فطرت کی راہ
  • عنوان: فطرت کی راہ
  • مصنف: محمدحسین طباطبائی
  • ذریعہ: مترجم:سید قلبی حسین رضوی کتاب(اسلام اور آج کا انسان )
  • رہائی کی تاریخ: 14:36:39 1-9-1403

 



سوال:کیا موجودہ دنیا کے حالات اور روز مرہ حیرت انگیز ترقی کے پیش نظرباور کیاجاسکتا ہے کہ اسلام عالم بشریت کا نظم ونسق چلا کر موجودہ ضرورتوں کو پورا کر سکےگا؟

کیا حقیقت میں وہ وقت نہیں پہنچا ہے کہ جب انسان علم کی قدرت سے آسمانوں پر کمندڈال رہا ہے اور ستاروں کو تسخیرکرنے جا رہا ہے ،اب اسے ان کہنہ مذہبی افکار کوبالائے طاقرکہ کراپنی قابل فخرزندگی کے لئے ایک نئے اور تازہ طریقہ کارکا انتخاب کر کے اپنی فکروارادہکی طاقت کواپنی شاندارکا میا بیوںپر متمرکزکرنا چاہئے؟ جواب:اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کراناضروری ہے اور وہ یہ ہے :صحیح ہے کہ ہم فطری طور پر ہر نئی چیز کوپرانی چیز کی نسبت پسند کرتےہیں اور ہر چیز کے نئے پن کو اس کے پرانے پن پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بہر حال یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے اور اس طریقہ کار کو ہر جگہ پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہ ۔مثال کے طور پردواوردوچار جو لاکہوں اورہزاروں سال سے انسان میں رائج ہے اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے ،اسے کہنہ سمجہ کر دور نہیں پہینکا جاسکتاہے! ی ہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ عالم بشریت میںرائج اجتماعی اور معاشرتی زندگی اب کہنہ ہو چکی ہے،اس سلسلہ میں ایک نیا منصوبہ مرتب کر کے انفرادی زندگی کاآغاز کیا جان چاہئے۔یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ملکی قوانین جو کافی حد تک انسان کی انفرادی آزادی پر پابندیاںعائد کرتے ہیں ،اب کہنہ ہو چکے ہیں اور لوگ ان سے تنگ آچکے ہیں ،اس وقت جب کہ انسان فضا کو تسخیرکرنے میں لگا ہے اورستاروں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کے مدار میں سڻلا ئٹ بہیج رہا ہے اس لئے ایک نئی راہ کا انتخاب کرناچاہے اور قانون ،قانون سازاور قانون لاگوکرنے والوں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہے۔
واضح اور روشن ہے کہ یہ باتیں کس حد تک بے بنیاد اور مذاق پر مبنی ہیں ۔اصولاًکہنہ اور نئے پن کامسئلہ ایسے مواقع پر بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو تغیر وتبدّل کے دائرہ میں آتے ہوں،جس کے نتیجہ میں کبہی بہتر اور شاداب اور کبہی نا مناسب عوامل کی وجہ سے فرسودہ اورافسردہ ہوجاتے ہیں۔
ا س لئے ،حققت شناسی سے مر بوط بحثوں کے سلسلہ میں ،جو فطری تقاضوں سے متعلق ہیں اور خلقت و کائنات کے حقیقی قوانین کی تحقیق کرتے ہیں (جن میں سے ایک یہی ہمارازیر بحث مسئلہ ہے : کیا اسلام مو جودہ حالات کے پیش نظرعالم بشریت کا نظم و نسق چلا جا سکتا ہے ؟)اس کے بارے میں کہنہ اور نئے پن کا مسئلہ نہیں چہیڑ نا چاہے ۔ہر بات کی ایک خاص جگہ اور ہر نکتہ کا ایک مخصوص مکان ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہ “کیا اسلام موجودہ حالات میں عالم بشریت کا نظم ونسق چلاسکتا ہے -؟ ”یہ سوال بہی اپنی جگہ پر عجیب و غریب ہے اور اسلام کے حقیقی معنی کے مطابق بہی جو قرآن مجیدکی دعوت پر مبنی ہے یہ سوال انتہائی تعجب آور ہے ۔کیونکہ “اسلام”وہ راستہ ہے جس کی انسان اور کائنات کی خلقت کی مشینری نشاندہی کرتی ہے ۔“اسلام”یعنی وہ قواعد وضوابط جو بشریت کی خاص فطرت کے مطابق ہیں اور انسان کی فطرت کے ساتہ رکہنے والی مکمل ہم آہنگی کے پیش نظرانسان کی حقیقی ضرورتوں کو ۔۔نہ فرضی اور جذباتی ضرورتوں کو۔۔پورا کرتے ہیں۔
