دعائے مکارم الاخلاق کی شرح اور تفسیر
  • عنوان: دعائے مکارم الاخلاق کی شرح اور تفسیر
  • مصنف: مترجم : محمد عیسی رو ح اللہ
  • ذریعہ: پیشکش امام حسین فاونڈیشن
  • رہائی کی تاریخ: 18:34:33 1-9-1403

عرض مترجم
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي لٰا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ، وَ لَهُ الْحَمْدُ رَبِّ الْعالَمِينَ، وَ صَلَّى اللّٰهُ عَلىٰ مُحَمَّدٍ نَبِيِّهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ تَسْلِيماً لا سيما علی الْكَهْفِ الْحَصِينِ وَ غِيَاثِ الْمُضْطَرِّينَ وَ مَلْجَإِ الْهَارِبِينَ وَ مَنْجَا الْخَائِفِينَ وَ عِصْمَةِ الْمُعْتَصِمِينَ روحي و ارواح العالمين لتراب مقدمة الفداء. و اللعنة علی اعدائهم اجمعين
امابعد
مرحوم فلسفی نے دعائے مکارم الاخلاق پر دو جلدوں پر مشتمل کتاب کی شکل میں ایک مبسوط شرح لکھی ہے۔ فاضل ارجمند  جناب علی مختاری نے ان دو جلدوں میں کئی ایک گوہر نایاب کو جمع کرکے فارسی میں ایک مقالہ کی شکل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ حقیر نے قبلہ استاد محترم حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کی سرپرستی میں  اس کا اردو میں ترجمہ کرکے اردو زبان کے مومنین کے لئے پیش کیا ہے۔ اصل مقالہ اور ترجمہ میں کئی جہات سے نمایاں فرق ہے۔
1۔ آیات اور نہج البلاغہ سے لئے گئے حدیثوں کا ترجمہ جناب ذیشان حیدر جوادی کے ترجمہ سے درج کیا ہے۔
2۔ اصول کافی کے احادیث کا ترجمہ قبلہ سید ظفر حسن نقوی امروہی  کے اصول کافی پر ترجمہ "الشافی" سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح توحید شیخ صدوق کا ترجمہ سید محمد عطا عابدی کی کتاب سے ماخوذ ہے۔
3۔ احادیث اور آیات میں حد الامکان اعراب کا خیال رکھا گیا ہے۔
4۔ کئی ایک مقامات پر حدیث کے وسط کو  طولانی ہونے کی خوف سے حذف  کیا ہے۔
5۔ جہاں جہاں حقیر کی نظر میں ضروری سمجھا اسے (مترجم) کی علامت کے بعد درج کیا ہے۔
6۔ یہ مقالہ کل دعائے مکارم الاخلاق کی شرح نہیں ہے بلکہ بعض منتخب جملوں کی  توضیح ہے۔
7۔ کئی ایک جگہ  حدیثوں کو مکمل نقل کرنے کے بجائے بعض حصہ نقل کیا اور پھر ترجمہ کو مکمل لکھا ہے۔
8۔ کتب حدیثی میں عصر مولف کا خیال رکھا ہے، کہ بعض جگہ فاضل مقالہ نگار نے کسی حدیث کو بحار ،وسائل اور مستدرک جیسے منابع سے نقل کیا تھا حقیر کی کوشش یہ رہی کہ اسے محاسن، قرب الاسناد، اصول کافی اور شیخ صدوق کی کتابوں سے اخذ کی جائے۔
میرے مخلص دوستوں سے ازتہہ دل اصلاح اور حوصلہ افزائی کی امید کرتا ہوں۔


محمد عیسی رو ح اللہ حرم اہل بیت ع  قم اسلامی جمہوریہ ایران
24 شعبان المعظم 1436ہ ق

دیباچہ
صحیفہ سجادیہ، زبور آل محمد کسی تعریف کے محتاج نہیں اور شاید ہی کوئی ہو جو اس سے بے خبر ہو۔
طنطاوی مصری ، اہل سنت کے بزرگ عالم  اور مفسر قرآن جب شہر مقدس قم کی زیارت  کو مشرف ہوئے تو مرحوم آیۃ اللہ مرعشی نجفی نے صحیفہ سجادیہ کو حوزہ علمیہ قم  کے بہترین ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ طنطاوی نے اسے اول سے آخر تک کئی بار مطالعہ کیا اور کہا کہ:
«و من الشقاء عدم معرفتى للصحيفة»  
یہ میری بدبختی ہے کہ صحیفہ سجادیہ سے ناواقف ہوں۔
صحیفہ سجادیہ کے مختلف طبع، ترجمہ اور شرح ہیں سب سے کامل اور جامع چھاپ وہ طبع ہے جسے مدرسہ امام مہدی عج نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔
دعائے مکارم الاخلاق صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعاہے اور اسے مفاتیح الجنان کے آخر میں بھی ملحقات کے  طور پر  نشر کی جاتی ہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی دعائیں اور اذکار  معارف کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر ہیں لیکن ہر ایک خاص اثر کے حامل ہیں مثلاً دعائے ابوحمزہ ثمالی، مناجات خمسہ عشر، دعائے کمیل ۔۔۔ اہل دل کے راز و نیاز ہیں۔ ان میں بعض سیاسی پہلو کے حامل ہیں جیسے زیارت عاشورا، دعائے افتتاح اور دعائے ندبہ۔
زیارت جامعہ کبیرہ، امام شناسی اور مسائل اعتقادی جیسے معارف کی حامل ہے۔ دعائے مکارم الاخلاق، اخلاقی جملات  پر مشتمل ہے۔ایسے اخلاق جو جامع اور کامل ہیں جن میں روحانی اور نفسیاتی مسائل پر بحث ہوئی ہے اسی طرح سماجی، معاشی ،خودشناسی اور خود سازی جیسے موضوعات پر معارف بیان ہوئی ہیں۔
دعائے مکارم الاخلاق کی شرح اور تفسیر از مرحوم فلسفی
مرحوم فلسفی  ہفتہ میں ایک دن دعائے مکارم الاخلاق  کی شرح و تفسیر کرتے تھے۔ یہ شرح اور تفسیر کے تقریریں قم کے علاوہ تہران میں بھی جاری رکھتے تھے ۔ ایک عرصہ تک یہ تقریریں ایران کے ریڈیوز سے  بھی نشر ہوا کرتے تھے
ان تقریروں کا مجموعہ  رد و بدل اور آیات و احادیث کے اضافے  کے بعد   تراسی (83) فصلوں اور تین جلدوں میں خوبصورت  اور دلچسپ انداز میں چھاپ ہوا۔
دعائے مکارم الاخلاق انسان ساز پروگرام کا نام ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اس دعا میں انسانی اور اخلاقی  صفتوں کو بیان کی ہے اس دعا کی تأثیر اتنی ہے کہ اگر کوئی  دل سے ان اوصاف کو اپنائے اور اپنے رفتار،کردار اور گفتار میں ان کی رعایت کرئے تو مدارج انسانیت کے اعلی درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔
اس کتاب کے بارے میں
1-    یہ کتاب بھی مرحوم فلسفی کے تقریروں کا مجموعہ ہےلیکن آپ کے دوسرے مجموعات سے یکسر الگ تھلگ ہےیہ کتاب ایک تقریری مجموعہ سے زیادہ ایک تحقیقی کتاب جیسا ہے۔ اگر چہ اس کتاب کا نام بھی تقریری نام ہے اور مرحرم فلسفی حوالہ دیتے وقت  بھی اسی انداز کاخیال رکھتے ہیں جیسے ساتویں تقریر۔۔۔ لیکن ایک تحقیقی کتاب کے تمام خصوصیات اس میں موجود ہیں۔(1 )
2-    آپ نے فیسٹولز، بڑے شخصیات کے برسیوں اور دیگر مواقع پر دسیوں مقالے تحریر فرمائے ہیں ان کے علاوہ آٹھ کتابیں بھی لکھیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1)    کودک از نظر وراثت و تربيت 2 جلدیں
2)     جوان از نظر عقل و احساسات 2 جلدیں
3)    بزرگسال و جوان از نظر افکار و تمايلات2 جلدیں
4)     آيه الکرسى پيام آسمانى توحيد 1 جلد
5)     اخلاق از نظر همزيستى و ارزش هاى انسانى 2 جلدیں
6)     معاد از نظر روح و جسم 3 جلدیں
7)     سخن و سخنورى از نظر بيان و فن خطابه 1 جلد
8)    شرح و تفسير دعاى مکارم الاخلاق 3 جلدیں

اور آخری کتاب مرحوم کے سب سے آخری تالیفات میں سے ہےاسی لئے سنجیدہ اور پکی ہوئی ہے۔ حوزہ علمیہ کا ایک فاضل  طالبعلم –اپنی جوانی کے ایام میں- نقل کرتا ہے کہ:
مرحوم فلسفی ہمیں اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ جب تک سنجیدہ اور پختہ نہ ہو جائے  اپنی کتابوں کو منظر عام پر نہ لائیں؛ اس لئے کہ کچھ عرصہ بعد جب آپ بڑے عالم ہوں گے اور اپنی نظریات پہ نظر ثانی کریں  گے اور بعض مطالب کی کم افادیت سے مطلع ہوجائیں گے  تو پچھتائیں گے۔
3-    اگر چہ  اس کتاب کے شروع میں موضوعات اور آخر میں کتابوں کی فہرست درج ہے اس کے باوجود کبھی کبھار بعض مطالب کو جو دوسری جگہ یا دوسری کتابوں میں مندرج کرتے ہوئے اسی کتاب کا حوالہ دیا ہےاس لئے ایک خاص اہمیت اور افادیت  کے ساتھ ساتھ بہترین نظم و نسق کی بھی حامل ہے۔
ج 2 ص 221 میں لکھتے ہیں:
"اس کتاب کی پہلی جلد تقریر نمبر 7 میں بعض آیات اور روایات کی طرف اشارہ ہوا ، یہاں بھی ان میں سے بعض کا تذکرہ ہوگا"۔
اس کتاب میں بعض دلچسپ اور اصلی کہانیوں ، تاریخی حکایتوں سے بھی ٹھوس علمی باتوں کو بیان کرنے لے لئے مدد لی ہے اسی طرح اشعار اور ضرب المثل سے بھی استفادہ کیا ہے۔
4-    نقل کرنے میں کبھی زمان ،مکان  اور راوی کے زمانے پر حاکم سیاسی فضا کا خیال رکھتے ہوئے  راوی کے بعض نفسیاتی خصوصیات کی طرف خوبصورت اشارے بھی کئے ہیں جیسے صفحہ نمبر223  پر فرماتے ہیں:
اسلام کے عظیم رہبراور رہنما نے اپنی ایک حساس تقریر  (حج کے ایام میں) میں  مسجد الخیف میں تین باتوں کی یاد آوری کی ۔۔۔۔ سفیان ثوری – ایک تعلیم یافتہ انسان اور احادیث کا حافظ۔ کئی بار امام صادق علیہ السلام کے حضور مشرف ہوئے اور امام سے علم بھی سیکھا لیکن اندر سے وہ امام کاعاشق نہیں تھا اور اسے امام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی.... ۔
5-    اس عظیم کتاب کی خامیوں میں سے قدیمی لغت کی کتابوں سے استفادہ نہ کرنا ہے، آپ نےمشکل الفاظ کی شرح کے لئے قدیمی کتب کی طرف مراجعہ نہیں کیا۔ جو الفاظ لسان وحی میں آئے ہیں ان کو صحیح سمجھنے کے لئے ان قرینوں سے استفادہ کرنا چاہیئے جو وحی کے زمانے سے حد الامکان قریب ہو۔ المنجد جیسے کتب کی طرف مراجعہ کرنا بے جا اور فائدے سے خالی ہے۔ بلکہ "العين"  تالیف ِخلیل بن احمد فراہیدی متوفی175ہ ق، "المحيط في اللغة" تالیف ِ صاحب اسماعیل بن عباد متوفی 385 ہ ق ، "مجمل اللغة و معجم مقاييس اللغة" تالیفِ احمد بن فارس متوفی 395 ہ ق ، "تهذيب اللغة" تالیفِ محمد بن احمد بن ازہری متوفی 370 ہ ق، "المخصص و المحکم و المحيط الاعظم" تالیفِ علی بن اسماعیل بن سیدہ متوفی 458 ہ ق ، صحاح جوہری اور باقی قدیمی لغت کی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہیئے تھا۔
آیات اور روایات کو سمجھنے کے لئے ایک اور قرینہ یہ بھی ہے کہ  ایک لفظ کا مورد بحث آیت یا روایت کے علاوہ دوسری آیتوں اور روایتوں میں استعمال کو دیکھنا ہے۔
 مرحوم فلسفی اس وادی میں اہل خبرہ ہے آپ نے ایک عمر خطابت کی ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے احادیث سے مانوس ہے۔ آپ سفينة البحار اور ميزان الحکمة جیسے معجم کی طرف رجوع بھی کرتے تھے  اور یادداشت لکھتے وقت ایک کارآمد طریقے کو اپناتے بھی تھے اور اسے  اپنی فن خطابت کے کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو بھی سکھاتے تھےان سب کے ساتھ حدیث یاد کرنے کے بھی تاکید فرماتے تھے، آپ کا کوئی شاگرد نقل کرتاہے:
"میں نے ہر روز چار حدیثوں کو یاد کرنے کی نذر کر رکھی ہے"۔
6-    اس کتاب کی ایک اور  نقص یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی موضوعی فہرست نہیں ہے ، اگر  بعد کے ایڈیشینز میں موضوعات کی فہرست کا بھی اضافہ کیا جائے تو مبلغ اور خطباء حضرات کے لئے ایک مفید مرجع ہوگا۔
7-    اسی طرح اس کتاب کی ایک اور  نقص یہ ہے کہ کبھی ایک آیت یا روایت کوبار بار ذکرفرماتے ہیں جیسے تیسری جلد کے صفحہ 208 میں ایک روایت "حقوق فرزند" کے عنوان سے  ذکر کرتے ہیں جب کہ یہی روایت جلد نمبر ایک صفحہ 106 میں "فرزند" کے عنوان سے ذکر کئے تھے۔ اسی طرح جلد سوم صفحہ 468 میں بھی نقل فرماتے ہیں۔
