اسلامی فلسفہ
  • عنوان: اسلامی فلسفہ
  • مصنف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 19:48:49 1-10-1403


بہت سے موضوعات كی خوش نصیبی یہ ہے كہ علماء اور دانشور وں كی محفلوں میں زیر بحث آتے ہیں مگر عوام اسے چھوتے بھی نہیں دنیا كے زیر بحث موضوعات میں كچھ ایسے دل كش و خوش نصیب موضوع ہیں جو اہل دانش و بینش كی محفلوں میں بار پاتے اور عالموں كے لبوں تك آتے ہیں۔ كچھ موضوع اس درجے تك نہیں پہنچتے وہ ہر كس وناكس كے لئے نقل محفل ہوتے اور ہر شخص اس پر طبع آزمائی كرتا ہے، نتیجہ یہ كہ ان كی شكل و صورت بگڑ جاتی ہے اور محققین كیلئے نہ صرف دشواری بلكہ لغزش فكر كا باعث ہوتے ہیں۔
"روح و بدن " اسی طرح "خدا اور كائنات"، ان موضوعات میں ہیں جن كے بارے میں ہر شخص نے اپنے طور پر كوئی نہ كوئی نظریہ قائم كرركھا ہے۔ البتہ اس عمل كے كچھ نہ كچھ وجوہات ہیں اور ان كا سبب محض اتفاق اور خوش نصیبی ہی نہیں ہے۔
فطری طور پر انسان سب سے پہلا سوٴال كرتا ہے۔ میں كون ہوں؟ جس دنیا میں ہوں وہ كیا ہے؟ نتیجتاً ہر ایك اپنے لئے ایك تسلّی بخش جواب ڈھونڈھ لیتا ہے، یہی وجہ ہے كہ ہر ایك كائنات اور اپنی ذات كے بارے میں ایك خاص تصّور كا حامل ہوتا ہے۔
روح اور بدن ایسا موضوع ہے جس كے بارے میں ہر ایك نے بچپن میں اپنی ماں، دائی اور دادی… اس كے بعد واعظ اور شاعر كی زبان سے كچھ نہ كچھ ضرور سنا ہے، اس لحاظ سے اس كا ذہن پہلے ہی سے تیار ہوتا اور كسی نہ كسی حد تك خاص نظریہ كی طرف رحجان بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی بنا پر ممكن ہے كچھ لوگ مذكورہ عنوان كو دیكھتے ہی اس پر بات كو سننے كے لئے تیار ہوجائیں كہ:

اصالتِ روح

بہت سے موضوعات كی خوش نصیبی یہ ہے كہ علماء اور دانشور وں كی محفلوں میں زیر بحث آتے ہیں مگر عوام اسے چھوتے بھی نہیں دنیا كے زیر بحث موضوعات میں كچھ ایسے دل كش و خوش نصیب موضوع ہیں جو اہل دانش و بینش كی محفلوں میں بار پاتے اور عالموں كے لبوں تك آتے ہیں۔ كچھ موضوع اس درجے تك نہیں پہنچتے وہ ہر كس وناكس كے لئے نقل محفل ہوتے اور ہر شخص اس پر طبع آزمائی كرتا ہے، نتیجہ یہ كہ ان كی شكل و صورت بگڑ جاتی ہے اور محققین كیلئے نہ صرف دشواری بلكہ لغزش فكر كا باعث ہوتے ہیں۔
"روح و بدن " اسی طرح "خدا اور كائنات"، ان موضوعات میں ہیں جن كے بارے میں ہر شخص نے اپنے طور پر كوئی نہ كوئی نظریہ قائم كرركھا ہے۔ البتہ اس عمل كے كچھ نہ كچھ وجوہات ہیں اور ان كا سبب محض اتفاق اور خوش نصیبی ہی نہیں ہے۔
فطری طور پر انسان سب سے پہلا سوٴال كرتا ہے۔ میں كون ہوں؟ جس دنیا میں ہوں وہ كیا ہے؟ نتیجتاً ہر ایك اپنے لئے ایك تسلّی بخش جواب ڈھونڈھ لیتا ہے، یہی وجہ ہے كہ ہر ایك كائنات اور اپنی ذات كے بارے میں ایك خاص تصّور كا حامل ہوتا ہے۔
روح اور بدن ایسا موضوع ہے جس كے بارے میں ہر ایك نے بچپن میں اپنی ماں، دائی اور دادی… اس كے بعد واعظ اور شاعر كی زبان سے كچھ نہ كچھ ضرور سنا ہے، اس لحاظ سے اس كا ذہن پہلے ہی سے تیار ہوتا اور كسی نہ كسی حد تك خاص نظریہ كی طرف رحجان بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی بنا پر ممكن ہے كچھ لوگ مذكورہ عنوان كو دیكھتے ہی اس پر بات كو سننے كے لئے تیار ہوجائیں كہ:
- روح وہ نامرئی مخلوق ہے جو كسی نہ كسی مصلحت كی بنا پر بدن كے پردے میں مخفی ہے۔ یا اپنے چہرے پر بدن كا نقلی چہرا لگائے ہوئے ہے۔
یا اس سے بھی زیادہ گئی گذری بات یہ ہے كہ:
- روح وہ جن یا دیو ہے جو بدن كے محسوس حصّے سے دكھائی دیتا ہے۔
- بدن ظاہری اور عاریتی پردے كے سوا اور كچھ نہیں ہے اور روح كی نامرئی انگلیاں ہیں جو اس ظاہری پردے كے پیچھے كام كرتی ہیں۔یہ بھی مكن ہے كہ جن لوگوں نے شعر و شاعری كی زبان سے روح كے بارے میں كچھ سنا ہو، ان كے ذہن فوراً یہ سننے كے لئے آمادہ ہوجائیں كہ:
- روح ایك ملكوتی پرندہ ہے، جس كے لئے چند وجوہ كی بنا پر بدن كا وقتی قفس تیار كیا گیا ہے۔
- وہ سدرہ نشین شاہباز ہے جو خلافِ طبع بدن كے ایك گوشہ میں سكونت اختیار كرتا ہے۔
- وہ بادشاہ ہے جس نے قصر بدن كو اپنے شاہی قصر كے لئے منتخب كیا ہے۔اور كبھی كبھی اپنے سے زیادہ مزین و آراستہ كرنے میں مصروف رہتا ہے۔
ہماری مراد شعر و شاعری كی زبان پر تنقید نہیں ہے، اس لئے كہ اس كی زبان اور ہو بھی كیا سكتی ہے، شعر و شاعری یا وعظ و خطابت كی زبان علم و فلسفے كی زبان سے مماثلت نہیں ركھ سكتی، كیونكہ ان كے مقاصدعلم وفلسفہ كے مقاصد سے مختلف ہیں۔ ہر فن كی اس فن سے مخصوص ایك چابی ہوتی ہے اور یہ بات بدیہی ہے كہ وہ چابی صرف اسی تالے كے لئے قابل استعمال ہوتی ہے، جس كے لئے بنائی گئی ہو۔
ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جن كی شخصیت مركب ہوتی ہے۔ یعنی وہ بیك وقت شاعر بھی ہوتے ہیں اور فلسفی بھی۔ ان كی بات كا انداز یكساں نہیں ہوتا ہے كیونكہ خود فلسفہ و شاعری كے انداز جدا جدا ہیں۔
