سیاسی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب
  • عنوان: سیاسی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب
  • مصنف: حجہ الاسلام و المسلمين مولانا عبداللہ صادقي صاحب
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 19:32:32 1-10-1403


اپ کی خدمت میں کوثرعالم اسلام حضرت فاطمہ زھرا (س) کی شھادت کی مناسبت سے تعزیت عرض ھے اور یہ میری دعا ھے کہ خدا وند عالم، اھلبیت علیھم السلام کے دامن کو ھمارے ھاتہ سے چھوٹنے نہ دے ۔مجھے اس بات کی خوشی ھے کہ خدا وند کریم نے مجھے آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ھونے کی توفیق عطا فرمائی ۔ جس موضوع کا اعلان کیا گیا ھے اور مجھے اس پر گفتگو کرنے کے لئے کھا گیا ھے وہ ھے ”مسلمانوں کی کمزوری اور زوال کے اسباب “۔ یہ ایک وسیع موضوع ھے اور کسی خاص ملک سے مخصوص نھیں ھے ۔ البتہ ممکن ھے کہ اسی ضمن میں میں ھندوستان یا دنیا کے کسی اور گوشہ سے متعلق خاص طور سے کچھ باتیں عرض کروں کہ تاریخی اعتبار سے وھاں کے حالات کیا رھے ھیں ۔
میں اس بحث میں ایک مقدمہ اور سوال عرض کروں گا اور پھر وقت کو پیش نظررکھتے ھوئے اس سوال کے جواب میں چند اھم نکات اپنی توانائی کے مطابق عرض کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اس موضوع پر کافی گفتگو کی جاسکتی ھے۔ البتہ میرے خیال میں ایک گھنٹہ کی اس مختصرسی نشست میں اس بحث کے ھر پھلو پر بات کرنا حدود امکان سے باھر ھے، البتہ بعض اھم نکات اشارتاً بیان کئے جا سکتے ھیں ۔ اگر آپ کو مفید محسوس ھوں تو آپ خود ان اھم نکات کو موضوع قرار دے کر مفصل تحقیق کر سکتے ھیں ۔ یقینا یہ بعض نکات جن کی طرف ابھی اشارہ کروں گا انتھائی اھم اور قابل توجہ ھیں۔
اھل مغرب جس زمانہ میں ظلمتوں اور جھل کی تاریکیوں میں بھٹک رھے تھے وہ قرون وسطیٰ کا دور تھا اور خود اھل مغرب قرون وسطیٰ کو جھالت ، تاریکی ، توحش کا زمانہ اور غیر مھذب دور کھتے ھیں۔ قرون وسطیٰ میں اھل مغرب کی دو خصوصیات خاص طور سے قابل ذکر ھیں: ایک علم دشمنی اور دوسرے تشدد پسندی۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ قرون وسطیٰ میں تدین اور دینداری مذکورہ دو امور سے پیوستہ تھی ۔میں کوئی فیصلہ کن بات نھیں کھنا چاھتا کہ قرون وسطیٰ کا دور تاریکی کا دور تھا یا نھیں تھا، اس لئے کہ کچھ حضرات کا خیال ھے کہ قرون وسطیٰ کے بارے میں جو کچھ کھا جاتا ھے در حقیقت ایسا نھیںھے ۔ بھر حال بطور کلی نہ سھی بہ طور جزئی تو ماننا ھی پڑے گا کہ قرون وسطیٰ میں اخلاقی اقدار کا انحطاط تھا،ضعف و ناتوانی تھی، لوگ غیر مھذب اور وحشی تھے ۔
خدا وند کریم نے اس طرح کے دور میں جزیرہ نمائے حجاز میں ان غیر متمدن عربوں کے بیچ خورشید اسلام طلوع کیا جو خرافات میں گھرے ھوئے تھے اور جن کا اجتماعی اور سیاسی نظام قبائلی زندگی ھی تھی ۔ وھاں سے اسلام کی تھذیب ، تمدن اور علم پوری دنیا پر چھاگیا ۔ اسلام کے اتنے بڑے کارنامے کو کوئی کم نھیں کھہ سکتا ۔ اگر چہ ھم نے خود کچھ بھی نھیں کیا ، ٹھیک سے تبلیغ نھیں کی، اسلام کی صحیح تشریح نھیں کی پھر بھی اسلام کی کامیابی اور اسلامی تھذیب و تمدن کا پھلے جزیرہ نمائے عرب میں اور پھر دوسرے ممالک میں پھیل جانا انصافاً کسی معجزہ سے کم نھیں ھے ۔ مغربی اور مشرقی تاریخ نگا ر کھتے ھیں کہ طلوع اسلام کی پھلی چار صدیوں میں اسلام اس تیز رفتاری سے ترقی کر رھا تھا کہ قریب تھا پوری دنیاکو اپنے پرچم تلے جمع کر لے ۔پھلی چار صدیوں میں اسلامی تھذیب ، علوم ، ھنر ، تمدن اور اجتماعی اور بلدیاتی نظام ترقی پر تھا اور یہ ترقی دنیا کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکی اور یقینا اسلام نے بڑی کامیابی حاصل کی ، خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں واقعاً ایک عظیم کارنامہ انجا م پایا ۔ اپنے تیئس سالہ مکی دور میں سر کار دو عالم ایک ایک فرد پر کام کر رھے تھے اور اسے اسلام کی طرف لا رھے تھے ۔چونکہ وھاں اعلانیہ طور پر معاشرہ میں اسلام کو متعارف کرانے کا امکان نھیں تھا اس لئے آپ نے ھجرت اختیار کی ، ھجرت کا ایک سبب یہ بھی تھاکہ مکہ کے لوگ تبلیغ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتے تھے ۔ اب مدینہ کے تیرہ سالہ دور میں حضور نے کیا کیا ؟ عقل و منطق کے سھارے قبائلی اور محدود زندگی گزارنے والے عربوں کو متحد کر کے ایک نظام تشکیل دیا ، ایک قدرت ایجاد کی ، اور یہ اقتدار کے اعتبار سے اتنی بڑی طاقت تھی کہ حضور کی زندگی کے آخری سال میں آپ کے سامنے سے فرار کرنے والی روم کی بڑی شھنشاھیت تھی ۔آپ جنگ تبوک کو ملاحظہ کریں کوئی جنگ یا لڑائی ھوئی ھی نھیں، فقط ایک ریلی ھوئی ، روم کی بڑی شھنشاھیت پینسٹہ ھزار کا لشکر لے کر چلی ادھر پیغمبر اسلام مدینہ سے تیس ھزار افراد کے ساتھ چل پڑے ۔ جیسے ھی شھنشاہ روم کو اس کی خبر ھوئی کہ حضور تیس ھزار افراد کے ساتھ آرھے ھیں تو وہ اپنے پینسٹہ ھزار کے لشکر کے ساتھ تبوک سے بھاگ گیاچونکہ لڑائی کے لئے تیار ھی نھیں تھا،یہ ایک عظیم کار نامہ یا معجزہ تھا ۔
تھذیبی اعتبار سے بھی مسلمان جھاں جھاں گئے تھذیب و تمدن بھی اپنے ھمراہ لے گئے۔ ایران کو ملاحظہ کیجئے، اھل ایران کا اسلام قبول کرنا کسی جنگ یا مسلمانوں کے ایران پر قبضہ کا نتیجہ نھیں تھا ۔ممکن ھے بعض طاغوتی سلاطین اسلام کے مقابلہ آئے ھوں لیکن عام لوگوں کے سامنے جوں ھی یہ مذھب پیش کیا گیا اور انھوں نے اسے اپنی فطرت سے ھم آھنگ پایا ( آپ مجھ سے بھتر جانتے ھیں اسلام فطرت ، عقل اور سماج سے ھم آھنگ دین ھے جو معاشرہ کی جملہ ضروریات پوری کر سکتا ھے ) تو اس کاپر جوش استقبال کیا ۔ حضور سر کار دو عالم کے بعد بھی ایسا ھی تھا ، طلوع اسلام کی اولین چار صدیوںکا زمانہ اسلامی تمدن، اسلامی ھنر، اخلاق اسلامی اور علوم اسلام کے عروج کا دور سمجھا جاتا ھے۔ لیکن ان چار صدیوں کے بعد مسلمانوں کی تنزلی کا آغاز ھو جاتا ھے ، تھذیب و تمدن اورعلم و ھنر کے میدان میں مسلمان دھیرے دھیرے پچھڑتے چلے جاتے ھیں، حکومت اور عالمی اقتدار کے اعتبار سے کمزور ھوتے چلے جاتے ھیں ، سوال یہ ھے کہ اس کا سبب کیا تھا ؟ یا اسباب کیا تھے ؟ آخر ھوا کیا اسلام جو پھلے چار قرن میں اس طرح سے ترقی کر رھا تھا کہ خود اھل مغرب نے بھی لکھا کہ اسلام کی یہ ترقی دنیا پر مسلمانوں کے قبضہ کی عکاسی کرتی تھی، جسے علم و تمدن کی تلاش ھوتی وہ مسلمانوں کی چوکھٹ پرپیشانی رکھتا تھا، اسلام کے خوان علم سے کسب فیض کرتا تھا ۔ اب کیا ھو گیا اس تنزلی کے اسباب کیا تھے ؟ کیا اسلام سے استفادہ کا وقت ختم ھو چکا تھا بعض دوسرے مکاتب فکر کی طرح ؟ میں خود سے کوئی موازنہ نھیں کرنا چاھتا ، البتہ کھتے ھیں کہ حضرت موسیٰ ایک زمانے تک بنی اسرائیل کو عروج پر لے گئے پھر ان کا تنزل شروع ھو گیا ۔ کیا اسلام کی کیفیت بھی یھی ھے ؟یا جیسے حضرت عیسیٰ (ع) نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے تھے لیکن آخر کار کچھ بھی نھیں رھا ۔کیا اسلام آوٹ آف ڈیٹ ( Out of date) ھو چکا تھا اس کے استعمال کا وقت ختم ھو چکا تھا یا کچھ اور اسباب تھے مسلمانوں کی تنزلی کے ؟ میرا اصلی سوال یہ ھے، اب دیکھتا ھوں کہ کتنی فرصت ملتی ھے جس میں اس کا جواب دے سکوں ۔ وہ کون سے اسباب تھے جنکے باعث چوتھی صدی کے بعد سے عالم اسلام میں دھیرے دھیرے اضمحلال و ناتوانی اور انحطاط و تنزلی عام طور سے دکھائی دینے لگی ۔