8-    اس عظیم سرمایے کی اہم خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں بات کرنے میں ادب کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ پوری کتاب میں کسی کی مذمت یا بے ادبی نہیں کی ہے اور نہ ہی  کسی گروہ کی توہین کی ہے۔  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، قرآن کریم اور عظیم شخصیات اورمقدس اشیاء کا نام عزت و احترام اور وقار کے ساتھ لیا ہے۔ جیسے پیامبر گرامی اسلام ص، قرآن شریف، قرآن مجید، حدیث شریف، دعائے شریف مکارم  الاخلاق، یہ  آسمانی کتاب ۔
9-    اسی طرح منطقی نظم و نسق کا خیال رکھنا اور ہر جلسہ کے لئے کسی موضوع کا مشخص کرنا اس کتاب کے دیگر اہم خوبیوں میں سے ہے۔ مولف جہاں کہیں چند فصول اور ابواب میں بات کرتے ہیں تو شروع ہی سے اس نکتہ کی یاددہانی فرماتے ہیں اسی طرح جب کوئی بحث ختم ہوتی ہے تو  دوسری بحث میں داخل ہونے سے پہلے مخاطب کو آگاہ کرتے ہیں اور آگاہی کے ساتھ نئی بحث شروع کرتے ہیں۔
دعا کی منتخب تفسیر
«اللهم صل على محمد و آل محمد»
امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ کے تمام دعاؤں کے شروع میں محمد و آل محمد پر درود بھیجتے ہیں۔ دعائے شریف مکارم الاخلاق کا بھی درود کے ساتھ آغاز کرتے ہیں۔
اس جملہ میں دو باتیں بحث کرنے کی قابل ہیں:
1-    خود دعا کی شرعی حیثیت؛ اس لئے کہ شروع لفظ  «اللهم» سے کرتے ہیں جو اصل مشروعیت دعا کی دلیل ہے۔
2-    دعا سے پہلے نبی معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود ۔
صلوات کی اہمیت
دعا دین کے سب سے یقینی امور اور ضروریات میں سے ہے گذشتہ پیغمبروں کے ادیان میں بھی دعا ایک حتمی امر تھی دعا کبھی استجابت کے قابل ہو جاتی ہے لیکن کبھی علتوں اور مصلحتوں کے سبب قبول نہیں ہوتی ہے لیکن صلوات وہ تنہا دعا ہے جو ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ درود اور صلوات کی دعا قبول ہوتی ہے اس لئے اپنے دعاؤں کا شروع اور  اختتام  صلوات پر کریں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
 «كُلُ‏ دُعَاءٍ مَحْجُوبٌ‏ حَتَّى‏ يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّد»(2 )
ہر دعا اوپر نہیں جا سکتی ہے (قبول نہیں ہوتی ہے) جب تک محمد و آل محمد پر درود نہ بھیجا جائے۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
«مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَلْيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ يَسْأَلُ اللَّهَ حَاجَتَهُ ثُمَّ يَخْتِمُ بِالصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَقْبَلَ الطَّرَفَيْنِ وَ يَدَعَ الْوَسَطَ إِذَا كَانَتِ الصَّلَاةُ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ لَا تُحْجَبُ عَنْه‏»( 3)
جس کسی کے لئے درگاہ خدا میں کوئی حاجت ہو تو وہ پہلے محمد و آل محمد پر درود بھیجے پھر اپنی حاجت کو  درگاہ خداوندی سے مانگے پھر درود پر ہی ختم کرئے، اس لئے کہ  خد اس سے بلند و بالا ہے کہ دونوں طرف کو قبول کر لے لیکن درمیان کو رد کرے۔ جب کہ درود کے قبول ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے کہ "دعا کے اختتام پر بھی درود بھیجے"(4 )
نہ ہونے والی دعا
کبھی انسان غفلت کی وجہ سے ایسے دعائیں کرتا ہے جو نظام ہستی کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔
(مترجم) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «يَا صَاحِبَ الدُّعَاءِ لَا تَسْأَلْ مَا لَا يَكُونُ وَ لَا يَحِلُّ»( 5)اے دعا کرنے والا! جو کام نہ ہونے والی ہے اور جو حلال نہیں ہے اسے نہ مانگو۔
 ائمہ معصومین علیہم السلام نہ ہر موقع پر ان لوگوں کو تذکر دئے ہیں یہ تذکرات احادیث کی شکل میں اخلاق کی کتابوں میں موجود ہیں۔تاکہ بعد میں آنے والے لوگ جو دین اسلام کی پیروی کرتے ہیں ان معارف  اور نکات کی طرف متوجہ ہو جائیں اور دعا میں ان کا خیال رکھیں۔ حضرت علی  علیہ السلام فرماتے ہیں:
«قُلْتُ اللَّهُمَ‏ لَا تُحْوِجْنِي‏ إِلَى‏ أَحَدٍ مِنْ‏ خَلْقِكَ‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا عَلِيُّ لَا تَقُولَنَّ هَكَذَا فَلَيْسَ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَ هُوَ مُحْتَاجٌ إِلَى النَّاسِ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا أَقُولُ قَالَ قُلِ اللَّهُمَّ لَا تُحْوِجْنِي إِلَى شِرَارِ خَلْقِكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ شِرَارُ خَلْقِهِ قَالَ الَّذِينَ إِذَا أَعْطَوْا مَنُّوا وَ إِذَا مُنِعُوا عَابُو»(6 )
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں کہا "خدا یا! مجھے اپنے مخلوقات میں سے کسی پر محتاج نہ کریں" اس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "یا علیؑ اس طرح دعا نہ کریں  کہ مخلوقات میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو کسی کی طرف بھی محتاج  نہ ہو" میں نے عرض کیا "پس میں کیا کہوں؟" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "کہو کہ خدایا! مجھے اپنے برے بندوں پر محتاج نہ کریں" میں نے عرض کیا کہ "خدا کے برے بندے کون ہیں"  رسول اللہ ؐ نے فرمایا "خدا کے برے بندے وہ ہیں جو جب کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو احسان چڑھاتے ہیں اور جب انہیں نہیں دی جاتی  ہیں تو عتاب کرتے ہیں"۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
«لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتْنَةِ لِأَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وَ هُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ وَ لَكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ ... وَ يَكْرَهُ انْثِلَامَ الْحَالِ»(7 )
خبردار! تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہےکہ" خدایا! میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں " کہ کوئی شخص بھی فتنہ سے الگ نہیں ہو سکتا ہے ۔ اگر پناہ مانگنا ہے تو فتنوں کی گمراہیوں سے پناہ مانگو؛ اس لئے کہ پروردگار  نے اموال اور اولاد کو بھی فتنہ قراردیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اموال اور اولاد کے ذریعہ امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اس طرح روزی سے ناراض رہنے والا قسمت پر راضی رہنے والے سے الگ ہو جائے۔جبکہ وہ ان کے بارے میں خود ان سے  بہتر جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ ان اعمال کا اظہار ہوجائے جن سے انسان ثواب یا عذاب کا حقدار ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکا چاہتے ہیں لڑکی نہیں چاہتے ہیں اور بعض مال کے بڑھانے کو دوست رکھتے ہیں اور شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں۔
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:
«مَنْ سَأَلَ فَوْقَ قَدْرِهِ اسْتَحَقَّ الْحِرْمَانَ»(8 ) جو کوئی اپنی  شان اور لیاقت سے زیادہ مانگیں تو وہ محرومی کا حقدار بنے گا۔
(مترجم) دعا کی قبولیت کی راہ میں بہت سے رکاوٹیں ہیں فاضل مولف نے  ایک کلی قانون کا تذکرہ فرمایا کہ جو چیزیں ممکن نہیں ہے ۔ ان کو اگر مانگی جائے تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ یہ دنیا علل و اسباب کی جگہ ہے یہاں تمام حوادث علتوں کی بنا پر  رونما ہوتے ہیں۔ اس قسم کی دعا کا قبول نہ ہونا خود ان چیزوں میں قصور ہے ان میں یہ طاقت نہیں کہ قبول ہوجائیں۔
ایمان کے معنی میں دو نظریہ
«و بلغ بايمانى اکمل الايمان»
اور میرے ایمان کو کامل تریں درجہ تک پہنچا دے۔
اہل تحقیق میں بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ: ایمان "امن" کے  ریشہ سے ہے اور اس آرام اور سکون کو  کہا جاتا ہے جوکو انسان کے اندر پائی جاتی ہے ۔پس ایمان صرف اور صرف قلبی اعتقاد کا نام ہے زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کرنا ایمان کے شرائط میں سے ہے۔ انہوں نے چند آیتوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے:
1-    ﴿أُولئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ﴾ ( 9)
یہ (حزب اللہ یعنی خدا کے لشکر)  وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان کو لکھا ہے۔
2-    ﴿قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ﴾(10 )
یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
قرآن کریم کےمتعدد آیات میں  عمل صالح کا ذکر ایمان کے ذکر پر عطف ہوا ہے یعنی بہت سے آیات میں ایمان کے تذکرہ کے فورا بعد عمل صالح کا ذکر کیا ہے؛ جیسے سورہ بقرہ کےآیت نمبر 25 اور 277 میں، سورہ عصر کے آخری آیت میں ۔۔۔ پس اگر عمل صالح  ایمان کا جزء ، اعتقاد قلبی  اور عمل ایک ہی چیز کا نام ہوتاتو عمل صالح -جو کہ ایمان کا جزء ہے- کا  اپنے آپ پر عطف ہونا لازم آتا تھا جو کہ قبیح ہےاور ادبی لحاظ سے غلط بھی ہے۔
پس عمل صالح اور ایمان دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ (11 )
اس نظریے کے مقابل بعض اہل تحقیق ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ: ایمان اعتقاد قلبی اور عمل دونوں سے عبارت ہے۔ ان لوگوں نے احادیث کا سہارا لیا ہے جیسے:
حضرت علی علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا  تو آپ نے فرمایا:
«الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ» ( 12)
ایمان دل کا عقیدہ، زبان کا اقرار اور اعضاء و جوارح کے عمل کا نام ہے۔   بہت سی آیتیں اس نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔ جیسے:
﴿وَ جَحَدُوا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَ عُلُوّاً فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾(13 )
ان لوگوں نے ظلم اور غرور کے جذبہ کی بناء پر انکار کردیا تھا ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا ، پھر دیکھو کہ ایسے مفسدین کا انجام کیا ہوتا ہے۔
 اسی طرح سورہ بقرہ آیت 143 اور 146  بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
امام صادق اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :   ایمان  کامل عمل کا نام ہے اگر مسلمان بھائی بہنیں قرآن مجید کے مطابق عمل کرنا چاہیں تو تینوں قسم کے ایمان کو مد نظر رکھا جائے؛ زبان پر اقرار، دل سے اعقتاد، اور اوامر الہی کی اطاعت؛ تاکہ اپنے آپ کو سچے مومنوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑا کیا جا سکے۔(14 )
بہترین اعمال
امام سجاد علیہ السلام خدا سے عرض کر رہا ہے کہ:
«وَ انْتَهِ بِنِيَّتِي إِلَى أَحْسَنِ النِّيَّاتِ، وَ بِعَمَلِي إِلَى أَحْسَنِ الْأَعْمَال<
خدایا میری نیت کو بہترین نیتوں پر تمام کر اور میری عمل بہترین اعمال پر۔
نیک عمل وہ ہے جو سنت رسول کے مطابق ہو ، جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے
>لَا يُقْبَلُ‏ قَوْلٌ‏ إِلَّا بِعَمَلٍ، وَ لَا يُقْبَلُ قَوْلٌ وَ لَا عَمَلٌ إِلَّا بِنِيَّةٍ، وَ لَا يُقْبَلُ قَوْلٌ وَ عَمَلٌ وَ نِيَّةٌ إِلَّا بِإِصَابَةِ السُّنَّةِ<(15 )
کوئی بھی بات عمل کے بغیر مانی نہیں جائے گی، کوئی بھی عمل نیت کے بغیر مانی نہیں جائے گی اور کوئی بھی بات، عمل اور نیت  سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مطابقت کے بغیر قابل قبول نہیں ہے۔
خدا وند نیک اعمال سے خوش ہو جاتا ہے ۔لیکن کبھی کبھار انسان ایک نیک عمل کو انجام دیتا ہے جبکہ اس سے بھی بہتر عمل انجام دینے کا موقع پیش آتا ہے اس وقت با ایمان لوگوں کو چاہیئے کہ اس بہتر اور نیک تر عمل کے پیچھے چلاے جائیں۔  یہاں چند مثالوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ کیا کبھی ایسا موقع بھی پیش آتا ہے کہ کسی نیک عمل کے انجام دیتے وقت اس بھی نیک تر عمل کا موقع آجائے؟:
اگر کوئی طواف کعبہ میں مشغول ہو اور کوئی مسلمان بھائی اس سے مدد مانگے اسے بہت جلد مدد کی ضرورت ہے تو اس وقت انسان طواف کو ادھورا چھوڑ کر اس مسلمان بھائی کی مدد کو  ڈورھےیہ خدا کو زیادہ پسند ہےاور جوں ہی اس کا مشکل حل ہو جاتا ہے  اور وہ خوشحال ہوجاتا ہے تو طواف میں پلٹ آئے۔ ابوحمزہ ثمالی امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ:
«إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَحْسَنُكُمْ‏ عَمَلًا وَ إِنَّ أَعْظَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَمَلًا أَعْظَمُكُمْ فِيمَا عِنْدَ اللَّهِ رَغْبَةً»(16 )
تم میں سے خدا کو سب سے زیادہ محبوب وہ انسان ہے جس کا کام سب سے بہتر ہواور تم میں عمل میں عظیم انسان وہ جس کا کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہو۔
مردود اور ناپسند عبادت
کوئی شخص وظیفہ شناس نہ ہو اور اوامر الہی میں اولویت کا خیا ل نہ رکھے توکبھی ممکن ہے اس کے اچھے اعمال بھی درگاہ خداوندی سے مردود ہوجائےبلکہ ممکن ہے اسکی ذلت و خواری اور درگاہ الہی سے باہر ہونے کا سبب بنے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
«كَانَ رَجُلٌ شَيْخٌ نَاسِكٌ يَعْبُدُ اللَّهَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ... فَهُوَ يَهْوِي فِي الدُّرْدُورِ أَبَدَ الْآبِدِينَ وَ دَهْرَ الدَّاهِرِينَ»(17 )
بنی اسرائیل میں ایک مقدس بوڑھا عابد تھا ۔ ایک دن جب وہ عبادت  میں مشغول تھا کہ اچانک دو بچوں نے ایک مرغے کو پکڑ کر اس کے پروں کو اکھاڑنا شروع کای مرغا چیخ رہا تھا لیکن عابد اس کی فریاد پر کان دھرے بغیر اپنی عبادت میں مشغول رہا اور اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں دلایا کہ ان دونوں کو اس کام سے روکا جائے۔ اسی وجہ سے خدا نے اسے سزا دیا۔
(مترجم) اہمیت کے لحاظ سے ہر کام ایک نہیں ہے واجب، مستحب، مکروہ اور حرام میں بھی مراحل ہے کوئی واجب کسی سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسی ہر مستحب ایک جیسا نہیں ہےنافلہ نمازوں سے لیکن عزاداری ابا عبد اللہ الحسین کی قیام تک سب مسحب ہے لیکن کیا ایک جیسا ہے ؟! عزاداری ایک شعار اور نعرہ ہے اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔اسی طرح مستحب اور واجب میں سے واجب کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی چاہے وہ واجب جس طرح کا بھی ہو۔ مثلا عزاداری چاہے کتنی عظمت کا حامل ہی کیوں نہ ہو لیکن نماز کے برابرتو نہیں ہے اسی لئے اگر عزاداری کی وجہ سے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہو عزاداری کا نہ صرف ثواب ختم ہو جاتی ہے بلکہ گناہ بھی ہے۔پس مسئلہ اہمیت اور بہتر صرف اس صورت میں ہے جہان کسی عمل کی وجہ سے دوسرا چھوٹ جانے کا خطرہ ہو ۔ اس کا نام علم اصول فقہ میں اہم و مہم اور ترتب  ہے۔
یقین
ایمان کامل تک پہنچنے کا راستہ امام صادق علیہ السلام کی کسی ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
«وَجَدْتُ‏ عِلْمَ‏ النَّاسِ‏ كُلَّهُ فِي أَرْبَعٍ أَوَّلُهَا أَنْ تَعْرِفَ رَبَّكَ وَ الثَّانِي أَنْ تَعْرِفَ مَا صَنَعَ بِكَ وَ الثَّالِثُ أَنْ تَعْرِفَ مَا أَرَادَ مِنْكَ وَ الرَّابِعُ أَنْ تَعْرِفَ مَا يُخْرِجُكَ مِنْ دِينِكَ»(18 )
میں نے تمام آدمیوں کے علم کو چار صورتوں میں پایا، اول یہ کہ تو اپنے رب کی معرفت حاصل کرے، دوسرے یہ کہ پہچانے کہ خدا نے تیرے اوپر کیا  کیا احسان کئے ہیں، تیسرے یہ جانے کہ خدا تجھ سے کیا چاپتا ہےاور  چوتھے یہ جانے کہ کیا باتیں تجھے دین سے خارج کر دیں گی۔
سعادت کا معیار
حضرت علی علیہ السلام معیار سعادت کے بارے میں فرماتے ہیں:
«الدُّنْيَا كُلُّهَا جَهْلٌ‏ إِلَّا مَوَاضِعَ الْعِلْمِ وَ الْعِلْمُ كُلُّهُ حُجَّةٌ إِلَّا مَا عُمِلَ بِهِ وَ الْعَمَلُ كُلُّهُ رِيَاءٌ إِلَّا مَا كَانَ مُخْلَصاً وَ الْإِخْلَاصُ عَلَى خَطَرٍ حَتَّى يَنْظُرَ الْعَبْدُ بِمَا يُخْتَمُ لَهُ<(19 )
"دنیا تمام جہل ہے مگر مقامات علم بھی ہیں۔ اور تمام علم حجت ہے مگر جس پر عمل کیا جائے اور سارا عمل دکھاوا ہے مگر جو خلوص کے ساتھ ہو اور اخلاص ایک پیمانہ و بلندی ہے جس سے بندہ جو اس کے لئے مقرر کیا گیا دیکھتا ہے"۔ اس بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کہ "اور اخلاص بھی خطرے کی زد پر ہے جب تک عاقبت کا پتہ نہ چلے" ۔
اسی لئے انسان کو ہمیشہ عاقبت بخیری کی دعا کرنا چاہیئے۔
اقدار انسانی کے اعلی ترین مراتب
«وَ هَبْ لِي مَعَالِيَ الْأَخْلَاقِ، وَ اعْصِمْنِي مِنَ الْفَخْرِ»
میرے معبود!مجھے اخلاق کے عالی ترین درجہ عطا کر اور  لوگوں کے درمیان اپنی اخلاق پر فخراور مباہات کرنے سے  محفوظ رکھ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
«إنّ اللَّه تعالى جواد يحبّ الجود و يحبّ معالي‏ الأخلاق‏ و يكره سفسافها<(20 )
خدا سخی ہے اور سخاوت کو دوست رکھتا ہے، رفعت اخلاقی کو بھی دوست رکھتا ہو اخلاقی پستی سے نفرت کرتا ہے
اخلاق کے محاسن اور مکارم
محاسن اور مکارم میں فرق ہے۔ محاسن خوب اور پسندیدہ کے معنی میں ہے لیکن مکارم کرامت نفس اور اخلاق کے عالی ترین مرتبہ کا نام ہے ۔ منطقی نسبت کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص مطلق ہے یعنی تمام مکارم اخلاق محاسن بھی ہے لیکن ہر محاسن کا مکارم بھی ہونا ضروری نہیں ہےممکن ہے ایک چیز محاسن ہو لیکن مکارم میں سے نہ ہو جیسے اپنے علم پر فخر نہ کرنا یہ تو محاسن اخلاق ہے  لیکن اگر انسان اپنے علم پر فخر نہ کرنے کے ساتھ ساتھ فروتنی اور تواضع کا مظاہرہ بھی کرے تو یہ مکارم ہے۔
بہت  سے روایات میں ہے کہ تمام محاسن اخلاقی خاص کر مکارم اخلاقی قیامت کے اعمال کے ترازو میں  دن نیک عمل کے  پلڑے کو بھاری کرے گی۔ انسان کی کامیابی اور فلاح کا ذریعہ بنے گی۔نہ صرف قیامت میں بلکہ دنیا میں بھی کامیابی اور سعادت کا باعث بنے گی۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
>لَوْ كُنَّا لَا نَرْجُو جَنَّةً وَ لَا نَخْشَى نَاراً وَ لَا ثَوَاباً وَ لَا عِقَاباً لَكَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَطْلُبَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ فَإِنَّهَا مِمَّا تَدُلُّ عَلَى سَبِيلِ النَّجَاحِ<(21 )
اگر جنت کی امید اور جہنم کا خوف  اسی طرح ثواب و عقاب نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تو تب بھی ہم پر ضروری تھی کہ اخلاقی کمالات کو حاصل کریں اس لئے کہ یہی سعادت اور کامیابی کی دلیل ہے۔
بارش اپنی  طبیعت کی بناء پر باغ میں پھول اور  پتھریلی زمین میں خاشاک اگاتی ہے۔
لیکن امیر المومنین علیہ السلام  اپنی نصیحتوں مین مکارم الاخلاق اپنانے اور  نا اہل کے ساتھ مدارا کرنے سے بچنے کی نصیحت فرما رہے ہیں:
>احْمِلْ‏ نَفْسَكَ‏ مِنْ‏ أَخِيكَ‏ عِنْدَ صَرْمِهِ عَلَى الصِّلَةِ ...ِ أَوْ أَنْ تَفْعَلَهُ بِغَيْرِ أَهْلِهِ<(22 )
اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلے میں تعلقات، اعراض کے مقابلے میں مہربانی، بخل کےمقابلے میں عطا، دوری کے مقابلے میں قربت، شدت کے مقابلے میں نرمی اور جرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو۔ گویا کہ تم اس کے بندے ہواور اس نے تم پر کوئی احسان کیا ہو۔ اور خبردار! احسان کو بھی بھی بے محل قرار نہ دینا اور نہ کسی نا اہل کے ساتھ احسان کرنا۔
کاموں میں کفایت شعاری
>وَ اكْفِنِي مَا يَشْغَلُنِي الِاهْتِمَامُ بِهِ<
اور مجھے ان مصروفیتوں سے جو عبادت میں مانع ہیں بے نیاز کر دے۔
دعا کا یہ جملہ ان کاموں کے بارےمیں ہے جن کو انجام دینے کے لئے کسی خاص آدمی کی ضرورت نہیں  بلکہ کوئی بھی اسے انجام دے سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی قیمتی عمر کو ایسے کاموں میں ضائع کردیتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ بھی انجام دے سکتے تھے۔
(مترجم) جس طرح جوکام  ہر کسی سے ہو سکتا ہے اسے کوئی بڑی اور عظیم شخصیت کا انجام دینا  ظلم ہے اسی طرح کسی انسان کا اپنی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کا متحمل ہونا بھی ظلم ہے خلفاء نے خلافت جیسے بڑی ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا حالانکہ یہ ان کا کام نہیں تھا اس کام کے لئے دوش امیر المومنین ؑ جیسا مضبوط کاندھا چاہیئے تھا اسی لئے انہوں نے خلافت کو غصب کرکے نہ صرف امیر المومنین علیہ السلام اور  مسلمانوں پر ظلم کیا خود منصب خلافت پر بھی بہت بڑا ظلم کیا ؛ اس لئے کہ خلافت کا منصب لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے ہے یہ صلاحیت صرف اور صرف امیر المومنین علیہ السلام کے پاس موجود تھا۔
آج ہمارا معاشرہ بھی اسی بیماری میں مبتلاء ہے کہ بڑے با صلاحیت اور ذہین لوگ گوشہ نشین رہیں، نالائق لوگوں کو بڑے بڑے منصبوں پر جمایا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے ابھی تک عقل بشری ناقص ہے۔
خدا کا پوچھ تاچھ
>وَ اسْتَعْمِلْنِي بِمَا تَسْأَلُنِي غَداً عَنْهُ<
اور انہی چیزوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جن کے بارے میں مجھ سے کل کے دن سوال کرے گا.