ب دیہی بات ہے کہ انسان کے انسان ہو نے تک اس کی انسانی فطرت نہیں بدلتی اور انسان جس زمان و مکان میں ہو اور جس حالت میں بہی زندگی بسر کرتا ہووہ اپنی انسانی فطرت پر گامزن ہوگا اور فطرت نے اس کے سامنے ایک راستہ معین کیا ہے،خواہ وہ اس پرچلے یا نہ چلے۔
ا س بناء پر حقیقت میں مذکورہ سوال کا معنی یہ ہے کہ اگر انسان فطرت کی معینٌ کردہ راہ پر چلے تو کیاوہ اپنی فطری خو شحالی کو پاسکتا ہے اور اپنی فطری آرزوؤںتک پہنچ سکت ہے ؟یامثال کے طور پر اگر کوئی درخت اپنی فطری راہ ۔۔جو مناسب وسائل سے مجہز ہے ۔۔پر چلے توکیا وہ اپنی فطری منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ؟واضح ہے کہ بدیہیات کے بارے میں اس قسم کے سوالات مسلّمات میں شک وشبہ ایجاد کرنے کے مترادف ہیں ۔ ا سلام، یعنی فطرت کی راہ،ہمیشہ انسان کی حقیقی راہ ہے جواس کی زندگی کے مختلف حالات کے پیش نظرنہیں بدلتی ہے۔اسکے فطری مطالبات ۔۔نہ جذباتی اورتوہماتی خواہشات۔۔اس کے حقیقی مطالبات اور فطری منزل مقصود اور سعادت وخوشبختی تک پہنچنے کے مطالبات ہیں۔خدائے تعالی اپنے کلام میں فرماتا ہے:
>فاٴقم وجهک للدّین حنیفا فطرت اللَه الَتی فطر النَاس علیها لاتبدیل لخلق اللَه ذلک الدَین ( القيّم>(روم/ ٣٠
” آپ اپنے رخ کودین کی طرف رکہیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔ یقینا یہی سیدہا اور مستحکم دین ہے ۔“ ا س مطلب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ ہمارے لئے واضح اورمشہور ہے کہ عالم خلقت میں مختلف مخلو قات مو جود ہیں ،ان مخلوقات میں سے ہر ایک کی اپنی زندگی اور بقاء کے لئے ایک مخصوص طریقہ کاراور خاص راستہ معین ہے اور وہ اپنی زندگی کی راہ میں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک معین راستہ پر گامزن ہیں اور ان کی سعادت و خوش قسمتی اس میں ہے کہ اپنی زندگی کی اس راہ میں کسی رکاوٹ سے دو چارہوئے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں ۔
دوسرے الفاظ میں اپنی زندگی اور بقاء کے راستے کواپنے وجود میں پائے جانے والے وسائل اور اسلحوں سے استفادہ کرتے ہوئے کسی رکا وٹ کے بغیرطے کرکے سر انجام تک پہنچ جائیں۔
گیہوں کا دانہ پنے نباتی سفر میں ایک خاص راستہ طے کرتا ہے ۔اس کے داخلی ساخت وساز کے مطابق موجودہ خاص نظم واسلحوں’مخصوص حالات وشرائط میںروبہ عمل آتے ہیں اور گندم کے پودے کی نشوونما کے لئے ضروری عنا صر کو معین مقدار اور نسبت میں جذب کر کے گندم کے پودے کی مخصوص راہ پر راہنمائی کرکے اسے منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ گندم کا پودااپنی نشو ونما کی راہ میں اندرونی اوربیرونی ماحول اورعوامل کے سلسلہ میںجس خاص روش کو اپناتا ہے ،وہ کسی صورت میں قابل تغیر نہیں ہے۔مثال کے طور پر کبہی ایسا نہیں ہوتاہے کہ گندم کااپنی نشوو نما کاتہوڑاسا راستہ طے کرنے کے بعد ہی اچانک ایک سیب کے درخت میںتبدیل ہو جائے اور اس کی شاخیں،کونپلیں اور پتے نکل آئیںیا اپنی زندگی کی راہ میں ایک پرندہ میں تبدیل ہوکر پرواز کرے۔یہ قاعدہ خلقت کی تمام انواع میں موجود ہے اورانسان بہی اس کلّی قاعدہ سے مستثنی نہیں ہے ۔
ا نسان بہی اپنی زندگی میں،ایک فطری راہ اور ایک منزل مقصود رکہتا ہے جو اس ک کمال،سعادت اورخوشبختی ہے۔اس کی بناوٹ کچہ ایسے اسلحوں سے مجہّز ہے جواس کی فطری راہ کو مشخص کرتے ہیں اور اسے حقیقی منافع کی طرف راہنمائی کرتے ہیں ۔ خدائے متعال تمام مخلوقات میں مو جود اس عمو می راہنمائی کی تعریف میں فرمات ہے:
( > الّذی ا عطیٰ کلّ شیٍ خلقه ثم هدی>(طہ۔ ۵٠
” خدا وہ ہے جس نے ہر شے کواس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پہر ہدایت بہی دی ہے ۔(یعنی نفع کی طرف)“
