زہد؛ سیدالزہاد کی نظر میں
  • عنوان: زہد؛ سیدالزہاد کی نظر میں
  • مصنف: ديدار علي اکبري خراساني
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 11:58:18 14-9-1403

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله والصلاوالسلام علی رسول الله و آله الطاهرین لا سیما سیدالزهاد علی بن ابی طالب ’’روحی له الفدائ‘‘ واللعن الدائم علی اعدائهم اجمعین

بہتر یہ ہے کہ اس موضوع کے متعلق سب سے پہلے کلمہ زہد کے لغوی معنی کو ذکر کیا جائے پھر حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب نے نہج البلاغہ میں جو تعریف بیان فرمائی ہے اسے ذکر کیا جائے

زہد کے لغوی معنی:

لغت میں زہد و رغبت ایک دوسرے کے ضد ہیں جیسا کہ ابن منظور افریقی نے ’’لسان العرب‘‘ میں ان لفظوں کے ساتھ تصریح کی ہے :
’’الزهد : ضد الرغب والحرص علی الدنیا، والزهاد فی الاشیاءکلها : ضد الرغب ‘‘ (۱)
اور اسی طرح محمد رضا نے ’’معجم متن اللغ‘‘ میں بھی اسی مطلب کی جانب ان الفاظ میں تصریح کی ہے :’’الزهاد فی الاشیاء کلها: ضد الرغب‘‘ (۲)
شیخ فخر الدین طریحی ’’قدس سرہ‘‘ مجمع البحرین میں زہد کے متعلق فرماتے ہیں :’
’فی الحدیث: افضل الزهد اخفاء الزهد‘‘ الزهد فی الشی خلاف الرغب فیه،
تقول: زهد فی الشی بالکسر زهدا و زهاد بمعنی ترکه و اعرض عنه، فهو زاهد ...
و فی معانی الاخبار ’’الزاهد من یحب ما یحب خالقه و یبغض ما یبغضه خالقه و یتحرّج من حلال الدنیا ولا یلتفت الی حرامها‘‘
و فی الحدیث ’’اعلی درجات الزهد ادنی درجات الورع و اعلی درجات الورع ادنی درجات الیقین و اعلی درجات الیقین ادنی درجات الرضا، الا و ان الزهد فی الدنیا فی آی...

و عن بعض الاعلام: الزهد یحصل بترک ثلاث اشیائ :ترک الزی، و ترک الهوی، و ترک الدنیا...(۳)

انہوں نے بھی زہد و رغبت کو ایک دوسرے کا ضد جانا ہے زہد، ترک اور اعراض کے معنی میں ہے زاہد، حدیث میں وہ شخص ہے جو اس چیز کو دوست رکھے جسے اس کا خالق دوست رکھتا ہے اور جس چیز کو اس کا خالق ناپسند کرتا ہے اسے ناپسند کرے اور اسے مبغوض جانے...

بہرحال لغت میں زہد ترک، بے اعتنائی، عدم توجہ، اعراض و... کے معنی میں استعمال ہوتا ہے پس عدم توجہ و ترک دنیا و بے اعتنائی و کف نفس کا نام زہد ہے۔

تعریف زہد:

حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ’’روحی لہ الفداء‘‘زہد کی یوں تعریف فرماتےہیں :
’’الزهاد،قصر الامل ، والشکر عند النعم، والتورع عند المحارم‘‘ (۴)
یہ میرے مولا کا چار سطر پہ مشتمل خطبہ ہے جو کہ زہد کے متعلق ہے۔ ہم نے صرف زہد کی تعریف ذکر کی ہے۔
نسخہ محمد عبدہ، صبحی صالح اور میثم بحرانی میں ’’التورع‘‘ کے بجائے ’’الورع‘‘ ہے۔ (۵)
زہد امیدوں کے کم کرنے، نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور حرام چیزوں سے دامن بچانے کا نام ہے۔
مخفی نہ رہے کہ ورع و تورع معنی کے لحاظ سے ایک ہیں اس لئے کہ ’’الورع‘‘ کی محمد عبدہ و صبحی صالح وغیرہ نے اس طرح تعریف بیان کی ہے :
’’الکف عن الشبهات خوف الوقوع فی المحرمات‘‘(۶)
اور نسخہ معجم میں ’’التورع‘‘ کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ پس محرمات کے ارتکاب کے خوف سے اپنے آپ کو شبھات سے بچانے کا نام ورع وتورع ہے۔
ایک اور مقام پہ میرے مولا نے زہد کی ماھوی و حقیقی تعریف بیان فرمائی ہے۔ وہ تعریف حقیقت میں قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر ہے اور اسے آیت ’’زہد؛ قرآنی نقطہ نظر سے‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے استاد ’’ادام اللہ ایامہ‘‘ کے بقول قرآن کریم کی سب سے بہتر تفسیر نہج البلاغہ ہے۔
بہرحال زہد کے متعلق میرے آقا یوں فرماتے ہیں :
’’الزهد کلمة بین کلمتین من القرآن: قال الله سبحانه’لکی تا تآسوا علی ما فاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم‘ ومن لم یآس علی الماضی ولم یفرح علی بالآتی فقد اخذ الزهد بطرفیه‘‘(۷)
مکمل زہد قرآن مجید کے دو جملوں میں ہے’ ’جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اس پر رنج و افسوس نہ کرو اور جو چیز اللہ تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں‘‘ لہذا جو شخص جانے والی چیز پر افسوس نہیں کرتا اور آنے والی چیز پر اتراتا نہیں اس نے زہد کو دو سمتوں سے سمیٹ لیا ۔
نہج البلاغہ میں زہد کی تعریف مذکورہ دو مقام پہ آپ لوگوں نے ملاحظہ فرمائی جو کہ ایک نہایت ہی دقیق و عمیق تعریف تھی.ہم تعریف کے لحاظ سے اتنی بحث کو ہی کافی سمجھتے ہیں لہذا ہماری روش یہی رہے گی کہ ہم موضوعات میں نص کلام امیرکلام (علیہ السلام) پیش کریں گے پھر اس کا ترجمہ اور بقدر ضرورت توضیح دیں گے۔ (ان شاءاللہ تعالی)

بہترین زہد :

میرے مولا ، زوج بتول(س)، ابوالحسین، ابوالائمہ، خلیفہ بلافصل رسول (ص) سید الزہاد ’’روحی له الفداء‘‘ زہد کی بہترین قسم کے متعلق یوں فرماتے ہیں :
’’افضل الزهد اخفاءالزهد‘‘(۸)
بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔
زاہد حقیقی وہ ہے جو اپنے زہد کو پوشیدہ رکھے اور ہر جگہ تظاہر نہ کرتا پھرے۔ پس وہ افراد جو زہد کو مخفی نہیں کرتے، شہرت کے پھندے میں جکڑ چکے ہیں، زہد کا اعلان کرتے ہوئے پھرتے ہیں، اپنے آپ کو زاہد کہلانے میں دوسروں کو استعمال کرتے ہیں اور بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں وہ زاہد نہیں بلکہ ریاکار ہیں۔ جاہ طلبی، حب ذات و شہرت نے انہیں بیمار بنا دیا ہے اور ایسے لوگوں میں عجب کی بیماری بھی موجود ہوتی ہے ’’وکم من عابد فسدہ العجب‘‘یہ لوگ زاہد نما ہیں، انہوں نے زاہدوں کے لباس میں اپنے آپ کو سج لیا ہے۔
زہدِ سید الزھاد و امام المتقین و قائد الغرالمحجّلین علی بن ابی طالب(علیہ السلام)ایک بے مثال زہد ہے۔ زہد علی جیسا کوئی بھی زہد نہیں ہے اور علی(علیہ السلام)ایسا زاہد ہے جس کے مانند سوائے نبی اکرم ص کوئی زاہد تاریخ انسانیت میں نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
ہم ابتدا میں ابن ابی الحدید معتزلی کا کلام زہد علی(علیہ السلام)کے بارے میں نقل کرتے ہیں :