ممکن ھے آئندہ پھر اسلام کا نام تمدن اور اقتدار کے ساتھ ساتھ لیا جانے لگے لیکن حالیہ صورتحال یہ ھے کہ دنیا کا ھر پانچواں آدمی مسلمان ھے، دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ھے ۔ آپ جانتے ھیں بعض مردم شماریوں میں مسلمانوں کی تعدا د ایک عرب تیس کڑوڑ ستر لاکہ تک بتائی جاتی ھے ، جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے اھم ترین Strategic points مسلمانوں کے ھاتہ میں ھیں ۔ یعنی جن ممالک میں مسلمان سکونت پذیر ھیں وہ دنیا کے دوسرے علاقوں کی بنسبت نھایت حساس مانے جاتے ھیں ۔ قدرتی ذخائر اور منابع کے لحاظ سے اسلامی ممالک دنیا میں سب سے زیادہ قوی ھیں،لیکن تھذیب و تمدن اور اقتدار کے اعتبار سے مسلمان اغیار کے محتاج ھیں ۔ دنیا والوں کو ان کی باتیں سمجھ ھی میںنھیں آتیں ،خود مسلمانوں کا عمومی نقطہ نظر یہ ھے کہ مغرب سے علاحدہ ھو کر نہ کوئی تمدن قائم کیا جا سکتا ھے اور نہ ھی اقتدار تک رسائی ممکن ھے ۔ کبھی کبھی ایران کے اسلامی انقلاب کو بھی لوگ مشورہ دیتے ھیں کہ اگر زندہ رھنا چاھتے ھو تو اسلامی اقدار کو ترک کر کے مغرب سے ھاتہ ملا لو یا قرآن مجید کے الفاظ میں کھا جائے کہ ان کی غلامی قبول کر لو ۔ قرآن مجید نے یھود و نصاریٰ سے متعلق کیا خوب فرمایا ھے کہ ” لن ترضیٰ عنک الیھود ولا النصاریٰ“ کہ تم سے کسی چیز پر راضی نھیں ھوں گے اور اگر راضی ھوں گے بھی تو کس بات پر ” حتیٰ تتبع ملتھم “ اس سے کم پر یہ راضی ھی نھیں ھیں۔” یہ لوگ مختلف تھذیبوں کے ما بین گفتگو “کے معتقد نھیں ھیں، انھیں منطقی اعتبار سے کوئی صلح و صفائی نھیں کرنا ھے ۔ یہ صرف بادشاہ اور رعایا والا نظام چاھتے ھیں، ا ن کی کوسش فقط یہ ھے کہ آپ تسلیم کر لیں کہ یہ آپ کے آقا اور آپ ان کے غلام ھیں، یہ حکم فرما ھیں اور آپ مطیع و فرماں بردار ۔ بڑے افسوس کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ سوچتے ھیں کہ استکباری طاقتوں سے مذاکرات کئے جا سکتے ھیں ، ان سے منطقی گفتگو کی جا سکتی ھے ۔ نھیں بلکہ ھمیں یہ دیکھنا ھو گا کہ مغربی تھذیبوں کے ما بین گفتگو کیوں کر انجام دی جائے ۔ اس بات پر کافی توجہ کی ضرورت ھے کہ تنزلی کے اسباب کیا تھے ؟ اس کے جواب سے قبل میں ایک بات کھنا چاھوں گا ۔ اسلام کی پھلی چار صدیاں کو ن سی تھیں؟ شیعوں کے لئے یہ نقطہ قابل افتخار ھے ۔ ائمہ معصومین (ع) اگر سیاست میں بھی ھوں تب بھی ھم امام معصوم (ع)کے وجود اوران سے ارتباط سے ھر گز محروم نھیں ھیں اور یہ رابطہ آج بھی بر قرار ھے ۔
دیکھئے یہ بڑا باریک نقطہ ھے جس کی طرف اھل مغرب قطعی متوجہ نہ ھو سکے، انھوں نے صرف اتنا کھا کہ طلوع اسلام کی پھلی چار صدیوں میں مسلمان ترقی کر رھے تھے، ان کا تمدن پھیلتا جا رھا تھااور اس کے بعد تنزلی کی طرف آنے لگے ،چوتھی صدی کے اواخر سے پچھڑنے لگے ، لیکن اھل مغرب یہ نہ سمجھ سکے کہ ایسا کیوں تھا کہ پھلی چار صدیوں میں مسلمان علم و تمدن میں مستقل ترقی کر رھے تھے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہ امام معصوم (ع)کی برکت تھی ۔ اب ایسا کیوں ھوا کہ امام معصوم(ع) اپنے فیوض و برکات کے ھمراہ پردہ غیبت میں چلے گئے، مرکز لطف الٰھی لوگوں کے سامنے نہ رھا۔یہ میری گفتگو کا موضوع نھیں ھے ، البتہ بھت ھی قابل توجہ امر ھے۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اس موضوع پر بھی کام کریں ۔ بڑے افسوس کی بات ھے کہ امام معصوم(ع) غائب ھیں،کب ظھور فرمائیں گے ،اس سے متعلق بھت ساری تحریفات ھوئی ھیں ۔ عام تصور یہ ھے کہ امام تب ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی ۔ ھاں ! یہ بھی ایک شرط ھے اور ھماری روایات میں بھی یہ وارد ھوا ھے لیکن بنیادی شرط ایک دوسری شرط ھے ھمیں وہ شرط تلاش کرنی چاھئے اور وہ بنیادی شرط یہ ھے کہ ظلم و جور اتنا بڑہ جائے گا کہ انسان تھک ھار کر یہ سمجھے گا کہ مشرق یا مغرب سوشلزم یا لبرالزم کوئی کچھ بھی نھیں کر سکتا ۔ انسان خدائی حکومت کا پیاسا ھو جائے گا ۔ دعا کے لئے ھاتہ اٹھا کر کھے گا خدا یا غلطی ھوگئی ، مجھ میں اپنے اوپر حکومت کرنے کی طاقت نھیں ھے اب تو مجھ پر حکومت کر ! خدا کھے گا اب تمھاری سمجھ میں آیا ! ٹھیک ھے اب میرا خلیفہ ،نائب اور جانشین ظھو ر کرے گا ۔ امام معصوم (ع)نے غیبت اختیار کیوں کی تھی ؟ کیونکہ تم نے یہ نورانی چراغ ایک ایک کر کے بجھا دئے تھے۔
اب امام زمانہ (ع) آپ کے پاس آنے والے ھیں تو آپ اپنے اندر ان کی استقبال کی صلاحیت پیدا کیجئے۔ اپنے آپ کو تشنہٴ امام زمانہ (ع) بنائیے ۔ ایک مسلمان اور مومن ھونے کے ناطے آپ یہ کیجئے ! ظلم و جور پھیلانا دوسروں کا کام ھے ۔ بعض لوگ تو کھتے ھیں کہ کوئی بھی اسلامی عمل امام عصر (ع) کی تحریک کی شروعات میں رکاوٹ بنتا ھے ۔ ھرگز ایسا نھیں ھے، دنیا میں تو فساد ھے ھی آپ اس کی فکر نہ کیجئے ۔ اس کے بعد کی فکر کیجئے ۔ ظلم و جور زیادہ ھو جائے آخر کیوں ؟ یعنی فساد اتنا بڑہ جائے کہ انسان تنگ آجائے، تھک ھار کے بیٹھ جائے ، یوسیڈزم کے معنی پتہ نھیں میں نے آپ کے سامنے عرض کئے ھیں یا نھیں ۔ اس کے عجیب و غریب معنی بیان کئے جاتے ھیں یعنی دنیائے غرب اس سال یہ کھہ رھی ھے کہ ھم اس جگہ پھونچ چکے ھیں جھاں سے نہ آگے جا سکتے ھیں اور نہ پیچھے آسکتے ھیں ، نہ قرون وسطیٰ ھمیں کھیں پھونچا سکا اور نہ ھی ماڈرنزم ، یعنی قرون وسطیٰ کے دور کے فساد کا ایک اور رخ تھا اور ماڈرنزم کے فساد کا ایک دوسرا رخ ھے ۔یھاں پر اگر ھم اور آپ صحیح معنی میں دنیا کواسلام سے متعارف کر اسکیں تو دنیا با آسانی یہ سمجھ جائے گی کہ اس کی رھائی کا راستہ فقط اسلام ھے ۔
بھر حال سوال یہ تھا کہ اتنے عروج کے بعد مسلمان تنزلی کا شکار کیوں ھو گئے ؟ میں پھر آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آغاز اسلام کی پھلی چار صدیوں کا بغور مطالعہ کیجئے ، دیکھئے عالم اسلام کی ان پھلی چار صدیوں کو ”ورڈیڈ “کس انداز میں بیان کرتا ھے ؟ خود مسلمان مورخین کیا کھتے ھیں ؟ خود اپنی جگہ ھماری کتاب و سنت نے کس عظیم تمدن کی تاسیس کی ھے ؟
