نماز کی اہمیت اور فوائد
  • عنوان: نماز کی اہمیت اور فوائد
  • مصنف: سیدذوالفقار حسین نقوی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 19:44:44 1-10-1403

علامہ محمد اقبال۲ نے فلسفہ نماز کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس خوبصورت اور پرُ تاثیر شعر پر سبحان اللہ کہنے کو دل چاہتا ہے۔۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

حقیقت یہی ہے ۔ اس لئے کہ نماز دین کا ستون اور زمین و آسمان کی روشنی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے اور دعا مومن کا اسلحہ ہے۔ نما ز اور دعا کے ذریعے بندہ اپنے آقا سے ہم کلام ہوتا ہے ، راز و نیاز کرتا ہے اور اس ذاتِ واحد سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرتا ہے، جس نے کہا ہے کہ ’’جب میر ابندہ مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔‘‘
راز و نیاز ، سوزو گداز کی کیفیت تبہی پیدا ہوسکتی ہے اور نماز خالق و مالک سے ہم کلامی کے شرف کی بناپر ’’معراجِ مومن‘‘ تب بن سکتی ہے جب انسان روح و بدن کے ساتھ محضرِ الٰہی میں حاضر ہو اور اس کے بدن کا رواں رواں اس کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات کی شہادت دے رہا ہو۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اپنی زبان سے ادا ہونے والے کلمات کے معنی سے واقف نہ ہو۔ یہ بے حد ضروری ہے تاکہ مومنین اپنی عبادات میں سوزِ عشق اور گداز روح کی کیفیت پیدا کرکے صحیح معنوں میں اپنے رب سے ہم کلام ہوکر ’’الصلوٰۃ معراجِ مومن‘‘ اور ’’الدّعا سلاح المومن‘‘ کی کیفیت سے آشنا ہوسکیں۔
نماز کس طرح انسان سازی کرتی ہے، یہ اگر لوگ جان جائیں تو کبھی نماز ترک نہ کریں۔ نماز کس طرح کے انسان بناتی ہے، یہ ہمیں اگر دیکھنا ہو تو ہم اپنے پیارے نبی کریم رحمۃ للعالمین ، شفیع امذنبین ، سید المرسلین آنحضرت محمد مصطفی ۰ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے والی ہستیوں کو دیکھیں۔ ان کی آل پاکٴ اور صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ ہم دیکھیں گے کہ نماز کا قیام عین دین ہے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
’’خدا کی مسجدوں کو صرف وہی شخص (جاکر) آباد کرسکتا ہے جو خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور ) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔‘‘(سورہ توبہ)
رسول اکرم احمدِ مجتبی محمد مصطفی ۰ نے فرمایا:
’’جس کی نماز قبول ہوگئی ، اس کے دیگر اعمالِ حسنہ بھی قبول ہوگئے اور جس کی نماز رد ہوگئی ، اس کے دیگر اعمالِ حسنہ بھی رد ہوگئے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشادِ رحمتہ للعالمین۰ ہے:
’’نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
بابِ مدینۃ العلم حضرت علی نے ارشاد فرمایا:
’’مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتاہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کو ان لذتوں سے آزاد چھوڑ دیتا ہے جو حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘
جناب کوثر نقوی نے سجدے اور رب تعالی کے وجود کے حوالے سے کیا بہترین شعر کہا ہے۔ سبحان اللہ۔
کافی ہے بس حسینٴ کے سجدے کا انہماک
اب حاجتِ دلیل وجود خدا نہیں
یہ تو ہے ایک مختصر جائزہ نماز کی اہمیت اور ان گنت خصوصیات کا اور اب آتے ہیں نماز کے بے شمار فوائد اور ثمرات کی طرف، گوکہ دونوں ہی کا بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
