مقدس میلانات
  • عنوان: مقدس میلانات
  • مصنف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
  • ذریعہ: مترجم: ثاقب اکبر
  • رہائی کی تاریخ: 19:54:50 1-10-1403



ہمیں دو سوال موصول ہوئے ہیں کیونکہ ہردو سوال ہماری بحث کاموضوع ہیں لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا وقت ان کے جواب میں صرف نہ کریں صرف اجمالاً سوالات کا خلاصہ عرض کرتے ہیں۔ایک خدا کے بارے میں جستجو کے فطری ہونے کے معنی سے متعلق ہے۔ یہ سوال بھیجنے والوں نے کتاب ”خدا از دیدگاہ قرآن“ سے یہ بات نقل کی ہے کہ انسان جب طبیعی مظاہر کو دیکھتے ہیں تو ان کی علت کی جستجوکرتے ہیں اور جب ایک علت کو پا لیتے ہیں تو پھر اس علت کی علت کو تلاش کرتے ہیں۔اسی بات نے انسان کو آخر کار اس بات تک پہنچایا کہ علتوں کے اس سلسلے کو کسی جگہ پر ختم بھی ہونا چاہیے۔اگر بنایہ ہو کہ ہر مظہر خود ہی کسی دوسری چیز کا معلول ہو یعنی دوسری چیز کے وجود میں آنے کی علت یہ بنا ہو تو وہ دوسری چیز بھی تو اسی کے مانند ہے۔ اصطلاحاً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ارتکاز فکر مقتضی ہے کہ یوں تسلسل پیش آتا ہے جو محال ہے۔ پس آخر کار ان کی فکر یہاں تک پہنچی کہ کوئی ایک مرکزی نقطہ ہونا چاہیے جو علت العلل ہو اور سب علتیں وہیں سے پیدا ہوتی ہوں۔ یہ بات مذکورہ کتاب سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

لہٰذا اس جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ خارجی مظاہر انسانوں کو مبدائِ اولیہ کی جستجو پر ابھارتے ہیں تو پھر آپ نے اصول فلسفہ کی جلد پنجم میں جو یہ کہا ہے کہ خدا کے بارے میں بحث فطری ہے اس کی آپ کیسے توجیہ کریں گے جبکہ خارجی مظاہر انسان کو خدا کی جستجوپر ابھارتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کیا ہم خود اعتراف نہیں کررہے کہ خارجی مظاہر انسان کو خدا کی بحث کی طرف متوجہ کرتے ہیں نہ کہ انسانی وجود کے اندر سے کوئی عامل اسے اس کے لئے ابھارتاہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ نے اصول فلسفہ کا ہی غور سے مطالعہ کیا ہو تو اس کا جواب وہاں موجود ہے۔ جتنا مجھے اجمالاً یاد ہے علیتِ عامہ کے حوالے سے ایک بات ہم نے وہاں کہی ہے۔ یعنی یہ کہ انسان جو اللہ کی جستجو کرتا ہے اس کی علت یہی ہے کہ اصول علیت اس کی روح پر حکم فرما ہے۔ یعنی انسان علتوں کی جستجو میں ہے اور علتوں کی اسی جستجو نے اسے علت العلل تک پہنچایا ہے اور اس کا بالکل یہی مطلب ہے کہ عامل وجود انسانی کے اندر موجود ہے ۔یعنی اگر یہ تحریک انسان کے اندر نہ ہوتی کہ وہ علتوں کو کشف کرے اوریوں وہ علتوں کے سرچشمے تک جا پہنچے تو خارجی مظاہر کو دیکھ کر وہ ان کے پاس سے بالکل لاتعلق گزر جاتا۔ بحث یہ ہے کہ جب خارجی مظہر جو اپنے آپ کو انسان کے سامنے پیش کرتا ہے حیوان کے سامنے بھی ہوتا ہے یعنی جو کچھ انسان دیکھتا ہے حیوان بھی دیکھتا ہے لیکن جو چیز ان خارجی مظاہر کو دیکھنے کے بعد انسان کو ان کی علتوں کی جستجو پر ابھارتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی حس انسان کے اندر موجود ہے جو اسے کہتی ہے کہ ہر مظہر اورہر چیز کا وجود ایک علت کا محتاج ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ اگر وہ علت بھی اسی مظہر کی طرح کوئی مظہر ہو اور اسی چیز کی طرح کوئی چیز ہو اور وہ خود بھی کسی علت کی محتاج ہوتوانسان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوگی کہ کیا سب علتوں کا کوئی ایک سرچشمہ بھی ہے، ایسا سرچشمہ جو ایسی علت ہوکہ، جو ایسی وقوع پذیر ہونے والی چیز نہ ہو اور بالکل یہی فطری ہونے کا معنی ہے۔ یہ بات نہ فقط اس امر کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کی تائید کرتی ہے۔ اس کی تفصیل بعد کے لئے رہنے دیں۔