ا نسان میں موجود خصوصی راہنمائی کے بارے میں فرماتا ہے: ( > ونفس وما سوٰها فاٴلهمها فجورها و تقوٰهاقد افلح مَن زکٰهاوقد خاب مَن دسٰہا>(شمس۔ ٧۔ ١٠ ”اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا ہے ۔پہر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے۔ بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا۔اور وہ نامراد ہو گیاجس نے اسے آلودہ کر دیاہے۔“
مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے انسان کی زندگی کا حقیقی راستہ -کہ جس میں اس کی حقیقی سعادت وخو شبختی ہے -وہ راستہ ہے جس کی طر ف فطرت اس کی راہنمائی کرتی ہے اور یہ انسان اور کائنات کی خلقت کے تقاضوں کے مطابق حقیقی مصلحتوں اور منفعتوں کی بنیاد پر استوار ہے ،چاہے یہ اس کے جذباتی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ جذبات کو فطرت کی راہنمائی کی پیروی کرنی چاہئے اور اسی کے تابع ہو نا چا ہئے نہ کہ فطرت انسان کے نفسانی خواہشات اور جذ بات کے تابع ہو۔ انسانی معاشرہ کو بہی اپنی زندگی کو حقیقت پسندی پر استوار کرنا چاہئے نہ متزلزل توہّمات اور دہوکہ دینے والے جذبات کی بنیادوں پر۔اسلام کے قوانین اوردوسرے ملکی قوانین میں یہی فرق ہے۔کیونکہ عام اجتماعی قوانین معاشرہ کے افراد کی اکثریت (نصف ۔ ١)کی خواہشات کے مطابق ہو تے ہیں۔لیکن اسلام کے قوانین فطرت کی ہدایت کے موافق ہوتے ہیںجوارادئہ الٰہی کی علامت ہے اوراسی لئے قرآن مجیدتشریعی حکم کو خدائے متعال سے مخصوص جانتا ہے ،جیسا کہ فرماتا ہے:
( >إن الحکم إلّا للّٰه>(یوسف/ ۴٠
”حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے۔“
( >ومن اٴحسن من اللّٰه حکما لقوم یوقنون>(مائدہ/ ۵٠
” صاحبان یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے؟“ اسی طرح جو کچہ ایک عام معاشرہ میں حکم فرماہوتا ہے وہ یا لوگوں کی اکثریت کی خواہش اور مرضی یاایک طاقتور مطلق العنان شخص کی خواہش کے مطابق ہو تا ہے ، چاہے یہ حکمرانی حق و حقیقت کے مطابق ہو اور معا شرہ کی حقیقی مصلحتوں کو پورا کرتی ہویا اس کے بر خلاف ہو ۔لیکن حقیقی اسلامی معاشرہ میں حق و حقیقت کی حکو مت ہو تی ہے اور لوگوں کو ا س کی اطاعت وپیروی کر نی چاہئے۔
یہاں پرایک اور شبہ کاجواب بہی واضح ہو تا ہے اور وہ یہ کی “اسلام انسانی معاشرہ کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔جو انسا نی معاشرے ا ج کل مکمل آزاد ی سے مالا مال اور ہر قسم کی کامیابی وکامرانی سے بہرہ مند ہیں ،ہر گز تیار نہیں ہیں کہ اسلام کی اتنی پابند یوں کے تحت ر ہیں۔“
البتہ اگر ہم بشریت کو موجودہ حالات میں’ جبکہ اخلاقی زوال نے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر اثر کیا ہے اور ہر قسم کی بے راہ روی اور ظلم واستبداد نے اپنا سایہ ڈالا ہے اور ہر لمحہ فنا وزوال کے بادل منڈلا رہے ہیں ،فرض کریں اور پہر اسلام کا اس کے ساتہ مواز نہ کریں تو ہم واضح اورروشن اسلام اورتاریکی میں ڈوبی بشریت کے درمیان کسی بہی قسم کی مطا بقت کو نہیں پائیں گے اور ہمیں توقع بہی نہیں رکہنی چاہئے کہ اسلام کی موجودہ حالت کو جاری رکہتے ہوئے ،یعنی جزئی طور پراسلامی احکام کی ظاہری صورت عالم بشریت کی مکمل سعادت کو پورا کرے گی یہ تو قع بالکل اس امر کے مانند ہے کہ ہم جمہوریت کا صرف دم بہر نے والی ایک استبدادی اور مطلق العنان حکومت سے حقیقی جمہوریت کے نتائج اور فوائد کی تو قع رکہیں یا یہ کہ بیمار ڈاکڑ کے نسخہ لکہنے پر ہی اکتفا کرکے صحت یاب ہونے کی امید میں بیڻہے رہیں ۔
لیکن اگر ہم صرف لوگوں کی خدا داد فطرت کو مد نظر رکہتے ہوئے اسلام - جودین فطرت ہے --- - سے مواز نہ کریں تو ہم اس میں مکمل موافقت اور ہم آہنگی پائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ فطرت نے جس راستہ کو خود تشخیص دے کر معین کیا ہے اور اس کی طرف ہدایت کرتی ہے اور اس کے علاوہ کسی اور راستہ کو قبول نہیں کرتی ہے ،اس کے ساتہ ہم آہنگ نہ ہو؟
البتہ لوگوں کی لا ابالی اوربے راہ روی کی وجہ سے پیدا ہوئی گمراہیوں اور کج فہمیوں سے جو آج کل فطرت دو چار ہے اس کی وجہ سے کسی حدتک فطرت اور اس کی معین کردہ طریقہ کار کی شناسائی میں شگاف پیدا ہوا ہے ۔لیکن ان ناگفتہ بہ حالات میں عاقلانہ روش یہ ہے کہ ان ناموافق حالات سے مقا بلہ کیا جائے تاکہ زمینہ ہموار ہو جائے نہ یہ کہ منحرف کی گئی فطرت پر خط بطلان کہینچ کر انسانی سعادت وخوشبختی سے ناامید ہو کرچشم پو شی کریں ۔تاریخ گواہ ہے کہ تمام نئی روشیں اور نظام اپنے قیام کی ابتداء میں گزشتہ روشوں اور پرانے حالات سے سختی کے ساتہ نبرد آزما ہوتے ہیں اور بہت سی کشمکشوں -جو اکثر خوںریزی پر مشتمل ہوتی ہیں -کے بعد معاشرہ میں اپنے قدم جماکر اپنے سابقہ دشمنوں کی یاد کولوگوں کے ذہنوں سے محو کر سکتے ہیں ۔ جمہوریت کے تمام نظام جو ان کے طرفداروں کے عقیدہ کے مطابق لوگوں کی مر ضی پر مبنی کامیاب ترین نظام ہےں،نے اپنے استحکام کے لئے فرانس اور دنیا کے دوسرے ممالک میں کئی خونیں انقلاب بر پا کرنے کے بعداستحکام پایا ہے۔اسی طرح کمیونسٹ نظام -جو اپنے طرفداروں کی نظر میں بشر کی ترقی یافتہ تحریک اورتاریخ کا عظیم تحفہ ہے -نے بہی اپنی پیدائش کی ابتداء میں سویت یونین میں پہر ایشیا،یورپ اور لاطینی امریکہ میں لاکہوں اور کروڑوں انسانوں کو خاک وخون میں غلطاں کرنے کے بعد استحکام پایا ہے۔ مجموعی طور پرایک معاشرہ کی ابتدائی مرحلہ میں ناراضگی اور مزاحمت ایک روش کے نا مناسب یا بے بنیادہو نے کی دلیل نہیں ہوسکتی ہے۔لہذا اسلام ہر حالت میں زندہ ہے اور معاشرے میں رائج ہونے کی قابلیت و صلاحیت رکہتا ہے ۔
ہم اس موضوع پر آنے والی بحثوں میں وضاحت کے ساتہ روشنی ڈالیں گے۔

اسلام اورہر زمانہ کی حقیقی ضرورتیں ب حث وتحقیق کے بارے میںپیش آنے والے اور نفی واثبات قرار پانے والے علمی مسائل میں سے ہر مسئلہ کی اہمیت اور اس کی حقیقی قدر وقیمت ایک حقیقت کی اہمیت اورقدروقیمت کے تابع ہے جو ان میں پائی جاتی ہے اور یہ ایسے آثار و نتائج کے تابع ہوتے ہیں جو عمل و نفاذ کے مقام پر ان کی تطبیق اور زندگی کے نشیب و فراز میں ان سے استفادہ کرتے وقت وجود میں آتے ہیں ۔
انسان کو کہانا پینا سکہانے والا ایک انتہائی ابتدائی تصور،قدر وقیمت کے لحاظ سے انسان کی زندگی کے برابر ہے ۔یعنی اس کی قدر وقیمت وہی زندگی کی قدر وقیمت ہے جو انسان کی نظر میں ایک گراں بہا سرمایہ ہے ،اور ایک تصورجو ظاہرًا انتہائی معمو لی اور مختصر ہے -جوانسان کے دماغ میں اجتماعی زندگی کی ضرورت کو ایجاد کرتا ہے -اس کی قیمت وہی ہے جو انسان کے حیرت انگیز نظام کی قیمت ہے جو ہر لمحہ انسان کے لاکہوں عمل وحرکات سکنات کو ایک دوسرے سے ربط دے کرہر روز کروڑوں مطلوب او رنامطلوب اثرات کو پیدا کر کے گونا گوںبرُے اور اچہے نتائج کو وجود میں لاتا ہے ۔ ا لبتہ اس بات سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک مقدس دین -جیسے دین اسلام -کا انسان کی ضرورتوں کو ہر زمانہ میں پورا کرنا،اہمیت کے لحاظ سے اول درجہ رکہت ہے اور یہ انسان کی زندگی کی اہمیت کے برابر ہے کہ ہم اس سے قیمتی تر سرمایہ کا تصور نہیں کر سکتے ہیں۔
