ماہ رمضان کے اعمال
ماه رمضان مسلمانوں کی عبادت کا سب سے اہم مہینہ ہے۔ احادیث میں اس مہینے کے حوالے سے مختلف عبادتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان اعمال میں سے بعض کو اعمال مشترک یعنی ماہ رمضان کے تمام دنوں اور راتوں میں انجام دینے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ بعض اعمال مخصوص ایام کے ساتھ مختص ہیں۔ جیسے شب قدر کے اعمال وغیرہ۔
ماہ مبارک رمضان کے تمام دنوں کی مشترکہ دعائیں درج ذیل ہیں:
« یا عَلِیُ یا عَظیمُ یا غَفُورُ یا رحیمُ أنْتَ الرَّبُّ العظیمُ الَذی لیس کَمِثْلِهِ شَی ءٌ و هُوَ السَّمیعُ الْبَصیرُ وَ هذا شَهْرٌ عَظَّمْتَهُ و کَرَّمْتَهُ و شَرَّفْتَهُ و فَضَّلْتَهُ عَلَی الشُّهُورِ و هُوَ الشَّهْرُ الَّذی فَرَضْتَ صِیامَهُ عَلَی و هُوَ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أَنْزَلْتَ فِیهِ الْقُرانَ هُدی لِلنّاسِ و بَیناتٍ مِنَ الْهُدی و الْفُرْقانِ و جَعَلْتَ فیهِ لَیلَةَ الْقَدْرِ و جَعَلْتَها خَیرا من أَلْفِ شَهْرٍ فَیاذَ الْمَنِّ و لا یمَنُّ عَلَیکَ مُنَّ عَلَی بِفَکاکِ رَقَبَتی مِنَ النّارِ فیمَنْ تَمُنُّ عَلَیه وَ أَدْخِلْنی الْجَنَّة بِرَحْمتِکَ یا أرْحَم الرّاحِمِینَ[سید بن طاووس، الإقبال بالأعمال الحسنة، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۸۰]
[نوٹ : اے عظمت والی ذات، اے بزرگوار، اے بخشنے والی اور مہربان ذات! آپ ہی پروردگار ہے اور تجھ سا کوئی نہیں ہے اور اپنے مخلوقات کی گفتار اور کردار سے مکمل آشنا ہے۔ یہ مہینہ جسے تو نے عظمت اور بزرگی دی ہے اور دوسرے مہینوں پر اسے کرامت اور شرف دی ہے اور اس مہینے میں میرے اوپر روزہ واجب کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تو نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت، اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی اور حق کو باطل سے ممتاز کرنے کیلئے نازل کیا ہے اور شب قدر کو اس مہینے میں قرار دیا ہے اور اس رات کو ہزار مہینوں پر فوقیت دی ہے۔ پس اے منت والی ذات خدا! تجھ پر کسی کی منت نہیں ہے ان تمام لوگوں کے درمیان جن کو تو نے عطا کی ہے میرے اوپر بھی منت کرکے مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے اور ہمیشہ رہنے والی بہشت میں مجھے پہنچا دے تیری بے پایان رحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ مہربان ہستی]
روزہ
روزہ، اذان صبح سے اذان مغرب تک بعض امور من جملہ کھانے اور پینے سے اجتناب کرنے کو کہا جاتا ہے۔[ احكام روزہ»] ماہ رمضان میں روزہ رکھنے اور اس کے بہت سے احکام سورہ بقرہ میں آیا ہے۔[ سورہ بقرہ، آیات ۱۸۳-۱۸۵، و آیہ ۱۸۷ ۔]
ماہ مبارک رمضان میں روزہ کا واجب ہونا اسلامی تعلیمات کے لازمی امور میں سے قرار دیا جاتا ہے جس کا انکار کرنے والا مرتد ہو جاتا ہے۔[ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۵۲۱۔]
قرآن اور اہل بیتؑ کی احادیث میں روزہ رکھنے کے بہت سارے فوائد کا ذکر ملتا ہے من جملہ ان میں تقوا،[ سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۳]