اب سے صدیوں پیشتر مسلمان ایمان کے معاملے میں آج کے دور کے مسلمان سے بدرجہا بہتر تھے۔ ان کا ایمان بالغیب تھا۔ اللہ اور رسول اکرم ۰ کے احکامات کو بلاچون چرا مانتے تھے ، جب کہ آج میڈیکل سائنس نے بیشتر احکامات کی توجیہہ پیش کرکے ثابت کردیا کہ دینِ اسلام کی تمام پابندیوں میں خلقِ خدا ہی کی بہتری پوشیدہ ہے۔ وضو کرکے ایک ایک عمل کی صحت و سائنس کے حوالوں سے وضاحتیں آچکی ہیں۔ نماز کے ہر ہر رکن کی تشریح مغربی سائنس دان کرچکے ہیں۔ حال ہی میں ایک چینی سائنس دان نے ذیابیطس (Suger)کا ایک حیران کن علاج دریافت کیا ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق رکوع کی حالت میں قیام کرنا شوگر کا یقینی علاج ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرن کن بات یہ کہ صبح سورج نکلنے کے بعد اگریہ عمل کیا جائے تو بجائے فائدے کے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ انہی دو اوقات میں نماز نہ پڑھنے کا حکم آیا ہے۔
امریکا کی ایک یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے تمام دنیا کا سروے کرکے یہ پتا چلانا چاہا کہ ذہنی و دماغی امراض(پاگل پن) دنیا کے کن خطوں یا کن قوموں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انہیں پتا چلا کہ مسلم ممالک میں ان امراض کی شرح فی صد سب سے کم ہے۔ مسلمانوں کے عمل دیکھے گئے تو پتا چلا کہ نماز کے پابند افراد میں مرض نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر انہوں نے اس کا بھی بھید پالیا کہ دماغ کی وہ باریک رگیں جہاں خون اپنے بہاو کی قوت سے نہیں پہنچ پاتا ، وہاں سجدے کی حالت میں پہنچ کر دماغ کے حساس حصوں کو تازہ و خون فراہم کرتاہے۔
آج سے پہلے کے مسلمانوں کا یہ ایمان تھا کہ حضور اکرم ۰ کے حکم کے مطابق چھینک کے آنے پر الحمدللہ کہنا چاہیے۔ اگر چہ وہ اس کی وجہ کو نہیںجانتے تھے ، بس ایک حکم تھا۔ جو سر آنکھوں پر تھا۔ لیکن 1400سال بعد آج میڈیکل سائنس نے بتادیا ہے کہ جب دل کی دھڑکنیں مدہم پڑنے لگتی ہیں تو دماغ کو اطلاع ہوجاتی ہے۔ وہ ناک کے اندرونی حصوں میں گدگدی پیدا کرنے کاحکم دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زوردار چھینک آتی ہے۔ اور اس کا دھچکا اتنا زبردست ہوتاہے کہ دل پہلے کی طرح دھڑکنے لگتاہے۔ گویا ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اور ا س موقع پر الحمد للہ کہنا دراصل حیات نو پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا ہے۔ سائنس دانوں نے چھینک کی رفتار کو جدید ترین آلات کی مد د سے ناپا ہے جس کے مطابق ایک عام سی چھینک کی رفتار کم از کم 100میل یا 162کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ بارٹ اٹیک کے وقت مریض کے سینے پر گھونسے مارنا یا بجلی کے جھٹکے دینا دراصل اسی چھینک کا نعم البدل ہے۔
وہ ایمان والے لوگ جن کے لئے اللہ اور اس کے رسول کریم ۰ کا حکم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ سنت کی بجا آوری کے لئے زمین پر سوتے تھے۔ وہ اس کی حکمت سے واقف نہیں تھے، لیکن آج کا ایک پرائمری درجے کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ آکسیجن ہوا سے 16گنا بھاری ہونے کی وجہ سے سطح زمین سے 6انچ تک تہہ بناکر بہتی رہتی ہے۔ اور زمین پر سوئے ہوئے شخص کے نتھنوں میں داخل ہوکر خالص آکسیجن خون میں شامل کرکے اسے چمکیلا بناتی ہے۔
آج کی جدید تحقیق نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگرٹخنوں کو آکسیجن ملتی رہے تو جنسی قوت میں اضافے کا باعث ہے۔ مردوں کو ٹخنے کھلے رکھنے کاحکم ہے، جب کہ عورتوں کو ڈھکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (سبحان اللہ)
بیماریوں کے جراثیم منہ اور ناک کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں ،اسی لئے وضو کرتے وقت ناک میں پانی ڈالنا اور جماہی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھنا اور کھانا کھاتے وقت منہ بند رکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ کان سے بھی داخل ہوسکتے ہیں ، لیکن کان میں ایک زہریلا لیس دار مادہ رکھ کر اس اندیشے کو بھی ختم کردیا گیا۔