دوسرا سوال فطری ہونے کی علامات کے بارے میں ہے۔ پہلے بھی ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس سلسلے میں ہم آئندہ بحث کریں گے کہ کسی خصلت کے فطری ہونے کی کیا علامات ہیں ہم کہاں سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ انسان میں فلاں صفت یا فلاں خصلت فطری ہے یا بعض اجتماعی یا انفرادی خارجی عوامل کا نتیجہ ہے۔
ہم اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بات مسلم ہے اوراس میں کوئی شک نہیں اور اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ انسان ان تمام دیگر موجودات سے کہ جنھیں ہم جانتے ہیں یہ فرق رکھتا ہے( ۱)کہ یہ ایک ایسا موجود ہے جو فکر کرتا ہے۔ عصر حاضر کی تعبیرمیں یہ ایک آگاہ موجود ہے۔ خود سے بھی آگاہ ہے اورجہان سے بھی۔ انسان اپنی اس خصلت کی وجہ سے جہاں خارج کے بارے میں کچھ معلومات رکھتا ہے کہ جنھیں ہم ادراک کہتے ہیں اور یہ کیا عمدہ لفظ ہے کہ جو قدیم زمانے سے انتخاب شدہ ہے ادراک یعنی پالینا اور پہنچنا ۔ فلاسفہ نے بھی اس لفظ کی لغوی بنیاد سے کام لیا ہے۔اگر کوئی شخص کسی چیز کی جستجو میں ہو اور اس تک جا پہنچے تو عربی زبان میں کہتے ہیں ”ادرکہ“ مثلاً اگر کوئی شخص کسی آدمی کا پیچھا کررہا ہو اور وہ بھاگ جائے اور یہ بھی اس کے پیچھے دوڑے تو یا تو اسے پالیتا ہے یا اس تک نہیں پہنچ پاتا اگر اس تک جا پہنچے تو کہتے ہیں ”ادرکہ “۔
جہان خارج کے بارے میں انسان کی دریافت اور ادراک انسان اور جہان خارج کے درمیان ایک طرح کا اتصال اورارتباط ہے اس طرح سے کہ گویا انسان جب تک جاہل ہے اس کے اورجہان کے درمیان پردہ اور رکاوٹ موجود ہے اور جس قدر وہ کائنات سے آگاہ ہوگا اسی قدر وہ کائنات کو پالے گا اور اس تک پہنچ جائے گا ،یہ ایک طرح کا پہنچنا ہے۔
شک نہیں کہ اس جہت سے جمادات ،نباتات اور حیوانات میں سے کوئی بھی انسان کا شریک نہیں، حیوانات جہانِ خارج کے بارے میں ایک طرح کی مبہم سی آگاہی رکھتے ہیں لیکن یہ امر مسلم ہے کہ یہ آگاہی انسانی آگاہی کے برابر نہیں ہے ۔کم ازکم یہ ہے کہ وہ فکر نہیں کرتے کیونکہ فکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی موجود دستیاب سرمائے کے ذریعے ایک نئے سرمائے تک پہنچے۔ یعنی جو کچھ وہ جانتا ہے اس کے ذریعے جوکچھ نہیں جانتا اسے کشف کرے۔ آپ جب کسی موضوع کے بارے میں فکر کرنے بیٹھتے ہیں مثلاً کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کے بارے میں فکرکرتے ہیں اور اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ ”فکر کرنا“ کونسا عمل ہے ۔یہ عمل یوں ہے کہ آپ اپنے پاس موجود معلومات کو آپس میں اس طرح سے مربوط کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے مجہول معلوم میں بدل جائے۔ یعنی ایک نئی راہِ حل تلاش کرتے ہیں ۔ یہ عمل بالکل عالم مادہ اور عالم جسم میں توالدوتناسل کے مانند ہے کہ جس میں موجود۔۔۔ مذکر اور مونث ۔۔۔ ایک دوسرے سے ازدواج کرتے ہیں اور ان کے اس ازدواج سے ایک نیا مولود وجود میں آتا ہے۔ انسان جب فکر کرتا ہے تو پہلے سے موجود معلومات کے سرمائے کی آپس میں پیوند کاری ہوتی ہے اور اس پیوند کاری اور جفت بندی سے ان کے درمیان رابطہ وجود میں آتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے لئے ایک نئی فکر اور ایک نئی راہِ حل پیدا ہوجاتی ہے ۔ حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے، حیوان فقط حس کرتاہے۔ بس سطحی سا مشاہدہ کرتا ہے۔ مثلاً ہم بھی رنگوں کو دیکھتے ہیں اور حیوان بھی دیکھتے ہیں، ہم بھی حرارت کا احساس کرتے ہیں اور وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ فکر کرنا انسان کی خصوصیات میں سے ہے۔