مثال كے طور پر دیكھئے روح اور بدن اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں ابوعلی سینا كی فلسفی كتابوں "الشفا" اور "الاشارات و التبنیھات" كی زبان اور اسی موضوع پر ان كے قصیدہٴ عینیہ كی زبان تقابل كی نظر سے ملاحظہ كیجئے۔

مطلع: ھبطت الیك من المحل الارفع ورقاء ذات تعزز و تمنّع
مقصد یہ ہے كہ علم و فلسفہ كی زبان اور شعر یا وعظ و خطابت كی زبان میں امتیاز ملحوظ ركھنا چاہیے تاكہ منكر افراد اور مادیات پسند لوگوں كی طرح غلطیوں كے شكار اور بددلی میں مبتلا نہ ہوں۔
درحقیقت فلاسفہ كے افكار و نظریات میں بھی كبھی كبھی وہ جھلك دكھائی دیتی ہے جو كم و بیش شعر و شاعری كے پیرائے اور زبان سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ جیسے افلاطون سے منسوب مشہود نظریہ، جس میں وہ كہتا ہے: روح ایك قدیم جوہر ہے، جو بدن سے پہلے موجود ہے، جب بدن كا ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے اس وقت یہ اپنے مرتبہ سے اتركر (تنزّل) بدن سے (تعلق) ملحق ہوتی ہے۔
سو فی صدی یہ نظریہ "دوئی"كا نظریہ ہے، اس لئے كہ روح اور بدن كو ایك دوسرے سے علیحدہ دو جوہر اور ان كے باہمی تعلق كو عرضی و اعتباری مانتا ہے۔ جیسے طائر كا گھونسلے اور سوار كا سواری سے تعلق اوركوئی جوہری یا طبیعی تعلق جو ان دونوں كے درمیان ذاتی وحدت و پیوندكی نشاندہی كرتا ہو اسے نہیں مانتا۔
لیكن یہ بات سبھی جانتے ہیں كہ كچھ دن گذرنے نہیں پائے تھے كہ خود افلاطون كے شاگرد ارسطونے اس نظریہ كو باطل كردیا اور سب نے اس كی تائید كی ارسطو یہ سمجھا كہ افلاطون اور اس كے سابقین كی زیادہ تر توجہ روح اور بدن كے معاملات میں نظریہٴ "دوئی" پر مبنی ہے، اور ان لوگوں نے روح اور بدن كے باہمی تعلق اور وحدت كے بارے میں زیادہ غور نہیں كیا ہے۔ ارسطو اس نتیجہ پر پہنچا كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كو طائر كا گھونسلے یا سوار كا سواری جیسا تعلق نہیںمانا جاسكتا، بلكہ ان دونوں كا تعلق اس سے كہیں گہرا ہے۔ ارسطو نے روح اور بدن كے تعلق كو صورت و مادہ كے تعلق كے مانند اس فرق كے ساتھ جانا ہے كہ چوں كہ قوةٴ عاقلہ مجرو ہے لہٰذا وہ مادّے كا جزٴ نہیں بلكہ مادّے كے ساتھ ہے۔ اس بحث كا آخری نتیجہ یہ نكلتا ہے كہ ارسطو كے فلسفے میں روح كے قدیم اور بالفعل جوہر ہونے كا كوئی اثر نہیں ہے۔ روح قدیم نہیں بلكہ حادث اور ابتدا میں محض استعداد وقوة ہے اور كسی طرح كا قبلی علم اسے حاصل نہیں، وہ اپنی تمام معلومات و اطلاعات كو اسی كائنات میں قوة سے فعل میں لاتی ہے، جزئی اختلاف كے ساتھ ابن سینا كے فلسفے میں بھی انہیں معنوں كی جھلك ملتی ہے، وہ دوئی، علیحدگی اور بیگانگی جو افلاطون كے فلسفے میں موجود تھی، ارسطو اور ابن سینا كے فلسفے میں نسبتاً كافی حد تك كم ہوگئی اور اس موضوع كی اساس ارسطو كے مشہور نظریہٴ مادہ و صورت اور كون و فساد پر مبنی قرار پائی۔ اگر چہ اس نظریہ میں كچھ خاص امتیازات كی اصلی وجہ یہ دوئی كی جگہ روح اور بدن كے درمیان حقیقی تعلق اور وحدت كا قائل ہے اور یہ ایك اہم بات بھی ہے، لیكن اس كے باوجود بہت سے اہم اشكالات اور ابہامات سے بھی خالی نہ تھا۔ اشكالات مادہ اور صورت نیز كون اور فساد كے طبیعی تعلق كی كیفیت كے بارے میں ہیں، جن كا بیان مناسب موقعہ پر ہونا چاہیے، اس صورت حال میں ضروری تھا كہ علم و فلسفے كے میدان میں قدم اٹھائے جائیں تاكہ اس معمہّ كا حل ممكن ہوسكے یا كم سے كم اس موضوع كو معقول اور قابل قبول بنایا جاسكے۔ اب یہ دیكھنا ہے كہ یہ قدم كہاں سے اٹھائے گئے۔
یورپ میں فكری اور علمی تحوّل كے مقدمات فراہم ہوئے اور مكمل طور سے انقلاب آگیا انقلاب كی خصوصیت یہ ہے كہ ترو خشك كی تمیز نہیں كرتا۔ گذشتہ اعتقادات و مبانی بے اساس ہوگئے۔ انقلابیوں نے تمام اشیاء كے لئے نئے منصوبے تیار كیے یہاں تك كہ روح اور بدن كے مسئلہ میں بھی نئے نظریات قائم ہویے۔ فرانس كے مشہور فلسفی "دیكارت" نے روحاور بدن كی دوئی سے متعلق ایك خاص نظریہ پیش كیا، جس پر كچھ دن بعد ردو قبول كی بحث شروع ہوئی پھر نظریے كی تراش خراش اور اصلاح كی طرف توجہ كی گئی۔
دیكارت نے فكری ارتقا كی منزلیں طے كرنے كے دوران خود كو تین حقیقتوں كے ماننے پر مجبور پایا، خدا، نفس اور جسم۔ اس نے اس لحاظ سے كہ نفس، فكرو شعور ركھتا ہے اور بُعد (جہت) نہیں ركھتا… جسم بُعد ركھتا ہے اور فكرو شعور سے خالی ہے۔ اس طرح و یكارت نے نفس و بدن كو دوچیزیں جانا۔
دیكارت كے نظریے پر جو معقول اعتراض ہوا (سب سے پہلے خود یورپی افراد نے كیا) وہ یہ تھا كہ اس نے صرف دوئی اور روح و بدن كے ایك دوسرے سے جدا ہونے كے بارے میں بیان كیا اور اُس تعلق كے بارے میں جو روح اور بدن كے درمیان موجود ہے كوئی ذكر نہیں كیا ہے…دوسری بات یہ ہے كہ جب یہ دونوں ایك دوسرے سے جدا دومختلف چیزیں ہیں تو ایك دوسرے سے ملیں كیسی؟ روح اور بدن كے بارے میں قابل ذكر سب سے اہم مسئلہ اس تعلق كا ہے جو ایك لحاظ سے بدن اور روح یا روحی خواص كے درمیان موجود ہوتا ہے۔