البتہ دین اسلام کے بنیادی اصو لوں سے کم ازکم آگاہی اور دلچسپی رکہنے والا ہر مسلمان اس مسئلہ کو اسلام سے یاد کئے گئے مسا ئل کی فہرست میں درج کرتا ہے ۔ حقیقت میں یہ فکری مادّہ بہی اسلام کے وجود میں لائے گئے دوسرے دینی فکری مادّوں کے مانند صدیوں سے ہم ،اسلام کے پیروکاروں کے ذہنوں میں موجود ہے اور وراثت کے طور پر ایک فکر سے دوسری فکرمیں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنی خاموش زندگی کو جاری رکہے ہوئے ہے اور ہمیشہ دیگر مذہبی مقدسات کے مانند بحث و تمحیص سے دامن بچاتے ہوئے انسانوں کی سرشت میں منتقل ہوا ہے اور اس سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم مشرقی ہیں اور جہاں تک ہمیں اپنے اسلاف اور آباواجداد کی تاریخ کے بارے میں یاد ہے،شایدہزاروں سال گزر چکے ہوں گے،گزشتہ اجتماعی ماحول میں -ہم پر حکومت کی گئی - ہر گز ہمیں فکری ،خاص کر سماجی مسائل سے مربوط علمی مسائل میں آزادی نہیں دی گئی اور صدراسلام میں ایک مختصرمدت میں پیغمبر اسلام کے ذریعہ جو ایک کرن نمودار ہوئی تہی اور طلوع فجر کے مانند ایک نورانی دن کی نوید دیتی تہی چند خود پرستوں اور منافع خوروں کے تاریک حوادث طبیعی اورمصنوعی طوفان کے نتیجہ میں دوبارہ تاریکی کے پردہ میں چلی گئی اور اس کے بعد ہم رہے اور اسیری و غلامی ،ہم رہے اورتازیانے ،تلواریں،پہانسی کے پہندے ،زندانوں کی کالی کو ڻہریاں ،اذیت خانے اور مرگ آورماحول، ہم رہے اورقدیمی فریضہ“ہاںہاں ”“لبیک ”و“سعدیک!“
جو بہت چالاک تہا وہ اسی حدتک اپنے مذہبی مقدسات کے مادّوں کو محفوظ کر سکت تہا اور اتفاق سے وقت کی حکومتیں اور معاشرہ کا نظم و انتظام چلانے والے بہی اس رویّہ کے بارے میں آزاد بحث کرنے میں رکاوٹ ڈالنے میں زیادہ بے غرض نہیں تہے ۔وہ یہ چاہتے تہے کہ لوگ اپنے کام میں مشغول رہیں اوردوسرے امور میںدخل نہ دیں،یعنی وہ صرف اپنے کام میںلگے رہیں،حکومتی اورعمومی امورمیں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان کی نظر میںیہ امورصرف حکومتوں اورمعاشرہ کا نظم وانتظام چلانے والوں کاحق تہا! وہ لوگوں کے اغلب دینی امور اورنسبتًا سادہ دینی امور کے پابند ہونے میں اپنے لئے کسی قسم کا نقصان نہیں دیکہتے تہے اس لئے اس حالت سے نہیں ڈرتے تہے،وہ صرف یہ چاہتے تہے کہ لوگ تجسّس اور تنقیدپر نہ اتر آئیں اور وہ خود لوگوں کے مفکّربن کے رہیں ۔کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو اچہی طرح سے درک کیا تہا کہ زندگی میں طاقتور ترین وسائل افراد کے ارادہ کی طاقت ہے اور افراد کا ارادہ قیدوشرط کے بغیران کے مفکرانہ مغز کے تابع رہے اورمفکروں کے مغز پرتسلّط جماکر ان کے ارادوں پرتسلط جماسکیں ،اس لئے وہ لوگوں کے افکار پر تسلط جمانے کے علاوہ کچہ نہیں سوچتے تہے تاکہ ہماری اصطلاح میں خود لوگوں کے مفکر بن کے رہیں۔
ی ہ حقائق کا ایک ایسا سلسلہ ہے جیسے اپنے اسلاف کی تاریخ کامطالعہ کرنے والا ہر فرد بڑی آسانی کے ساتہ سمجہ سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہے گا ۔
حال ہی میں یورپ کی آزادی مغرب کوسیراب کرنے کے بعدہم مشرق زمین کے باسیوں کے ہاں آئی ہے ،اس نے ابتداء میں ایک محترم مہمان کی حیثیت سے اور اس کے بعد ایک طاقتور گہر کے مالک کی حیثیت سے ہمارے برٌاعظم میں قدم جمائے ہے ۔اگر چہ اس آزادی نے افکار کے گہڻن کا بوریا بسترہ گول کر دیا اور آزادی کا نعرہ بلند کیا،یہ ایک بہترین وسیلہ اور مناسب ترین فرصت تہی جو ہمیں اپنی کہوئی ہوئی نعمت کودوبارہ حاصل کرکے ایک نئی زندگی کی داغ بیل ڈال کر علم وعمل کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ،لیکن افسوس یورپ کی یہی آزادی، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلائی ،ان ہی ظالموں کی جانشین بن کر ہمارے دل ودماغ پر سوار ہوگئی!