انسانی امتیازات

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان بعض میلانات کے لحاظ سے غیر انسان سے امتیاز رکھتا ہے۔ ان میلانات کو ایک لحاظ سے ”مقدس میلانات“کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے لحاظ سے یہ ایسے میلانات ہیں کہ ”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی انسان ایسے میلانات رکھتا ہے کہ جو”خود محوری“ کے مفہوم سے خارج ہیں۔ یہ ”خود محوری“ کیا ہے؟ یعنی ایسے میلانات کہ جو انجامِ کار صرف انفرادی ہوں۔ ایسے میلانات حیوان میں بھی ہیں اور انسان میں بھی ہوتے ہیں، حیوان بھی غذا کی خواہش رکھتا ہے لیکن غذا کی اس خواہش کا رجحان اور تعلق خود اسی سے ہوتا ہے یعنی اس کا میلان خود اپنے لئے حصول غذا کی خاطر ہے۔ انسان میں بھی خود محوری پرمبنی بعض میلانات ہیں چونکہ انسان انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حیوان بھی ہے بلکہ پہلے حیوان ہے بعد میں انسان ہے لہٰذا ایسے میلانات انسان میں بھی ہیں۔
بہر حال اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان میں کچھ میلانات ایسے ہیں جو اولاً توخود محوری کی اساس پر نہیں ہیں اور ثانیاً اپنے وجدان میں ان میلانات کے لئے انسان ایک طرح کی قدامت اور احترام کا قائل ہے یعنی ان کے لئے ایک طرح کے بلند مرتبے اور برتری کا قائل ہے، اس طرح سے کہ جو انسان جس قدر بھی ان میلانات کا حامل ہو اس انسان کو عالی تر سمجھتا ہے۔ حیوان کے میلانات یا تو محض ” خود محوری“ پر مبنی ہیں مثلاً نیند اور غذا وغیرہ کی طرف میلان وغیرہ یا اگر کچھ خود محوری پر مبنی نہ ہو تو بھی اس کی حدود بقاءنوع تک ہی ہوتی ہے یعنی توالد وتناسل اور تولید و افزائش نسل کی حد تک اور وہ بھی جبلت اور تحریک حیوانی( ۲)کے دائرے میں۔ پھر ہم جبلت کی تعریف تک آپہنچے ہیں۔ یعنی حدود کے اندر یہ ایک آگاہانہ آزادانہ اور انتخاب شدہ عمل ہے اور یہ بہت محسوس اور مشہور ہے۔ مثلاً ہم گھوڑی کو دیکھیں جب اس کا بچہ پیدا ہونے والا ہوتا ہے اور جوں جوں بچے کی پیدائش کا مرحلہ قریب آتا ہے توں توں بچے کے لئے اس کی خواہش شدید ہوتی جاتی ہے کہ خدا جانتا ہے۔ جب یہ بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور آپ اس گھوڑی پر سوار ہوتے ہیں تو وہ حرکت نہیں کرنا چاہتی ہے اسے اپنے بچے کی فکر ہوتی ہے ہمیشہ اپنا رخ موڑ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اگر آپ اسے دو قدم دور کریں تو پھراس کی طرف بھاگتی ہے ۔ جوں جوں یہ بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی طرف ماں کا میلان کم ہوتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ وہ جوان ہوجاتا ہے تو پھر اس کی طرف اس کا کوئی رجحان نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی گھوڑی سات سال کی ہو اور اس کا بچہ دو سال کا ہو تو بچے کے جوان ہونے کی وجہ سے جب ماں اسے دیکھے تو اسے ایک طرح کی لذت محسوس کرنی چاہیے جبکہ وہ اس کی طرف کوئی میلان نہیں رکھتی اور اگر وہ اس کے قریب آئے تو وہ اسی دولتی مارتی ہے اور اسے ٹھکرا دیتی ہے ایسا کیوں ہے ۲؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جبلت صرف اس بچے کی حفاظت کے لئے تھی۔ صرف اس لئے تھی کہ یہ نسل جاری رہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔ اب جبکہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوگیا ہے اور اپنی ماں کی طرح کا ہوگیا ہے تو اب ماں کی نظر میں اس میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔
حیوانات کی بھی اجتماعی زندگی ہوتی ہے لیکن ان کا عمل آزادی انتخاب کے ذریعے نہیںہے بلکہ انتسابی ہے یعنی طبیعت کی طرف سے وہ اس کام کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور وہ اپنا کام جبری طور پر انجام دیتے ہیں اس طرح سے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ مثلاً شہید کی مکھیاں یا بعض چیونٹیاں اجتماعی زندگی رکھنے والے جانوروں میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہرن بھی کسی حد تک اجتماعی زندگی (SOCIAL LIFE) بسر کرتا ہے ۔البتہ ان کا عمل بھی جبلی ہوتاہے یعنی خود بخود اور نیم آگاہی کے ساتھ ہورہا ہوتا ہے نہ کہ ان کے اپنے انتخاب کے ذریعے ۔شروع ہی سے ان کی طبیعت میں یہ سب کچھ موجود ہے اور یہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ حیوانات کے میلانات کی یہ کیفیت ہے۔
لیکن۔۔۔ انسان جو میلانات رکھتا ہے اولاً تو وہ ”خود محوری“ کے ساتھ ہی ہم آہنگ نہیں ہیں اور اگر اس حوالے سے ان کی توجیہ کی بھی جائے تو یہ تمام ترجیحات محل بحث اور قابلِ اشکال ہوں گی۔ثانیاً یہ ایک انتخابی شکل اور آگاہانہ صورت ہوگی۔ بہرحال یہ ایسے امور ہیں کہ جو انسانیت (HUMANNESS) کے معیار اور امتیاز کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اگر دنیا کے تمام مکاتبِ فکر انسانیت کا دم بھرتے ہیں تو اس انسانیت سے کیا مراد ہے؟ یہی میلانات اور یہی امور (INCLINATIONS & TENDENCIES) ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آج بھی دنیا کے تمام مکاتب فکر چاہے وہ الٰہی ہوں، مادی ہوں یا شکاک(SCEPTIC) یا کوئی اور،سب انسان کے بارے میں ایسے امور کا ذکر کرتے ہیں کہ جو مافوقِ حیوانی متصور ہوتے ہیں۔ پہلے ہم ان امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس امر کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ امور انسان کے فطری ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر یہ فطری نہ ہوں تو نتیجہ کیا ہوگا اور فطری ہوں تو پھر کیا نتیجہ ہوگا۔بعدازاں ان کے فطری ہونے یا نہ ہونے کے دلائل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

