منافع اور نفسانی خواھشات تک کے لئے وسیع کر دیا جائے اور ھم یہ سمجھ لیں کہ اپنی ذاتی مصلحت و منفعت اور شھوت و خواھش کےلئے بھی اسی قاعدہ پر عمل کیا جا سکتا تو پھر بلا مصلحت والے جھوٹ کے لئے کوئی جگہ باقی نھیں رھے گی ۔ جیسا کہ اڑہ ڑھعظیم رائٹر نے لکھا ھے : ” ویسے تو ھر چیز کے لئے ایک سبب ھوتا ھے ( اور نہ بھی ھو تو ) ھم اپنے عمل کے لئے بھت سے عوامل اور بھت سی علتیں تخلیق کر سکتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ مجرم سے جب مواخذہ کیا جاتا ھے تو وہ اپنے جرم کے لئے پچاسوں عذر ، دلیل اور علت تلاش کر لیتا ھے اور اسی لئے پوری دنیا میں جو جھوٹ بولا جاتا ھے اس میں کوئی نہ کوئی نفع و خیر کا پھلو بھرحال ھو تا ھے ۔ اور اگر ایسا نہ ھو تو وہ جھوٹ لغو اور عبث ھو جائے گا اور پھر اس میں کوئی زیادہ ضرر و نقصان بھی نہ رھے گا ۔
جس چیز میں بھی انسان کا ذاتی فائدہ ھوتا ھے اس کو وہ فطری طور سے خیر سمجھتا ھے اور پھر جب وہ اپنے شخصی منافع کو سچ بولنے کی وجہ سے خطرہ میں دیکھتا ھے یا وہ جھوٹ بولنے میں اپنا فائدہ دیکھتا ھے تو دھڑلے سے جھوٹ بولتا ھے اور دور دور تک اس کی برائی کا تصور بھی نھیں کرتا کیونکہ سچائی میں شر و فتنہ دیکھتا ھے اور جھوٹ بھرحال ایک شر ھے اگر حصول شرائط کے ساتھ جھوٹ بول کر شر کو دفع کیا گیا تو ( یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ جھوٹ نیک ھو گیا بلکہ ) اس کا مطلب یہ ھے کہ ایک زیادہ فاسد چیز کو کم فساد والی چیزکے ذریعہ دور کیا گیا ھے ۔
آزادی بیان کی اھمیت آزادی فکر سے بھت زیادہ ھے ۔ کیونکہ اگر افکار میں کسی قسم کی لغزش یا انحراف ھو گیا تو اس کا نقصان صرف فکر کرنے والے کو پھونچے گا لیکن اگر گفتار میں لغزش یا انحراف ھو گیا تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا ۔
امام غزالی کھتے ھیں : زبان ایک بھت بڑی نعمت ھے اور پروردگار عالم کا ایک نھایت ھی لطیف و دقیق عطیہ ھے ۔یہ عضو ( زبان ) اگر چہ حجم و جسم کے اعتبار سے بھت ھی چھوٹا ھے لیکن اطاعت و معصیت کے اعتبار سے بھت ھی سنگین و بڑا ھے ۔ کفر یا ایمان کا اظھار زبان ھی سے ھوا کرتا ھے اور یھی دونوں چیزیں بندگی و سر کشی کی معراج ھیں ۔ اس کے بعد اضافہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں ؛ وھی شخص زبان کی برائیوں سے نجات حاصل کر سکتا ھے جو اس کو دین کی لگام میں اسیر کر دے اور سوائے ان مقامات کے کہ جھاں دنیا و آخرت کا نفع ھو کسی بھی جگہ آزاد نہ کرے !