ہم نہ سمجہ سکے کہ کیا ہوا؟جب ہم ہوش میں آئے تو دیکہا کہ وہ دن گزر گئے تہے جب ہم اپنی حیثیت کے مالک تہے اب خدا اور گزشتہ آسمانی طاقتوں کی باتوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اسی طرح عمل کرنا چاہئے جو کچہ یورپی انجام دیتے ہیں اور جس راہ پروہ چلتے ہیں ،اسی راہ پر ہمیں بہی چلنا چاہئے! ایک ہزار سال سے سرزمین ایران “بو علی سینا ”کو اپنی آغوش میں لئے ہوئی تہی اور اس کی فلسفی اورطبّی تالیفات ہماری لائبریریوں میں موجود تہیں اور اس کے علمی نظریات ورد زبان تہے اور کوئی خاص خبر نہیں تہی ۔
سات سو سال سے “خواجہ نصیرالدین طوسی ”کی ریاضی کی کتابیں اور ان کے ثقافتی خدمات ہمارا نصب العین تہا اور کہیں اس کی خبر تک نہیں تہی ،لیکن ہم نے یورپیوں کے ان کے دانشوروں کے سلسلے میں یاد گار منانے کی تقلید کرتے ہوئے “بوعلی سینا”کے لئے ہزار سالہ یادگار اور“ خواجہ نصیرالدین طوسی ”کے لئے سات سو سالہ یاد گاری تقریبیں منعقدکیں۔ تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے “صدرالمتالہین ”کافلسفی نظریہ ایران میں رائج تہا اور انہیں کے فلسفی نظریہ سے استفادہ کیا جاتا تہا ۔ایک طرف سے برسوں پہلے تہران یونیورسڻی کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس میں قابل توجہ صورت میں فلسفہ پڑہایا جاتا ہے ،لیکن جب چند برس پہلے ایک مستشرق نے اس یونیورسڻی میں اپنی تقریر میں “ملاصدر”کی تمجید وتعظیم کی اور اس کے فلسفی نظریہ کی تعریفیں کیں تو یونیورسڻی میں اس کی شخصیت اور اس کے فلسفی نظریہ کے بارے میں ایک بے مثال ہلچل مچ گئی۔ ی ہ اوران جیسے دوسرے واقعات ایسے نمونے ہیں جو عالمی سطح پر ہماری اجتماعی حیثیت اور ہماری فکری شخصیت کی ہویت کوواضح کرکے بتاتے ہیں کہ ہماری فکری شخصیت طفیلی ہے اور ہمارے فکری سرمایہ میں سے جو کچہ چوروں سے بچا ہے وہ جوتشیوں کے حصہ میں آیا ہے۔
ہ م میں سے اکثرلو گوں کے فہم وادراک کا یہی حال ہے ۔اور لوگوں کی جو اقلیت کسی حدتک اپنی فکری آزادی کو محفوظ کرسکی ہے اور اپنے دماغ کے سرمایہ کو مکمل طور پر اغیار کے ہاتہوں لوڻنے سے محفوظ رکہا ہے وہ بہی تعدّد شخصیت کے شکار ہوئے ہیں ۔یہ لوگ ایک طرف سے مغربی افکار کے دلدادہ اور دوسری طرف سے اپنے مشرقی اورموروثی افکار کے غلام بن گئے ہیں اور کہلم کہلا کوشش کر رہے ہیں کہ ان دو متضادشخصیتوں کوآپس میں ملادیں ۔
ہمارا ایک دانشور مؤلف “اسلامی ڈیمو کریسی ”کے عنوان سے اسلام کی روش کو ڈیمو کریسی کی روش سے تطبیق کرتا ہے تودوسرا “اسلامی کمیونزم ”کے عنوان سے کمیونزم کی روش اور طبقاتی اختلافات کو دور کرنے کے طریقہ کار کودین سے نکال کرپیش کرتا ہے۔
ایک عجیب داستان ہے !اگر حقیقت میں اسلام کی فطانت اور حقیقت پسندی صرف اسی میں ہے کہ واضح اور روشن ترین ظاہرداری کے ساتہ ہمارے پاس آئی ہوئی ڈیمو کریسی اورکمیونزم کی زندہ روح اس میں ہونی چاہئے تو پہر کیا ضرورت ہے کہ ہم چودہ سو سال پرانے چند افکار کو انتہائی رنج ومحنت کے ساتہ ان سے تطبیق کرکے اپنے سینہ پر لڻکادیں! ا گر اسلام ایک مستقل حقیقت رکہتا ہے اور یہ حقیقت ایک جدا،زندہ اور گراں بہا حقیقت ہے توکیا ضرورت ہے ہم اس کے خداداد حسن کو بناوڻی سجاوٹ سے پردہ پوشی کریں اورمصنوعی صورت میں اسے خریداروں کے سامنے پیش کریں! حالیہ چند برسوں کے دوراں ،یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی دانشوروں نے ادیان ومذاہب کے بارے میں ایک خاص جوش و جذبہ کے ساتہ بحث وتحقیق کرنی شروع کی ہے اور اپنی تحقیق کے نتائج کو ہر روز منتشر کرتے ہیں اور بے شک ہم بہی ،مذکورہ تقلید و تبعیت کے پیش نظر،کم وبیش اسی راہ پر چلتے ہوئے دین مقدس اسلام کے بارے میں چند سوالات کو اپنی گفتگو کا موضوع قراردیتے ہیں:
کیادین ومذہب سب حق ہے ؟کیا آسمانی ادیان اجتماعی اصطلا حات کی ایک کڑی کے علاوہ کچہ اور ہے ؟کیادین روح کی پاکی اور اخلاقی اصلاح کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد رکہت ہے ؟کیا مذہبی احکام اسی شکل وصورت میں ہمیشہ باقی رہیں گے؟کیا دین کا عملی احکام کے علاوہ کوئی اور مقصد بہی ہے؟کیا اسلام ہر زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے ؟کی اورکی
ا لبتہ جب ایک محقق دانشورایک مسئلہ سے نمڻتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسئلہ کو مسلّم علمی معیاروں سے تطبیق دے کر اس کی تفسیر کرتا ہے پہر اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے ۔ مغربی دانشور ،دین کو ایک اجتماعی مظہر جانتے ہیں ،جو خود معاشرہ کے مانند بعض فطری عوامل کا ایک معلول ہے ۔
مغربی دانشوروں کی نظر میں تمام ادیان من جملہ اسلام -اگر دین کے موضوع کے بارے میں خوش فہم ہوں تو -چند غیر معمولی ذہانت رکہنے والے افراد کے آثارہیں ،جنہوں نے اپنے نفس کی پاکی، انتہائی ذہانت اور ناقابل شکست ارادہ کے نتیجہ میں اپنے معاشرہ کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لئے کچہ قوانین وضع کرکے لوگوں کی زندگی کی سعادت کی راہ پرراہنمائی کرتے تہے۔ یہ قوانین انسانی معا شروں کے تدریجی ارتقائ کے ساتہ ساتہ تغیر پیدا کر کے ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچتے ہیں ۔
حس،تجربہ اور یہی تاریخ ثابت کرتی ہے کی انسانی معاشرہ تدریجی طور پر ارتقاء کی طرف بڑہتا ہے اور عالم بشریت تہذیب و تمدن کے میدان میں ہر روز ایک نیا قدم اڻہاتی ہے اور نفسیاتی ،قانونی اور اجتماعی ،حتی فلسفی ،خاص کر “ڈیالڻیک میڻریالزم ”فلسفہ کے نتائج کے پیش نظر چونکہ معاشرے ایک ثابت حالت میں نہیں رہتے ہیں اس لئے معاشروں میں قابل نفاذ قوانین بہی ایک حالت میں باقی نہیں رہ سکتے۔ جنگلی میوے کہاکر غاروں میں زندگی بسر کرنے والے ابتدائی انسانوں کی سعاد ت مند زندگی کی ضرورتوں کوپورا کرنے والے قوانین،ہرگز آج کی تکلفاتی زندگی کے لئے کافی نہیں ہوسکتے۔
ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے جنگ کرنے والے زمانہ سے مر بوط قوانین،آج کل کے ایڻمی دور کے لئے کسی صورت میں فائدہ مند نہیںہو سکتے۔ گہوڑوں اورگدہوںپر سفر کرنے والے زمانے سے مربوط قوانین،آج کل کے جٹ ہوائی جہاز اور آب دوز کشتیوں سے سفر کرنے کے زمانے کے کس دردکا علاج کر سکتے ہیں ؟ مختصر یہ کی آج کی دنیا نہ اپنے اسلاف کے قوانین کو قبول کرتی ہے اور نہ اس سے ان کو قبول کر نے کی تو قع کی جاسکتی ہے ۔ نتیجہ کے طور پر انسانی معاشروں میں نافذ ہونے والے قوا نین مسلسل قابل تغیر ہیں اور عالم بشریت کے گونا گوں تحّولات کے مطابق مکمل ہوتے ہیں اور اعمال کے قوانین میں تبدیلیوں کے پیش نظر اخلاق بہی قابل تغیر ہے ،کیونکہ اخلاق وہی ثابت نفسانی صورتیں اور ملکہ ہے جو عمل کے تکرار سے وجود میں آتا ہے ۔
دوہزار یا تین ہزار سال قبل خاموش اور سادہ زندگی کو آج کی باریک اور پیچیدہ زندگی کی سیاست قبول نہیں کرتی ،آج کے معاشرہ کی خواتین دو ہزار سال پرانی خواتین کی عفت پر عمل نہیں کر سکتی ہیں!
عصر حاضر کے مزدور،کسان اور دوسرے محنت کش طبقے قدیم زمانے کے مظلوم طبقات جیسا صبرو تحمل نہیں رکہ سکتے ہیں ۔فضا کو تسخیر کرنے والے زمانہ سے مربوط انقلابی مغز والے انسان کو سورج گہن ،چاندگہن اور سیاہ طوفان سے نہیں ڈرایاجا سکتا اور انہیں توکّل اورقضاپر تسلیم ورضا سے قانع نہیں کیا جا سکتا ۔ مختصر یہ کہ ہر زمانہ کا انسانی معاشرہ اسی زمانہ کے مطابق و مناسب قوانین اور اخلاق چاہتاہے۔
دوسری جانب سے اسلام کی دعوت نے ایک روش اور قوانین کے ایک سلسلہ کو مد نظر رکہا ہے ،جو انسانی معاشرہ کی سعادت کی بہترین صورت میں ضمانت دیتے ہوئے انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور “اسلام ” اسی واضح ،روشن اورمقدس قوانین کا نام ہے ۔( ١)جیسا کہ “اسلامی تحقیقات ” کے عنوان سے ہمارے پہلے مجموعہ میں “قرآن کی نظر میں دین ”کے موضوع میں مفصل بحث ہوئی ہے ۔
ب دیہی ہے کہ اس قسم کی روش اور قوانین ہر زمانہ میں مختلف مظاہر رکہتے ہیں ان میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روش اور قوانین بہی ہیں جنہیں آپ اپنے زمانہ میں نافذ فرماتے تہے ۔دوسرے زمانوں میں بہی اسلام کے مظاہر بہترین اور مقدس ترین روش اور قوانین ہوں گے جواس زمانے کے انسانی معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں ۔ ا س بیان سے واضح ہوا کہ اس بحث میں مسلّم علمی معیاروں پر تکیہ کرنے کے ضمن میں مغربی دانشورکا جواب مثبت ہوگا ،لیکن مذکورہ تفسیر کے ضمن میں اس کی نظر میں اسلام ایک ابدی دین الہی ہے جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کے معاشرہ کی سعادت کوضمانت بخشنے کے لئے بعض قوانین کی صورت میں رونما ہوتا ہے ۔