محسوس فطریات

۱۔ حقیقت طلبی
یہ میلانات کہ جنھیں کبھی مقدسات بھی کہا جاتا ہے اجمالاً پانچ قسم کے ہیں یا کم ازکم ہم ابھی ان کی پانچ اقسام کو جانتے ہیں ان میں سے ایک ”حقیقت “ ہے۔ ”حقیقت “ کی اصطلاح کو ہم” دانائی“ یا ”دریافت حقیقت جہان“ بھی کہتے ہیں ۔مقصد یہ ہے کہ انسان میں ایک ایسا میلان موجود ہے کہ حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں، ان کے کشف کرنے کا میلان حقائق اشیاءکا ادراک کماھی علیھا یعنی حقیقت میں وہ جیسی ہیں ،یہ کہ انسان جہان ہستی اور اشیاءکو جیسی کہ وہ ہیں دریافت کرے۔ پیغامبر اکرم (ص) سے منسوب دعاﺅں میں سے ایک میں ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:
اَللّهمَّ اَرِنی الاَشیائَ کَماهیَ۔
یا اللہ! مجھے اشیاءکو ویسی ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔
جسے ”حکمت اور فلسفہ“ کہتے ہیں بنیادی طور پر اس کاہدف یہی ہے ۔اصولی طور پر انسان جو فلسفہ کی طرف آیا ہے وہ اس کی اسی حس کی بنیاد پر ہے کہ وہ حقیقت اور حقائق اشیاءکو جاننا چاہتا ہے ۔اس حس کا نام ہم ” حس فلسفی“بھی رکھ سکتے ہیں۔ چاہے ہم اسے حقیقت طلبی کہیں یا مقولہ حقیقت کا نام دیں یا عنوان فلسفی کے تحت دیکھیں یا اسے دانائی کے زمرہ میں قرار دیں۔
ایک جملہ ہے کہ جوبو علی سینا نے استعمال کیا ہے اور یہ تعبیر استعمال کرنے والا وہ قدیم ترین شخص ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے ایسی تعبیر تھی یا نہیں البتہ بعد میں شیخ اشراق اور دیگر افراد نے اسے استعمال کیا۔
فلسفے کے مقصد اورہدف یا غایت اور نتیجے کے اعتبار سے فلسفے کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتا ہے
صَیر ورَةُ الاِنسانِ عالَماً عَقلِیّاً مُضاهیاً لِلعالَمِ العَینِیِّ
یعنی فیلسوف بننے کا نتیجہ نہائی یہ ہے کہ انسان خود اس عالم عینی کے مانند ایک جہان عقلی بن جائے۔
یعنی اس جہان عینی اور مادی کو اس طرح سمجھے اور دریافت کرے کہ جس طرح وہ حقیقت میں ہے۔ بعد میں وہ خودایک عالم بن جائے لیکن وہ عالم بیرون، عالم عینی سے خارج ہوگا اگرچہ یہ عالم جدید وہی جہانِ عینی ہے، البتہ یہ اس کی عقلی صورت ہے۔
یہ حقیقت اور حقیقت طلبی فلاسفہ کی نظرمیں انسان کا کمالِ نظری ہی ہے۔ انسان جبلی اورفطری طورپر کمالِ نظری کا طالب ہے یعنی حقائق جہاں کو جانناچاہتا ہے۔ اس طرح کے میلانات انسان میں حقیقتِ عالم تک رسائی کے لئے موجود ہیں۔
علمِ نفسیات میں بھی اس پر حس حقیقت طلبی یا حسِ جستجو کے نام سے بحث کی جاتی ہے۔ جب کسی مسئلے کو ایک وسیع سطح پر پیش کیا جاتا ہے تو اس کا نام جس کا وش یا حس جستجو رکھاجاتا ہے ۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو دو یا تین سال کے بچوں تک میں موجود ہوتی ہے البتہ مختلف بچوں میں مختلف سطح کی ہوتی ہے۔ بچہ جب تین سال کا ہوتا ہے تو ہمیشہ طرح طرح کے سوال پوچھتا رہتا ہے ۔تعلیم وتربیت میں ماں باپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے بچوں کے سوال کا جواب دیں اور انھیں جھڑک نہ دیں۔ نادان اور بے توجہ ماں باپ جب دیکھتے ہیں کہ ان کا تین چار سالہ بچہ ہمیشہ سوال ہی کرتا رہتا ہے تو وہ اسے ایک فضول حرکت تصور کرتے ہیں ور کہتے ہیں ”چپ کر، کیا ٹیں ٹیں لگا رکھی ہے۔“ ایسا طرز عمل غلط ہے یہ حس سوال ہے، تلاش حقیقت کی حس ہے، حس حقیقت طلبی ہے جو ابھی اس میں ابھری ہے اور وہ پوچھتا ہے اور حق رکھتا ہے کہ پوچھے ۔یہاں تک اگر وہ ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھے کہ جس کا آپ جواب نہ دے سکیں یا جس کا جواب وہ نہ سمجھ سکے تب بھی اسے ڈانٹنا، جھڑک دینا یا اس کی اس حس کو دبادینا درست نہیں ہے اور اس کا یہ جواب نہیں کہ چپ کرجا۔ جس قدر ممکن ہو اس کا جواب دیا جانا چاہیے اوراسے مطمئن کرنا چاہیے ۔یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ بچے کی بہت سی شرارتیں اسی حس کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ بچے کا شرارتی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے جس چیز تک بھی پہنچتا ہے اس کو چھیڑتا ہے کبھی اس چیز کو اِس پر مارتا ہے کبھی اُس کو اِس پر گراتا ہے۔ کیا انسان طبعاً شرارتی ہے؟ جب وہ بڑا ہوجاتا ہے تو کیا اس کی اصلاح ہوجاتی ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ یہ اسی حس حقیقت شناسی کا نتیجہ ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ اسے اس پر مار کر دیکھے کہ کیا ہوتاہے۔ اب ہم جو ایسا نہیں کرتے تو یہ اس لئے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم بار ہا تجربہ کرچکے ہیں لہٰذا ہمارے لئے مسئلہ حل شدہ ہے لیکن بچے کے لئے یہ مسئلہ ابھی واضح نہیں ہے۔ انسان کے اندر سوال کا پیدا ہونا اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ فلاسفہ اس کو ایک بالاترسطح پر پیش کرتے ہیں۔ماہرین نفسیات اس کو عمومیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بچے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ بہرحال انسان حقیقت اور حقائق کو جاننے کی طرف میلان رکھتا ہے۔ ابوریحان بیرونی کا ایک معروف واقعہ ہے جو شاید آپ نے سنا ہو ۔وہ مرض موت میں مبتلا تھے ۔ان کا ایک ہمسایہ فقیہ تھا ۔وہ ابوریحان کی عیادت کے لئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر پڑے ہیں اور روبہ قبلہ لیٹے ہوئے ہیں اور زندگی کے آخری سانس لے رہے ہیں۔ ابو ریحان نے اپنے اس ہمسائے سے وراثت کا ایک شرعی مسئلہ پوچھا ۔اس فقیہ کو تعجب ہوا اورکہنے لگا :یہ کونسا وقت ہے مسئلہ پوچھنے کا؟ابو ریحان کہنے لگے: مجھے معلوم ہے کہ میں مررہا ہوں لیکن آپ سے یہ مسئلہ پوچھ رہا ہوں۔ اگر میں اس مسئلہ کا جواب جان کر مر جاﺅں تو بہتر ہے یا نہ جانتے ہوئے مر جاﺅں تو بہتر ہے؟ ہمسایہ کہنے لگا واضح ہے کہ جان کر مرنا بہتر ہے۔۔۔ ابو ریحان کہنے لگا:پھر اس کا جواب بتاﺅ، تو اس نے جواب دیا۔۔۔ اس فقیہ کا کہنا کہ میں ابھی واپس اپنے گھر نہ پہنچا تھا کہ ابو ریحان کے گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آنے لگی۔ بہر حال یہ انسان میں موجود ایک حس ہے۔ جنھوں نے اپنی اس حس سے کام لیا ہے اوراسے زندہ رکھا ہے، وہ اس مرحلہ تک جا پہنچتے ہیں کہ کشفِ حقیقت کی لذت ان کے لئے ہر دوسری لذت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں لذت کشف حقیقت ان کے لئے۔ لذت سے بالاتر ہوتی ہے(۳)حجة الاسلام سیدمحمد باقر شفتی اصفہانی مرحوم کے بارے میںبھی ایک واقعہ ہمارے قدما نے نقل کیا ہے اور بالکل ایسا ہی واقعہ پا سچر کے بارے میں بھی ہے۔ جناب سید محمد باقر مرحوم کی شب زفاف تھی جب دلہن کاہاتھ دلہا کے ہاتھ میں دے دیاجاتا ہے اور پھر عام طور پر عورتیں دلہن کو حجلہ عروسی میں لے جاتی ہیں۔ اس وقت جناب سید محمد باقرکسی دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ جب عورتیں چلی جائیں تو پھر دلہن کے پاس جائیں تو انھوں نے سوچا کہ موقع ہے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے اور مطالعہ کیاجائے اور انھوں نے مطالعہ شروع کردیا۔ عورتیں چلی گئیں، دلہن بیچاری تنہا بیٹھی رہی ،بہت انتظار کیا کہ دلہا آجائے مگر وہ نہ آئے۔ سید محمد باقر جب متوجہ ہوئے تو وقتِ سحر تھا یعنی علم کی کشش نے انھیں اس طرح سے جذب کر لیا کہ شب زفاف وہ اپنی دلہن کو بھول گئے۔
پاسچر کے بارے میں بھی ایسا ہی قصہ بیان کیا جاتا ہے ۔کہتے ہیں کہ اس کی بھی شبِ عروسی تھی، ایک گھنٹہ وہیں کام میں مگن رہا اور وہ بھول گیا کہ یہ تو اس کی شادی کی رات ہے۔
یہ حقائق ہیں، یہ حس کم وبیش تمام انسانوں میں موجود ہوتی ہے البتہ دیگر حسوں کی طرح کسی میں زیادہ کسی میں کم نیز یہ بات اس امر سے مربوط ہے کہ انسان نے اسے کتنا پروان چڑھایا ہے لہٰذا انسان کو علم اور جاننے کی وجہ سے غیر انسان پر ترجیح دی جاتی ہے ۔انگلستان کا معروف فلسفی اسٹوارٹ میل کہتا ہے:
اگر انسان دانا ہو اور مفلس ہو تو وہ اس احمق سے بہتر ہے جو خوشحال ہے۔ ایک رنجیدہ و بے حال سقراط کو ایک موٹے خنزیر پر ترجیح حاصل ہے۔
ایسی سب باتیں انسان کے لئے حقیقت کی اہمیت واضح کرتی ہیں کیونکہ دانائی کا آخر کیا معنی ہے آگاہی ،کائنات تک پہنچنا ،عالم کو سمجھنا اور جاننا ۔

خیروفضیلت کی طرف میلان

انسان میں ایک اور بھی میلان ہے کہ جسے خیروفضیلت کی طرف میلان کہا جاسکتا ہے۔ یہ میلان اخلاقی پہلو رکھتا ہے ۔اسے ہم اپنی اصطلاح میںاخلاق کہتے ہیں۔ انسان بہت سی چیزوں کی طرف میلان رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے سود مند اور منافع بخش ہیں۔ انسان دولت کی طرف میلان رکھتا ہے اس لئے کہ وہ انسان کے لئے مفید ہے۔ اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ ایک وسیلہ ہے اپنے فائدے اور سود کی طرف انسان کا میلان خود محوری اور خود خواہی ہے یعنی انسان ایسی چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے جسے وہ اپنے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے سلسلہ حیات کو جاری اور باقی رکھ سکے (البتہ ایک موجود زندہ کا اپنی زندگی کی بقاءکی طرف میلان کیا ہے؟ اور اس میں کیا راز ہے؟ یہ اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے) اس سطح تک تو اس بات کی تحلیل کسی قدر سادہ ہے لیکن بعض امور ایسے ہیں کہ انسان ان کی طرف میلان رکھتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ یہ اس کے لئے سود مند ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ عقلی اعتبار سے فضیلت وخیر کے زمرے میں آتے ہیں۔ منفعت خیرحسی ہے جبکہ فضیلت خیر عقلی ہے۔ فضیلت مثلاً انسان کا سچائی کی طرف میلان اس لحاظ سے کہ وہ سچائی ہے۔ اس کے مقابلے میں جھوٹ سے نفرت، اسی طرح انسان کا تقویٰ اور پاکیزگی کی طرف میلان ۔ کلی طور پر یہ میلانات جن کا شمار فضیلت میں ہوتا ہے دو قسم کے ہیں ۔بعض انفرادی ہیں اوربعض اجتماعی ۔انفرادی مثلاً ذاتی نظم وضبط ۔نفس پر کنٹرول یعنی اپنے آپ پر تسلط اور اسی طرح اور بہت سے انفرادی اخلاق کے مفاہیم ۔یہاں تک کہ شجاعت بھی جو بزدلی کے مقابل میں ہوتی ہے، اس سے مراد زورِ بازو نہیں کیونکہ وہ اخلاق کی تعریف سے باہر ہے۔ اجتماعی مثلاً دوسروں کے ساتھ تعاون اور مدد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کسی معاشرتی یا سماجی کام کی انجام دہی۔ احسان اور نیکو کاری کی طرف میلان۔ فدا کاری کی طرف میلان ،یہ ذاتی مفاد کے مفہوم میں نہیں آتا کیونکہ فدا کاری یعنی اپنے آپ کو فدا کردینا یہاں تک کہ اپنی جان کو فدا کر دینا۔ اسی طرح ایثار کی طرف میلان
وَیُوثِرُونَ عَلٰٓی اَنُسِهم وَلَوکَانَ بِهمخَصَاصَة ۔(۴)
وہ ایثار کرتے ہوئے اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں۔
وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّه مِسکِینًا وَّیَتِیمًا وَّاَسِیرًاO اِنَّمَا نُطعِمُکُم لِوَجه اللّٰه لاَ نُرِیدُ مِنکُم جَزَآئً وَّلاَ شُکُورًاO (۵)
وہ اللہ کی محبت میں مسکین یتیم اور اسیر کو کھانا کھلا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تمھیں اللہ کے لئے کھلایا ہے اور ہم تم سے کسی جز اور شکریے کے خواہشمند نہیں ہیں۔

حسن وجمال کی طرف میلان

انسان میں حسن وجمال کی طرف میلان موجود ہے اب یہ چاہے حسن پسندی کے لحاظ سے ہو چاہے تخلیق حسن کے حوالے سے ہو کہ جس کا نام ہنر(ART)ہے۔ کوئی شخص بھی اس احساس سے عاری نہیں ہے۔ انسان جب لباس بھی پہنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو وہ اسے اچھا لگے۔ اپنے کمرے کو اچھا رکھتا ہے۔ اسی ہال کو آپ دیکھیں یہ ہال کس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے۔ طلبہ کے اجتماع کے لئے، والدین اور اساتذہ کے اجتماع کے لئے کہ جس میں کارکردگی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور دیگر تقاریب کے لئے ۔مختصر یہ کہ اجتماع عمومی کے لئے بنایا گیا ہے۔ اب یہ کہ اس کے پردے کیسے ہوں اس بات کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں ۔کیا یہ پردے آواز کو بہتر پہچاننے میں مدد کرتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہے یہ خود ذاتی طور پر انسان کے لئے مطلوب ہیں خو دزیبائی انسان کی ایک خواہش ہے۔ اسی طرح انسان ایک عمارت پہلے مرحلے میں تو گرمی اور سردی سے بچنے کے لئے یاچور وغیرہ سے حفاظت کے لئے بناتا ہے لیکن ہمیشہ اس کی تعمیر میں اپنی حسن پسندی کوملا لیتا ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ عمارت دیکھنے میں بھلی لگے، فرنیچر اچھا ہو،کمرے میں قالین خوبصورت ہوں۔ یہ زیبائی اورحسن کی طرف میلان انسان کے اندر موجود ہے۔ انسان حسن فطرت کو پسند کرتا ہے ۔ انسان جب صاف وشفاف پانی کو دیکھتا ہے، کسی آبشار پر اس کی نظر پڑتی ہے ،کسی دریا کو دیکھتا ہے ۔ تو اسے کیف محسوس ہوتا ہے۔ فطرت کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ آسمان پر اس کی نظر اٹھی ہے، افق کو دیکھتا ہے،پہاڑوں کا نظارہ کرتا ہے تو ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ چیزیں اسے بھلی لگتی ہیں اور ان سے کیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح فن اور ہنر(ART) کا مسئلہ ہے اور یہ وہ حسن ہے جو انسان خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ چیزیں جنھیں قدیم زمانے سے فنونِ لطیفہ کہا جاتا ہے جیسے خطاطی ہے جو بہت قدیمی فن ہے ۔بہت خوبصورت خطاطی کی انسان کے لئے غیر معمولی اہمیت ہے اور وہ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ کسی نہایت خوبصورت خط میں لکھا گیا قرآن اگر انسان نے دس مرتبہ بھی دیکھا ہو تو گیارھویں دفعہ دیکھنے کی خواہش دل میں رہتی ہے بلکہ سو مرتبہ بھی دیکھا ہوتو ایک سو ایک مرتبہ کی خواہش اس کے دل میں رہتی ہے۔ ہمارے والدِ مرحوم رضوان اللہ علیہ کہ جن کا اپنا خط بھی خوب تھا انھیں خطاطی سے بہت لگاﺅ تھا۔وہ کہاکرتے تھے کہ کوئی بہت خوبصورت خط میں قرآن میرے ہاتھ میں ہو تو میں اسے پڑھ نہیں سکتا کیونکہ اس کے خط اور حسن میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ پڑھ نہیں پاتا۔ حرم امام رضا علیہ السلام میں ایوانِ مقصورہ کے باہر ایک کتبہ لکھا ہے جوحسین خط کا ایک نمونہ ہے اسے بایسنقر نے لکھا ہے۔ یہ ایک بڑا سا کتبہ ہے جو ایوان کی پیشانی پر لگا ہے بایسنقر گوہرشاد کا بیٹا تھا۔ اس نے خود اس کتبے کے آخر میں لکھا ہے:
کَتَبَہُ بایسُنقُرُبنُ شاہرُخَ بنِ اَمیرتیمور گورَکان۔
گوہر شاد شاہرخ کی بیوی تھی۔ بایسنقراس کا بیٹا تھا۔ اس کا یہ کتبہ خطِ ثلث میں ہے۔ بایسنقرکا خط بے نظیر ہے۔ نہ اس سے پہلے کسی نے خط ثلث میں ایسی تحریر پیش کی ہے اور نہ اس کے بعد کوئی اس جیسا لکھ سکا ہے حالانکہ علی رضا عباسی جیسا خطاط گزار ہے جو شاہ عباس کے زمانے میں تھا اور غیر معمولی طورپر اچھا خطاط تھا۔ اس کے خط کے نمونے آج بھی اصفہان اور قم میں شاہ عباس کے مقبرے میں موجود ہیں جو غیر معمولی طور پر خوبصورت ہیں لیکن بایسنقر کے پائے تک نہیں پہنچ سکتے ۔خود قرآن کی الٰہی نشانیوں میں سے ایک اس کاحسن ہے ۔یعنی فصاحت وبلاغت ہے اور قرآن کو عالمگیر کرنے کے عظیم ترین اسباب میں سے ایک اس کا عامل زیبائی یعنی فصاحت وبلاغت معجز نما ئی ہے۔
غرض یہ کہ حسن کی طرف میلان اور مظاہر زیبائی کی طرف کشش بھی انسان کے میلانات میں سے ہے۔