درحقیقت، دیكارت كا نظریہ ایك طرح سے افلاطون كے نظریے كی طرف بازگشت ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے كہ دوبارہ طائر اور گھونسلے كی یاد دلائی جارہی ہے۔ كیونكہ دیكارت فطری اور ذاتی تصوّرات كاقائل ہے اور كہیں كہیں پر شروع سے ہی اس نے نفس كو موجود مانا ہے، اس لحاظ سے اس كا نظریہ افلاطون كے نظریہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كے بارے میں اس كا بیان اتنا ہی مختصر ہے جتنا كہ نظریہٴ افلاطون كا بیان مختصر تھا۔
یہ رجعت پسندی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوئی، اس لیے كہ روح اور بدن كا ایك دوسرے سے تعلق كوئی ایسا مسئلہ نہ تھا جیسے چھپایا جانا ضروری ہو اور محض ان دونوں كی جدائی كے اسباب و وجوہ پر اكتفا كی جائے۔ لہٰذا دیكارت كے بعد دانشوروںنے ان دونوںكے مابین تعلق كوجاننے كی كوشش شروع كی، جو شخص تاریخ فلسفہٴ عصر جدید سے پوری طرح باخبر ہے، وہ جانتا ہے كہ روح اور بدن كے تعلق كے بارے میں جانكاری حاصل كرنے كے لئے نئے فلاسفر نے كتنی كوشش كی ہے اور كتنے مكاتب فكر اور مختلف نظریات نے جنم لیا اور كس حد تك افراطو تفریط میں آگے بڑھ چكے ہیں، كچھ لوگوں نے نفسیاتی ظواہر كو تركیبات مادہ كی معمولی خاصیت جانا اور ہر طرح كی دوئی (روح اور بدن كے درمیان) ہونے كے انكاری ہوگئے، دوسرے گروہ نے جسم اور مادہ كو بے بنیاد، اور روح كے لیے محض نمائش جانا۔ اس طرح سے انہوں نے اپنے خیال میں روح اور بدن كی جدائی اوردوئی كو ختم كیا، ایك ایسا گروہ بھی ہے جس نے تھك كر اس بحث كو انسان كی قدرت ہی سے خارج قرار دیدیا۔
اگر چہ روحی اور جسمی امور اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں دور حاضركے دانشور اور فلسفی كسی مفید نتیجہ پر نہیں پہنچ سكے، لیكن ان كی بے انتہا كوشش نے سائینس كے تمام شعبوں، خاص طور سے حیاتیات، فیزیالوجی اور نفسیات میں بہت اچھے اچھے فوائد و نتائج اہل علمكے حوالے كیے كبھی بھی ان مضامین پر كام كرنے والے محقق روح اور بدن نیز ان دونوں كے درمیان تعلق كے بارے میں اپنی تحقیقات كے نتائج حاصل كرنے كے سلسلے میں سوچ بھی نہیں سكتے تھے، لیكن ان تحقیقات نے اس مسئلہ كی تحقیق كے لیے راہ ہموار كردی اور ہم انشاء الله ان نكات كی طرف اشارہ كریں گے۔
ابتدا میں ہم نے ارسطو اور ابن سینا كے نظریہ كی طرف اجمالی طور پر اشارہ كرتے ہوئے بیان كیا تھا كہ اس نظریہ میں روح اور بدن كی وحدت اور تعلق كی طرف توجہ مبذول ہوئی اور افلاطون كا نظریہٴ دوئی رفتہ رفتہ فراموش كے سپرد ہوگیا۔
اب یہ غور كرنا ہے كہ ابن سینا كے بعد آنے والے مسلمان فلسفیوں كے نزدیك اس مسئلے نے كیا صورت اختیار كی؟
ابن سینا كے زمانے كے بعد مسلم فلاسفہ نے براہ راست اس مسئلہ پر تحقیقی كام انجام نہیں دیا، لیكن فلسفے كا سب سے عام اور اساسی اور مقدّم مسئلہ یعنی فلسفہٴ وجود میں ترقی اور تحول كے اعتبار سے ایك عظیم انقلاب آیا، جس نے ایك طرح سے زیادہ تر فلسفی مسائل خاص طور سے روح اور بدنكےمسئلہ وحدت اور دوئی كو متاثر كیا۔
اس مقالے میں اشاروں پر اكتفا كرتے ہوئے محض اتنا كہا جاسكتا ہے كہ "صدرالمتاٴلھین" نے جو مسائل "وجوہ" میں عظیم تبدیلی لانے والے مفكرین و فلاسفہ كے گروہ میں قد آور شخصیت كے مالك ہیں۔ صدرالمتاٴلھین ملاصدرا نے اپنے وضع كردہ نئے، مستحكم اور اعلی اصول سے یہ نتیجہ اخذ كیا كہ اس كائنات كی ظاہری اور محسوس ہونے والی حركات كے علاوہ ایك گہری، جوہری اور نامرئی حركت ایسی بھیموجود ہے جو اس كائنات پر حكم فرما ہے اور وہی موجود ظاہری حركتوں كی بنیاد ہے۔ اگر كسی صورت اور مادہ كو فرض كرنا ہو تو اس طریق كے علاوہ فرض نہیں كرنا چاہیے۔ مختلف اجسام كی تخلیق اور تشكیل قانون كون و فساد پر نہیں، بلكہ قانونحركت پر مبنی ہے۔ اسی طرح نفس اور روح دونوں قانون حركت كا نتیجہ ہیں۔ نفس كی تشكیل كا نقطہٴ آغاز جسمانی مادہ ہے اور مادے میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے كہ وہ اپنے اندر اس موجود كی پرورش كرے جو ماوراء الطبیعہ كے برابر ہو، دراصل طبیعت اور ماوارء الطبیعہ كے درمیان كسی قسم كی دیوار نہیں ہے اور كوئی مادی موجود ترقی و تكامل كی راہ طے كرتے ہوئے غیر مادی موجود میں بدل جائے كوئی قباحت نہیں ہے۔ نفس كے نقطہٴ تشكیل اور اس كے تعلق كے بارے میں افلاطون نیز ارسطو كا خیال كسی بھی طرح صحیح نہیں ہوسكتا۔