’’اما الزهد فی الدنیا : فهو سیدالزهاد، بدل الابدال، الیه تیشد الرحال... ما شبع من طعام قط و کان اخشن الناس مآکلا و لباساً.. و کان لا یاکل من اللحم الا قلیلا و یقول :’’لا تجعلوا بطونکم مقابر الحیوان‘‘ و کان مع ذالک اشد الناس قوّۃً و اعظمهم یدا و هو الذی طلّق الدنیا ثلاثاً و کانت الاموال تجیی الیه من جمیع بلاد الاسلام فکان یفرقها ثم یقولهذا جنای و خیاره فیه اذ کل جان یده الی فیه(۹)
وہ زہد میں سید الزھاد اور بدل الابدال ہیں، انہی کی جانب سفر کیا جاتا تھا... انہوں نے کبھی سیر ہوکر طعام تناول نہیں فرمایا۔ وہ لباس و خوراک کے لحاظ سے بہت سخت تھے.. انتہائی تھوڑا سا گوشت تناول فرماتے تھے درحالیکہ فرماتے تھے اپنے بطون کو حیوانات کی قبریں قرار نہ دو۔اس کے باوجود وہ تمام لوگوں سے طاقتور و قدرتمند تھے۔ وہ علی(علیہ السلام)جنہوں نے دنیا کو تین بار طلاق دی، تمام بلاد اسلامی سے انکی سمت مال آتے تھے...


زہد علی(علیہ السلام)؛ عمربن عبد العزیز کی نظر میں

’’ماعلمنا ان احدا کام فی هذہ الامة بعد النبی ازهد من علی بن ابی طالب‘‘(۱۰)
رسول اللہ کے بعداس امت میں علی بن ابی طالب(علیہ السلام)سے زیادہ زاہد ہماری نظر میں کوئی بھی نہیں ہے۔
اب یہاں ہم زہد، علی(علیہ السلام) کی نظر میں بیان کرتے ہیں البتہ چونکہ یہ موضوع بھی ایک طویل موضوع ہے لہذا ہماری کوشش یہ ہے کہ صرف چند نمونوں پر اکتفا کریں?

زہد علی(علیہ السلام)کے کچھ نمونے:

۱۔ ’’والله لدنیاکم هذہ اهون فی عینی من عراق خنزیر فی ید مجزوم‘‘(۱۱)
خدا کی قسم! تمہاری یہ دنیا میری نظروں میں سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔
۲۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب(علیہ السلام) جب اہل بصرہ سے جنگ کے لئے گئے تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں مقام ذی قار میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اپنا جوتا جوڑ رہے ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن عباس! اس جوتے کی قیمت کیا ہوگی؟ ’’ماقیمۃ ھذہ النعل؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’لا قیمۃ لھا‘‘ آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا کہیں زیادہ عزیز ہے ’’والله لهی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقا او ادفع باطلاً...‘‘ (۱۲)
۳۔ ’’... و ان دنیاکم عندی لاهون من ورقة فی فم جرادۃ تقضمها ما لعلی و ...‘‘ (۱۳)
خدا کی قسم! اگر سات اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دئیے جائیں کہ میں اللہ کی صرف اتنی معصیت کروں کہ چیونٹی سے جو کا چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا۔ یہ دنیا میرے نزدیک اس پتی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔ علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ؟
۴۔’’ولا لفیتم دنیا کم هذہ ازهد عندی من عفطة عنز‘‘(۱۴)
اور تمہاری دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتنا ہے۔
۵۔ ’’لقد علمتم انی احق الناس بھا من غیری؛ واللہ لاسلمنّ ما سلمت...‘‘(۱۵)تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے۔اللہ کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا تاکہ (اس صبر پر) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت کو ٹھکرا دوں جس پر تم مر مٹے ہو۔ (یہ مکمل خطبہ ہے)۔