چوتھے نمبر پرمیلان تخلیق ایجاد ہے

انسان میں چیزوں کو ایجاد کرنے کا میلان موجود ہے، ایسی چیزیں جو موجود نہیںچاہتا ہے کہ انھیں وجودمیں لائے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ انسان نے اپنی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صنعت وحرفت اورایجاد ابداع کا کام کیا ہے لیکن جس طرح علم انسان کے لئے زندگی اور معاش کا ذریعہ بھی ہے اور بذاتِ خود مطلوب ومقصود بھی ہے،ایجاد و تخلیق کی بھی یہی صورت حال ہے۔ آج کل اس مسئلے پر بہت بحث کی جاتی ہے کہ آیا علم برائے علم ہے یا علم برائے زندگی ہے؟جواب یہ ہے کہ دونوں مطلوب ہیں۔ یعنی علم انسان کے لئے مطلوب با لذات بھی ہے اور مطلوب بالغیر بھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ علم ذاتاً بھی مطلوب ہے اور انسانی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ایک وسیلہ بھی ہے۔اس اعتبار سے کہ علم، دریافت اور کشف ایک حقیقت ہے مطلوب بالذات ہے اور اس لحاظ سے کہ یہ ایک قدرت وتوانائی ہے بقولے :
توانا بودہرکہ دانا بود
اس اعتبار سے کہ یہ زندگی کی مشکلات حل کرنے کا وسیلہ ہے مطلوب بالغیر ہے۔ تخلیق وابداع بھی اسی طرح ہے۔ آپ نے طلبہ کے بارے میں تجربہ کیا ہوگا اور جانتے ہوں گے کہ ایک طالب علم جب کوئی چیز تخلیق یا ایجاد کرتا ہے وہ کتنا خوش نظرآتا ہے اور اپنے آپ میں ایک افتخار کا احساس کرتاہے ۔جب آپ اسے کوئی دستکاری کام کرنے کے لئے دیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک نئی چیز وجود میں لائے۔ مجموعی طور پرابتکار اوایجاد جس شعبے میں بھی ہو ایک قسم کی تخلیق ہے۔ بعض افراد کو آپ کہتے ہیں کہ وہ تخلیقی امتیاز رکھتا ہے۔مثلاً آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص طرز تدریس میں امتیاز رکھتا ہے یعنی طرز تدریس میں اس کا امتیازی اسلوب ہے۔دیگر اشخاص ممکن ہے فقط دوسروں کی روش اور اسلوب کی پیروی کریں لیکن اس کے برعکس بعض افراد یہ قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک نئی روش تخلیق کریں۔مجموعی طور پراجتماعی پروگراموں، مملکت کو چلانے کے طور طریقوں ،شہری منصوبہ بندی اور وہ امور جن میں بلدیہ کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح کتب کی تالیف و تصنیف میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ موجد اور نو آور ہوتے ہیں جبکہ بعض دیگرمحض پرانی روش کی تقلید کرتے ہیں۔بالخصوص کتابوں میں یہ تقلیدی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ضرب المثل معروف ہے کہ ”چھپی ہوئی کتابوں کی پھر سے کتابت کرتے ہیں اور کتابت شدہ کو پھر چھاپ دیتے ہیں“۔ یعنی چھپی ہوئی کتابوں میں سے بعض باتیں اخذ کرتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں اور اسے دوبارہ چھاپ دیتے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ کام تخلیقی نہیں ہے لیکن بعض افراد کی کتابیں تخلیقی ہیں اور انسان میں یہ میلان موجود ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ تخلیق کار ہو ۔
نظریات میں اس سے بھی بالاتر ہے۔ کوئی شخص ایک نظریے کی تخلیق کرتا ہے بعد میں اسے ثابت کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے لوگ اس کے نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ یہ خوداپنی جگہ پرایک طرح کی قدرت اور صلاحیت ہے۔مثلاً وہ شخص کہ جس نے ”جوہری حرکت “ کے نظریہ کی تخلیق کی، بعد میں اسی کو ثابت کیا اور اب دوسرے اس کی پیروی کررہے ہیں۔ البتہ بعض اوقات یہ دو تین میلان آپس میں مل جاتے ہیں مثلاً جب کوئی حافظ کی طرح اشعار کی صورت میں ایک نئی چیز تخلیق کرتا ہے، تو اس نے آن واحد میں دوکام انجام دیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک نئی چیز کو وجود میں لایا ہے اور تخلیقی حسن کی تشنگی کو بجھایا ہے اور دوسرا یہ کہ خوبصورت زیبا شعر کو معرض وجود میں لا کر اپنی ” حس زیبائی“ کو بھی اُس نے سیراب کیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کی ”تلاش حقیقت“ کی حس کو بھی سکون ملا ہو۔

