اندرونی دفاعی نظام
  • عنوان: اندرونی دفاعی نظام
  • مصنف: جواد اصغر محسنی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:43:55 1-9-1403

’’اس پٹرول پمپ پر پٹرول کی بو کتنی زیادہ ہے؟؟‘‘ فراز نے گاڑی کو پمپ کے سامنے روکتے ہوئے کہا۔ اور پھر چابی اس لڑکے کو دے دی جو گاڑی کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھا تھا۔
’’مجھے تو یہ خوشبو لگتی ہے۔‘‘ ساتھ بیٹھی نکہت فراز نے اسکارف ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ ’’بہت پسند ہے مجھے۔۔‘‘ اس نے اپنا جملہ مکمل کیا۔
’’ہاں صحیح ہے! اگر مجھے الرجی نہ ہوتی تو شاید میری رائے بھی یہی ہوتی۔ ارے۔۔!‘‘ فراز نے کسی چیز پر تعجب کرتے ہوئے کہا اور اپنی بات ادھوری چھوڑ کر گاڑی سے اتر گیا۔ وہ اپنی گاڑی کے پیچھے کھڑی ہوئی گاڑی کی طرف جارہا تھا۔ اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص سے کچھ کہا اور مسکراتا ہوا واپس آگیا۔
نکہت نے جو کچھ نہ سمجھ پائی تھی اور تجسس کے مارے بے چین ہو رہی تھی، اس کے بیٹھتے ہی سوال کیا: ’’کیا ہوا تھا؟‘‘
فراز نے مسکراتے ہوئے کچھ سوچنے کے انداز میں کہا: ’’کتنا اچھا لگتا ہے نا کوئی اچھا کام کر کے! خاص طور پر اگر کسی اور کے لئے ہو تو۔۔۔‘‘ پھر اس نے ایک گہرا سانس لیا جیسے کسی چیز پر اسے بے انتہا سکون کا احساس ہوا ہو۔
’’اب آپ بتائیں گے بھی کہ یہ اتفاقی نیکی آپ نے کونسی کر ڈالی ہے؟‘‘ نکہت تھوڑا ناراض ہوتے ہوئے بولی۔ اور فراز نے فیصلہ کیا کہ اسے مزید تنگ نہ کیا جائے۔
’’بھئی کچھ نہیں! وہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب اپنی سگریٹ جلانا چاہتے تھے۔۔‘‘ اس نے پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کی جانب اشارہ کیا۔
’’تو پھر۔۔‘‘ نکہت نے بات کاٹی۔
’’تو پھر ۔۔؟‘‘ فراز نے اس کے سوال پر تعجب کا اظہار کیا۔ ’’یعنی نکہت تم بھی۔۔؟‘‘
’’میں بھی کیا۔۔‘‘ نکہت فراز کے لہجے سے الجھ گئی تھی۔
’’یعنی تم اس خطرے کو نہیں سمجھتی۔ بھئی پٹرول پمپ میں کبھی بھی آگ کا استعمال کسی بھی چیز کے لئے مناسب نہیں۔ بہت خطرناک ہوتا ہے۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ ان کی جان کو بھی خطرہ تھا اور دوسروں کو بھی خطرے میں ڈال سکتے تھے۔۔‘‘ فراز نے تفصیل بتائی۔
’’تو آپ کو کیا بے چینی تھی؟ جلانے دیتے، پمپ والے خود بتا دیتے یا وہ خود سمجھ جاتے۔۔‘‘ اسی دوران فراز نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور اسے سڑک پر لے آیا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ایک شخص کو غلطی کرتے دیکھتا رہوں اور منع بھی نہ کروں۔ بس بیٹھ کر انتظار کروں کہ کوئی اور یہ کام کرلے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس کام سے دانستہ یا نادانستہ طور پر دوسروں کو بھی نقصان پہنچا دے۔‘‘ فراز کی بات سُن کر نکہت خاموش ہوگئی اور آخر فراز کی نیکی کو سراہا اور اس کی بات کی تائید کی۔
________________________________________
وہ خصوصیات جو انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت اور برتری عطا کرتی ہیں، یا یوں کہیں کہ جو انسان کو انسان بناتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی انسان ایسا کام انجام دے کہ جو نقصان دہ ہو، تو وہ فطری طور پر ایک ذمہ داری کا احساس کرتا ہے۔ اُس کا دل اُس سے کہتا ہے کہ غلطی کرنے والے کو روکے اور اُسے اجازت نہ دے کہ کسی کے نقصان کا باعث بنے، حتی کہ اگر نقصان فقط اسی فاعل تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔
ہماری روز مرہ کی زندگی میں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں معاشرے یا گھر میں موجود افراد ایک دوسرے کو مختلف نقصانات میں مبتلا ہونے یا دوسروں کے نقصان کا باعث بننے سے روکتے رہتے ہیں یا اُن فوائد کو حاصل کرنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جن کی طرف اُن کے چاہنے والوں کی توجہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی زمانہ یا معاشرہ میں انسانوں کے اندر یہ احساس مر جائے، یا موجود ہونے کے باوجود نظرانداز کر دیا جائے، تو پھر اس معاشرہ کے نظم و ضبط یا ترقی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ بات ممکن نہیں کہ معاشرے میں قوانین کو جاری کرنے کے لئے ہر وقت، ہر جگہ حکومت یا دوسرے اداروں کی طرف سے کوئی نہ کوئی موجود ہو۔ لہذا اگر معاشرے میں موجود تمام افراد اس ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کو عملی جامہ پہنائیں، تو شاید غافل اور گمراہ لوگوں کی تعداد بہت کم ہوجائے ۔
شریعت نے بھی، انسانی معاشروں کو بے راہ روی اور گمراہی سے بچانے اور مسلمانوں کو دشمن کے مضرّ حملوں کے خلاف دفاع کرنے پر اُکسانے کے لیے، کچھ فرائض قرار دئیے ہیں جن کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو اپنے اپنے مقام پر اسلامی معاشرہ کے بچاو اور اس کی فلاح و بہبود کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یعنی اپنی انفرادی ذمہ داریوں پر عمل کے ساتھ ساتھ، معاشرہ کی صورت حال کے لیے بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مثلاً بیرونی خطرات اور حملوں کا دفاع کرنے کے لئے سب کو جہاد کے لئے تیار کیا اور معاشرہ کی اندرونی کج روی اور پسماندگی سے مقابلہ کے لئے دو کاموں کو واجب قرار دیا یعنی امر بہ معروف (دوسروں کو نیکی اور اچھائی کا حکم دینا) اور نہی از منکر ( دوسروں کو برائی سے روکنا)۔
جیسا کہ ابتدائ میں ذکر ہوا، معاشرہ میں قوانین پر عمل کو یقینی بنانے کی ایک بہت مناسب راہ ذمہ داری کی ادائیگی ہے۔ جبکہ انسانوں کے بنائے ہوئے اکثر قوانین کا ہدف انسانوں کی ظاہری اور دنیاوی زندگی کو منظّم کرنا اور مفید و پُرسکون بنانا ہے۔ اس کے باوجود ان پر عمل درآمد، سب کی طرف سے شرکت کا محتاج ہے ۔ جبکہ دینی قوانین اور اس کے رہنما اُصول قوانین بشری سے کہیں زیادہ حسّاس ہیں کیونکہ یہ انسان کی دنیا کو بھی مدِنظر رکھتے ہیں اور آخرت کو بھی، اس کی جسمانی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں اور روحانی ضرورتوں کا بھی۔ پس کس طرح یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ دینی قوانین دوسرے مسلمانوں کی مدد کے بغیر، ہماری زندگیوں اور پورے معاشرہ میں جاری و ساری ہو جائیں گے؟۔ اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ ان پر پوری طرح عمل ہورہا ہو، پھر بھی غفلت، خطا اور شیطانی وسوسوں کے شکار ہونے کا خطرہ تو ہمیشہ موجود ہے ہی۔ ایسی صورتحال میں دین کا یہ نظام کتنا خوب صورت ہے کہ ایک مسلمان اپنے برادر دینی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اس کی غلطی کی طرف متوجہ کردے تاکہ وہ موت سے پہلے اپنی اصلاح کر سکے اور اللہ کے دین اور اُس کا قانون بھی پامال نہ ہو۔
اگرچہ دینی واجبات کی فہرست میں یہ دو واجب، نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسے مشہور واجبات کے بعد آتے ہیں لیکن اہمیت میں یقینا دوسروں سے کم نہیں ہیں۔ بلکہ بعض ایسی عبارتیں ملتی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے گویا اُن سے اہميّت میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس تحریر میں، دینِ اسلام کی بنیادی کتابوں میں ان دو واجبات کی قدر و منزلت سے متعلق آنے والی چند مثالوں کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، کیونکہ واضح ہے کہ تمام پہلووں پر روشنی ڈالنا نہ ہماری قدرت میں ہے اور نہ ہی اس کامقام کاتقاضا۔


قرآن وسنت کی بارگاہ میں

١۔عُمر کے یقینی نقصان سے نجات:
ارشادباری تعالی ہے:
ُُ’’ قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارہ میں ہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اوراُنھوں نے نیک اعمال انجام دیئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت اور نصیحت کی۔‘‘ (سورہ عصر)
اس سورہ میں اُن لوگوں کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے جو اپنی زندگی (یعنی سرمایہ) سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اسے ضایع نہیں کرتے اورنقصان سے بچ جاتے ہیں۔
علامہ طبرسی۲ تفسیر مجمع البیان میں فرماتے ہیں:
’’ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرنے کے واجب ہونے میں اشارہ ہے امربالمعروف اور نہی از منکر ،توحید وعدل اور واجبات کی ادائیگی ،اور برائیوں سے دوری کی دعوت کی طرف۔۔۔‘‘ (مجمع البیان، ج١٠، ص٤٣٦)
علامہ طباطبائی ۲ فرماتے ہیں کہ
’’حق کی وصیت کرنا خود نیک اعمال میں شامل ہے۔ پس اس کا نیک اعمال کے بعد ذکر کرنا، اس طرح ہے جس طرح ایک خاص چیز کاذکر ایک عام (حکم) کے بعدکیا جائے، اس کی اہمیت کی وجہ سے۔۔۔‘‘ (المیزان ج٢٠، ص٣٥٥)
یعنی اگرچہ اچھے اعمال (اعمال صالح) میں حق کی وصیت اور نصیحت بھی شامل ہے، لیکن اگلی آیت میں اس کا الگ سے ذکر اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اور حق کی وصیت کا دامن بھی بہت وسیع ہے، اس میں امر بالمعروف اور نہی از منکر بھی شامل ہیں۔ لہذا سورہ عصر قرآن کی نظر میں ان دو واجبات کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے، کہ ان کی ادائیگی سے انسان اپنے سب سے قیمتی سرمایہ کو ضایع کرنے سے بچ جانے والوں میں سے ہو جاتا ہے۔

٢۔ نبی اکرم۰ کو بھی حکم ہوا:
سورہ اعراف آیت نمبر ١٩٩ میں ارشاد ہوتا ہے.
خُذِ العفوَ وَ آْمُرْ بِالْعُرفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَاهلِینَ
آپ عفو کا راستہ اختیار کریں، نیکی کاحکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں۔واضح ہے کہ اس آیت میں خود نبی اکرم۰ کو حکم ہوتا ہے کہ امر بمعروف بجا لائیں۔ ’’عُرف‘‘ وہ چیز ہے جو عاقلوں کے درمیان اور سمجھدار معاشرہ میں اچھی اور شائستہ رسموں اور عادتوں کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔۔ اس کامطلب یہ ہے کہ تمام معروفوں کا حکم کیا جائے۔ (المیزان ،ج٨، ص٣٨٠)

٣۔ اس فرض کوچھوڑنے والوں کی مذمّت:
سورہ اعراف میں آیت ١٦٣ سے ١٦٦ میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اور ان سے اس قریہ کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے تھا اور جس کے باشندے ہفتہ کے دن کے بارے میں زیادتی سے کام لیتے تھے، کہ ان کی مچھلیاں ہفتہ کے دن سطح آب تک آجاتی تھیں اور دوسرے دنوں میں نہیں آتی تھیں تو انھوں نے حیلہ گری کرنا شروع کردی۔ ہم اس طرح ان کا امتحان لیتے تھے، کہ یہ لوگ فسق اور نافرمانی سے کام لے رہے تھے۔ اور جب ان کی ایک جماعت نے مصلحین سے کہا تم کیوں ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو جسے اللہ ہلاک کرنے والا ہے، یا اس پر شدید عذاب کرنے والا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ہم پروردگار کی بارگاہ میں عذر چاہتے ہیں اور شاید یہ لوگ متقی بن ہی جائیں۔ اس کے بعد جب انھوں نے یاددہانی کو فراموش کردیا تو ہم نے برائیوں سے روکنے والوں کو بچا لیا اور ظالموں کو ان کے فسق اور بدکرداری کی بنا پر سخت ترین عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ پھر جب دوبارہ ممانعت کے باوجود سرکشی کی تو ہم نے حکم دے دیا کہ اب ذلّت کے ساتھ بندر بن جاو۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں بنی اسرائیل کے ظلم اور نافرمانی خدا کا ایک اور نمونہ سامنے آتا ہے۔ خدا نے ان میں سے ایک گروہ کو، ان کے فسق وفجور کی وجہ سے، ایک امتحان میں مبتلا کیا تھا۔ اُن لوگوں کو ہفتہ والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے روکا گیا تھا، جس دن مچھلیاں پانی کی سطح پر آتیں۔ لیکن بعض نے اس حکم کی پیروی نہ کی۔ مفسرین کے قول کے مطابق وہ لوگ تین گروہوں میں بٹے ہوئے تھے؛ ایک گروہ ان فاسقوں کا تھا جنھوں نے خدا کے فرمان سے منہ موڑا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو خدا کے احکام کی پیروی کرتے اور فاسقوں کو خدا کے فرامین کو ترک کرنے سے منع بھی کرتے۔ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا، جو اگرچہ خدا کے احکام کی پیروی کرتے لیکن، گناہ گاروں کو ان کے گناہوں سے روکتے نہ تھے، بلکہ اس کے برخلاف اُس دوسرے گروہ کو اُن کی نہی سے روکتے تھے (جیسا کہ ترجمہ میں ملاحظہ فرمایا) (تفسیر المیزان،ج٨، ص٢٩٤)
خداوند ارشاد فرماتا ہے: ’’انجینا الّذین ینھون عن السُوئ‘‘ یعنی ’’ہم نے برائیوں سے روکنے والوں کو بچالیا‘‘۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ نجات پانے والا گروہ یہی گروہ تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے دونوں گروہ (یعنی فاسقوں کا گروہ اور وہ اطاعت گذار جو نہی از منکر کو ترک کرتے تھے) عذاب خدا میں گرفتار ہوئے۔ (تفسیرالمیزان)
اور اُس جواب سے جو نہی از منکر کرنے والوں نے تیسرے گروہ کے سوال، یعنی ’’تم کیوں ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو‘‘ کے مقابلہ میں دیا،یہ بات بھی سمجھ میںآتی ہے کہ نہی از منکر گذشتہ اُمتوں میں بھی ایک فرض اور واجب تھا اور ضروری تھا کہ لوگ اس ذمہ داری سے ’’بری الذمہ‘‘ ہوتے۔ اوریہ بات بھی ہم ان آیات مبارکہ سے حاصل کرسکتے ہیں کہ اگر ظلم سے منع کیا جاسکتا ہو، اور اس کا اثر بھی ہوتا ہو، لیکن اس کے باوجود منع نہ کریں اور ترک کردیں (اس نہی از منکر کو) تو اس طرح سے ہے گویا اس کے ظلم میں شریک ہوئے اور جس طرح خدا کاعذاب ظالم کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، اس کے ساتھ شریک ہونے والوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔(تفسیر المیزان)

٤۔ دوسرے فرائض کے مقابلہ میں ،ان کا مقام:
معصومینٴ کی روایات میں شریعت مقدسہ کے اس واجب کے بارے میں ایسے جملے اور صفات ملتی ہیں جن سے دین اسلام کی نظر میں، باقی اعمال کے مقابلہ میں، اس کامقام اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیٴ نے فرمایا:
’’و ما اعمالُ البرِّ کلّها و الجهادُ فی سبیل اللّٰہ عند الامر بالمعروف و النھی عن المنکر الّا کتفثة فی بحر لجّی‘‘ (نهج البلاغة، حکمت٣٧٤)
’’تمام نیک اعمال یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد، امربہ معروف اور نہی از منکر کے مقابلہ میں لعاب دھن (اور ایک قطرہ) کی طرح ہیں جو ایک متلاطم اور موجیں مارتے ہوئے سمندر میں ہو۔‘‘