مادہ و حیات اور روح و جسم كے تعلق كی نوعیت اس تعلق سے كہیں زیادہ طیبعی اور جوہری ہے۔ كسی شئی كے شدید و كامل درجہ كی صعیف اور كمتر درجہ كے تعلق كی نوعیت كے مانند ہے۔ دوسرے الفاظ میں، روح و بدن كا ایك دوسرے تعلق كسی ایك بُعد كا دوسرے العباد سے تعلق كی طرح ہے، یعنی مادہ اپنے تحوّل و تكامل كی راہ طے كرنے كے دوران تین جسمانی ابعاد (جسے ہم العباد ثلاثہٴ مكانی بھی كہتے ہیں) نیز اپنی ذاتی اور جوہری حركت (بعد زمانی) كے علاوہ ایك نئی جہت میں منسبط ہوتا ہے۔ یہ نئی جہت ان چار مكانی و زمانی جہات و العباد كے علاوہ ایك مستقل بالذات جہت ہے۔ البتہ اس جہت كو ہماری طرف سے بعد نام دینے كا مطلب یہ نہیں كہ یہ بھی كمیّت و مقدار ركھنے والی چیزوں كی طرح ذہنی تجزیہ كے قابل ہے، بلكہ مراد صرف یہ ہے كہ مادہ اُس نئی جہت كو اختیار كرتا ہے جس میں اس كی خاصیّت مادہ مكمل طور سے ختم ہوجاتی ہے۔
یہ باتیں بطور مقدمہ اس لیے پیش كی گئی ہیں كہ اس سے پہلے كہ روح اور بدن كے تعلق كا صحیح تصّور پیدا ہو اس بارے میں كہ، آیا روح اصلی ہے یا نہیں؟ اور آیا خاصیت "اجزاء مادہ كی تركیب" ہے كہ نہیں؟ پر بحث كرنا فضول ہے۔ لیكن اس موضوع كی وضاحت كے بعد ہم اسے آگے یوں بڑھا سكتے ہیں كہ آیا روح كی خصوصیات حالت انفراد و تركیب مادہ كی خصوصیات كے مانند ہیں اور خاصیات روح كیا مادی عناصر كی تركیب و امتراج كا نتیجہ ہیں یا جسمانی مادہ جب تك مادی اور جسمانی حد میں رہتا ہے اس وقت تك اس طرح كے اثر و خواص سے خالی ہوتا ہے اور یة خواص مادے میں اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب وہ اپنے جوہر و ذات میں تكامل كے مرحلے طے كركے ذاتی درجہ كا مالك ہوتا ہے اور اسی درجہ كی بنا پر غیر مادی اور غیر جسمانی محسوب ہوتا ہے اور روح كے اثر و خصوصیات كا اس درجہ سے تعلق واقعیت ووجود ہے؟ یا كچھ اور؟
اس منزل پر پہنچنے كے بعد اس بحث كو انسانی روح اور اس كے ظواہر پر معمول كے مطابق منحصر كرنا ضروری نہیں، ہم اسے نچلے درجے سے شروع كركے زندگی كے تمام آثار و ظواہر میں پھیلاؤ دے سكتے ہیں۔
فكری اور حیاتی آثار كے درمیان اگر كسی فرق كے قائل ہوسكے ہیں تو وہ صرف تجرد اور عدم تجرد كی بنا پر جو فی الحال مورد بحث نہیں، فی الحال زیر بحث مسئلہ یہ ہے كہ:
"روح مادہ كی خاصیت و اثر نہیں، بلكہ وہ جوہری كمال ہے جو مادّے میں ظاہر ہو كر مادّے سے كہیں زیادہ اور متنوع آثار كی تشكیل كرتی ہے۔"
یقیناً یہ خصوصیت صرف انسان و حیوان ہی میں نہیں پائی جاتی بلكہ ہر ذی حیات میں ہوتی ہے۔
حیات اور زندگی كی حقیقت كچھ بھی سہی، اس كی ماہیت و كنہ كا ادراك ہمارے لئے خواہ ممكن ہو یا نہ ہو۔ یہ بات قطعی اور ناقابل تردید ہے كہ وہ ذی حیات موجودات جنہیں ہم حیوان و نباتات كے نام سے جانتے ہیں، ان میں ایك قسم كی فعالیت ہوتی ہے جو دوسری بے جان اور مردہ اشیاء میں نہیں ہوتی۔
اس گروہ كے موجودات میں "ذاتی تحفّظ" كی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ خود كو ماحول كے اثرات سے محفوظ ركھتے ہیں، یعنی (جاندار) ذی روح موجودات جس ماحول میں رہتے ہیں، اس كی مناسبت سے اپنے داخلی انتظامات و قویٰ كو اس طرح تیار ركھتے ہیں كہ اس فضا میں جدوجہد كركے اپنی بقا كو محفوظ ركھ كر اس سے مستفید ہوسكیں۔
جاندار موجود میں "ماحول كے ساتھ ہم آہنگ ہونے" كی خاصیت ہوتی ہے۔ جو داخلی فعالیت پر مبنی ہے، بے جان چیزوں كو یہ خاصیت ہرگز میسر نہیں ہوتی، اگر كوئی بے جان چیز ایسی فضایا ایسے ماحول میں قرار پائے جو اس كی تباہی كا باعث ہو، تو وہ اپنی بقا كو محفوظ ركھنےكے لئے كسی قسم كی كوشش نہیں كرتی۔
جاندار موجود میں "عادت" كی خصوصیت پائی جاتی ہے، مثلاً اگر كوئی جاندار نامساعد ماحول اور ناموافق فضا كا شكار ہوتا ہے تو شروع میں اسے سخت ناگوار گذرتا ہے اور وہ بہت بے چین ہوتا ہے۔ لیكن رفتہ رفتہ اسی فضا كا عادی ہوجاتا ہے اور اس میں امن و امان محسوس كرنے لگتا ہے۔ یہ مان و امان اپنی داخلی فعالیت اور خاصیتِ انطباق كے نتیجہ میں پیدا كرتا ہے اگر كوئی پودا، یا جانور كا بدن، یہاں تك كہ جسم كا كوئی بھی عضو اس ناہموار ماحول (وفضا) میں آجائے، جو اس كی حیات و بقا كے لئے باعث نقص و خطر ہو، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے تئیں اتنا تیار و مستعد بنالیتا ہے كہ اس ماحول میں رہتے ہوئے ممكن خطرے سے نپٹ سكے۔ انسان كا ہاتھ اگر چہ نرم و نازك ہے اور پہلی بار كسی بھاری پتھر یا بوجھ كی تاب نہیں لاتا، لیكن رفتہ رفتہ یہی ہاتھ اس بوجھ كا عادی ہوجاتا ہے، یعنی ایك داخلی طاقت اس كی بناوٹ میں اس بوجھ كی مناسبت سے تغیر و تبدیلی لاتی ہے، تاكہ نئے عوامل كے سامنے ڈٹ كرمقابلہ كرسكے۔
جاندار، تغذیہ كی خاصیت ركھتا ہے، وہ خود كار (خودكفیل) اور داخلی عوامل كے زیر اثر بیرونی مواد كو اپنے لئے جذب كرتا ہے، اور اسے خاص انداز میں تجزیہ و تركیب كے ذریعے اپنی بقا اور دوام زندگی كے كام میں لاتا ہے، لیكن یہ خاصیت بے جان چیزوں میں نہیں ہے۔ جاندار موجود اور زندہ عناصر جہاں بھی ہوں، رفتہ رفتہ ترقی كرتے اور نئی شكل و صورت اختیار كرنے كے ساتھ ساتھ كمال پذیر بھی ہوتے ہیں اور ہر لمحہ اپنی طاقت میں اضافہ كرتے رہتے ہیں، یہاں تك كہ جب اپنی نسل باقی ركھنے كے لائق ہوجاتے ہیں تو خود ختم ہوكر اپنے نتائج كے ذریعے اپنے وجود قائم ركھتے ہیں۔
حیات و زندگی جہاں كہیں دكھائی دیتی ہے، وہاں كے ماحول (اور فضا) پر غلبہ حاصل كرلیتی ہے اور كائنات كے بے جان عناصر كو تركیب بدل كر نئی تركیب و حالت كے ساتھ پیش كرتی ہے۔ حیات، مصور… منصوبہ ساز اور كلاكار ہے اور اس میں ترقی و تكامل كی خاصیت موجود ہے… حیات، مقصد اور صلاحیتِ انتخاب ركھتی ہے، وہ اپنی منزل و راہ كو جانتی ہے، جس راہ كو لاكھوں سال پہلے انتخاب كیا جاچكا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مقصد و منزل كی طرف بڑھتی رہتی اور جس حد سے آگے اسے كمال نہیں ملتا وہاں سے آگے نہیں بڑھتی۔
یہ تمام خواص، بے جان میں نہیں، صرف جاندار موجودات میں ہوتے ہیں۔ كرسی موریسن كے بقول: " مادہ بذات خود ذكاوت عمل (ابتكار) سے عاری اور صرف حیات ہے جوہر لمحہ خوبصورت اور نئے مناظر پیش كرتی ہے۔"
اس نكتہ سے ہم مكمل طور سے درك كرتے (سمجھتے) ہیں كہ حیات و زندگی بذات خود ایك خاص طاقت اور جداگانہ كمال و فعلیت ہے جو مادے میں پیدا ہوكر اپنی فعالیت كے علاوہ دوسری مختلف كے سرگرمیوں اور فعالیتوں كا اظہار كرتی ہے۔
ہم پہلے كہہ چكے ہیں كہ "زیست شناسی " (حیاتیات) كے موضوع پر دانشوران مغرب كی طرف سے اس قدر عمدہ تحقیقات سامنے آچكے ہیں جو موضوع روح و بدن كے لئے بڑی اچھی زمین ہموار كرتے ہیں ہر چند خود ان دانشوروں كی مراد یہ تحقیق نہ تھی۔
حقیقت یہ ہے كہ حیات و زندگی اور جاندار موجودات كے خواص كے بارے میں وہ زبردست تحقیقات عمل میں آئیں جو حیاتی طاقت كی اصالت كو مكمل طور سے واضح كرتی ہیں۔ زیادہ تر دانشوروں نے اس حقیقت كو درك كركے اپنی تحقیقات میں حیاتی طاقت كی اصالت كی طرف اشارہ بھیكیا ہے، انہوں نے سنجیدگی سے اس بات كا اعتراف كیا ہے كہ حیاتی طاقت وہ قوت ہے جو طبیعت كے سلسلے میں مادّے پر خارج سے آتی ہے اور آثار زندگی محض مادے ك تركیب، جمع اور تفریق سے نہیں بلكہ اسی قوت كے معلول ہیں۔ اجزاء مادہ كی تركیب، جمع و تفریق اور تالیف حیاتی آثار كی پیدائش كے لئے شرطِ كافی نہیں بلكہ شرط لازم ہے اور جو لوگ حیاتیات كے مشہور عالم و دانشور، لامارك كی طرح حیاتی قوت كی اصالت كے منكر ہیں اور رسمی طور پر یہ اظہار كرتے ہیں كہ جاندار كی طبیعت كا مكانیكی قوانین كی رو سے مطالعہ كرنا چاہیے۔ جب ان كے نظریہ كو گہری نظر سے دیكھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے كہ حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں انكار اس لئے ہے كہ یہ لوگ حیاتی قوت كی اصالت كو دوئی اور جدائی كے برابر اور حیاتی قوت كے وجود كو مادہ اور اس كے آثار سے جدا اور منفصل مانتے ہیں۔ انہوں نے یوں سوچا كہ اگر حیاتی قوت، اصالت ركھتی ہے تو اسے ماحول سے وابستہ ہونے كے بجائے ہر فضا اور ہر حالت میں یكساں رہنا چاہیے، ماحول كے عوامل سے متاٴ ثر نہیں ہونا چاہیے۔ جسم كی فزیكی اور كیمیاوی تحریك و عمل سے تعلق و وابستگی نہ ركھنا چاہیے، حالانكہ علمی مشاہدات ان سب كے برخلاف بات ثابت كرتے ہیں۔

لامارك كہتا ہے:
"زندگی فیزیكی كیفیت كے علاوہ كچھ نہیں، زندگی كی تمام كیفیتیں فیزیكی یا كیمیاوی علل پر موقوف ہیں اور ان كا "مركز نمو" (منشا) جاندار كی مادّی تعمیر كے اندر ہے۔"
شاید لارمك نے سوچا كہ اگر حیاتی قوت اصالت ركھتی ہے تو فیزیكی اور كیمیاوی علل سے اس كا تعلق اور اس كے (مركز نمو) منشا كو جاندار كے مادّے میں نہ ہونا چاہیے۔
اس سے پہلے بیان ہوچكا ہے كہ دیكارت كا نظریہٴ دوئی اور نظریہٴ افلاطون كی طرف اس كی الٹی دوڑ بہت مشكل سے تمام ہوئی كیونكہ اس نے دانشوروں كو اس طرف اكسایا كہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كے بارے میں ہی سوچتےرہیں اور حیات و بدن كے جوہری اور ذاتی رابطہ كو نگاہوں سے دور ركھیں اور دو مخالف قطبوں كو مركز فكر بنائیں۔
كیونكہ دیكارت خود نظریہ دوئی كی راہ سے وارد میدان ہوا۔ اس نے دیكھا كہ جسم جس كی خاصیت ہے، بعد … اور نفس، جس كی خاصیت ہے، فكر و شعور اور ان دونوں كے درمیان ہیں دوگہرے درّے، لہٰذا وہ مجبور ہوگیا كہ انسان كے علاوہ دوسرے جانداروں میں حیات كو اصلی طاقت ماننے سے انكار كرے، اور تعجب كی بات تو یہ ہے كہ انسان كے علاوہ وہ تمام حیوانات كے اعضاء و جوارح كو نہ صرف مشینی مانتا بلكہ ان میں احساس و ادراك كا منكر بھی تھا، اس كا دعویٰ تھا كہ حیوان فاقد احساس و ادراك ہے، لذّت و الم(خوشی اور دكھ درد) كو محسوس نہیں كرتا اور یہ جو ہم دیكھتے ہیں كہ خاص موقع پر چلتا، پھرتا اور گنگناتا ہے، یہ احساس و ارادہ پر منحصر نہیں، بلكہ ان مشینوں كو اس طرح سے بنایا گیا ہے، كہ وہ خاص موقعوں پر یہ آثار ظارہر كرتی ہیں اور ہم یہ خیال كرتے ہیں كہ احساس و ارادہ كے تحت كررہی ہیں!!!
بہر حال، حیاتی قوت كی اصالت كا نظریہ ان نظریات میں سے ہے جو نئی علمی تحقیقات كی بنا پر مورد تائید قرار پایا ہے اور خاص طور سے تكامل (ایولوشن) انواع كے نظریہ نے حیاتی قوت كی اصالت اور مادے نیز طبیعت كے بے جان عناصر كی طاقت پر اس كے تسلّط كو پہلے سے كہیں زیادہ ثابت كردیا۔ ڈاروین جو خود اس نظریہ كا موجود ہے، اگر چہ وہ حیاتی طاقت كی اصالت كو ثابت كرنے كے حق میں نہیں، لطف یہ ہے كہ یہی شخص جو اپنے كام كی بنیاد طبیعی انتخاب پر ركھتا ہے اور طبیعی انتخاب كو محض اتفاقی تغیّر كا نتیجہ قرار دیتا ہے، جب انواع كی ترقی و پیش رفت اور تكامل كی منظم رفتار كی طرف دیكھتا ہے تو خود اپنے قول كے مطابق مجبوراً جاندار طبیعت كیلئے "وجود مشخص" كا قائل ہوجاتا ہے۔ حیاتی قوت كی اصالت كا اثبات، ڈاروین كی تحقیق كا موضوع نہ تھا۔ شروع میں اس نے كام شروع كیا تھا، لیكن خود بخود اس نتیجہ پر جاپہنچا، یہاں تك كہ اس كے زمانے ہی میں كچھ لوگوں نے اس سے كہا كہ "تم تو طبیعی انتخاب سے مراد ایك ایسی فعال طاقت لیتے تھے جو ماوراء طبیعت ہے۔" 1
وہ لوگ جنہوں نے انسانی نفسیات كے پہلوؤں كا مطالعہ كیا، بغیر اس كے كہ وہ حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں جستجو كریں اور بغیر اس كے كہ وہ اپنے فلسفیانہ تحقیقات كے نتائج سے آگاہ ہوں، اسی نتیجہ پر جاپہنچے۔
پیكانالیز كے مشہور و معروف ماہر نفسیات فرائیڈ نے نفسیات كے میدان میں ایك انقلاب برپا كردیا، یہ دانشور اپنے مطالعے، آزمائشوں اور تجربوں كے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ عصبی بیماریوں كے لیے فیزیولوجی اور تشریح الاعضا كے علما كی صرف دماغ اور اس كے پیچ و خم پر تحقیق ناكافی ہے۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاعشعور پر تحقیق ناكافی ہے۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاع شعور كی سطح سے بہت گہری ہے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ پریشانیوں كی وجہ سے نفسیاتی اسباب و علل كے ظہور كی بذات خود ایك حقیقت ہے اور یہی حقیقت بیماریوں كا باعث ہوتی ہے۔ بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج اور الجھنوں كو دور كرنے كے ذریعہ ہونا چاہیے اس سے جسمانی بیماری ختم ہوسكتی ہے۔
نفسیاتی اور كچھ جسمی بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج كے ذریعہ كوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔محمد بن زكریاء رازی اور ابن سینا نے بھی علمی طور پر اس طریقے كو اپنایا ہے، البتہ آج اس فن كا دائرہ بہت وسیع ہوچكا ہے اور اس كی بعض صورتیں واقعا حیران كن ہونے ہونے كے ساتھ ساتھ اصالت حیات اور خاص طور سے انسان میں اصالتِ روح كی تائید كرتی ہیں لیكن فرائیڈازم میں بڑا انكشاف شعور و لاشعور اور اس كے گرہ درگرہ سلسلوں كا ہے۔ پرانے زمانے میں ملاقی ونسیاتی بیماریوں كو فقط "عادت "كے زاویے سے دیكھا جاتا تھا اورعادت اس حالت كا نام ہے جو كسی عمل كو بار بار انجام دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں كہا جاتا تھا كہ عادت: مادی حالت كی روانی جیسی حالت ہے۔ اس كی مثال ہے:
كسی ٹہنی كو دھرا كریں پھر چھوڑدیں، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ سیدھی ہوجائے گی دوبارہ اگر اسے دوہرا كیا جائے تو دوسری بار كم سیدھی ہوتی ہے اور اگر اس عمل كو كئی بار دہرایا جائے تو دُھری ہوجائے گی۔ كہا جاتا تھا كہ عادت بھی كسی ٹہنی یا كاغذ كو دھرانے كے مانند ہے۔ اسی طرح سے كوئی بھی عمل تكرار كے نتیجہ میں دماغ پر اپنا اثر و رسوخ جماتا ہے، جیسے ہم اخلاقی برائی یا اچھائی كا نام دیتے ہیں۔ لیكن تحت الشعور یا " شعور باطن"اور "الجھنوں" كے نظریات یہ ثابت كرتے ہیں كہ اخلاقی ظواہر دوسرے ظواہر سے علیحدہ اور مستقل ہیں۔
فرائیڈ اپنے نظریہ كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت یا مادہ پر حیات كی حكومت كو ثابت نہیں كرنا چاہتا تھا، بلكہ علمی تحقیقات جس كو وہ اہل بھی تھا۔ اس میں اہلیت و شائیستگی كا ثبوت دیا۔ لیكن جب فلسفی استنتاج و استنباط میں وارد ہوتا ہے، تو وہ شایستگی اور لیاقت كھو بیٹھتا ہے نامطلوب فرضیہ اور نظریات قائم كرتا چلاجاتا ہے۔ بہر حال اس دانشور كی علمی تحقیقات كی قدر و قیمت جو ہے وہ مسلم ہے۔
فرائیڈ كے بعض شاگردوں میں " یونگ"جیسوں نے نفسیاتی نظریات كے سلسلے میں فلسفی استنتاج و استنباط كے طرز میں اپنے استاد كی مكمل طور سے مخالفت كی اور اس نظریہ میں كافی حد تك حیاتی قوت كی اصالت كو نمایاں كیا اور وہ ان معنوں میں كہ فرائیڈ كے نظریہ كو ماوراء الطبیعت كا حامل پہلو قرار دیا۔
اس سے پہلے بھی كہا جاچكا ہے كہ اس سلسلے میں سب سے بڑا اعتراض محض جسم و جان اور مادہ و حیات كی نوعیتِ اختلاف كی تشخیص سے عبارت نہیں، كیونكہ یورپی محققین كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں شواہد پیش كرنے سے پہلے انہیں سطحی مشاہدات كی مدد سے بھی اس سلسلے میں ثبوت اور دلائل فراہم ہوسكتے تھے۔ دوسرا بڑا اشكال، جسم و جان كے تعلق كے بارے میں طرز تصور كا ہے، جس نے بہت سے مفكرین اور دانشوروں كو حیاتی قوت كی اصالت كے بارے میں سوچنے سے دور ركھا اور جیسا كہ اس سے پہلے بیان كیا جاچكا ہے كہ اس عظیم مشكل كا حل " صدرالمتاٴلھین"كے فلسفے میں بہت ہی اچھے انداز میں پیش كیا گیا ہے۔