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: لقمان نے اپنے بیٹے کو جو جو نصیحتیں کئے ان میں سے یہ بھی تھا۔:
>وَ اعْلَمْ‏ أَنَّكَ‏ سَتُسْأَلُ‏ غَداً إِذَا وَقَفْتَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْ أَرْبَعٍ شَبَابِكَ فِيمَا أَبْلَيْتَهُ‏  وَ عُمُرِكَ فِيمَا أَفْنَيْتَهُ وَ مَالِكَ مِمَّا اكْتَسَبْتَهُ وَ فِيمَا أَنْفَقْتَهُ<(23 )
یہ سمجھ لو کہ روز قیامت جب خدا کے سامنے جاؤ گے تو تم سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔1- شباب کے بارے میں کیسے گزرا۔ 2- عمر کے بارے میں کن مشاغل میں ختم کیا۔ 3- مال کے بارے میں کہ کس طرح سے کمایا اور4-  کہاں کہاں خرچ کیا۔
(مترجم) امام علیہ السلام کے فرمان میں چار چیزوں کاذکر تو ہے لیکن جب شمارش کی جاتی ہے صرف تین چیزیں ہی ملتی ہے جوانی، عمر اور مال ۔ ہاں! یہ ممکن ہے کہ مال کی دو قسم مراد لیا جائے کہ کس طرح کمایا اور کس طرح خرچ کیا۔
انسانوں کے لئے ہادی و رہبر
>وَ اجْعَلْنِي مِنْ أَهْلِ السَّدَادِ، وَ مِنْ أَدِلَّةِ الرَّشَادِ، وَ مِنْ صَالِحِ الْعِبَادِ<
اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں اور نیک بندوں میں سے قرار دے۔
لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی ہدایت کرنا  ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَ عَمِلَ صَالِحاً﴾ ( 24)
اور اس سے زیادہ بہتر بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل بھی کرے۔
 یہ وظیفہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے برحق بارہ جانشین کو انجام دینا ہے۔ ان بعد جو بھی اس راہ  میں یہ وظیفہ دینے کا اہل ہو ان پر ضروری ہے۔ اس سے ہدایت یافتہ کو گمراہی سے نجات ملتی ہے اور ہدایت کرنے  کو درگاہ خداوندی میں سربلندی اور اجرعظیم۔لیکن اس شرط پر ہدایت کرنے والے میں ہدایت کے شرائط پورے ہوں
ہدایت کی شرائط
1-    ہدایت کرنے والا جس بات کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہا ہے اس سے آگاہ ہو اور بصیرت کے ساتھ بات کرے۔ خدا فرماتا ہے:
﴿قُلْ هٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي﴾ (25 )
آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے ۔
زرارہ کہتا کہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ خدا کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ تو اما م ؑ نے فرمایا:
>أَنْ‏ يَقُولُوا مَا يَعْلَمُونَ‏ وَ يَقِفُوا عِنْدَ مَا لَا يَعْلَمُونَ<(26 )
وقت ضرورت جو جانتے ہوں بیان کریں اور جو نہیں جانتے اس سے رک جائیں۔
یہ عظیم ذمہ داری (لا علمی کے وقت خاموش رہنا) اتنا اہم ہے کہ قرآن کریم کے کسی ایک ایک مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ بیان ہوئی ہے:
﴿وَ لاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً﴾ (27 )
اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قواُ قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
>لَيْسَ‏ لَكَ‏ أَنْ‏ تَتَكَلَّمَ‏ بِمَا شِئْتَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ‏ ﴿وَ لا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ‏﴾ وَ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ رَحِمَ اللَّهُ عَبْداً قَالَ خَيْراً فَغَنِمَ أَوْ صَمَتَ فَسَلِمَ < (28 )
تمارے لئے یہ حق نہیں ہے جو تیرا جی چاہے وہ بولےچونکہ خدا فرماتا ہے " جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا " اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :"خدا اس بندے پر رحم کرے جو اچھی باتوں کو بولتا ہے تو اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے یا خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس میں سلامتی ہے"
2-    بات دل کی گہرائیوں سے ادا کی جائے۔
ہدایت کرنے والا دل کی گہرائیوں سے بات کرے اس لئے دل سے نکلی ہوئی بات دل میں داخل ہوتی ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:
﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ﴾ (29 )
رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں۔اسی لئے آنحضرتؐ کی ہمیشہ دلی خواہش یہی ہوتی تھی کہ لوگ بھی ایمان لے آئیں۔ آپ ؐ نے اپنی تمام کوششیں اسی راہ میں خرچ کی  اور چاہا کہ لوگ خدا کی طرف رخ کریں۔ مرشد اور رہنما کا ہم و غم بھی یہی ہونا چاہیئے اور اس کا ہدف صرف اور صرف ہدایت ہونا چاہیئے۔ اگر ایسا نہ تو حضرت مسیح  علیہ السلام کے اس قول کا مصداق بے گا:
>بِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ: لَا تَكُونُوا كَالْمُنْخُلِ يُخْرِجُ‏ الدَّقِيقَ‏ الطَّيِّبَ‏ وَ يُمْسِكُ النُّخَالَةَ كَذَلِكَ أَنْتُمْ تُخْرِجُونَ الْحِكْمَةَ مِنْ أَفْوَاهِكُمْ وَ يَبْقَى الْغِلُّ فِي صُدُورِكُمْ<(30 )
تم لوگ چھلنی کی طرح نہ ہو جائیں کہ جو صاف اور اچھے  آٹے کو باہر نکال دے چوکھر اور    اور بھوسے کوبچا کے رکھے اسی طرح تم بھی اپنے منہ سے حکمتوں کو نکال دیں اور دلوں میں کینہ و کدورتوں کو تھام کے رکھے۔
3-    ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس چیز پر عمل پیرا ہو۔
ہدایت کرنے والے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہا ہو خود اس پر عمل پیرا ہو۔
وہ لوگ جو ہدایت پانے کا خواہاں ہیں ان کے لئے عمل کرکے دکھانا اطمئنان کا باعث ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
>كُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِالْخَيْرِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ لِيَرَوْا مِنْكُمُ الِاجْتِهَادَ وَ الصِّدْقَ وَ الْوَرَعَ<(31 )
لوگوں کو نیکی کی طرف صرف زبان سے نہ بلاؤ بلکہ اپنے عمل سے ، تاکہ وہ تمہاری کوشش، سچائی اور  پرہیزگاری کو دیکھیں۔
خدا وند عالم قرآن میں فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لاَ تَفْعَلُونَ﴾ (32)
(2) ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو  اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو۔
اولیاء کرام کی مومنین کےدلوں پر تأثیر کی ایک علت یہ تھی کہ یہ لوگ عمل میں سب سے آگے تھے جن چیزوں کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے ان پر یہ لوگ عمل پیرا تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
>أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَحُثُّكُمْ‏ عَلَى‏ طَاعَةٍ إِلَّا وَ أَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا وَ لَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وَ أَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا< (33)
اے لوگو! قسم بخدا  میں تمہیں کسی اطاعت پر  آمادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی  گناہ سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ تم سے پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔
(مترجم)امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
>عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ<(34 )
اپنے اوپر لازم کرو تقویٰ، پرہیزگاری، کوشش، سچ بات،امانتداری،نیک اخلاق اور پڑوسی سے نیکی اور اپنے عمل سے اپنےدین کی طرف لوگوں کو بلانا، نہ صرف اپنی زبانوں سے بلکہ اپنے اعمال سے اپنے ائمہ ؑ کے لئے زینت بنو۔ اور بد اعمالی سے ان کے لئے باعث ننگ نہ بنو اور اپنے رکوع و سجود کو طول دو کہ جب تم طول دیتے ہو شیطان تمہارے پیچھے سے کہتا ہے ہائے اس نے اطاعت کی اور میں نے نافرمانی کی، اس نے سجدہ کیا اور میں سجدہ سے انکار کیا۔
 اسی مضمون کے احادیث ایک دو الفاظ کے اختلاف کے ساتھ حدیثی کتابوں میں موجود ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
شیعہ وہ ہے جو لوگوں کو اپنے کردار اور رفتارسے بتادیتے ہیں کہ وہ شیعہ ہیں ان کے کردار اور رفتار میں ان کے اماموں کا کردار اور رفتار جلوہ گر ہوتا ہے، انہیں چاہیئے کہ ائمہ کے لئے باعث زینت  بنیں نہ باعث شرمساری، وہ نماز میں اول وقت کا خیال رکھتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو دین پر کسی چیز کا سودا نہیں کرتے ہیں بصیرت ان کی فطرت میں موجود ہے، وہ اپنے زمانے میں باتقوا، عادل، پرہیزگار اور شبہات سے بچنے والے ہیں ، وہ اللہ کر راہ میں  صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں، انہیں دنیا کی کوئی طاقت اپنے اہداف سے ہٹا نہیں سکتی ہے۔


 (1 ) مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، ج27، ص260۔
(2 ) طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق؛ ص275
( 3) سفینہ البحار، ص 448 واژہ «دعا».
(4) حلّی، جمال الدین، احمد بن محمد اسدی، عدة الداعی و نجاح الساعی؛ ص: 152
(5 ) ورام بن ابی فراس، مسعود بن عیسی، مجموعة ورام ؛ ج‏1 ؛ ص39
( 6) نہج البلاغہ، حکمت 93
(7 ) عدة الداعی و نجاح الساعی؛ ص: 152
( 8) سورہ مجادلہ / 22۔
(9 ) سورہ حجرات / 14۔
(10 ) پس ان دوںوں کی مثال جسم اور جان کی ہے یہ دونوں مل کر انسان بنتا اگر جسم سے جان نکالی گئی تو وہ جسم اب انسان نہیں مردہ ہے اور مردے پر انسان صدق نہیں آتا اسی طرح جسم کے بغیر روح کا بھی کوئی اثر نہیں ہے اگر ثواب اور عقاب سمیت بہت ساری اثرات انسان پر مرتب ہوتی ہے تو ان دونوں کے مجموعہ پر مرتب ہوتی ہے اسی طرح اطاعت ایمان اور عمل صالح کے مجموعہ کا نام ہے ان میں دونوں کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے ایمان کے بغیر عمل کی حیثیت نہیں ہے اور عمل کے بغیر ایمان کی کوئی قیمت نہیں ہے
(11 ) نہج البلاغہ، حکمت 227
( 12) مرحوم ذیشان حیدر جوادی فرماتے ہیں کہ:علیؑ والوں کو اس جملے میں بغور دیکھنا چاہیئے کہ کل ایمانؑ نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈال دیا ہے کہ جس طرح آپؑ کی زندگی میں اقرار، تصدیق اور عمل کے تینوں رخ پائے جاتے تھے۔ ویسے بھی آپؑ ہر صاحب ایمان کو اسی کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمانؑ کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے؟! (نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان جوادی ص 709 طباعت، مطبعہ انصاریان قم ایران)
(13 ) سورہ نمل / 14۔
(14 ) پہلی تقریر کا خلاصہ۔
( 15) طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، ص 386۔
(16 ) الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج‏8 ؛ ص68
(17 ) الامالی (للطوسی) ؛ النص ؛ ص669
(18 ) الکافی (طبع الاسلامیة) ؛ ج‏1 ؛ ص50
 (19 )توحید صدوق، باب 60، حدیث 10، ص 371۔ اور اردو ترجمہ والی کتاب کا صفحہ نمبر 302
(20 ) نہج الفصاحہ، حدیث نمبر 661۔
( 21) نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،  ج‏11 ؛ ص193
( 22) نہج البلاغہ / خط 31 اپنےبیٹے حسنؑ کے نام وصیت نامہ میں۔
(23 ) الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج‏2 ؛ ص134
(24 ) سورہ فصلت / آیہ 33
(25 ) سورہ یوسف / آیہ  108۔
(26 ) الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج‏1 ؛ ص43
(27 ) سورہ اسراء / آیت 36
(28 ) عریضی،علی بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا، ص344
(29 ) سورہ بقرہ / 285
(30 ) تحف العقول، ص 393؛ امام کاظم علیہ السلام کا ہشام بن حکم کو عقل کے بارے میں وصیت۔
(31 ) الکافی (ط - الاسلامیة) ؛ ج‏2 ؛ ص105
 (32) سورہ صف / آیت 2 و 3۔
(33 ) نہج البلاغۃ / خطبہ 173۔
(34 ) اصول کافی ، ج2 ص 77 باب الورع ، حدیث 9۔