اھل مغرب کیا کھتے ھیں یہ میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ھوں ۔خود اھل مغرب کے بقول اسلام اس عروج پر تھا کہ اسلامی شھر علم و تمدن کا گھوارہ کھے جاتے تھے ،بغداد مرکز تمدن کے طور پر جانا جاتا تھا ۔اھل مغرب کو جس زمانے میں شھری زندگی کی خبر تک نھیں تھی مسلمان اسلامی ممالک میں علم و ھنر اور بھترین اجتماعی اخلاق کے ساتھ مھذب ترین شھری کی حیثیت سے زندگی گزار رھے تھے ۔ دشمن اپنی زندگی دیکہ رھا ھے ، جھاں تک خود اھل مغرب نے اعتراف کیا ھے ویل ڈورنٹ اعتراف کرتا ھے ۔ مغرب میں نشأ ت الثانیہ(renaissance) کا وجود میں آنا ،نشأت الثانیہ کا مطلب فارسی میں نوزائی ھوتا ھے یا میرے اپنے الفاظ میں ” تولد جدید “۔نشأ ت الثانیہ کے وجود میں آنے کے چند اسباب ھیں۔ ان میں سے ایک اھم ترین سبب صلیبی جنگوں کے دوران علم و تمدن کا مغرب کی طرف منتقل ھونا ھے ۔ آئیے پھر سے دیکھتے ھیں اھل مغرب نے کیا لکھا ھے ۔ کھتے ھیں کہ صلیبی جنگوں میں ایلٹیلیا جو سب سے بڑا مال غنیمت لے کر گیا وہ ، وہ چھوٹی چھوٹی کشتیاں تھیں جن میں مشرقی اور اسلامی ممالک کے کتب خانے اور علوم مغرب کی طرف منتقل کئے جارھے تھے ۔ میں آپ سے ایک بات کھنا چاھتا ھوں بڑی عجیب بات ھے خود اھل مغرب کھتے ھیں، بڑی توجہ کی ضرورت ھے، توجہ فرمائیے گا،کھتے ھیں کہ مغرب کو خود اپنی قدیم تھذیب کی کوئی شناخت نھیں تھی ، نہ ارسطو کو جانتے تھے نہ افلاطون کو اور نہ ھی سھراب کے بارے میں کوئی خبر رکھتے تھے ۔ صلیبی جنگوں کے دوران، قدیم یونانی کتب کے عربی تراجم کو دیکہ کر سمجھے کہ کوئی ارسطو ، سقراط اور افلاطون بھی تھے ۔ اس وقت انھیں خود اپنے قدیم علماء اوراسکالرز کی خبر ھوئی یعنی خود اپنے علماء کی انھیں کوئی شناخت نھیں تھی اور یہ شناخت بھی انھیں مشرق ھی سے حاصل ھوئی ۔ جیسا کہ میں نے کھا کل رھبر انقلاب اسلامی کا اشارہ بھی یھی تھا کہ ھم مغربیوں کے استاد تھے، انھوں نے ھر چیز ھم سے سیکھی، ھمارے شاگرد تھے اور آج ھمارے آقا و مولا بن گئے ۔ وہ سب کچھ یھیں سے لے کر گئے ھیں ۔ اب ھندوستانی مسلمانوں کی مشکلات اور ان کی پسماندگی کے کیا اسباب تھے ۔ میں کچھ بنیادی باتیں عرض کرنا چاھوں گا ۔
پھلی بات اور پھلا سبب جو سب سے زیادہ اھم اور قابل توجہ ھے وہ حقیقی اسلام سے دوری ھے ۔ اسلام میں تحریف کر دی گئی، اسلام کے ساتھ بھی وھی ھوا جو اس سے قبل کے ادیان کے ساتھ ھوا ۔ اس مقدس کتاب کی آیات اور الفاظ تو بدل نہ سکے جس طرح توریت اور انجیل میں الفاظ کی تحریف ھوئی ،وہ تو نہ کر سکے لیکن کلام الٰھی میں معنوی تحریف کر دی گئی ، مختصراً یوں کھا جائے کہ اسلام کی روح نکال کر اسے ایک بے روح نقش میں بدل دیا گیا ۔
ایک بورڈیا پردہ پر اگر شیر جیسے قوی درندے کی پینٹنگ ھو تو اس سے کون ڈرتا ھے ؟کون اس سے ڈرے گا؟ اس شیر سے وھی شخص بھاگے گا جس کے خیال میں یہ واقعی اور اصلی ھو ۔ لیکن پینٹنگ کے سامنے ایک دوسال کا بچہ بھی آکر کھڑا ھو جاتا ھے اور ھرگز نھیں ڈرتا۔،پانی کے کسی حسین چشمہ کی پینٹنگ کسی کی پیاس نھیں بجھاسکتی اور نہ کوئی اور فائدہ پھونچا سکتی ھے ۔ اسلام چشمہ حیات کا نام ھے ، اسلام ایک عظیم طاقت کا نام ھے، لیکن شرط یہ ھے کہ اسلام واقعی اور اصلی ھو، اسلام کی نقاشی یا پینٹنگ کسی کام کی نھیں ھے ۔ جب قرآن میں توریت وانجیل جیسی تحریف نہ کر سکے تو اس کے معنی اور تفسیر بدل دی تو مسلمان دھیرے دھیرے اصلی اسلام سے دور ھوتے چلے گئے ۔ اصلی اسلام وھی ھے جسے امام خمینی ۺ اسلام ناب کھتے تھے، یعنی روح و جان والا اسلام ، ترقی پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے والا اسلام،اسلام یعنی مکتب زندگی ۔اسلام شخصی اور انفرادی احکام اور چند آداب و رسوم کا نام نھیں ھے ۔ کچھ لوگ اس بات کو پھر سے زندہ کرنا چاھتے ھیں کہ دین ھر شخص کا انفرادی معاملہ ھے، آپ اس بات کو سنجیدگی سے لیجئے ،اس کے پیچھے ایک بڑی سازش کا ر فرما ھے ۔یہ دین کو بے کار کر دینے کا ایک حربہ ھے ۔ یہ لوگ کھتے ھیں کہ دین کا کام فقط بندے کو خدا سے جوڑنا ھے اس کے علاوہ دین کسی کام کا نھیں ھے ۔ انسان کا رابطہ خدا سے بر قرار کرانا ، یہ دین کا کام ھے۔ لیکن ایک انسان کا رابطہ دوسرے انسانوں سے کیسا ھو اس میں دین کا کوئی عمل دخل نھیں ھے ۔ دین آخرت آباد کرنے کے لئے آیا ھے نہ کہ دنیا آباد کرنے کی خاطر اور وہ بھی اس آخرت کو آباد کرنے کے لئے جو دنیا کے بالکل مقابل ھے ۔
مختصر یہ کہ دین کی بھت ساری تعریفات کی جاتی ھیں۔ میں اس موضوع پر کچھ نھیں کھنا چاھتا ۔ شروع سے یہ ھوتا چلا آیا ھے اور اب بھی کوئی نہ کوئی ایسا کرنے والا نکل ھی آتا ھے۔ ایک نمونہ عرض کرتا ھوں ۔رحلت پیغمبر اسلام کے بعدصحابہ کے زمانے میں ھی اسلام میں اتنی بڑی تحریف کی گئی کہ اسلام مر گیا یا دوسرے لفظوں میں کھوں نماز تھی ، محراب عبادت تھی ، لیکن کسی کام کی نھیں۔ یہ وھی اسلام ھے جس میں قرآن مجید ولایت اھلبیت (ع) سے جدا سمجھا جاتا ھے ۔لھذا یہ اسلام کسی کام کا نھیں ھوتا ۔ دیکھئے قرآن اور سنت دونوں نے یہ بات بھت زور دے کر کھی ھے کہ اسلام کے دو حصے ھیں۔ خدا وند کریم اس وقت اس دین سے راضی ھوا ھے جب قرآن اور وحی الٰھی جیسے آئین کے ساتھ ساتھ ولایت اھلبیت (ع) یعنی اس قرآن کے مفسر و مبین بھی ھوں ۔قرآن اور سنت دونوںنے اس بات کی بھت تاکید کی ھے، میں تفصیل میں نھیں جانا چاھتا آپ مجھ سے بھتر جانتے ھیں ۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں کھا کہ اسلام ایک کامل دین بن چکا ھے، خدا کی نعمتیں مکمل ھو چکی ھیں اور ان سب سے بڑہ کر یہ کہ خدا اس دین سے راضی ھو گیا ھے ۔ ” رضیت لکم الاسلام دینا “ یہ” رضیت “یعنی تائید اور دستخط یعنی میں نے پسند کر لیا ھے ، قبول کر لیا ھے ۔ مطلب یہ کہ خدا وند کریم نے اس اسلام پر مھر تائید لگائی ھے جو اسلام ولایت اھلبیت علیھم السلام کے ساتھ ساتھ ھو ۔ ولایت سے جدا اسلام سے خدا راضی نھیں ھے ۔یہ ایک حقیقت ھے ۔خدا نے کس اسلام کو دشمن کے لئے زور دار طمانچہ قرار دیا ھے ؟ کون سا اسلام استکباری طاقتوں سے نبر د آزما ھے ؟ کون سا اسلام دشمنوں کو آپ پر حکومت کرنے کی لالچ سے دور رکھتا ھے ؟ ” الیوم یئس الذین کفرو من دینکم “ کون سا اسلام دشمنوں کے لئے یاس و نا امیدی کا سبب ھے ؟ صرف وھی اسلام جس میں اھلبیت اطھار ولایت رکھتے ھوں ۔