زاہدوں کی خصوصیات

امیرکلام، امیرالمومنین، یعسوب الدین امام المتقین، سید الزھاد ’’روحی لہ الفدائ‘‘ نے زاہدوں کی خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔ ہم صرف نہج البلاغہ سے بعض خصوصیات کو نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔
میرے مولا فرماتے ہیں :’’ ان الزاهدین فی الدنیا تبکی قلوبهم و ان ضحکوا...‘‘بے شک اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں اگر چہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے اگر چہ ان سے مسرت ٹپک رہی ہو۔ اور انہیں اپنے نفسوں سے انتہائی بیر ہوتا ہے اگر چہ اس رزق کی وجہ سے جو انہیں میسر ہے ان پر رشک کیا جاتا ہو۔ (۱۶)
2۔میرے مولا نے رات کے وقت اپنے فرش مبارک سے اٹھ کر ستاروں پہ ایک نظر ڈالی اور نوف بن فضالی بکالی سے فرمایا :’’اے نوف! سوتے ہو یا جاگ رہے ہو؟‘‘
میرے مولا کو نوف نے جواباً عرض کیا :’’اے امیرالمومنین! جاگ رہا ہوں‘‘۔
فرمایا:’’طوبی للزاهدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرۃ...‘‘ خوشا نصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار دیا۔ قرآن کو سینے سے لگایا اور دعا کو سپر بنایا پھر حضرت مسیح? کی مانند دنیا کو چھوڑ کر دنیا سے الگ تھلگ ہوئے۔
اے نوف! داود علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا :’’یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوائے اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا یا لوگوں کی برائیاں کرنے والایا (کسی ظالم حکومت) کی فوج میں ہویا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو۔(۱۷)
اس پیراگراف کا مقصد یہ ہے کہ زاہد سحر خیز ہوتا ہے ، مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور وہ کبھی بھی ظالم کی مدد نہیں کرتا۔ وہ ’’تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘ (۱۸)پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اسی فرمان خدا کے پیش نظر وہ ظالم حکومت کے کسی بھی منصب کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی ظالم و طاغی و عاصی کی مدد کرتا ہے? ڈھول تاشہ فقط بعنوان نمونہ ذکر کیا گیا ہے ورنہ مراد یہ ہے کہ زاہد کبھی لھو و عبث کاموں کو انجام نہیں دیتا بلکہ ایسے کاموں سے اسے قلبی نفرت ہوا کرتی ہے? ہر وہ شخص جو ایسے کاموں میں اپنے قیمتی وقت کو ضایع کرتا ہے، مستجاب الدعا نہیں بن سکتا اور اللہ عز و جل ایسے شخص کو اسکے حال پہ چھوڑ دیتا ہے۔
۳۔ایک اور مقام پر سید الزھاد(علیہ السلام) فرماتے ہیں :

’’والناس منه فی راحة اتعب نفسه لآخرته و اراح الناس من نفسه ? بعده عمن تباعد عنه زهد...‘‘

متقی و زاہد کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت میں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت میں ہیں۔اس نے آخرت کی خاطر اپنے نفس کو زحمت میں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت میں رکھا ہے۔جن سے دوری اختیار کرتا ہے تو یہ زہد و پاکیزگی کیلئے ہوتی ہے اور جن سے قریب ہوتا ہے تو یہ خوش خلقی و رحم دلی کی بنا پر ہے ۔نہ اس کی دوری غرور و کبر کی وجہ سے ہے اور نہ اس کا میل جول کسی فریب اور مکر کی بنا پر ہوتا ہے۔ (۱۹)
اس پیراگراف میں زاہد کی کچھ خصوصیتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے :
1۔ اس کا نفس ہمیشہ رنج و الم میں مبتلا رہتا ہے۔
2۔ لوگوں کو اذیت نہیں کرتا، تکلیف نہیں پہنچاتا اور لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے امن و امان میں رہتے ہیں۔اسی مطلب کی جانب سید عرب و عجم رسول ثقلین حضرت محمد مصطفی ۔ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے :’’المسلم من سلم المسلمون من یده و لسانه ‘‘ پس اگر یوں کہا جائے کہ زاہد مسلمان حقیقی ہوتا ہے یا یوں کہا جائے کہ مسلمان حقیقی زاہد ہی ہوتا ہے تو کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
3? زاہد کی دوری زہد و پاکیزگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
4? زاہد خوش خلق و نرم دل ہوتا ہے اور اسی بنا پہ دوسروں کے قریب ہوتا ہے نہ کہ غرور ، تکبر، فراڈ و مکر کی بنا پر۔
5۔ زاہد غرور و تکبر کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔
6۔ زاہد فریب اور مکر ودھوکے جیسے موذی مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔
7۔ چونکہ اس خطبہ میں امام المتقین علی بن ابی طالب روحی لہ الفدائ نے پرہیزگاروں کی صفات و خصوصیات کو بیان فرمایا ہے لہ?ذا یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ زاہد و متقی ایک ہی ہیں پس تمام متقی کی صفتیں زاہد کی صفتیں کہی جاسکتی ہیں۔فتآمل جدّاً
4۔’’کانوا قوما من اهل الدنیا و لیسو من اهلها فکانوا فیها کمن لیس منها عملوا فیها بما یبصرون...‘‘وہ ایسے لوگ تھے جو اہل دنیا میں سے تھے مگر (حقیقتہً)دنیا والے نہ تھے۔ وہ لوگ دنیا میں اس طرح رہے کہ گویا دنیا سے نہ ہوں۔ان کا عمل ان چیزوں پر ہے جنہیں خوب جانتے ہیں اور جن چیزوں سے خوفزدہ ہیں ان سے بچنے کیلئے جلدی کرتے ہیں۔ان کے جسم گویا اہل آخرت کے مجمع میں گردش کررہے ہیں ۔ وہ اہل دنیا کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان کی جسمانی موت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور وہ ان اشخاص کے حال کو زیادہ اندوہناک سمجھتے ہیں جو زندہ ہیں مگر ان کے قلوب مردہ ہیں ۔ (۲۰)
’’اصابوا لذة زهد الدنیا فی دنیاهم و تیقنوا انهم جیران الله غداً فی آخرتهم‘‘انہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ترک دنیا کی لذت چکھی اور یہ یقین رکھا کہ وہ کل آخرت میں اللہ کے پڑوس میں ہوں گے۔ (۲۱)
مخفی نہ رہے کہ یہ عہدنامہ میرے مولا کی جانب سے محمد بن ابی بکر کے نام ہے جبکہ انہیں مولا نے مصر کی حکومت سپرد کی۔ اس عہد نامہ میں پرہیزگاروں کے صفات بیان کیے گئے ہیں:’’و اعلموا عباد الله ان المتقین ذهبوا بعاجل الدنیا و آجل الآخرۃ... اصابوا لذۃ زهد الدنیا...‘‘ جن صفات میں ایک صفت زہد ہے۔ ظاہراً اگر زہد و تقوی میں تساوی کے قائل نہ ہوں تو حد اقل ان میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ماننا پڑے گی۔
زاہدوں کی اور بھی صفات و خصوصیات ہیں جن سے ہم محدودیت کی وجہ سے اعراض کررہے ہیں اور اسی مقدار پہ اکتفا کررہے ہیں۔