حیاتی قوت كی اصالت ایسا مسئلہ ہے جو ماوراء الطبیعت پہلو ركھتا ہے، اگر حیات، مادے كا اثر و خاصیت ركھتی تو ماوراء الطبیعت پہلو اس میں نہ ہوتا۔ كیوں كہ حیات و زندگی مادے میں حالت تركیب و انفرادكے اثر كی طرح پوشیدہ رہتی، درحقیقت جب كبھی جاندار موجود پیدا ہوتا ہے تو مادے میں كسی قسم كی تخلیق یا فوق العادہ چیز رونما نہیں ہوتی، لیكن حیاتی قوت كی اصالت كے نظریہ كے مطابق، مادہ بذات خود فاقد حیات و زندگی ہے اور جب مادے میں استعداد و صلاحیت پیدا ہوتی ہے اس وقت زندگی اور حیات كا وجود ظاہر ہوتا ہے یادوسرے الفاظ میں، مادہ اپنی تكاملی سیروحركت كے دوارن زندگی پاكر اس كمال تك رسائی حاصل كرتا ہے جو اس میں پہلے موجود نہ تھا، اسی كے نتیجہ میں وہ خاص قسم كی فعالیت حاصل ہو جاتی ہے، جس سے وہ پہلے عاری تھا، لہٰذا كسی بھی موجود كا زندہ ہونا درحقیقت اس كی خلقت و ایجاد كی دلیل ہے۔
ممكن ہے یہاں یہ كہا جائے كہ یہ بات درست ہے كہ بے جان مادہ انفرادی حالت میں حیاتی خاصیت نہیں ركھتا، لیكن مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل و انفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟
اس سوال كا جواب یہ ہے كہ چند مادی یا غیر مادی اجزاء جب ایك دوسرے كے ساتھ تركیب پاكر ایك دوسرے پر متقابل اثر ڈالتے ہیں، تو اس عمل كے نتیجہ میں كچھ اجزاء اثر ڈالتے ہیں اور كچھ قبول كرتے ہیں۔ یہاں تك كہ " مزاج متوسط" پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے كہ چند جزء تركیب پاكر ایك ایسے اثر كو جنم دیں جو اجزاء ان كے " مزاج متوسط"كے آثار كے ماسوار ہے، مگر یہ كہ ان اجزاء كی تركیب خود اپنی قوت سے بڑھ كر ایك ایسی جوہری قوت كی تشكیل كا باعث بنے جو اُن اجزاء كو واقعی وحدت بخشے، اب سوال یہ ہے كہ: مادے كے اجزاء میں تركیب اور فعل وانفعال كے نتیجہ میں اگر حیات كی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے تو اس میں كیا قباحت ہے؟ ایك ایسا سوال ہے جو تشریح كا محتاج ہے۔ مادے كے اجزاء میں فعل و انفعال سے مراد اگر حیاتی قوت كی تشكیل ہے اور حیاتی قوت پیدا ہوجاتی ہے تو بات قابل قبول ہے اور اگر یہ مراد ہے كہ حیاتی قوت كے بغیر مادے كے اجزا ء میں حیاتی قوت كی خاصیت (جو اجزاء كی خاصیت سے مختلف سے) پیدا ہوجاتی ہے تو محال و ممتنع ہے۔
ایك مفروضہ اور باقی رہا، مفروضہ یہ ہے كہ مادہ بذات خود فاقد حیات ہے، اور حیات ایك ایسی قوّت ہے جو بے جان مادے كے تمام قوا پر مسلط ہے، لیكن یہاں پر دانشوروں كی تحقیق كے مطابق فرض كیا جائے، كہ بے جان موجودات میں (انرجی) قوت كی ایك مقدار معیّن و ثابت ہے اور انكا وجود و عدم، خلق ہونا نہیں، بلكہ مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور انرجی كا نقل و انتقال سے خاص قسم كی قوت اگر حیات كے لئے بھی فرض كی جائے تو نتیجتہً حیاتی قوتیں بھی غیر حیاتی قوّتوں كی طرح خلق و ایجاد نہ ہوں گی، بلكہ، جمع و تفریق اور (انرجی) قوتوں كے نقل و انتقال كے نتیجہ میں ایك خاص موقع پر یكجا جمع ہوجائیں گی۔ لہذا زندہ ہونا بھی خلق و ایجاد نہیں۔
اس مفروضے كے بے نتیجہ ہونے كے بارے میں ہم كہیں گے: سب سے پہلے حیاتی (انرجی) قوت كے بارے میں توضٰح دی جائے، كہ آیا یہ قوت بذات خود بے جان میں ہوتی ہے یا جاندار میں؟ اور اگر دوسرے مفروضہ كے مطابق جاندار میں ہوتی ہے، تو آیا یہ ایسی شعئی ہے جو حیات ركھتی ہے؟ یعنی حیات كیا اُس شئی سے جدا اور مستقل چیز ہے، جس كے ساتھ وہ مل جل كر رہتی ہے یا كوئی تیسرا مفروضہ یعنی عین حیات ہے؟ پپہلے اور دوسرے مفروضہ كے مطابق حیاتی قوت اور دوسری قوّتوں میں (ان كے حیاتی یا باعثِ حیات ہونے كے اعتبار سے) كسی قسم كی حیات قوت نہیں۔ اس لئے كہ یہ قوت یا تو مكمل طور سے زندہ نہیں (پہلا مفروضہ) اور یا پھر باعث ِحیات وہ اضافہ شدہ چیز ہے جو اس كی ذات میں نہیں لیكن ا س سے وابستہ ہے۔ رہی تیسرے مفروضہ كی بات تو اس كے معنے یہ ہیں كہ (حیات اور حیاتی قوت) وہ مجرد موجود ہے جو اپنے آثار باقی ركھتے ہوئے تنزل پیدا كركے مادے كی شكل اختار كرتا ہے۔ یہ محال ہے۔ البتہ تنزّل كے نام سے جو فلسفی دعویٰ كرتے ہیں كہ كائنات اور مادہ، ماوراء طبیعت كی تنزّل یافتہ شكل ہے تو اس كی نوعیت قوت كے نقل و انتقال اور تغیر اشكال كی نوعیت سے مختلف اور بذات خود ایك جدا بحث ہے۔ ان دونوںكوایك نہیں سمجھنا چاہے ۔ دوسرے یہ كہ بالفرض بے جان مادّے میں خلق و ایجاد كے منكر ہوں، اور ان موجودات كی تخلیق كو مادے كے اجزاء كی جمع و تفریق اور قوتوں كے نقل و انتقال كے سوا اور كچھ نہ جانیں، تو جاندار موجودات میں دانشوروں كی رائے كے مطابق یہ بات صادق نہین آتی۔ حیات كے خصوصیات میں ایك خصوصیت یہ بھی ہے كہ اس كے لئے كوئی معیّن اور ثابت مقدار فرض نہیں كی جاسكتی اور ایك نقطہ كی دوسرے نقطہ كی جانب حیات كے انتقال اور موجودات كے زندہ ہونے كو بھی درحقیقت ایك قسم كا تناسخ كہنا مناسب نہیں۔ اسلئے كہ حیات كی كوئی ثابت اورمعین مقدار نہیں، جس دن سے زمین پر حیات ظاہر ہوئی ہے اس دن سے ترقی كی طرف گامزن ہے اور اگر اتفاقاً ختم ہوجائے یعنی بہت سے جاندار موت كے گھاٹ اتر جائیں تو وہ انرجی كسی دوسرے نقطہ پر متمركز نہیں ہوتی۔ البتہ حیات و موت ایك قسم كا بسط و قبض ہے۔ لیكن ایسا بسط و قبض جس كا تعلق كائنات كے وجودی درجہ سے كہیں بلند و بالاتر ہے، وہ فیض ہے جوغیب سے آتا اور اسی جانب واپس ہوجاتا ہے۔
مذكورہٴ بالا باتوں كی تائید كے لئے ہم یہاں پر" ازوالڈكولپہ" كی موٴلفہ كتاب " مقدمہ ای بر فلسفہ"ترجمہٴ جناب احمد آرام، سے كچھ اقتباسات پیش كررہے ہیں۔ مذہب مادیت پر تنقید كرتے ہوئے " اِزوالڈ كولپہ" كہتا ہے:
" مذہب مادیت جدید علم فزكس كے قوانین میں اسے ایك اہم قانون " بقائے قوت" كی مخالفت كرتاہے، اس قانونكے مطابق دنیا میں موجود انرجی كی مكمل مقدار قائم ہے، ہمارے چاروں طرف جو تغیّرات اور تبدیلیاں نظر آتی ہیں، وہ انرجی كے ایك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك انتقال اور ایك صورت سے دوسری صورت و شكل اختیار كرنے كے سوا كچھ نہیں، اس قانون كے مطابق بخوبی واضح ہوجاتا ہے كہ فزكس كے آثار و ظواہر ایك " مربوط حلقے" كی تشكیل كرتے ہیںجس میں عقلی اور نفسیاتی آثار و ظواہر كی گنجائشناممكن ہے۔ لہٰذا دماغی عملیات خاص قسم كی پیچیدگی اور ابہام ركھنے كے باوجود اُن ظواہر میں محسوب ہونگےجو قانون (علّت و معلول) علیّت كے تابع ہوتے ہیں اور خارجی اثرات كے نتیجہ میں جو تغیّرات دماغ پر طاری ہونگے وہ بہر حال خالص فریكل اور كیمكل شكل میں ہوں گے پھر اسی شكل میں انہیں منتشر بھی ہونا چاہئے، اس طرح كے كلّی نظریہ سے اشیار كا(عقلانی ہونا) عقلی پہلو ہوا یں معلق رہ جاتا ہے۔ اس لیے كہ ظواہر كی فزیكل قوت سے كچھ كم و كاست كیے بغیر نفسیاتی ظواہر كو فزیكل اور مادی تصوّر كرنا كیسے ممكن ہے؟ اس كا منطقی حل صرف یہ ہے كہ ہم عقلی عملیات كے لئے بھی اس كی دوسری كمیكل، الكٹریكل اور حرارتی اور مكاینكی قوتوں كے مدمقابل ایك خاص قوّت كے قائل ہوجائیں، اور یہ قبول كرلیں كہ اس خاص قوت اور دوسری جانی پہچانی انرجیوں كے درمیان وہی نسبت ثابت و برقرار ہے جو دوسری تمام قوتوں كے درمیان موجود ہے، لیكن یہ كہنا لازمی ہے كہ مادیت پسند علما اور دانشوروںے اس نظریہ كے بارے میں نہ اظہار خیال كیاہے اور نہ ہی كسی نے مادیت پسند تحریروں میں اس پر تفصیلی گفتگو كی ہے البتہ مجموعی اعتراضات جو اس عقیدے كے مدمقابل ہیں ان پر اظہار نظر سے روكتے رہتے یں۔ تمام ہونے والے اعتراضات كی اساس یہ ہے كہ فزكس كے ماہرین، انررجی كی جو تعبیر كرتے ہیں وہ عقلی فكری ظواہر و اعمال پر ہرگز قابل انطباق نہیں ہے۔
كرسی موریسن اپنی كتاب "راز آفرینش انسان" ترجمہ محمد سعیدی "میں بیان كرتا ہے:
"جانوروں كے درمیان صاحب فكر و شعور انسان كا ظہور، اس تصورسے كہ یہ ظہور مادے كے تحوّل اور تبدیلی كا معلول ہے اور كسی خالق كا اس میں دخل نہیں" كہیں بلند و بالاتر ہے۔ اس صورت كے علاوہ انسان كو ایك مكانیكی آلہ ہونا چاہیے جس كی كاركردگی دوسرے كے ہاتھ ہے۔ اب یہ دیكھا جائے كہ اس مشین سے كاملینے اور اسے چلانے والا كون ہے؟ سائینس نے اب تك اس مشین كے چلانے والے كے بارے میں نہ كوئی تاویل پیش كی ہے اور نہ ہی اسے پہچان سكی ہے، لیكن دنیا بھر میںیہ بات مسلم ہے كہ اس مشین كو چلانے والا بذات خود مادے كا جز نہیں ہے۔"

اسی طرح كہتا ہے؛
" مادّہ، اپنے ذاتی قوانین و مقررات كے سوا كوئی عمل انجام نہیںدیتا، ذرّات اور ایٹم زمینی قوت جاذبہ اوركیمیاوی فعل و انفعالات نیز فضائی اثر اور الكٹریسٹی سے متعلق قوانین كے تابع ہیں۔ مادہ بذات خود كوئی نیا عمل كرنے كی صلاحیت نہیں ركھتا یہ فقط زندگی ہی ہے جو ہر لمحہ خوبصورت اور نئے نئے مناظر پیش كرتی رہتی ہے۔"
علماء و حكما، علّت و معلول یا كائنات كے رموز و اسرار سے متعلق بحث كرتے ہوئے (جیسے ابن سینا، اشارت كی دسویں تمط میں) روحی آثار و قوا كا ذكر خصوصیت سے كرتے ہیں صدرالمتاٴلھین ملا صدرا نے علّت و معلول سے متعلق بحث كو اسفار میں ایك فصل كی شكل دی ہے اور وہ اس عنوان سے كہ: "فكرو تصوّر كبھی كبھی اشیاء كے حدوث كا سبب بنتے ہیں" اس فعل سے انكی مراد مادے پر حیات كی حكومت و قاہریت نیز فكر و تصوّر كے اثرات كا اثبات ہے جو شئون حیات میں داخل ہے۔
اس فصل كے اجزا (پیراگراف اور ضمنی مباحث) میں ایك موضوع یہ بھی چھیڑا ہے كہ صحت و بیماری كی ایجاد میں سمجھنے سمجھانے اور توہم كے اثرات كا بھی دخل ہے۔
بحث بہت طویل و دلچسپ 2 ہے مگر ہم اسی پر اكتفا كرتے ہیں كہ آج كے دور میں اس پرانے اور دقیانوسی طرز فكر (دنیا محض مشینی دنیا ہے اور خلقتِ ذرّات كی تاٴلیف و تركیب اور جمع و تفریق كے سوا اور كچھ نہیں) كہ كوئی گنجائیش نہیں رہ گئی، بات اس كے آگے بڑھ چكی ہے۔
دانشوروں كی تحقیقات نے مادیت پسندوں كے غرور كو مكمل طور سے ختم كردیا ہے اور اب كوئی ڈیكارتے اور دوسروں كی طرح یہ نہیں كہے گا كہ "مادہ اور حركت مجھے دے دو میں دنیا بناؤں گا" دنیا كی شاخیں اس سے كہیں زیادہ ہیں كہ ہم اسے مادہ، اور مادے كی حسیّ اور عرضی حركت میں محصور كرسكیں۔
--------

1. دارونیسم: تالیف ڈاكٹر محمود بہزاد طبع پنجم ص ۹۹
2. تفہیم و تلقین اور اس كے اثرات "تداوی روحی" تالیف كاظم زادہ ایرانشہر