بچوں کے باطن میں جھوٹ جڑ نہ پکڑنے پائے اس کے لئے بچوں سے کبھی بھی جھوٹ اور خلاف واقع بات نھیں کرنی چاھئے کیونکہ بچے جن لوگوں کے ساتھ ھمہ وقت رھتے ھیں فطری طور سے انھیں کی گفتار و رفتار کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ گھر بچوں کے لئے سب سے اھم تربیت گاہ ھے “۔
جھوٹ اور خلاف واقع کا دور دورہ ھو گیا اور والدین کے اعمال خلاف واقع ھونے لگے تو کسی بھی قیمت پر اچھے و سچے بچے تربیت پا کر نھیں نکل سکتے ۔ بقول موریش ۔ ٹی ۔یش : حقیقت کے مطابق سوچنے کی عادت، حقیقت کے مطابق بات کرنے کی سیرت ،ھر سچ و حقیقت کو قبول کرنے کی فطرت صرف انھیں لوگوں کا شیوہ ھوتا ھے جن کی تربیت طفولیت ھی سے اسی ماحول میں ھوئی ھو ۔
دین کی نظر میں جھوٹ
قرآن مجید صریحی طور سے جھوٹ بولنے والے کو دین سے خارج سمجھتا ھے چنانچہ ارشاد ھے : ” انما یفتری الکذب الذین لا یومنون باٰ یاٰت الله “(۱) جھوٹ وبھتان تو بس وھی لوگ باندھا کرتے ھیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نھیں رکھتے۔
آیت کا مفھوم یہ ھوا کہ ایمان والے جھوٹ نھیں بولتے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : تم پرسچ بولنا واجب ھے ۔ اس لئے کہ سچ اعمال خیر کی طرف لے جاتا ھے ،اوراعمال خیرجنت میں لے جاتے ھیں جو شخص سچ بولتا ھے اور اس کی کوشش کرتا ھے وہ خدا کے پاس صدیق لکھا جاتا ھے ۔ خبردار جھوٹ نہ بولنا کیونکہ جھوٹ فسق ( و فجور ) کی طرف دعوت دیتا ھے اور فسق ( و فجور ) انسان کو جھنم میں ڈھکیل دیتے ھیں ۔ جو انسان برابر جھوٹ بولتا ھے وہ خدا کے یھاں ( کذاب ) لکھا جاتا ھے ۔( ۲)
جھوٹوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ھے کہ ان کو کسی بات پر بڑی مشکل سے یقین آتا ھے اور بڑی مشکل سے دوسروں کی بات پر یقین کرتے ھیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : جو لوگ سب سے زیادہ لوگوں کی باتوں پر یقین کرتے ھیں یہ وھی لوگ ھیں جو سب سے زیادہ سچ بولتے ھیں ۔ اور جو لوگ ھر شخص کی بات کو جھٹلا دیتے ھیں ۔ یہ وھی اشخاص ھیں جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ھیں ۔ ( ۳)
ساموئیل اسمایلز کھتا ھے : بعض لوگ اپنی پست طبیعتی کو دوسروں کے لئے معیار قرار دیتے ھیں لیکن یہ بات جان لینی چاھئے کہ در حقیقت دوسرے لوگ ھمارے خیالات کے آئینہ ھیں اور ھم جو اچھائی یا برائی ان کے اندر دیکھتے ھیں وہ ھماری اچھائی یا برائی کا عکس ھے ۔
شجاع و بھادر آدمی کبھی جھوٹ نھیں بولتا ۔ جھوٹے کے باطن میں ایسی روحی کمزوری ھے جو اس کو صراط مستقیم سے ھٹا دیتی ھے ۔ جو لوگ اپنے اندر برائی اور کمزوری کا احساس کرتے ھیں وھی جھوٹ بولا کرتے ھیں ۔ ڈرپوک بزدل ، کمزور کی پناہ جھوٹ ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں : اگر چیزوں میں چھٹائی کی جائے تو سچائی بھادری کے ساتھ ھو گی اور جھوٹ بزدلی کے ساتھ ھو گا ۔ (۴)