یہ بحث کافی مفصل ھے ، ساری تفصیلات میں جانے کا وقت نھیں ھے ۔ آپ سب جانتے ھیں مجھ سے زیادہ آپ نے اس موضوع پر کام کیا ھو گا ۔پیغمبر نے بھی اسی بات کی تاکید کی ھے ۔ بھت ھی کم کوئی حدیث ھو گی جو اپنی عظمت اور تواتر میں حدیث ثقلین کے ھم پلہ ھو ۔ ٹھیک ھے یا نھیں ؟! شیعہ اور سنی دونوں میں حدیث ثقلین جیسی حدیث متواتر شاذ و نادر ھی ملے گی ۔ حدیث ثقلین میں پیغمبر کس بات پر زور دے رھے ھیں ۔ میں دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاھوں گا اوریہ دونوں باتیں بھت ھی اھم ھیں ۔ پیغمبر اسلام انھیں دو باتوں پر زور دے رھے ھیں تاکید کر رھے ھیں۔ ایک یہ کہ ” قرآن کا عترت و ولایت سے جدا نہ ھونا “ اس کا مطلب کیا ھے ؟ قرآن مجید ولایت سے اور عترت سے جدا نھیں ھے۔ اس جملہ کا کیا مفھوم ھے ؟ کیا اس کا مفھوم یہ ھے کہ اگر قرآن ولایت سے جدا ھو گیا تو وہ قرآن نھیں رھے گا؛نھیں قرآن تو ھے لیکن اس میں وہ روح اور حیات نھیں ھے جس کے پیغمبرطلبگار ھیں ، قرآن مجید کھتا ھے کہ پیغمبر اور اس قرآن کا کام کیا ھے ؟ سورۂ انفال کی پچیسویں آیت میں قرآن مجید پیغمبر کی اطاعت کی کیا خاصیت بیان کر رھا ھے ؟ ” یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا لِلّٰہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم “ اسلام اس لئے آیا ھے تاکہ تمھیں حیات طیبہ عطا کرے، تمھیں حیوان کے درجہ سے نکال کر انسان کے درجہ تک پھونچا دے۔ اس ماڈرن دور میں ھیومنزم(Humanism)کھتا ھے کہ خدا کے بجائے مرکزیت انسان کوحاصل ھونا چاھئے ۔ ھیومنزم کی لغت میں وہ کون سا انسان ھے جو مرکز بن سکتاھے محور قرار پا سکتا ھے اگر خدا ملجاء و ماٴویٰ نہ ھو؟ کھتا ھے کہ خدا کی جگہ ھر انسان محو ر و مرکز بن سکتا ھے ۔ ھمارا اور آپ کا قرآن کیا کھتا ھے ؟ قرآن مجید چودہ سو سال پھلے فرما رھا ھے کہ انسان اس وقت تک انسان بن ھی نھیں سکتا جب تک کہ خدا کو محور و مرکز قرار نہ دے ۔
کتنی اچھی اور حسین بات ھے کہ تم انسان بن ھی نھیں سکتے، تم میں حیات انسانی آھی نھیں سکتی خدا کو محور بنائے بغیر،کیوں ؟ اس لئے کہ تمھارے وجود کا ایک بھت بڑا امر صرف خدا سے مخصوص ھے ۔ تم ایک نا محدود موجود ھو ، تم ایک ایسی مخلوق ھو جو کبھی سیر ھو ھی نھیں سکتی لھذا ایک دوسرے مقام پر ارشاد ھوا کہ مال و دولت جاہ و منصب ھر چیز سے ھٹ کر انسان جب خدا کو چھوڑ دے تو یہ انسان بے چینی و اضطراب اور نفسیاتی مرض کا شکار ھوتا ھے ” و من اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا“ ۔واقعاً بڑی پیاری بات ھے۔ قرآن مجید عجیب و غریب کتاب ھے۔ خدا ھم مسلمانوں کو توفیق دے کہ ھم قرآن کی طرف پلٹ آئیں ۔بھر حال ایک بھت بڑا انحراف وھاں سے شروع ھو گیا ، پھلے جملہ میں پیغمبر قرآن و اھلبیت علیھم السلام کے ایک دوسرے سے جدا نہ ھونے کا ذکر فرما رھے ھیں ، حدیث کا دوسرا جملہ بھی بھت اھم ھے ۔ حدیث ثقلین کی طرف کم توجہ دی جاتی ھے لیکن میرے لئے اس کا یہ نکتہ بھت ھی اھمیت رکھتا ھے ۔ صادق و مصدق پیغمبر نے اس حدیث میں ایک غیبی خبر دی ھے ” ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا “ ۔یہ بات ھمارے موضوع سے متعلق ھے ۔ مسلمانو! جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھو گے کبھی گمراہ نہ ھو گے ، منحرف نھیں ھو گے ۔
اس کا مطلب کیا ھے؟ اس کا مطلب یہ ھے کہ اے نوجوانو! سنو تم مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب معلوم کرنے کے لئے یھاں جمع ھوئے ھو ۔ دیکھو تم کو جو بھی پریشانی لاحق ھو ،جو بھی بلا تمھارے سر پر نازل ھو تو یہ دیکھو کہ قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے کس قدر دور ھو چکے ھو؟ یہ سب اسی دوری کے باعث ھے۔اس لئے کہ پیغمبر خاتم نے ھم سے یھی فرمایا ھے کہ جب تک تم ان دونوں یعنی قرآن و اھلبیت (ع) سے متمسک رھو گے ” لن تضلوا ابدا “ ”لن“ نفی ابد کے لئے آتا ھے ۔اس کلمہ ابد کی تشریح یھی ھو گی کہ تا قیام قیامت تمھاری ھر قسم کی تنزلی ، کمزوری اور ھر طرح کا نقصان جو تمھیں اٹھانا پڑے وہ صرف قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے دوری ھی کی بنیاد پر ھو گا، یہ ایک حقیقت ھے۔ آپ جانتے ھیںکہ دشمن بھی اچھی طرح سمجھ چکے ھیں کہ اگر انھیں مسلمانوں کے سروں پر سوار رھنا ھے تو مسلمانوں سے قرآن مجید کے اثرات و برکات ختم کرنا ھے تو کیا کریںکہ یہ قرآن مسلمانوں میں تحرک پیدا نہ کر سکے،اس کے لئے کون سا حربہ اختیار کریں ؟ یا امام خمینی ۺ کے الفاظ میں کھا جائے کہ مسلمانوں کو جوش و خروش ، تحرک اور جھاد سے روکنے کے لئے کیا کریں ؟ اس کا فقط ایک راستہ ھے اور وہ قرآن و اھلبیت (ع) میں جدائی ڈالنا ھے۔”حسبنا کتاب اللہ “کا جملہ آپ سنتے رھتے ھیں ۔آپ نے کبھی سوچا ھے ”حسبنا کتاب اللہ “کے جملہ نے ایک تیر دو شکار والا کام کیا ھے ۔ ایک کھتا ھے کتاب کافی ھے قرآن ھمارے پاس ھے پس ولایت کی کوئی ضرورت نھیں ھے ۔ حضور آپ نے ھمارے درمیان دو ھی تو چیزیں چھوڑی ھیں نا ! قرآن و اھلبیت ۔سر کار آپ کا بھت بھت شکریہ ! ھم سب کے پاس قرآن ھے پس علی (ع) کی کوئی ضرورت نھیں ھے ۔ ولایت ھمیں نھیں چاھئے ۔ جناب سیدہ (س) کے شھادت کے ایام چل رھے ھیں آپ کو معلوم ھے زھرائے مرضیہ کی شھادت کا سبب کیا تھا ؟ سب سے زیادہ جس بات نے جناب زھرا(س) کو تکلیف پھونچائی وہ یہ تھی کہ پیغمبر اسلام کے بعد عالم اسلام میں انحرافات و تحریفات ایجاد کی جارھی تھیں ۔ زھرا و علی مرتضیٰ علیھما السلام اس پر غمزدہ ھو کر لوگوں سے کھتے تھے مسلمانو! تمھیں کیا ھو گیا ھے ،کیوں راہ راست سے منحرف ھو گئے ھو ؟ تو مسلمانوں کا جواب یہ ھوتا تھاکہ اے زھرا اتنی دنیا طلبی بھی اچھی نھیں ھوتی، آپ کو اس بات کا غم ھے کہ آپ کے شوھر خلیفہ نھیں بن سکے اور آپ ملکہ نھیں ھیں !! زھرا (س) کو پشت در سے یہ بھی سننا پڑا ، سیدہ (س) مار کھانے کی وجہ سے شھید نھیں ھوئیں ،بلکہ یہ سب دیکہ اور سن کر آپ کا دل پاش پاش ھو چکا تھا جس کی وجہ سے آپ شھادت سے ھم آغوش ھو گئیں ۔ مجھے غم ھے عالم اسلام میں انحرافات رونما ھونے کا اور تم مجھ پر دنیا طلبی کا الزام لگا رھے ھو ! یہ ایک مصداق ھے جس کا میں نے ذکر کیا ھے ۔
