اخلاص کے معنی
  • عنوان: اخلاص کے معنی
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 12:10:1 14-9-1403

اخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کام کو خدا کے لئے اور اپنی ذمہ داری و تکالیف کی انجام دہی کی خاطر انجام دے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغیرہ کے لئے کوئی کام نہیں کرتا ۔ اخلاص ایک ایسی صفت ہے کہ اگر اس کی بنیاد پر اقدام کیا جائے تو یہ تلوار کی طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتی جاتی ہے ۔
امام خمینی کے اندر یہ صفت کمال کی حد تک تھی ۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ اگر میرا کوئی عزیز ترین فرد بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گا تو میں اس سے بھی چشم پوشی نہیں کروں گا اور ایسا کیا بھی ۔ حساس موقعوں پر وظیفہ کی انجام دہی کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی احساس دلایا ۔ خلوت میں ، جلوت میں ، چھوٹا کام ہو یا بڑا ، آپ نے ہمیشہ اخلاص کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنایا ۔ اور یہی وہ درس تھا جس کی بنا پر آپ کے شاگرد ، آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ یہی وہ درس تھا جس کی بنیاد پر ایران میں معجز ہ نما اسلامی انقلاب نمودار ہوا ۔
ایک بزرگ اہل عرفان و سلوک اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : اگر فرض کریں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم اپنے تمام امور کو ایک معین ہدف کے تحت انجام دیتے تھے اور آپ کا ہدف یہی ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا دیں اور پہنچا بھی دیا کرتے تھے مگر کسی اور شخص کی طرف سے یعنی کسی اور کے نام سے ۔ کیا اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے اس فعل سے راضی نہیں ہوتے تھے ؟ کیا یہ فرماتے تھے کہ یہ فعل چونکہ دوسرے کی طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہیں دوں گا ؟ یا نہیں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کی انجام دہی تھی اور بس ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے یا کس کی طرف سے انجام دیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ لکھنے والا صحیح ہے کیونکہ ایک مخلص شخص کی نگاہ میں کسی فعل کی انجام دہی اہم ہوتی ہے۔ اس کا ذہن ” من و تو “ سے ماوراء ہوتا ہے ۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟ ایسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل یقین رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا وند متعال یقینا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کیونکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ ان جندنا لھم الغالبون ﴾ خدا کے اس لشکر میں اکثر و بیشتر میدان جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن خدا وند عالم فرماتا ہے ” ان جندنا لھم الغالبون “ یعنی یہ لوگ مرنے کے بعد بھی غالب ہیں ۔


اخلاص: اہم ترین اسلحہ


اسلام میں اصلاح دنیا کے لئے اصل و اصیل ، خود نفس انسان کی اصلاح کو بتایا گیا ہے ۔ ہر مسئلے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے ۔ قرآن کریم اپنے قوی اور محکم بازوٴں سے اوراق تاریخ پلٹنے والی قوم سے فرماتا ہے: ” قوا انفسکم “ ( سورہ تحریم / ۶ ) ” علیکم انفسکم “ ( سورہ مائدہ / ۱۰۵ ) یعنی اپنا تزکیہ نفس کرو ،اپنے نفس کی اصلاح کرو ۔ ” قد افلح من زکیٰ ھا “ ( سورہ شمس / ۹ ) اگر صدر اسلام میں اسلامی معاشرہ انسانی نفوس کے تزکیہ سے شروع نہ ہوا ہوتا اور اس میں مناسب حد تک با اخلاص اور متقی افراد پیدا نہ ہو گئے ہوتے تو اسلام قطعاً اپنی بنیادیں مستحکم نہیں کر سکتا تھا ۔ یہی مخلص اور متقی اور سچے مسلمان تھے جن کی بنیاد پر اسلام دوسرے شرکائے مذاہب اور ممالک پر فاتح ہو کر تاریخ عالم میں اپنا نام ثبت کر سکا ہے ۔
ہمارا اسلامی انقلاب بھی اس اخلاص ، تقوی اور اپنے ذاتی اور مادی مفادات سے اوپر اٹھ کر الہی اہداف کی انجام دہی جیسے وظیفے اور ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے ہی رونما ہوا تھا ۔ ایران عراق جنگ کے دوران ہمارا یہی اسلحہ ہمارے لئے کار گر ثابت ہوا تھا ۔ ہمارے شہید ، ہمارے جنگی مجروحین اور ان کے شہادت کے عمیق جذبے نے ہی آج ہمیں اتنی بلندیاں اور مراتب عطا کئے ہیں ۔ ساری دنیا میں آج ہماری عزت اور شرف انھیں خدا دوست شہداء اور مجروحین کی بنیاد پر ہے اور بس ۔


اسلامی انقلاب کی بقاء اور دوام کا سر چشمہ صرف اخلاص


ہمارے اندر ہمارے سب سے بڑے دشمن نے بسیرا کر لیا ہے اور وہ دشمن نفس امارہ ، شہوات نفسانی ، ہوی و ہوس اور خود پرستی ہے ۔ جس لمحے بھی ، خواہ وقتی طور پر ، ہم نے اس زہریلے سانپ اور خطر ناک دشمن کو قابو میں کر لیا اسی لمحے ہم کامیاب اور مجاہد فی سبیل الله ہو جائیں گے اور جب کبھی بھی ہمارا یہ دشمن ہماری عقل اور معنوی و روحانی قوتوں پر حاوی ہو گیا ہم مغلوب اور شکست خوردہ ہو کر رہ جائیں گے ۔
ہمیں ہدایت بشر اور نجات انسان کی خاطر خلق کیا گیا ہے۔ لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے نفوس کی اصلاح اور تزکیہ کریں ۔ خدا وند عالم نے بے حد و بے حساب معنوی اور روحانی طاقتوں اور صلاحتیوں کو ہمارے اندر ودیعت کیا ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان قوتوں کو خود پرستی ، خود خواہی ، ہوی و ہوس نفسانی جیسی صفات رذیلہ سے نجات دیں ۔


اخلاص اورایثار ہی اسلامی انقلاب کے موجد


اسلامی انقلاب اس انقلاب کا نام ہے جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر زبان پر ایک ہی انقلاب تھا ، اسلامی انقلاب ۔ یہ سب کس نے کیا ؟ یہ انقلاب کون لے کر آیا ؟ کیا کوئی ایرانی کہہ سکتا ہے کہ ہاں ! میں یہ انقلاب لایا ہوں ۔ یقینا کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا ۔ یہ انقلاب صرف اور صرف الہی انقلاب ہے اور اس کا لانے والا اور موجد بھی خدا وند عالم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی فرد اس انقلاب کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا ہے حتی امام خمینی بھی اپنی تمام تر عظمتوں اور بے نظیر قربانیوں کے با وجود اس انقلاب کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے تھے ۔ ہمیشہ یہی کہاکہ یہ انقلاب ایرانی عوام کی مخلصانہ اور مجاہدانہ کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اگر تجزیہ کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام خمینی صحیح فرماتے تھے ۔ حقیقتاً امام خمینی عوام کے لئے صرف ایک الہی ذریعہ اور وسیلہ تھے ورنہ اسلامی انقلاب کا اصل محرک خدا وند متعال ہے کیونکہ ایرانی عوام نے مخلصانہ اور فی سبیل الله اسلامی انقلاب کے لئے اقدام کئے تھے لہذا مرضی خدا اور عنایت خدا بھی ان کے ساتھ تھی ۔ یہ عوام کا خلوص ہی تھا جس کی بنا پر خدا وند عالم نے اس اسلامی انقلاب کی تائید کی ہے ۔


ارادہ اور ایمان ہر طرح کے اسلحہ اور طا قت پر غا لب


لبنان کے مومن مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسان کا ارادہ اور ایمان دنیا کے ہر مادی اسلحے اور طاقت پر غالب ہے ۔ یہی وہ مومن جوان تھے جنھوں نے بیروت کی سرحدوں تک آجانے والی اسرائیلی فوجوں کو اکھاڑ کر اپنی حدود سے باہر کر دیا تھا ۔
یہی وہ لبنانی عوام تھے جنھوں نے امریکہ اور فرانس کی ان فوجوں کو ذلیل و خوار کر کے لبنان سے باہر کر دیا تھا جو اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لبنان میں داخل ہو گئی تھیں ۔ لبنانی عوام نے یہ کام اسلحوں اور مادی قوتوں اور طاقتوں کے بل بوتے پر نہیں کیا تھا کہ یہ لوگ مادی اسلحے کے لحاظ سے توبالکل تہی دست تھے ۔ بلکہ صرف اور صرف ایمانی طاقت کے دم پر انجام دیا تھا ۔ یہ ایک ایسی قوت و طاقت ہے جو ایک مختصر سی اور مظلوم قوم ( وہ قوم جو ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور اس کی ہمنوا سفاک طاقتوں کی تختہٴ مشق بنی ہوئی ہے ) کو اتنا قوی اور مستحکم کر دیتی ہے کہ امریکہ ، فرانس اور اسرائیل شرمندہ اور ذلیل ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
آج بھی یہی ایمان اور اخلاص ، لبنان کے مومن جوانوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔ یہ واقعی قابل تعریف اور ستائش ہے کیونکہ یہی وہ قوت ہے جس کے بل پر لبنان ، امریکہ اور یورپ کو یہ باور کرانے سے روکتا رہے گا کہ امریکہ اور اس کی حلیف جماعتیں لبنان میں اس کے آئندہ پر حاوی ہو سکتی ہیں ۔


اخلاص اور قرب خدا : امام خمینی کی کامیابی کا راز


امام خمینی کی کامیابی کا راز اخلاص اور قرب الہی تھا ۔ آپ اپنی اس کوشش میں بحسن ِخوبی کامیاب ہو گئے تھے کہ ” ایاک نستعین “ کو اپنے میں مجسم کر لیں اور لا متناہی اور لا محدود الہی قدرت سے متصل ہو جائیں ۔
اگر ننھا سا قطرہ اپنے محدود اور چھوٹے سے وجود کے ساتھ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے وسیع و عریض سمندر میں غرق ہو جائے تو کوئی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی ۔ اگر ہر شخص امام خمینی کی روش پر عمل پیرا ہو جائے تو امام خمینی کی طرح ہو جائے گا ۔ البتہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ امام خمینی نے اس مشکل اور نادر روزگار کو انجام دیا اور زندہ جاوید ہو گئے ۔ ہم ہر چند اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے لیکن بہر حال ہمیں اپنی توانائی بھر کوشش کرنی چاہیے تاکہ اپنی ذمہ داری اور وظیفے کی انجام دہی کسی نہ کسی حد تک ادا کر سکیں ۔


ہمیں چا ہیے کہ حضرت علی سے اخلاص کا درس حاصل کریں


امام خمینی نے اس دور میں جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ تھا کہ ساری دنیا کو اسلام کے مقابل خاضع و خاشع بنا دیا اور دشمنان اسلام کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی فرماتے ہیں : و لقد کنا مع رسول الله( نهج البلاغة خطبة ۵۶ )۔ہم خالصانہ اور مخلصانہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہتے تھے ۔ ہمارے اعزاء قتل ہوتے رہتے تھے اور یہ سب ہمارے ایمان میں اضافے کا سبب بنتا رہتا تھا ۔ خدا نے جب ہمارے اس خلوص اور صداقت کو دیکھا تو ہمیں فاتح اور ہمارے دشمن کو مغلوب کر دیا ۔ اگر خدا نے ہماری مدد نہ کی ہوتی تو ہم موجودہ حالات تک نہ پہنچ پاتے ۔ ” ما قام للدین عمود و لا اخضر للایمان عود “ دین کا ایک بھی ستون قائم نہ رہ پاتا اور ایمان کی ایک بھی شاخ سرسبز نہ رہ پاتی ۔
یہ سب اس زمانے کے مسلمانوں کے خلوص اور صداقت کی ہی دین ہے کہ آج اسلام اس اعلی مقام تک رسائی حاصل کر سکا ہے اور ساری دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے ۔ یہ اس زمانے کے با اخلاص مسلمانوں کا ہی کرشمہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشرہ وجود میں آیا اور آج تک وہی اسلامی تمدن اور اسلامی تحریک ہم تک پہنچی ہے ۔ آج جہاں کہیں بھی مسلمان موجود ہیں ان کو حضرت علی کی حیات طیبہ سے اس عظیم درس کو حاصل کرنا چاہیے ۔