ریمانڈ پیچ کھتا ھے : ناتوان کمزور افراد کا دفاعی حربہ جھوٹ ھے اور خطرے کوٹالنے کے لئے سب سے سریع تر ذریعہ جھوٹ ھے اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ رنگین نژاد لوگوں میں جھوٹ بھت رائج ھے ۔ کیونکہ یہ لوگ سفید فام لوگوں کے جوتے کے نیچے رھتے ھیں اور یہ محسوس کرتے رھے ھیں کہ سفید فام لوگ ھم پر نفوذ و سیطرہ رکھتے ھیں اور ھم کو اپنی مرضی کے خلاف استعمال کر سکتے ھیں ! بھت سے اوقات میں جھوٹ صرف عاجزی و ناتوانی کا رد عمل ھوتا ھے یھی وجہ ھے کہ اگر آپ کسی بچہ سے پوچھیں کہ یہ مٹھائی تم نے کھائی ھے ؟ یا یہ گلدان تم نے توڑا ھے ؟ تو اگر بچہ جانتا ھے کہ ”ھاں“ کھہ دینے میں میری اچھی خاصی گوشمالی ھو گی تو اس کی غریزہ ٴ دفاع ( دفاعی فطرت ) فوراً اس کو نھیں ! کھنے پر آمادہ کر دے گی ۔ (۵)
اسلام سچائی کو فضیلت کا ملاک قرار دیتا ھے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں : لوگوں کی کثرت نماز اور کثرت روزہ سے دھوکہ نہ کھاؤ کیونکہ ھو سکتا ھے کسی کی یہ عادت ھی ھو گئی ھو اور اس کو اپنی عادت چھوڑنی دشوار ھو بلکہ لوگوں کو سچائی اور امانت کے ساتھ پرکھو َ اور ان دونوں باتوں سے ان کی آزمائش کرو ۔ (۶)
حضرت علی علیہ السلام سچائی کے فوائد و ثمرات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : سچ بولنے والا تین باتوں کو حاصل کر لیتا ھے ۔۱۔ لوگ اس پر بھروسہ کرتے ھیں ۔ ۲۔ اس سے محبت کرتے ھیں ۔ ۳۔ اس کی ھیبت چھا جاتی ھے ۔ (۷) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : آدمی کی بد ترین صفت جھوٹ بولنا ھے ۔ (۸)
ساموئیل امایلز کھتا ھے : تمام اخلاقی برائیوں اور ذلیل ترین صفات میں سب سے مذموم اور بری صفت جھوٹ ھے ۔ انسان کو چاھئے کہ اپنے تمام مراحل زندگی میں صرف سچائی کو اصلی ھدف قرار دے ۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے سچائی سے دست بردار نھیں ھونا چاھئے ۔( اخلاق )
اسلام نے اپنے تمام اخلاقی و اصلاحی پروگراموں کو ایمان کی بنیاد پر استوار کیا ھے اور اسی کو سعادت بشری کی بنیاد شمار کیا ھے۔ ڈیکارٹ کھتا ھے : ایمان کے بغیر اخلاق اس قصر کے مانند ھے جو برف پر بنایا گیا ھو ۔ ایک دوسرا دانشمند کھتا ھے : دین کے بغیر اخلاق کی مثال اس دانہ کی ھے جس کو پتھر یا خارستان میں بویاگیا ھو جو خشک ھو کر ختم ھو جاتا ھے ۔ بھترین اخلاق بھی اگر زیر سایہ دین و ایمان نہ ھو تو اس کی مثال اس خاموش مردے کی ھے جو ایک زندہ اور کاھل انسان کے برابر پڑا ھو ۔