عشق وعبادت پانچویں چیز کا نام

ہم نے ”عشق وعبادت“ رکھا ہے۔ البتہ ابھی ہم اپنی پہلی بات کی طرف لوٹتے ہیں ۔ہم نے کہا کہ اس جہان میں کوئی وجود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان سے زیادہ تفسیر وتوضیح کا محتاج ہو چونکہ انسان میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو غیر انسان میں موجود نہیں اور اس میں ایسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیںجن کی تفسیر و توضیح آسان کام نہیں بلکہ انتہائی مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو ”عالم صغیر“ (یعنی چھوٹے جہان) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی خود انسان اکیلا ہی ایک جہان ہے۔ عرفاءاس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ انسان ”عالم صغیر“ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہان عالم صغیر ہے جبکہ خود انسان، عالم کبیر ہے۔ مولوی کہتا ہے:

چیست اندر خانہ کاندر شھر نیست
چیست اندر جوی کاندر نھر نیست

یعنی گھر شہر کا جز ہے۔ جوکچھ بھی گھر میں ہے یقیناً شہر میں پایا جاتا ہے۔
اسی طرح جو کچھ ایک چھوٹی سی نہر میں ہے دریا میں یقیناً وہ پایا جاتا ہے۔
اس کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہے:

ایں جھان جوی است دل چون نھر آب
این جھان خانہ است دل شھری عُجاب

یعنی یہ جہان چھوٹی سی نہر کے مانند ہے اور دل دریا کے مانند یہ جہان گھر کی طرح ہے اور دل شہر کے مانند۔
یعنی اس کے برعکس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دل گھر کے مانند ہے اور جہان ایک شہر کی طرح۔
میرا مقصد انسان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے کہ انسان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تفسیر کی محتاج ہیں اور انسان کو سادہ خیال کرنا انتہائی اشتباہ ہے جبکہ بہت سے اس اشتباہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ فی الحال وہ موضوع کہ شاید جن کی وضاحت کی زیادہ ضرورت ہو وہ ”عشق وپرستش“ اور درحقیقت خود ”عشق“ ہے۔ انسان میں عشق کا ظہور خود ایک عجیب وغریب اور دشوار مسئلہ ہے جو بہت زیادہ تشریح کا محتاج ہے ۔ بعض لوگ عشق کو ایک طرح کی شہوت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عشق جنسی جبلت کی ہیجانی کیفیت کا نام ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں یعنی اس کی ابتدا بھی جنسی جذبہ ہے اور انتہا بھی یہی ہے۔
دوسرے نظریے کے معتقد لوگ کہتے ہیں کہ عشق جنسی جذبے سے شروع ہوتا ہے اور بعد میں لطیف ہوجاتا ہے اور جنسی جذبہ ختم ہو کرایک روحانی حالت میں بدل جاتا ہے۔ ایک اور نظریہ ہے جو بنیادی طور پر دو قسم کے عشق کا قائل ہے۔ ایک جسمانی عشق کہ جس کی ابتدا بھی جسمانی اور انتہا بھی جسمانی ہی ہے اور دوسرا روحانی عشق جس کی بنیاد بھی روحانی ہے اور انتہا بھی روحانی ہے۔
عشق خصوصاً جہاں عبادت اورپرستش ساتھ ہو بلکہ ہر وہ شخص جو حقیقی عشق کے مرحلے تک پہنچ جائے(یعنی شہوات سے جدا ہوجائے) پرستش کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے یعنی یہ دونوں در حقیقت ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ بہرحال انسان میں عشق و پرستش کا مسئلہ بہت زیادہ تحلیل وتفسیر اور تشریح وتوضیح کا محتاج ہے،تحقیق کرنی چاہیے کہ واقعاً اس کے کیا عوامل ہیں۔ آیا قدیم زمانے سے یہ بات جو افلاطون کی طرف نسبت دی گئی ہے اورآج کل بھی ” عشق افلاطونی“ کے نام سے معروف ہے، درست ہے یا نہیں؟ آیا واقعاً انسان میں عشق کے لئے کوئی غیر مادی اور غیر جسمانی عامل موجود ہے؟ آیا انسان میں عشق روحانی بھی پایا جاتا ہے اور وہ کیا چیز ہے ؟
حواشی

۱) اس تفادت کے ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دیگر تفاوتوں کی نفی کریں۔
۲ ) انگریزی میں اسے ”INSTINCT“سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (مترجم)
۳) اس کی زیادہ وضاحت اس لئے کررہا ہوں تاکہ آپ جان لیں کہ یہ انسان کے بارے میں ایک حقیقت ہے اور اس کا تحلیل و تجزیہ بہت ضروری ہے۔ میں قبل ازیں کہہ چکا ہوں کہ انسان کا موضوع دوسرے ہر موضوع سے زیادہ توضیح و تفسیر کا محتاج ہے۔
۴) الحشر۔۹
۵) الدھر۔۹۔۸