امتحان اور آزمائیش کا ذریعہ اور اخلاص کا معیار،[ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ص۵۱۲، ح۲۵۲] قیامت کی بھوک اور پیاس یاد،[ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱۰، ص۹، ح۱۲۷۰۱ ] اور افطار کے وقت دعا کی قبولیت[علامہ مجلسی، بحار الانوار، بیروت، ج۹۳، ص۲۵۵، ح۳۳] قابل ذکر ہیں۔
شب قدر
کربلا بین الحرمین میں شب قدر کو قرآن سر پر رکھنے کا عمل
شیعہ شب قدر کو ماہ مبارک رمضان کی 19، 21 اور 23ویں رات میں سے ایک قرار دیتے ہیں اور 23 رمضان کی رات شب قدر ہونے کا احتمال دوسری دو راتوں سے زیادہ ہے۔[ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۵۱۹۔] جبکہ اہل سنت 27 رمضان کی رات کو شب قدر ہونے پر زیادہ تاکید کرتے ہیں۔[ طباطبایی، تفسیر المیزان، ۱۳۶۳ش، ج۲۰، ص۵۶۶]
شیعہ ہر سال مساجد، امام بارگاہوں، ائمہ یا امامزادوں کے حرم یا اپنے اپنے گھروں میں شب قدر کے اعمال بجا لاتے ہیں اور پوری رات سحری کے وقت تک شب بیداری کر کے عبادت میں بسر کرتے ہیں۔[ مجیدی خامنہ، «شبہای قدر در ایران»، ص۲۱] عموما ان راتوں میں وعظ و نصیحت کی مجالس، نماز جماعت، دعائے افتتاح، دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے جوشن کبیر اور قرآن سر پر رکھنے کا عمل اجتماعی یا انفرادی طور پر انجام دیتے ہیں۔[ مجیدی خامنہ، «شبہای قدر در ایران»، ص۲۲]
ماہ رمضان کی مستحب نمازیں
مشہور شیعہ فقہاء رمضان المبارک کی مستحب نمازوں کی تعداد ہزار رکعت تک بتاتے ہیں جنہیں دو دو رکعت کی صورت میں پڑھی جاتی ہیں۔[ تراویح]
ان نمازوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہیں: ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے بیسویں تاریخ تک ہر رات 20 رکعت اور بیسویں تاریخ سے آخری تاریخ تک ہر رات 30 رکعت پڑھی جائے اور تینوں شب قدر کی راتوں میں سو سو رکعت اس پر پر اضافہ کیا جائے تو ان کی مجموعی تعداد 1000 رکعت بن جاتی ہیں۔( جواہر الکلام، ج۱۲، ص۱۸۷-۱۹۰۔)
اہل سنت ماہ رمضان کی ہر رات 20 مستحب نمازیں پڑھتے ہیں۔ اصطلاح میں ان نمازوں کو نماز تراویح کہا جاتا ہے۔[ چرا شیعیان نماز تراویح نمی خوانند؟] اہل سنت خلیفہ دوم کی پیروی کرتے ہوئے ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔[ تراویح]
آخری عشرے کا اعتکاف
پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے کو اس کے بعد دوسرے عشرے کو اور آخر میں تیسرے عشرے کو اعتکاف کے لے انتخاب فرمایا، اس کے بعد عمر کی آخری لمحات تک ماہ رمضان کے تیسرے اور آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔[ اعتکاف دہہ آخر ماہ رمضان]
جنگ بدر ماہ رمضان میں لڑی گئی جس کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ اس سال اعتکاف میں نہیں بیٹھ سکے اس وجہ سے آنحضرتؐ اگلے سال ماہ رمضان میں 20 دن معتکف ہوئے؛ دس دن اسی سال کی نیت سے اور دس دن پچھلے سال کی قضا کی نیت سے۔[ شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۴]