دین قلب و عقل دونوں پر حکومت کرتا ھے ۔ اگر کسی کے پاس دینی جذبات ھیں تو وہ مادی احساسات کے غلبہ کو کم کر دیتے ھیں ، دین ھی انسان اور اس کی کثافتوں و نجاستوں کے درمیان سد سکندر بن جاتا ھے ۔ جو شخص ایمان پر تکیہ کر تا ھے وہ ھمیشہ با ھدف اور مطمئن ھوتا ھے ۔ اسلام نے انسان کی شخصیت کو اسکے ایمان اور صفات اعلی و ملکات فاضلہ کا مقیاس ( پیمانہ ) و محو ر قرار دیا ھے اور ان دونوں (ایمان و ملکات فاضلہ )جنبوں کی ترقی کے لئے کوشاں رھتا ھے ۔ اسی ایمان کی بدولت مسلمان کی بات میں اسلام نے وزن پیدا کر دیا ھے اور یھی وجہ ھے کہ دین کے قانون قضائی ( عدلیہ ) میں قسم کھانے کو ۔ بشرطیکہ وہ قسم تمام شرائط کی جامع ھو ۔ دلیل کا قائم مقام قرار دیا ھے ۔ اسی طرح مرد مسلمان کی گواھی معاشرے کے حقوق کے اثبات کی دلیل قرار دی گئی ھے ۔
اب ذرا تصور کیجئے اگر ان دونوں جگھوں ۔ قسم و گواھی ۔ پر جھوٹ بولا جائے تو اس سے کتنا عظیم نقصان ھو گا ۔ اور یہ اتنی بڑی لغزش ھو گی جو قابل عفو و بخشش نھیں ھے ۔ پس اس سے ثابت ھو ا کہ جھوٹ کے گناہ کی شدت و کمی اس سے پیدا ھونے والے نقصانات سے وابستہ ھے مثلا جھوٹی قسم جھوٹی گواھی کا ضرر بھت زیادہ ھے اس لئے اس جھوٹ کا بھی گناہ بھت زیادہ ھے ۔
تمام برائیوں تک پھونچنے کا سب سے پھلا ذریعہ جھوٹ ھوا کرتا ھے ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں : تمام خبائث و برائیوں کو ایک مکان میں بند کر دیا گیا ھے اور اس کی کنجی جھوٹ کو قرار دیا گیا ھے ۔ ( ۹)
میں آپ کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اس سلسلہ میں پیشوائے اسلام کا دستور ذکر کرتا ھوں : ایک شخص سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آکر گویا ھوا : میری سعادت و نیکبختی کے لئے آپ مجھے کوئی موعظہ فرمائیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جھوٹ چھوڑ دو اور ھمیشہ سچ بولا کرو ! وہ شخص جواب پا کر چلا گیا ۔ اس کے بعد اس نے کھا : میں بھت ھی گنھگار تھا لیکن میں ان گناھوں کے چھوڑنے پر مجبور ھو گیا ۔ کیونکہ گناہ کرنے کے بعد اگر مجھ سے پوچھا جاتا اور میں سچ بول دیتا تو سب کے سامنے رسوا ھو جاتا اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ۔ اور اگر جھوٹ بولتا تو دستور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کرتا ۔ اس لئے میں نے سارے گناہ چھوڑ دئے ۔
جی ھاں ! جو شخص راست گفتار ھوتا ھے اور راہ راست پر چلتا ھے وہ رنج و افسوس سے دور رھتا ھے ۔ اور اس کے ایمان کی شمع ھمشیہ فروزاں رھتی ھے وہ شخص قلق و اضطراب سے امان میں رھتا ھے ۔ اور افکار پریشاں سے بھت دور رھتا ھے ۔
پس جھوٹ کے برے انجام کو دیکھنا اور اس کے بارے میں غور و فکر کرنا اور دین و دنیا میں اس کے برے نتائج کو سوچنا ھر شرافت مند اور متفکر انسان کے لئے ایک بزرگترین درس عبرت ھے۔ حقیقت کمال کا حصول ایمان کے زیر سایہ ھی ھوا کرتا ھے اور جھاں پر کمال حقیقی نھیں ھوتا وھاں سعادت و آسائش بھی نھیں ھوتی ۔
---------------------
حوالے
۱۔ سورہ نحل/ ۱۰۵
۲۔نھج الفصاحة ص/۴۱۸
۳۔نھج الفصاحة ص /۱۱۸
۴۔غر ر الحکم ص/ ۶۰۵
۵۔ کتاب ” ماوفرزندان ما “
۶۔اصول کافی ص/ ۸۵
۷۔غرر الحکم ص/ ۸۷۶
۸۔ غرر الحکم ص/ ۱۷۵
۹۔جامع السعادات ج/۲ ص/ ۳۱۸