غورکرنے کا مقام یہ ہے کہ اللہ اور رسول اکرم ۰ کا ہر حکم سراسر ہمارے ہی فائدے کے لئے ہے توپھر اللہ تعالی کی وہ عبادات جنہیں ہم روز، نماز اور حج کے تناظر میں دیکھتے ہیں ، وہ کیا چیز ہیں؟ اس کی ساری عبادتیں ہمارے ہی فائدوں کے لئے ہیں۔ اور ہم اپنے ہی فائدے کے لئے جو عمل کرتے ہیں ، اس کی جزا بھی آخرت میں رکھ دی ہے۔ واہ سبحان اللہ۔
کیسی دکان داری ہے جتنا سامان اٹھاسکو ، وہ تمہارا ہوگیا اورجتنا سامان اٹھایا، اس کی قیمت بھی روزِ محشر مل جائے گی۔ اللہ تعالی کو نہ ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے نہ ہماری ریاضتوں کی حاجت۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں ، اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ وہ رحمن و رحیم اس کا بھی اجر ہمیں دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔ وہ تو بہانہ ڈھونڈتاہے ہمیں بخشنے کا، ہم کوئی ایسا عمل کریں تو سہی۔
وہ تو بے نیاز ہے۔ اس کی عبادت کے لئے ملائکہ ، حجر و شجر اور اس کائنات کے ذرہ ذرہ اپنے اپنے حساب سے عبادت میں مصروف ہے۔ وہ تو ہمیں کسی بہانے سے جنت واصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اس کے اس قدر ناشکرے ہیں کہ کبھی دورکعت نفل اس شکرانے کے نہ پڑھے ہوں گے اے اللہ تو نے ہمیں آنکھیں دیں ، جن سے ہم تیری کائنات کو دیکھتے ہیں۔
شاید ہی کبھی ہم نے یہ کہا ہو کہ اے اللہ تیرا شکر ہے ، ہماری دو ٹانگیں سلامت ہیں۔ ذرا غورکیجئے، اگر کوئی (خدانخواستہ) ایک نعمت بھی ہم سے واپس لے لی جائے تو ہم کس قدر محتاجی کی زندگی گزاریں گے۔ شکرانے کی نمازیں تو چھوڑئیے ، ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو پانچ فرض نمازیں پڑھ لیتے ہوں گے۔ جب کہ اب ہم پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ ہمارے ہی فائدے کی چیز ہے۔ ہم اپنے کسی علاج کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں ، جو ہمیں علی الصباح آدھ گھنٹے واک کا مشورہ دیتا ہے۔ ہم اپنی ساری نیندیں بھلا کر ساری مصروفیات چھوڑ کر بڑی پابندی سے آدھ گھنٹے کی مشقت برداشت کرتے ہیں لیکن جو حکیم الحکمائ نے ہماری صحت کے لئے تجویز کیا ہے اس کے لئے دس منٹ نکالنا بھی ہماری طبیعت پر گران گزرتا ہے۔
وہ لوگ اتنا کچھ نہیں جانتے تھے، جتنا اب ہم جانتے ہیں ، پھر بھی اللہ اور رسول کریم ۰ کا حکم ان کے لئے ایمان کا درجہ رکھتا تھا۔ آج ہم اس قدر گمراہ ہوگئے ہیں کہ اب جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی نما ز، روزے اور دیگر دینی احکام کی بجاآوری سے غفلت برت رہے ہیں۔
شاعر نے خوابِ غفلت سے جگانے کے لئے کیا خوب کہا ہے۔

ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جاکے دیکھ لے
ہوگا خدا کے سامنے سر کو جھکاکے دیکھ لے
رنج و الم نہ کوئی غم، ہوگا تجھے تری قسم
تھوڑی سی دیر کے لئے سر کو جھکاکے دیکھ لے

بے شک سب سے بہتر ذکر اللہ کا ذکر ہے۔ اور سچا سکون اور روحانی مسرت صرف نماز میں حاصل ہوتی ہے۔ دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے۔ حضوراکرم ۰ کی شفاعت یعنی سفارش کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہوگی، جو نماز کو معمولی چیز سمجھتا ہو۔ نماز سے زیادہ شیطان کی ناک رگڑنے والی کوئی چیز نہیں ہے، لہٰذا نماز پڑھیے اور شیطان کی ناک رگڑیے۔ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
آپ حضور اکرم رحمۃ للعالمین ، سید مرسلین، شفیع المذنبین آنحضرت محمد مصطفی ۰ پر درود شریف تو بھیجتے ہی رہتے ہوں گے، اگر آپ ان کی چشمِ مبارک کو ٹھنڈا رکھنا چاہتے ہیں تو یہ حدیث ہمیشہ یادر کھئے۔
’’نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا کریں اللہ تعالی اپنی رحمت سے ہماری نمازوں اور دیگر عبادات کو اپنے نصیب کریم خاتم البنین ، رحمۃ العالمین ، مراد المشتاقین آنحضرت احمد مجتبی محمد مصطفی ۰ کے صدقے میں قبول فرمائے۔(آمین)
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے