نزولِ قرآن اور عظمتوں والی رات…. شبِ قدر
نزولِ قرآن اور عظمتوں والی رات.... شبِ قدربیشک رمضان المبارک بڑی بزرگی والااوراللہ تعالی کی بیشمار رحمتوں ، برکتوں ،عظمتوںاور تلاوت قرآن پاک والامہینہ ہے جس کے اول تا آخر ایام میںربِ ذالجلال نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں جس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت اور اِس ماہِ مبارکہ کے تیسرے اور سب سے آخری عشرے میں جہنم سے آزادی کی نوید سُنائی گئی ہے یوں اِن تمام خصوصیات کے حامل رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی خیر و برکت سے لبریز ہے اور اِس کے شام و سحر میں رب کائنات اللہ رب العزت اپنی بیشمار انوار و تجلیات آسمان سے زمین کی جانب نزول فرماتاہے ویسے تو اِس ماہِ مبارکہ کی ہر گھڑی اور ہر ساعت اپنے اندر اہل ایمان کے لئے بیشماربرکتیں لیئے ہوئے ہوتی ہیں مگر اِس ماہِ مبارکہ کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تو اہل ایمان پر رحمتوں برکتوںاور عظمتوںکا نزول اپنے عروج کو پہنچ چکا ہوتاہے اِس لئے کہ اِس ماہِ مبارکہ آخری عشرے کی اِن پاک پانچ ۱۲،۳۲،۵۲،۷۲ اور ۹۲ طاق راتوںمیں سے ایک عظیم رات جوشبِ قدر کہلاتی ہے اِن تاریخوں میں آتی ہے۔ اور اِسی رات میںقرآن کریم لوحِ محفوظ سے بیت المعمور پر اتاراگیاجس کی تعریف میں اللہ تعالی نے خود ہی قرآن کریم فرقانِ حمید میں پوری ایک سورت القدر نازل فرمائی اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمادیاہے کہ
’’بے شک ! ہم نے قرآن کریم کو شبِ قدر میں اتاراہے،اور تم نے کیاجاناہے کہ شبِ قدر کیاہے؟لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہترہے،اِس شب میںفرشتے اور جبریل امین اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کے لئے زمین پر اترتے ہیں ،شبِ قدر کی شب سلامتی ہی سلامتی ہے صبح چمکنے تک‘‘
قرآن کریم کی اِس سورت میں اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ایک رات میں اُتاراہے اور دوسری جگہ ارشاد فرمایاہے کہ
’’ہم نے اِسے رمضان کے مہینے میں اُتاراہے‘‘ اور تاریخ اور واقعات یہ بتاتے ہیںکہ حضرت جبریل علیہ السلام 23سال کی مدت میں اِسے لاتے رہے اِس میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ لیلتہ القدر کو جو ماہِ رمضان المبارک میں ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم فرقان حمید کو لوحِ محفوظ سے بیت المعمور﴿ آسمان دنیا پر ایک جگہ ہے﴾ میں اُتارا اورپھر وہاںسے ہی حضرت جبریل علیہ السلام حضور پرنور نبی کریم ö کی خدمت میں 23سال تک لاتے رہے۔
کیوں کہ قرآن کریم اِسی ماہِ رمضان المبارک میں ہی اُتاراگیا ہے اِسی لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اِس بابرکت مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کی جائے اور وہ اِس لئے بھی کہ اِس کلام ِ الہی کی تلاوت سے ہی قلب کو سکون حاصل ہوتاہے اور روح کو تسلی نصیب ہوتی ہے ۔
جس کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے : ’’ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی ہوتاہے‘‘حضرت نعمان (رض) سے روایت ہے کہ بنی کریم ö نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’میری اُمت کی سب سے بڑی عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے‘‘اور نبی کریم ö کا ارشاد ہے کہ ’’ یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری اُمت کو عطافرمائی ہے سابقہ اُمتوں میں سے یہ شرف کسی کو نہیں ملا‘‘
جس سے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم ö نے ارشاد فرمایا :’’ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘ حضر ت عائشہ صدیقہ(رض) سے ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ö نے ارشاد فرمایا ’’ اِس مبارک رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں 21رمضان المبارک سے 29رمضان المبارک تک کے درمیان تلاش کرو کیوں کہ اِس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہے‘‘اِس شب سے ہی متعلق حضور نبی کریم ö کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ ’’ جس شخص نے شب ِ قدر میں اَجروثواب کی اُمید سے عبادت کی ،اِس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘ اِسی طرح حضرت ابوہریرہ(رض) سے ایک روایت ہے کہ رسول عربی ö نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص شبِ قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اِس کے تمام گناہ معاف ہوگئے‘‘۔ امام زہری (رح) فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبے کے ہیں چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میںشرف اور مرتبے کے لحاظ سے بلند ترہے اِس لئے اِسے ’’ لیلتہ القدر‘‘ کہاجاتاہے۔
تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے جمہور اِس پر متفق ہیں کہ رمضان المبارک کی 27ویں شب ہی شبِ قدر ہے جو کہ شرف وبرکت والی رات ہے اور اِس شب میں اعمالِ صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں اِس کی بڑی قدر ہے اِس لئے اِسے شب قدر کہتے ہیں۔یہ اُمت محمدی ö پر اللہ تعالی کا کرمِ خاص ہے کہ اِس نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی ö کی اُمت کو ایک ایسی رات شبِ قدر عطا فرمائی ہے کہ جس کی ایک رات کی عبادت83سال چار ماہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ö نے ارشاد فرمایاکہ ’’ جس نے لیلتہ القدر کو شب بیداری کی،اِس رات میںدو رکعت نماز پڑھی اور اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑا کراپنی بخشش کی دعاکی تو اللہ تبارک تعالی اِس کے گناہ معاف فرمادے گا، گویا کہ اِس شخص نے اللہ تعالی کے دریائے رحمت میں غوطہ لگالیا۔جبرئیل علیہ السلام اِسے اپنا پر لگائیں گے اور وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔‘‘مفسرین تحریر کرتے ہیں کہ شب قدر کی اہمیت کا اندازہ اِس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اِس شب میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آکر سلام کرتے اور اِس سے مصافحہ کرتے ہیں تو اِس پر خشیت الہی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اوراِس کے بدن کا رواں رواں کھڑاہوجاتاہے اور اِس کی آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں۔
بس تو پھرآج یہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُمت مسلمہ اِس رات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کے تمام تقاضوں کو پوراکرے اور اِس شب میںچوںکہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا ہے اِس لئے بغیر کسی حیل و حجت کے اِس رات میں دنیاوی خرافات اور شیطانی وسوسوں اورچکروں میں پڑنے کے بجائے اِس مقدس شب کوکثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے کیوں کہ ویسے تو پورے رمضان ہی قرآن کی تلاوت کا اپنا اَجر وثواب ہے مگر اِس شب کو خصوصیت کے ساتھ تلاوت قرآن کرنا،قرآن سننااور اِس کا اہتمام کرنے کا بھی اپنا علیحدہ ہی اَجر وثواب ہے اور اِس شب میں نوافل، استغفار اور درود و سلام کی کثرت بھی اِس شب کی عبادات میں شامل ہیں یہ بھی خصوصی درجہ رکھتی ہیں۔
یوں تو یہ خوش نصیبی صرف امت محمدی ö کو ہی حاصل ہے کہ آج کی اِس شب ، شب قدر کی عبادت میں کھڑے انسان پر ربِ ذوالجلال کی خاص عنایتوں کا نزول ہورہاہوتاہے اور وہ اِن ہی رحمتوں ، برکتوں اور عنایتوں کواپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے اِس شب کا پورے سال بھربڑی بے چینی اور بیتابی سے انتظار کررہاہوتاہے۔تاکہ اپنے رب ذوالجلال کی اِس شب، شبِ قدر کی بابرکت ساعتوں سے فیضاب ہوسکے جو آج کی شب اللہ تعالی اپنے بندوں پر آسمان سے جھم جھم برسارہاہے