اؤٹی یا جھوٹے زاہد:

جھوٹے زاہدوں کا تعارف بھی متعدد مقامات پر میرے مولا نے فرمایا ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر فقط کچھ مقامات کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
1۔ میرے مولا نے اپنے ایک نورانی خطبہ میں لوگوں کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان اقسام میں ایک صنف جھوٹے زاہدوں کی ہے۔’’منهم من ابعده عن طلب الملک ضؤلة نفسه ... و تزین بلباس اهل الزهاد و لیس من ذالک فی مراح و لا غديً‘‘ ۔
اور بعض وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی، ملک گیری و حصول اقتدار کے لیئے اٹھنے نہیں دیتی۔ ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے عاجز کردیا ہے۔ اسی وجہ سے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کررکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے آپ کو سج لیا ہے حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی بھی وقت کوئی لگاؤ نہیں رہا۔ (۲۲)
2۔ جب ایک شخص نے آپ سے پند و نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا:’

’ولا تکن ممن یرجوا الآخره بغیر العمل...یقول فی الدنیا بقول الزاهدین و یعمل فیها بعمل الراغبین... ‘‘
تم کو ان لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں۔ جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں سے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا انہیں ملے تو سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے۔ جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں۔ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو ایسی چیزوں کا حکم دیتے ہیں جنہیں خود بجا نہیں لاتے۔ صالحین کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔ اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں۔ اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں تو مطمئن ہو کر کھیل کود میں پڑ جاتے ہیں... اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گمراہی میں پڑ جاتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں... عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے... وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔ موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال صالحہ انجام دینے میں جلدی نہیں کرتے... اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پہ لگاتے ہیں۔ وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کرکے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔ (۲۳)
سید رضی ’’اعلی الله مقامه‘‘ فرماتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ و موثر حکمت ،چشم بینا رکھنے والے کے لئے بصیرت اور نظر و فکر رکھنے والے کیلئے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔

فوائد و آثار زہد:

سید الزھاد و العباد و امام الاتقیاء ’’روحی لہ الفداء‘‘ کے نورانی کلمات میں زہد کے فوائد و آثار بھی بیان ہوئے ہیں۔ وہ کلمات حقیقت میں بہت سے سوالوں کا جواب ہیں مثلاً زہد کا فائدہ کیا ہے؟ زہد کا اثر کیا ہے؟ زہد کا خودسازی میں کون سا کردار ہے؟و....
ہم ذیل میں اپنے آقا و مولا بلکہ مولائے کل کائنات کے کچھ نورانی کلمات کو اس ہدف کے پیش نظر ذکر کرتے ہیں:
1? ’’من زهد فی الدنیا استهان بالمصیبات‘‘جو شخص دنیا میں زہد اختیار کرے گا وہ مصیبتوں کو آسان و ہلکا سمجھے گا۔ (۲۴)
دنیا میں زاہد پر جو پریشانیاں و مصائب و آلام پیش آتے ہیں کبھی بھی زاہد انہیں گراں نہیں سمجھتا بلکہ ابتلائے الہی سمجھ کر ان مصائب و آلام پر اطمینان قلب کے ساتھ صبر کرتا ہے? زاہد کی نظر میں بڑی بڑی مصیبتیں معمولی سی ہوا کرتی ہیں۔
زاہد اپنے مقتدی۔ سے جان چکا ہے کہ ’’من عظم صغار المصائب ابتلاہ الله بکبارها‘‘جو شخص ذرا سی مصیبت کو بڑی اہمیت دیتا ہے اللہ اسے بڑی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ (۲۵) لہذا زاہد معمولی سی مصیبت کو اصلاً مصیبت ہی تصور نہیں کرتا۔
2۔ ’’زهدک فی راغب فیک نقصان حظً و رغبتک فی زاهد فیک ذلّ نفس‘‘جو تمہاری جانب جھکے اس سے بے اعتنائی برتنا اپنے حظ و نصیب میں خسارہ کرنا ہے اور جو تم سے بے رخی کرے اس کی طر ف جھکنا نفس کی ذلت ہے۔ (۲۶)
’’ازهد فی الدنیا یبصرک الله عوراتها و لا تغفل فلست بمغفول عنک‘‘ دنیا میں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے اور غافل نہ ہو اس لئے کہ تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوا جائے گا۔ (۲۷)
’’و ظلف الزهد شهواته‘‘زہد نے اس کی خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہے۔
تنبیہ: ۔ نہیں معلوم کیوں مفتی جعفر حسین ’’اعلی اللہ مقامہ‘‘ کے ترجمہ میں الزہد منصوب ہے؟ بندئہ حقیر نے غور و خوض کے بعد متعدد نسخوں کی جانب رجوع کیا مثلاً محمد عبدہ، صبحی صالح، نسخہ معجم المفھرس، نسخہ میثم بحرانی و... لیکن کہیں بھی منصوب نظر نہیں آیا؟ اس حقیر پر تقصیر کی نظر میں چاپی اشتباہ ہے ورنہ مفتی جعفر حسین ’’اعلی اللہ مقامہ‘‘ کا مقام اس سے بالاتر ہے کہ انکی جانب یہ نسبت دی جائے۔
خلاصہ کلام:ہم نے عجالۃً فقط انہی چار نصوص پہ اکتفا کی ہے ، وہ بھی محدودیت کی وجہ سے لیکن اگر بحث کا دروازہ کھلا رہتا تو کچھ زیادہ مرقوم کیا جاسکتا تھا۔
پہلا فائدہ: زہد انسان کو صبر جزیل کی ہمت دیتا ہے۔
دوسرا فائدہ: زہد عزت نفس کا باعث بنتا ہے۔
تیسرا فائدہ: زہد انسان میں عدالت کے ملکہ کو قوی بناتا ہے۔
چوتھا فائدہ: اللہ زاہد کو زہد کی وجہ سے بصیرت دیتا ہے۔
پانچواں فائدہ: زہد کے سبب انسان نفسانی خواہشات کو کچل دیتا ہے۔
کلام امیر? میں زہد کے بہ ’’ان شاء اللہ‘‘

فلسفہ زہد:

حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب(علیہ السلام)کی نظر میں زہد کا فلسفہ چار چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے۔ یہاں ہم صرف اشارہ کریں گے تفصیل ’’تصنیف نہج البلاغہ ‘‘ میں ملاحظہ ہو۔
1۔ایثار: ایثار کا مطلب یہ ہے کہ خود پر دوسروں کو ترجیح دینا ، دوسروں کو خود سے مقدم جاننا اور دوسروں کی خاطر خود کو زحمت میں ڈالنا۔
حضرت علی(علیہ السلام) اور ان کے گھرانے کا ایثار تاریخ انسانیت میں بے مثال ہے جسے اللہ تعالی نے ایک مکمل سورہ کی شکل میں بیان فرمایا ہے ۔ا س سورہ کو سورہ دہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
2۔مواسات اور ہمدردی: یعنی محروم لوگوں کے غم میں برابر سے شریک رہنے کا نام مواسات ہے۔ مواسات کو عینی شکل میں دیکھنا مطلوب ہو تو خاندان عصمت و طہارت کے در پر جھکنا پڑے گا۔
3۔آزادی و آزادگی: انسان کو خواہشات و مادیات سے آزاد ہونا چاہیئے اس لیئے کہ اللہ نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے۔ ’’لا تکن عبد غیرک و قد جعلک الله حرّاً‘‘ لالچ علی کی نظر میں ہمیشہ کی غلامی ہے۔ ’’الطمع رق موبد‘‘(۲۸)
4۔ ریاضۃ النفس علی التقوی: یہ اس وقت ممکن ہے جب نفس کو لذائذ و شہوات سے محروم رکھا جائے۔
ایثار و مواسات :’’ان الله تعالی فرض علی ائمه العدل...‘‘ (۲۹) اللہ تعالی نے ائمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔
ریاضت نفس: مولا پرہیزگاروں کے متعلق یوں فرماتے ہیں :’’منطقهم الصواب، و ملبسهم الاقتصاد و مشیتهم التواضع...‘‘(۳۰)انکی گفتگو جچی تلی ہوئی، میانہ لباس اور ان کا چلنا فروتنی و تواضع ہے۔
زہد کا مقصد مولا کی نظر میں یہ ہے کہ انسان مال و دولت کا غلام نہ بن جائے نہ یہ کہ فقیر و نادار و مفلس ہوجائے چونکہ ’’الفقر موت الاکبر‘‘(۳۱)

حوالہ جات


1? لسان العرب 11702 باب الزای
2? معجم متن اللغ? 368 ’’الزای‘‘
3? مجمع البحرین 1296-297’’ز‘‘
4?نہج البلاغہ،خ81 و 79
5?شرح محمد عبدہ ، خ80صبحی صالح خ81 بحرانی خ87
6? شرح محمد عبدہ خ80صبحی صالح خ81 ?
نوٹ: بحرانی کا یہاں لطیف کلام ہے محدودیت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا جارہا ہے?
7?نہج البلاغہ، ق 439حکمت 439
8? ==ق28 حکمت 27
9?شرح نہج البلاغہ،126، ابن ابی الحدید
10?تصنیف نہج البلاغہ،ص387 ، عنوان ’’زهد الامام و تقواه‘‘ باب 3 فصل 15
11?نہج البلاغہ،ق236
12?نہج البلاغہ،خ3333
13?==خ224خ221
14?=خ3خ3
15?=خ74خ72
16?نہج البلاغہ،خ113ترجمہ مفتی جعفر حسین? خ111
17? نہج البلاغہ،ق104ترجمہ مفتی جعفر حسین? ، 834، 835، حکمت 104
18?مائدہ 2
19?نہج البلاغہ،خ193خ191
20?نہج البلاغہ،خ230 ، عنوان :منھا فی صف? الزھاد خ227
21?==ک27، ص122عہدنامہ 27
22?نہج البلاغہ،خ32آغاز خطبہ:’’ایها الناس انا قد اصبحنا فی دهر عنود و زمن کنود يُعدّ فیه المحسنین مسیئاً...‘‘
23?نہج البلاغہ،ق150حکمت 150
24?نہج البلاغہ،ق31حکمت30
25?نہج البلاغہ،ق451حکمت 451
26? نہج البلاغہ ،خ83 ، عنوان: التحذیر من ھول الصراط خ81 ? اس خطبہ کو خطبہ غرّا ئ کے نام سے یاد کرتے ہیں?
27?نہج البلاغہ، خ209207
28?نہج البلاغہ، خ193خ191