آغاز اسلام ھی سے دین میں ھونے والی یہ تحریفات بعد میں اشعری مکتب فکر کے وجود میں آنے کا سبب بنیں۔ مسلمانوں کی تنزلی میں اشعری مکتب فکر نے بڑاا ھم رول ادا کیا ھے ۔ آپ جانتے ھیں اکثر خلفاء اشعری مکتب فکر کی ھی طرفداری کرتے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ مسلمانوں کی تنزلی میں اس مکتب فکر کا بڑا اھم رول ھے، آپ پوچھیں گے کیوں ؟ اس نے ایسا کیاکیا ھے ؟ تو میں ان کی دو باتیں عرض کرتا ھوں اور اگر دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ یہ دو باتیں اسلام کا حصہ ھیں تو انھیں اسلام سے نفرت رکھنے کا پورا پورا حق ھے اور یھی دو چیزیں اشعری فکر کی بنیاد ھیں ۔ اشعری نے پھلی چیز جو پیش کی وہ یہ ھے کہ انسان کو کوئی اختیار نھیں ھے ، توحید یعنی جبر۔ توحید ، افعالی بھی ھوتی ھے اور توحید افعالی کا مطلب یہ ھے کہ فاعل مختار فقط خدا کی ذات ھے تو اگر فاعل مختار فقط خدا ھے تو بقیہ فاعل کس فھرست میں آئیں گے ؟ یقینا فاعل مجبور کی فھرست میں یعنی سب کے سب فاعل مجبورھیں ۔ اشعری نے انسان سے اختیار سلب کر لیا۔ اس کے بعد اسے ایک اور مشکل پیش آگئی اور وہ یہ کہ اگر فاعل مختار فقط خدا ھے اور انسان جو کچھ بھی کرتا ھے وہ خدا وند عالم کے حکم کے تحت کرتا ھے تو پھر انسان جو برے اعمال انجام دیتا ھے ان کی کیا توجیہ ھو گی ؟ کیا وہ بھی خداھی کرواتا ھے ؟ ؟!!ھم بعض ایسے افعال بھی انجام دیتے ھیں جو یقینا برے ھیں تویہ مکتب کھتا ھے کہ کس نے آپ سے کھا کہ فلاں کام اچھا ھے اور فلاں کام برا ھے ۔ اشیاء اور افعال میں حسن و قبح عقلی و ذاتی پایا ھی نھیں جاتا۔
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ اشعری نے دو چیز یں انسان سے سلب کیں، ایک اختیار اور دوسرے عقل اور قدرت تشخیص ۔ اب میں آپ سے پوچھتا ھوں کہ اگر یہ دو چیزیں انسان سے چھین لی جائیں تو پھر باقی کیا بچتا ھے ؟ اسلام کو اس طرح سے پھچنوایا گیا ، ایک ایسا اسلام جس میں انسان ایک بے ارادہ اور بے اختیار موجود ھو، جس میں انسان کو اتنا بھی فیصلہ کرنے کا حق نہ ھو کہ یہ پانی میٹھا ھے اچھا ھے یا برا ھے۔ تو میں آپ سے پوچھتا ھوں کہ کیا ایسا اسلام انسانوں کو زندگی عطا کر سکتاھے ؟ یھی میرا درد دل ھے۔ قرآن کو اھلبیت (ع) سے جدا کرنے کے نتیجہ میں عالم اسلام پر مصیبتوں کے پھاڑ ٹوٹے ھیں ۔ قرآن کو اھلبیت (ع) سے جدا کرنے کا نتیجہ تھا کہ خلفائے ثلاثہ ھی کے دور میں ، کعب الاحبار اور عبد اللہ بن سلام جیسے لوگوں کو قرآن میں اسرائیلیات وارد کرنے کا موقع مل گیا ، بھت سارے یھودی مفسر قرآن بن گئے۔،صحیح بات ھے جب علی (ع) سے تفسیر نہ پوچھی جائے گی جب آپ در علی (ع) سے دار القرآن میں داخل نہ ھوں گے ، ولایت کو قرآن سے الگ رکھیں گے تو کعب الاحبار جیسے لوگ منبر نشین ھوں گے اور عبد اللہ ابن سلام جیسے لوگ مفسر قرآن ۔آپ کے فقھاء وہ ھوں گے جنھیں روح قرآن کی خبر تک نھیں ھے ۔
اسلامی فقہ میں قیاس و استحسان کیسے وارد ھوا ؟ جب پھنس گئے اور جدید سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو امام باقر(ع) اور امام صادق (ع) کے پاس تو گئے نھیں، مجبور تھے کیا کرتے قیاس و استحسان کا سھارا لے لیا ۔ کلام میں کچھ لوگوں نے صرف آیات جبر پر توجہ دی۔ ” و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ “ کھنے لگے کام میں انجام دیتا ھوں لیکن بغیر اپنے اختیار کے ۔ بھت نقصان ھوا ھے اسلام کو ۔ اسلام میں جو بھی کجی آئی ھے وہ صرف قرآن کو ولایت سے جدا کرنے کا نتیجہ ھے ، اسلام میں تحریفات بھت زیادہ ھیں۔ میں نے توچند ایک باتیں بطور نمونہ پیش کی ھیں ۔ میرا دل چاھتا ھے کہ آپ خود اس موضوع پر کام کریں کہ طلوع اسلام کے آغاز ھی سے کیا کیا خرافات مذھبی کلچر میں داخل کر دیئے گئے، لیکن چونکہ اس دور میں ائمہ معصومین علیھم السلام موجود تھے لھذا اسلام نے عجیب و غریب ترقی کی ۔ اب بھی بھت سارے انحرافات دین میں داخل کئے جا رھے ھیں ۔ آغا ز اسلام کے خرافات کے چند نمونے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کئے اب ایک نمونہ آج کے خرافات کابھی سن لیجئے ۔ دین میں تحریف کی آج جو بڑی کوشش کی جارھی ھے اس کے دائرہ کار کو محدود کرنا ضروری ھے ۔ کھتے ھیں اسلام اچھا ھے ، دین اچھا ھے لیکن اس کا دائرۂ کار صرف انسان کے انفرادی اور عبادی مسائل تک محدود ھے ۔ اسلام میں نہ سیاست ھے اور نہ ھی اقتصاد ۔بعض اھل مغرب سے متاثر اور ان کی فکر سے دھوکہ کھائے ھوئے ھمارے اپنے پڑھے لکھے لوگ بھی کھتے ھیں کہ دین سے یہ امید رکھنا ھی نھیں چاھئے کہ یہ تمھاری دنیا آباد کر دے گا ،لھذا حکومت میں دین کو مرکزی حیثیت دینا فضول ھے یعنی وھی سیکولرزم کا الاپ ۔
مجھے نھیں معلوم اس طرح کی مجالس میں سیکولرزم سے متعلق کس قدر گفتگو کی جاتی ھے۔ عالم اسلام کے دشمنوںکی طرف سے اس وقت مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یھی سیکولرزم ھے ۔ پھلا اھم ترین مورچہ اور سب سے بڑا چیلنج سیکولرزم ھے۔ سیکولرزم کا کھنا یہ ھے کہ ایسا اسلام جس میں سیاست نہ ھو ، اقتصاد نہ ھو ، حکومت نہ ھو، ایسے اسلام سے ھمارانہ کوئی اختلاف ھے اور نہ جھگڑا ۔ جھگڑے اور اختلاف کی بات یہ ھے کہ حکومت ایک ولی فقیہ کے ھاتہ میں ھو ،ایک دینی رھبر کے ھاتہ میں ھو۔آج اکثر مسلمانوں کے ضعف اور انحطاط کا باعث سیکولرزم کو قبول کر لینا ھے ۔ سیکولرزم کے حامی انقلاب اسلامی کے دشمن ھیں۔ وہ کھتے ھیں کہ اسلامی انقلاب نھیں ھونا چاھئے اس لئے کہ اسلامی انقلاب سیکولرزم کی مخالفت کرتا ھے ۔ ان کا کھنا ھے کہ اسلام دین زندگی نھیں ھے ۔ارے بھائی! اسلام دنیا ھی کوتو آباد کرنے کے لئے آیا ھے ،دنیا آباد کرنے کے ھی نتیجہ میں آخرت بھی آباد ھوتی ھے ۔ بنیادی طور سے دنیا اور آخرت کا تقابل ھی غلط ھے ۔ دین ھمیں سکھاتا ھے کہ اپنی آخرت اسی دنیا ھی میں بنا لیں۔ دین دنیا کو آباد کرتا ھے ،دنیا کے لئے اسلام کے بھترین قوانین ھیں۔ ایک دو کی طرف میں اشارہ کرنا چاھوں گا ۔ مثلا ً وھی جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ انسان یہ نہ سوچے کہ خدا کو چھوڑ کر وہ مالک بن جائے گا ،یہ نہ سوچے کہ خدا کو چھوڑ کر اسے مرکز یت حاصل ھو جائے گی بلکہ خدا سے الگ ھٹ کر انسان چوپائے میں تبدیل ھو جاتا ھے۔ تمھیں اگر انسان بننا ھے تو خدا کو محور بنانا ھو گا۔ ” ھیومنزم “ انسان کو مرکز بنانا چاھتا ھے ۔ دوسرے یہ کہ انسان آزادی چاھتا ھے یعنی ”لبرالزم “ ،تو آپ کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں وھی کاٹ سکتے ھیں۔ لوگو ! تمھیں عوامی حکومت چاھئے تو سنو کہ عوامی حکومت بھی صرف قانون الٰھی ھی کے سایہ میں قائم ھو سکتی ھے ۔ میں نے امام خمینی ۺ فاونڈیشن میں ” عوامی حکومت :نظام ولائی کے سائے میں “ کے عنوان کے تحت ایک مقالہ پیش کیا تھا ۔اس مقالہ میں میں نے ثابت کیا ھے کہ بنیادی طور سے لبرل۔ ڈموکریسی کے تحت عوامی حکومت قائم ھی نھیں ھو سکتی ، لبرل۔ ڈموکریسی میں لوگوں کو آلۂ کار بنایا جاتا ھے ۔ دین میں ھونے والی بھت ساری تحریفات کا میں نے ذکر کیا ھے ۔ ایک اوربڑی تحریف یہ کی گئی ھے کہ یا خدا یا عوام۔ غور کیجئے ! خدایا عوام یعنی حکومت یا خدائی ھو گی یا عوامی ، اس طرح کا تقابل اور یہ جھوٹا تضاد دین کے ساتھ بھت بڑی نا انصافی ھے ، خوب غور کیجئے تعبد یا تعقل ، آپ کو بھت ھی محتاط رھنا چاھئے، اس طرح کی باتیں ضرور آپ کے سننے میں آتی ھوں گی جن میں دو چیزوں میں تضاد دکھایا جارھا ھو، لیکن اس کی کوئی واقعیت نھیں ھوتی ۔مثلا ًیھی تحریف کہ کھا جا تا ھے تعبد یا تعقل یعنی مانعة الجمع ھیں دونوں ایک ساتھ آھی نھیں سکتے۔ اسی طرح کھا جاتا ھے دنیا یا آخرت ، جبکہ قرآ ن مجید چلا چلا کر کھہ رھا ھے کہ لوگوں کی خدمت کے بغیر خدا سے قریب ھوا ھی نھیں جا سکتا ۔یھاں ایک قرآنی نکتہ عرض کرنا چاھتا ھوں جو انشاء اللہ میری طرف سے آپ کے لئے ایک یادگاری تحفہ ھو گا ۔ یہ بات میں ایک سوال کی شکل میں آپ سے کھنا چاھوں گا ۔