امام علیٴ کے قول میں یہ تشبیہ، امر بہ معروف اور نہی از منکر کی کس قدر عظیم تصویر پیش کرتی ہے!! ایک طرف تمام اعمال نیک ہیں، یہاں تک کہ جہاد بھی کہ جس کا ذکر نام لے کر کیا گیا، اور دوسری طرف یہ عظیم واجب۔ گویا وہ فقط قطرے ہیں اور یہ سمندر! شاید مُراد یہ ہے کہ جس طرح دریا میں موجود مخلوقات، پانی کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں، اسی طرح اگر امربمعروف اور نہی از منکر کسی اسلامی معاشرہ میں ہو تو، دوسرے تمام اعمال صالحہ بھی موجود ہوں گے، اور اگر یہ نہ ہوں تو تمام دوسرے اعمال بھی باقی نہیں رہ سکتے۔
امام محمد باقرٴ سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’آخری زمانہ میں لوگوں کاایک گروہ ریاکار ہوگا۔‘‘ (یہاں تک کہ فرمایا) ’’اگر (ان کے خیال میں) نماز اُن کے مالی اور جسمی کاموں کے لیے مضر ہو، تو اُسے چھوڑ دیں گے، جس طرح سب سے نمایاں اور سب سے بافضیلت واجب (امر بہ معروف اور نہی از منکر) کو چھوڑدیں گے۔‘‘ (وسائل الشیعہ، ج١٦)
٥۔ان کاترک کرنا خیانت ہے:
عبدالرحمن بن حجاج کہتا ہے کہ میں نے سنا کہ امام صادقٴ نے فرمایا:

’’جو کوئی بھی اپنے برادر دینی کو ایک بُرا کام کرتے دیکھے، اور اُسے اُس کام سے نہ روکے، جبکہ اس کی (یعنی روکنے کی) قدرت رکھتا ہو، تو یقینا اس نے اُس کے ساتھ خیانت کی ہے۔‘‘ (امالی صدوق، ص٢٦٩)

دینی رہبروں اورصالح مومنین کی عملی سیرت
قرآن وسنت کی تاکید کے ساتھ ساتھ، امر بہ معروف اور نہی از منکر کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک بہت ہی مفید سرچشمہ انبیائ ٴ، ائمہٴ، اولیائ اور ان کے سچّے پیروکاروں کی عملی سیرت کا مطالعہ ہے، کہ کس کس طرح انھوں نے اس فریضہ کو اور اس کے ذریعہ دین حق کوزندہ رکھنے کے لیے، زحمتیں اُٹھائیں۔ جب انسان قرآن و سنت کی لفظی ہدایات اور رہنمائی کے ساتھ ساتھ، اُن عظیم شخصیتوں کے عملی کردار میں اس فریضہ کی چمک اور روشنی کو دیکھتا ہے، تو اس راستہ کی طرف ایک نئے عزم کے ساتھ قدم اُٹھانے کو جی چاہتا ہے۔ مومن اپنے آپ سے کہتا ہے کہ جب یہ پاک لوگ جو تمام انسانی فضیلتوں کا خلاصہ تھے، جو اس پورے عالم کے نظام کا پھل اور ثمر تھے، جب ان لوگوں نے شریعت کے اس واجب کو زندہ کرنے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی، تو میں اور مجھ جیسے۔۔؟
یوں تو ان عظمتوں کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، لیکن ان سب میں جو ستارہ اپنی نمایاں اور منفرد چمک کے ساتھ، آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اپنی طرف جذب کرتا ہے، وہ سید الشھدائ امام حسینٴ کی سیرت ہے۔ گو انقلاب حسینی کی مختلف زاویوں اور اہداف کے تحت تفسیر ممکن ہے، لیکن خود امام حسینٴ کے اقوال کی روشنی میں، ان کی تحریک کے اہداف میں سے ایک کو امر بمعروف اور نہی از منکر روشناس کرا گیا ہے۔ مثلاً امامٴ اپنے جد رسول خدا ۰ کی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو فرماتے ہیں:
’’خداوندا! یہ تیرے نبی محمد ۰ کی قبر ہے، اور میں تیرے نبی۰ کا نواسہ ہوں، اور میرے لیے ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس سے تو واقف ہے۔ پروردگارا! میں معروف کو پسند کرتا ہوں اور منکر سے نفرت کرتا ہوں۔۔‘‘ (مقتل خوارزمی ص ١٨٦)
اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’۔۔میں خود خواہی (اور شہرت) یا تفریح (اور نفسانی خواہشات کی پیروی) کے لیے (مدینہ سے) خارج نہیں ہورہا۔ اور نہ ہی فساد (اور تباہی) کو پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کے لیے۔ میں فقط اپنے جدّ ۰ کی امت کی اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر بجا لاوں اور اپنے جدّ اور والد علیٴ ابن ابیطالبٴ کی سیرت پر چلوں۔‘‘ (مقتل خوارزمی ص٥٤)
آخر میں انبیائ اور آئمہ علیہم السلام کے سچے پیروکاروں کی سیرت سے فقط ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری۱ نے پیغمبر کی وفات کے بعد اسلامی معاشرہ میں پیش آنے والی برائیوں اور کج رفتاریاں ملاحظہ کیں تو خاموش نہ رہ سکے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب بھی آپ۱ کو موقع ملتا، مسلمانوں کو ان کے غلط طرز زندگی سے آگاہ فرماتے اور انھیں نصیحت کرتے۔ وہ کمزور اور ظلم اُٹھانے والے لوگوں سے فرماتے:
’’۔۔ ظالم حاکموں کی خوشنودی کی خاطر، خدا کے غضب کو مت خریدو۔ اگر وہ خدا کو ناراض کرتے ہیں تو ان سے دور ہوجاو، اور اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دو۔ (خدا کی طرف توجہ کرو کیونکہ) خدا ہر شے سے بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘
انھوں نے حاکمِ وقت سے بھی فرمایا :
’’تم نے مجھ میں کوئی عیب اور نقص نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ میں امر بہ معروف اور نہی از منکر کرتا ہوں۔‘‘
آخرکار حضرت ابوذر۱ کو حکومت وقت نے جلاوطن کر کے ’’ربذہ‘‘ کے گرم ریگستان میں بھیج دیا جہاں تنہائی اور عالمِ غربت میں اُن کا انتقال ہوا۔ (امر بہ معروف اور نہی از منکر، آیت اللہ نوری ہمدانی، الغدیر، ج٨ سے نقل فرماتے ہیں)
یہاں اس فرض شناس صحابی کی شان میں وہ کلمات نقل کرتے ہیں جو امیر المومنین علیٴ نے ان کے لیے فرمائے:
’’اے ابوذر! تم نے خدا کے لیے غضب کیا، پس اُسی سے امید رکھو جس کے لئے غضب کیا تھا۔ یہ لوگ اپنی دنیا کے لیے تم سے ڈرے، لیکن تم اپنے دین کے لیے ان سے ڈرتے ہو۔ پس اس چیز کو جس کے لیے وہ خوفزدہ ہیں، انھی کے پاس چھوڑ دو، اور جس کے بارے میں یہ خوف رکھتے ہو کہ وہ لوگ اس میں مبتلا ہوجائیں گے (سزائے الہی)، اس سے فرار کرو (یا اس چیز کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کے بارے میں خوفزدہ ہو (یعنی دین) ، اُن سے دور بھاگو)۔
کتنے محتاج ہیں وہ لوگ اس چیز کے جس سے اُنھیں منع کرتے تھے ، اور کتنے بے نیاز ہو تم اس چیز سے جس سے وہ لوگ تم کو منع کرتے تھے (یعنی دنیا)! اور جلد ہی جان جاو گے کہ کل کون فائدہ حاصل کرے گا اور کس سے زیادہ حسد کیا جائے گا اور اگر آسمانوں اور زمینوں کے دروازے ایک بندہ پر بند ہو جائیں، لیکن وہ خدا سے ڈرے (اس کا تقوی اختیار کرے) تو خدا اُس کے لیے اُن سے نکلنے کا راستہ قرار دے گا۔ اپنے سکون کو فقط حق میں تلاش کرو، اور باطل کے علاوہ کوئی چیز تمہیں وحشت زدہ (پریشان) نہ کرے۔ اگر تم نے اُن کی دنیا کو قبول کرلیا ہوتا، تو وہ تمہیں پسند کرتے اور اگر تم اس میں سے ایک حصہ لے لیتے تو تمہیں تنگ نہ کرتے۔۔‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٠)
معصومٴ کی زبان سے اس صحابی کی شخصيّت کے خدّوخال کے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ انھوں نے باقی فرائض کے ساتھ ساتھ ان واجبات کو بھی ادا کیا، اس طرح کہ اُن کے امام وقتٴ نے بھی اس بات کی تائید فرمائی۔ یہ بات جس طرح حضرت ابوذر۱ کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہے، امر بمعروف اور نہی از منکر کی بے انتہا اہمیت پر بھی اشارہ کرتی ہے۔