آپ جانتے ھیں کہ اصحاب پیغمبر کے درمیان حضرت علی بن ابی طالب علیھما الصلوٰة و السلام کو نمایاں حیثیت حاصل تھی ، حضور کے زمانے میں آپ نے بھت سارے کمالات حاصل کئے ، عمر و بن عبدود جیسے نامی پھلوان کو پچھاڑا ، خیبر فتح کیا ، شب ھجرت پیغمبر کے بستر پر سوئے یہ سب اپنی جگہ پر لیکن جس وقت خدا نے یہ بتانا چاھا کہ مسلمانو! جانتے ھو تمھارا رھبر بننے کی صلاحیت کس شخص میں ھے تو فرمایا ایک خدا ، دوسرے رسول اور تیسرے وہ شخص کہ جو حالت رکوع میں زکوٰة دیتا ھے۔ سوال یہ ھے کہ علی کے اتنے فضائل و کمالات ھونے کے باوجود خدا نے آپ کو ولایت امت کا خطاب حالت رکوع میں زکوٰة دینے پر ھی کیوں دیا ؟ سورۂ مائدہ کی ۵۶ویں آیت ھے آیۂ ولایت ” انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلوٰة و یوتون الزکوٰة و ھم راکعون “ ۔سوال یہ ھے کہ خدا نے یہ کیوں نھیں کھاکہ عمر بن عبدود کے مقابلے میں جب تم سب نے سر جھکالیا تھا اور علی نے اٹھ کر کھاکہ میں جاؤں گا اس کے مقابلے میں۔لھذا بس یھی علی ولی ھے ، فتح خیبر کے بعد علی کو ولایت کا خطاب کیوں نھیں دیا ؟ شب ھجرت بستر رسول پر سونے کے بعد علی کو ولی کیوں نھیں کھا ؟ یہ کیوں نھیں فرمایا کہ جس شخص کی ولادت خانہ کعبہ میں ھوئی ھے وہ تمھارا ولی ھے اور اگر زکوٰة دینے ھی کی بات ھے، خدا کی راہ میں خرچ کرنے ھی کی بات ھے تو ایک انگوٹھی سے سو گنا زیادہ علی (ع) پھلے ھی راہ خدا میں خرچ کر چکے ھیں !!؟ اس کی وجہ کیا ھے کہ خدا نے فرمایا کہ رھبری کی صلاحیت اس شخص میں ھے جو حالت رکوع میں زکوٰة دے جبکہ یہ وھی علی (ع) ھیں کہ حالت نماز میں جن کے پیر سے تیر نکال لیا جاتا ھے اور انھیں خبر تک نھیں ھوتی۔ آخر بات کیا ھے، خدا کھنا کیا چاھتا ھے کیا پیغام دینا چاھتا ھے ؟
میں نے اس کا راز جو سمجھا ھے وہ آپ کے سامنے بھی بیان کرنا چاھتا ھوں اور اس سے پھلے ایک بزرگ عالم کے سامنے بھی عرض کر چکا ھوں۔ انھوں نے بھی اس کی تائید فرمائی ھے۔ وہ نکتہ یہ ھے کہ خدا کھنا چاھتا ھے کہ دینی سماج کی رھبری کی صلاحیت صرف اس شخص میں ھے جو اس وقت بھی خلق خدا سے غافل نہ ھو جب اس کا خد ا سے راز و نیاز منزل عروج پر ھو۔ نماز میں علی کی خدا سے گفتگو اور راز و نیاز اپنے عروج پر ھوتا ھے ۔ نماز میں علی خدا کے ساتھ گفتگو میں اس قدر محو ھو جاتے ھیں کہ پیر سے تیر نکل جائے لیکن انھیں خبر تک نھیں ھوتی یعنی خود کو بھول جاتے ھیں لیکن علی (ع) خدا سے اس قدر محویت کے عالم میں بھی بندگان خدا سے غافل نھیں ھیں لھذا تمھارے امام ھیں ۔
یہ ھوتی ھے عوامی حکومت ، مسلمانو! کیاتمھیں حق ھے کہ علی (ع) سے بڑہ کر کسی کو عوامی حکومت کا علمبردار قرار دو ، کیا گھر میں علی (ع) کی گریہ و زاری مظلوموں سے ھمدردی کی نشانی ھے یا بنی امیہ کے زرق و برق محل ؟! کیا علی (ع) کی جوکی روٹی سے سجا ھوا دسترخوان عوام اور مظلوموں سے ھمدردی کی علامت ھے یاکارل مارکس کا ڈائننگ ٹیبل ؟! خدا ھر جگہ ھے، آپ کو عوامی حکومت چاھئے تو یھاں بھی خدا ھے۔جو جھوٹے تضاد اور تقابل پیش کئے جاتے ھیں ان سے ھوشیار رھنے کی ضرورت ھے۔ قرآن و اھلبیت (ع) سے ھم اور آپ جو تعبد رکھتے ھیں یہ تعبد قوی ترین تعقل پر مبنی ھے ، تعبد کا مطلب اندھی تقلید نھیں ھے ۔ عقل کھتی ھے کہ اگر تمھیں کسی بیماری کے علاج کا نسخہ نھیں پتہ تو کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کرو اور اس سے نسخہ لو ! کیا خدا سے بڑہ کر بھی کوئی اسپیشلسٹ پایا جاتا ھے ؟ قرآن مجیدھماری زندگی کا نسخہ ھے ، قرآن ھدایت کا سر چشمہ ھے، خدا تک پھونچنے کا راستہ ھے ، میں مقصد تک رسائی حاصل کرنا چاھتا ھوں تو یہ قرآن سعادت ، کمال اور خوشبختی کا پتہ ھے ، آپ اسلام کی جامعیت خود پیغمبر اسلام کی زبان سے سنئیے جو آپ نے اپنی عمر کی آخری سال حجة الوادع کے موقع پر بیان فرمائی ھے۔یہ پیغمبر اسلام کا بھت ھی مشھور خطبہ ھے۔ آپ سے بڑہ کر کون اسلام کو جامعیت عطا کر سکتا ھے ؟ میں جب حضور کے اس خطبہ کا مطالعہ کرتا ھوں اور دیکھتا ھوں کہ اسلام کو کس خوبصورتی سے ایک جامع دین بنایا گیا ھے اور ھمیں ایک کامل شریعت عطا کی گئی ھے تو واقعاً لطف آتا ھے ۔ پیغمبر فرماتے ھیں ” ما من شئی یقربکم من الجنة و یباعدکم من النار الا و قدامرتکم بہ و ما من شئی یقربکم من النار و یباعدکم من الجنة الا و قد نھیتکم عنہ “ ۔کتنے خوبصورت جملے ھیں! ”مسلمانو! میری شریعت کا خلاصہ بس دو باتوں میں ھیں، بخدا کوئی ایسی چیز بچی نھیں ھے کہ جو تمھیں جنت سے قریب اور جھنم سے دور رکھنے کا باعث ھو اور میں نے تمھیں اس کا حکم نہ دیا ھو اور کوئی ایسی چیز بھی نھیں بچی ھے جو تمھیں جھنم سے قریب اور جنت سے دور کر دے اور میں نے تمھیں اس سے روکا نہ ھو ، یعنی میری شریعت کا خلاصہ دو باتوں پر منحصر ایک نسخہ ھے جس میں کھا گیا ھے کہ ان کاموں کو انجام دو اور ان کاموں کو انجام نہ دو، کچھ میرے اوامر ھیں جو مقربات الی الجنة ھیں اور کچھ میری نواھی ھیں جو مقربات الی النار ھیں ۔ ھر وہ چیز جو راہ سعادت میں تمھارے لئے رکاوٹ بن رھی ھو اسے انجام نہ دو ۔ بالکل ایک طبیب کے مثل ، حضرت علی (ع) پیغمبر اسلام کے بارے میں فرماتے ھیں: ” طبیب دوّار بطبہ “۔ پیغمبر کھتے ھیںکہ میں نے اپنا کام انجام دے دیا ،یہ نسخہ تمھارے حوالہ کر دیا۔
بھر حال مسلمانوں کے زوال کا اولین سبب جو میں آپ سے عرض کر چکا ھوں وہ دین و دنیا کو آپس میں جدا کر دینا ھے یعنی سیکولرزم ؛اور قرآن و اھلبیت (ع)کو ایک دوسرے سے جدا کر دینا ۔ اب اگر مسلمان زندہ ھونا چاھتے ھیں تو انھیں اسلام کا احیاء کرنا ھو گا ، مسلمانوں کو اسلام کی طرف پلٹ کر آنا ھو گا ۔ امام خمینی ۺ جیسے بزرگ مصلحین بھی یھی کھتے تھے کہ اے مسلمانو! ایک ارب تیس کروڑ یا ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں سے کہ مسلمانو! مسلمان ھو جاؤ ، اگر زوال سے نجات حاصل کرنا چاھتے ھو تو مسلمان ھو جاؤ ۔ھم اور آپ جو حوزۂ علمیہ قم میں ھیں، ھمارا سب سے پھلا کام اور سب سے پھلی کوشش یہ ھونی چاھئے کہ اسلام حقیقی کی شناخت حاصل کریں۔ امام خمینی ۺ کا ارشاد ھے کہ ” عالم اسلام کی ایک مشکل یہ تھی کہ ھمارے علمائے اسلام خود اسلام سے ناواقف تھے “۔اگر وقت ھوتا تو اس بات کو میں کچھ تفصیل سے عرض کرتا ، بنیادی کمزوری ھم لوگوں کی ھے۔ ھم لوگوں نے اسلام کا صحیح تعارف نھیں کروایا ، لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ تو کیا لیکن روح نماز کیا ھے یہ نھیں بتایا ۔ھم نے نھیں بتایا کہ قرآن کے پاس بھترین اقتصادی اور سیاسی نظام ھے۔ اصل قرآنی توحید سے استفادہ کرتے ھوئے میں نے نظام سیاسی پر کئے جانے والے بھت سارے مشکوک وشبھات کاجواب دیا ھے ،اور مجھے یقین ھے کہ نئی نسل کے کچھ اسکالروں کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کا جواب خود توحید ھے، توحید ربوبی نہ کہ توحید ذاتی ۔
بھر حال مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب ادھر ادھر کی کافی باتیں کرکے میں نے آپ کے سامنے عرض کیا ۔ مسلمانوں کے زوال کا دوسرا سبب یہ ھے کہ مسلمانوں نے اغیار کی تھذیب سے متاثر ھو کر ھتھیار ڈال دئے ۔یہ ایک اھم سبب ھے ، اپنی شناخت کھو دینا ، اغیار کی اندھی تقلید کرنا۔ یہ بڑی مفصل باتیں ھیں۔ اس کے لئے الگ سے ایک جلسہ رکہ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ھے ۔میں صرف قرآن سے ایک بات عرض کرنا چاھوں گا ۔ قرآن جھاں بنی اسرائیل کی مذمت کرتا ھے اور ان کی تحقیر کرتا ھے کہ تم نے کتنا برا عمل انجام دیا، تو کھتا ھے کہ میں نے تمھیں فرعون سے نجا ت دی ، توحید کی طرف ھدایت کی ، تمھیں دریا سے گزارا، دریا سے پار ھو کر جب تم نے کچھ لوگوں کو بت کی پوجا کرتے ھوئے دیکھا تو تمھارے اندر دوسروں کی تقلید اور ان سے متاثر ھونے کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ تم یہ بھول ھی گئے کہ تم خدا پرست ھو اور موسیٰ سے کھنے لگے ” اجعل لنا الٰھاً کما لھم آلھة “یعنی موسیٰ ھمارے لئے بھی اس طرح کے دو خدا بنا دو ۔ بالکل ویسے ھی آج باوجود اس کے کہ ھمارے پاس بھترین الٰھی تمدن ھے ، بھترین قانون زندگی ھے پھر بھی ھم دیکھتے ھیں کہ اھل مغرب کا کیا کھنا ھے ؟ عجیب بات ھے ، ھمارا لباس ، معماری ، ھنر ، بات چیت کا انداز ، طرز زندگی ، حکومت ، پڑھے لکھے لوگوں کی خامہ فرسائی اور مقالہ نگاری ھر چیز میں ھم اھل مغرب کی تقلید کر رھے ھیں ۔ اغیار کی تقلید تنزلی کا ایک اھم سبب ھے ۔ سید جمال الدین اسد آبادی ۺ کے نزدیک بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یھی ھے ،وہ کھتے ھیں کہ ھم نے مغرب سے علم نھیں لیا بلکہ مغرب کاکلچر اپنا لیا ۔عجیب بات ھے کہ دین نے ھم سے کھا ان سے علم و حکمت لے لو لیکن اپنی شناخت اور تھذیب نہ کھونا۔اس کے برعکس ھم نے اھل مغرب سے نہ ھی علم و ھنر لیا اور نہ ھی صنعت و ٹکنالوجی سیکھی بلکہ لباس پھننے کا طریقہ اور کلچر ان سے لیا ،تو اغیار کی تقلید بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب ھے۔ اس میں کافی تفصیل کی ضرورت تھی لیکن صرف عنوان عرض کر کے میں تیسرے سبب کی طرف آرھا ھوں۔ صرف عنوان ھی عرض کر سکتا ھوں اس لئے کہ وقت ختم ھو رھا ھے ۔
مسلمانوں کے زوال کا تیسرا سبب مسلمان حکمرانوں کا استبداد اور نفس پرستی ھے ، ان کے لئے اپنی بادشاھت اور حکومت سب کچھ ھوتاھے۔ اگر ان سے کھا جائے کہ مسلمانوں کو چھوڑ دو یا حکومت کو چھوڑ دو تو وہ تمام مسلمانوں کو اور پورے اسلامی تمدن کو ترک کرنے کے لئے تیار ھو جائیں گے لیکن حکمرانی چھوڑنے کے لئے آمادہ نھیںھوں گے۔ اسی لئے استعماری طاقتوں سے ساز باز کر کے کرسی اقتدار پر برا جمان ھیں ۔ مسلمان کی یہ بد بختی آج ھم اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر رھے ھیں ۔ یھی لوگ جب جمھوری اسلامی میں آتے ھیں تو جب سامنے کیمرہ نہ ھو ٹیپ ریکارڈر نہ ھو یعنی ان کی بات کھیں ریکارڈ نہ ھو رھی ھو تو یھی سر براھان مملکت اسلامیہ دھیمے سے کھتے ھیں ” ھم آپ کی باتوں کی تائید کرتے ھیں لیکن کیا کریں اگر سر عام ھم آپ کی باتوں کی حمایت کرنے لگیں تو ھمیں حکومت سے معزول کر دیا جائے گا ، کویت کے سربراہ ھوں یا سعودی عرب کے، امریکہ ھم کو آپ کی حمایت میں کوئی بات نھیں کھنے دیتا لھذا ھم مجبور ھیں اس طرح کی کوئی بات نھیں کھہ سکتے “ یہ ھے مسلمانوں کی بد بختی ۔ اس سے پھلے بھی بنی امیھ، بنی عباس اور ھر دور میں ایسا ھی رھا ھے ۔ یہ بھی مسلمانوں کے زوال کا ایک اھم سبب ھے ۔ صلیبی جنگوں کے دوران اھل مغرب تمدن پر قابض ھو گئے اور مسلمان ان جنگوں میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ،آپ کو پتہ ھے کہ ان جنگوں میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ شکست کا سامنا کب کرنا پڑا ؟ انھیں سب سے زیادہ شکست کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب خود آپس ھی میں لڑنے لگے ۔
بھر حال مسلمانوں کی تنزلی کے بھت سارے اسباب ھیں، دامن وقت میں اتنی گنجائش نھیں ھے کہ میں تفصیلات میں جا سکوں ۔میں ایک دوسری بات کی طرف اشارہ کرنا چاھتا ھوں ۔ جتنی بھی تحریفات اور انحرافات اسلام میں رونما ھوئے ان کے مقابلہ میں ماضی میں بھت ساری تحریکیں وجود میں آتی رھی ھیں ۔ آزادی کی تحریکیں اور اسی طرح اسلامی تحریکیں ، مسلمانوں کو زندہ کرنے کے لئے بھت ساری تحریکیں اٹھیں ۔ اسی ھندوستان کو لے لیجئے شاہ ولی اللہ دھلوی نے ایک تحریک شروع کی لیکن کسی نتیجہ تک نہ پھونچ سکی۔ آپ غور کیجئے کہ اس طرح کے برجستہ لوگ کیوں موثر نہ ھو سکے ،سر سید کی تحریک، اسی طرح میر حامد حسین ۺ کی تحریک لیکن کوئی بھی کامیاب نہ ھو سکی کیوں؟!اس لئے کہ ان ساری تحریکوں میں حقیقی اسلام کا سھارا نھیں لیا گیا ۔ عصر حاضر میں فقط ایک ھی تحریک ھے کہ واقعاً یوروپ ، امریکہ ، برطانیہ اور پوری دنیا کو ایک ھو کر اس تحریک اور اس انقلاب اسلامی کے مقابلہ میں کھڑا ھونا ھی چاھئے، اس لئے کہ امام خمینی ۺ کے لائے ھوئے اسلامی انقلاب میں اسلام واقعی کا احیاء ھے ، اور یہ اسلام واقعی دنیا بھر میں اپنی حیات کا ثبوت دے رھا ھے ، دنیا گھبراگئی ھے کہ کھیں دھیرے دھیرے یہ اسلام واقعی پوری دنیا میں نہ پھیل جائے۔ اس لئے دنیا والوں کا خیال ھے کہ اس انقلاب کے مقابلہ میں آنا ھی چاھئے ۔ انقلاب اسلام کا سورج کس مشرق سے طلوع ھوا ، خمینیت کسی نئی چیز کا نام نھیں ھے ، امام خمینی ۺ نے صرف اسلام کو کتابوں سے باھر نکالا ھے ،قم کے مدرسۂ فیضیہ اور اس کے جیسے دوسرے مدارس کے کتب خانوں میں موجود اسلام کی پولٹیکل تھیوری کو عملی جامہ پھنایا ھے اور بس! ھماری اور آپ کی ذمہ داری ھے کہ دنیا والوں کو اس اسلام واقعی کی شناخت کروائیں۔ دنیا جانتی ھے جیسا کہ میکسن کھتا ھے کہ اگر اسلامی بنیاد پرستی میں جان آجائے تو دنیا میں کوئی شاھی محل باقی نھیں بچے گا، وہ اسلام واقعی کو بنیاد پرست اسلام کھتا ھے یہ ایک الگ بات ھے ۔ وہ سمجھ گیا ھے کہ ٹوٹنے والا صرف کرم لی کا محل نھیں ھے وائٹ ھاؤس بھی اس کے پیچھے پیچھے ھے، اس کے بعد فلاں محل پھر فلاں اور پھر فلاں ۔ میں آپ سے عرض کرتا ھوں کہ ھمیں یہ خوشخبری مل چکی ھے کہ تمدن اسلامی پھر سے زندہ ھو رھا ھے ۔فقط مسلمان ھی سر بلند نھیں ھوئے ھیں بلکہ مجھ سے ایک بودہ نے کھا ھے کہ آپ کے انقلاب کے ذریعہ دنیا بھر میں دینداری زندہ ھوئی ھے، لوگ خدا کی طرف پلٹ آئے ھیں۔ کل تک مجھے یہ بتاتے ھوئے شرم آتی تھی کہ میں بودہ ھوں لیکن آج میں فخر سے کھتا ھوں کہ میں بھی کسی دین کا پیرو کار ھوں ۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس انقلاب اسلامی کی تحریک نے دینی فکر کا احیاء کیا ھے۔ اسی لئے دنیا اس انقلاب کو ختم کرنے کے در پے ھے۔ اس مقصد کےلئے اھل مغرب نے وسیع پیمانے پر تھذیبی حملوں ( Cultural Attacks) کا آغاز کر دیا ھے۔ مسلمانوں کے زوال کاایک سبب یہ بھی ھے کہ وہ ان حملوں کے مقابل سپر انداختہ ھو گئے ھیں ۔ اب ان تھذیبی حملوں کے بھی سیکڑوں چھرے ھیں، تفصیل میں جانے کا وقت بالکل نھیں ھے میرا وقت ختم ھو رھا ھے۔ لھذا اپنی آخری بات کھدوں پھر شاید آپ کے ایک دو سوالوں کا جواب دینے کا وقت بچ جائے ۔ ضرورت اس بات کی ھے کہ ھم اور آپ اسلام واقعی کی شناخت حاصل کریں ۔ میری گزارش یہ ھے کہ اس حوزۂ علمیہ قم سے صرف فلسفہ ، اصول اور ادبیات کا علم حاصل کر لینے پر ھی ھرگز اکتفاء مت کیجئے یہ بھی ضروری ھے لیکن اھم ترین ضرورت یہ ھے کہ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آیئے اور قرآن و سنت کے ان ابواب پر زیادہ وقت دیں جو تابحال متروک و محجور ھیں ، مثلاً کتاب الصلوٰة پر کافی تحقیقات ھو چکی ھیں اس میدان میں مزید کام کرنے کی چنداں ضرورت نھیں ھے ، آپ اپنی ڈاکٹریٹ، تحقیقات اور ریسرچز میں بتائیے کہ قرآن مجید کا اقتصادی سیاسی اور اجتماعی نظام کیا ھے ، اجتماعی مسائل کا قرآن مجید میں کیا حل ھے ؟ قرآن کے پاس ھر مشکل کا حل موجود ھے ۔ اس وقت دنیا اضطراب (stress) اور دیگر نفسیاتی امراض میں مبتلا ھے۔ میرا عقیدہ ھے کہ نفسیاتی امراض کے علاج کا سب سے بھترین نسخہ قرآن کے پاس ھے ۔ قرآن اور سنت کی طرف پلٹ آئیے ۔ خدا ھم سب کو اسلام واقعی کی شناخت اور اسلام واقعی کی تبلیغ کی توفیق عنایت فرمائے ۔ الٰھی آمین ۔ آپ سب افاضل حضرات کا میں نے وقت لیا لھذا آپ سب سے معذرت خواہ ھوں ۔ خدا ھم سب کو توفیق عنایت کرے کہ دین مبین اسلام کی بہ نحو احسن خدمت کر سکیں ۔ آمین!

سوالات و جوابات سوال:

آغاز اسلام کی پھلی چار صدیوں میں اسلام شاھراہ ترقی پر گامزن تھا پھر دھیرے دھیرے مسلمان تنزلی کی طرف آنے لگے تو اس تنزلی کا آغاز کب سے ھوا ؟
جواب : امام جس وقت غیبت صغریٰ میں تھے تو اس مدت میں لوگوں کا ایک قسم کا رابطہ آپ سے تھا اور آپ سے استفادہ کیا جا رھا تھا۔ پھر چوتھی صدی کے اواخر میں جب آپ غیبت کبریٰ میں چلے گئے اور لوگوں کا رابطہ عمومی طور سے آپ سے منقطع ھو گیا پھر بھی ایک عرصہ تک آپ کی ھدایات اور نور امامت کا اثر باقی تھا ۔پھر دھیرے دھیرے تنزلی شروع ھوئی۔ ایک دم سے مسلمان زوال پذیر نھیں ھوئے بلکہ یہ عمل تدریجاً اور دھیرے دھیرے انجام پایا ھے ۔

سوال: ھندوستان کے بارے میں آپ کیا فرمانا چاھتے تھے ؟
جواب :ھندوستان میں مختلف تحریکیں وجود میں آتی رھی ھیں ان کے مطالعہ کی ضرورت ھے۔ میں نے مطالعہ کیا ھے واقعاً مجھے شاہ ولی اللہ دھلوی پر بھت افسوس ھوا ،کافی ترقی کی انھوں نے! لیکن کامیاب نھیں ھو سکے، آخرکیوں ؟!دوسری تحریکوں کا آپ خود مطالعہ کیجئے ۔ کھا جاتا ھے کہ ” العاقل لا یلدق من جبر مرتین“ عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نھیں جاتا ھے ۔ آپ یہ دیکھئے کہ وہ تحریکیں کیوں ناکام ھوئیں۔ آپ محتاط رھئے تاکہ آئندہ کی تحریکیں ان آفتوں کا شکار نہ ھوں ۔

سوال: کیا اسلام میں سیکولرزم کی کوئی گنجائش ھے؟
جواب :اسلام سو فیصد سیکولرزم کا مخالف ھے ، اسلام دین زندگی ھے ، معاشرہ کو چلانے کا مذھب ھے ، اسلام ھرگز سیکولرزم کا حامی نھیں ھے ۔
سوال: حقیقی اسلام سے دوری ھی مسلمانوں کی پسماندگی کا اصلی سبب ھے تو حقیقی اسلام کے تعارف کے لئے ھمارا لائحہ عمل کیا ھوناچاھئے ، ھم کس طرح کی پلاننگ کریں اور کس قانون کو محور قرار دیں ؟
جواب :اس کام کے لئے آپ قرآن کی طرف رجوع کیجئے ۔یہ رجوع ،قدیم اورروایتی طرز کا نھیں ھونا چاھئے۔ قرآن اپنا تعارف اس طرح کراتا ھے کہ میں نسخۂ زندگی ھوں ، کتاب ھدایت ھوں یعنی آپ ھر سوال کا جواب قرآن مجید سے لیجئے ۔ ھر مشکل کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کیجئے، مت کھئے کہ قرآن میں یہ چیز نھیں ھے ۔ ھر چیز ھے خاص طور سے جب بطور تفیسر سنت کا بھی اس کے ساتھ ضمیمہ کیجئے تو سب کچھ مل جائے گا ۔ البتہ ھوشیار رھئے گا کہ قرآن کی طرف رجوع کرنے میں کعب الاحبار جیسے لوگوں کو سھارا نہ بنائیے گا۔ دار القرآن میں وارد ھونے کا دروازہ علی ابن ابی طالب (ع)ھیں ” انا مدینة العلم و علی بابھا “ یعنی معارف قرآن میں وارد ھونے کا باب اھلبیت اطھار (ع)ھیں ۔ پس قرآن کی طرف رجوع کیجئے اور اھلبیت (ع)کے وسیلہ سے اس میں پوشیدہ قیمتی گوھر نکال لائیے ۔
ایک بات پر غور کیجئے، نماز کا وقت ھو رھا ھے، ایک مثال دیتا ھوں، ھمیں ایک دھوکہ دیا جاتا ھے کہ معارف ، اصول اور عقائد کے لکچرز میں ھمارے لئے جس توحید کی زیادہ وضاحت کی جاتی ھے وہ توحید ذاتی اور توحید صفاتی ھے، آخر میں مختصراً توحید ربوبی اور توحید افعالی کا بھی تذکرہ کیا جاتا ھے۔ اب میں آپ سے پوچھتا ھوکہ قرآن مجید میں توحید ذاتی اور صفاتی کا کتنی بار ذکر آیا ھے ، یھی دس بار، لیکن توحید افعالی کا ذکر ھزار بار آیا ھے۔ توحید ربوبی(افعالی ) کا تعلق زندگی سے ھے ۔ اس کا تعلق اقتصاد سے ھے ، اس کا رابطہ سیاست سے ھے ۔ قرآن مجید کے یہ مخفی نکات عیاں ھونے چاھئیں ۔ میں نے اپنی ڈاکٹریٹ کے لئے سوچا تھا کہ کس موضوع کا انتخاب کروں، بھت غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پھونچا کہ موثر ترین تحقیق قرآن کی شناخت ھے ۔ ھمیں اعتراف ھے کہ ھمارے حوزات علمیہ میں فقہ و اصول نے خوب ترقی کی ھے لیکن قرآن کے سلسلہ میں بھت کم کام ھوا ھے، کچھ بڑے اور عمدہ کام بھی ھوئے ھیں پھر بھی اس قرآن سے معذرت خواھی کرنی چاھئے اور کما حقہ اس کی طرف رجوع کرنا چاھئے ۔