ل یکن دیکہنا چاہئے کہ کیا اسلام کی آسمانی کتاب اور اس مقدس دین کے مقاصد ک بہترین ترجمان قرآن مجید بہی ،نبوت کو مذ کورہ معنی میں اور آسمانی دین کو اسی ترتیب سے -جیسے اجتماعی،نفسیاتی ،فلسفی اور مادی بنیادوں پر تکیہ کر کے تعبیر کی گئی ہے -تفسیر کرتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے مطابق اس سے مخصوص کچہ جدا قوانین کو قبول کرتا ہے اور اگر اس کے بر عکس کچہ ثابت اور نا قابل تغیر عقائد اخلاق اور قوانین کو وضع کرکے انسانی معاشرہ کو ان پر عمل کر نے کے لئے مکلف کرتا ہے ،تو انہیں کیسے مختلف زمانوں کے لوگوں کی ضرورتوں سے تطبیق کیا جاسکتا ہے؟
کیا قرآن مجید یہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ زمانہ کے گزرنے کے ساتہ ساتہ ایک ثابت حالت میں رہے اور تہذیب وتمدن پر ترقی کے راستے مکمل طور پر بندرہیں اور انسان کی روز مرہ فعالیت مکمل طور پر سر بستہ رہے ؟یہ رواں فطرت اور عالم بشریت کے فطری نظام ،سے مقابلہ کے مقام پر ،جو اس کی حکومت کے قلمرو سے خارج نہیں ہے ،کیسے نکلا ہے؟ ی ہ امر مسلّم ہے کہ قرآن مجید اپنے بنیادی بیان سے آسمانی دین کے موضوع اور عالم غیب سے سر چشمہ حاصل کر نے ،نظام خلقت اور اس مشہوردنیا سے رابطہ دینی احکام کے دائمی اور ثابت ہونے،انسانی اخلاق،ایک فرد یا انسانی معاشرہ کی خوشبختی وبدبختی کے بارے میں اس طرح وضاحت کرتا ہے جو ایک مغربی دانشور کی مذکورہ وضاحت سے مختلف ہے ،ان مطالب کو قرآن مجید کی نظر سے دوسری صورت میں دیکہا جاتا ہے جبکہ بصری وسائل ،مادی بحثوں کو دکہا تے ہیں ۔
قرآن مجید دین اسلام کے طریقہ کار اورقوانین کو مسائل و احکام کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے جو نظام خلقت،خاص کر انسان کی خلقت کواسی اپنی متحول فطرت سے -جو عالم فطرت کا جز تہا اور لمحہ بہ لمحہ اپنے وجود میں تغیر پیدا کرتا ہے -اپنی طرف راہنمائی کرتاہے ۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ،اسلام کو قوانین کا ایک ایسا سلسلہ جانتا ہے کہ نظام خلقت کا تقا ضا اس کے مطابق ہے اور اپنی بنیاد کی طرح نا قا بل تغیر ہے اور کسی کی نفسانی خواہشات کے تابع نہیں ہے ، اسلام کے یہ قوانین ،حق کو مجسّم جاننے والے قوانین ،جیسے استبدادی اور مطلق العنان ممالک کے قواعد وضوابط ، جو ایک ڈیکڻیڑ اور حاکم کی مرضی یا اکثریت کے مرضی کے مطابق اشتراکی ممالک کے قوانین کی طرح متغیرٌ نہیں ہوئے ہیں ،اور صرف ان کے وضع اور تشریع کی زمام نظام خلقت کے ہاتہ میں ہے اور دوسرے الفاظ میں ،خالق کائنات کے ارادہ کے تابع ہے ۔ہم اس مطلب کی تفصیلی وضاحت اس بحث کے دوسرے حصہ میں پیش کریں گے ۔
اسلام، ہر زمانہ کی ضرورتوں کوکیسے پورا کرسکتا ہے ؟ اجتماعی بحثوں کے دوران اس نکتہ کا کافی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ انسان اپنے اردگرد مو جودہ حیاتی ضرورتوں کے پیش نظر ان کو تنہا پورا نہیں کر سکا ہے اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو یکہ وتنہاپورا کرنے کی قدرت نہیں رکہتا تہا ،اس لئے اس نے مجبو رًا اجتماعی اور معا شرتی زندگی کا انتخاب کیا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک شہر یا معاشرہ وجود میں آت ہے۔اسی طرح ہم نے قانو نی بحثوں میں بہی بہت سنا ہے کہ معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کی ضرورتوں کو حقیقت میں اسی وقت پورا کرسکتا ہے جب ان کی ضرورتوں کے متناسب کچہ قوانین وجود میں آکر حکمرانی کریں تاکہ ان کے سایہ میں معاشرہ کا ہر فرد اپنے حقوق کو حاصل کر سکے اور زندگی کی سہو لتوں اور امکانات سے استفادہ کرسکے اورافراد کی اجتماعی کار کردگی کے نتائج سے معاشرہ کے منعقدہونے اور قوانین کی پیدائش کے سبب اپنا حصہ حاصل کرے۔ چنانچہ ان ہی دو نکتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے کہ،اجتماعی قوانین کے اصلی عامل وہی انسان کی حیاتی ضرورتیں ہیں کہ انسان ان کو پورا کئے بغیرایک لمحہ کے لئے زندگی گزانے کی طاقت نہیں رکہتا ۔معاشرہ کی تشکیل اور قانون کی پیدائش اور اس کے بر وقت نفاذکا براہ راست نتیجہ انہی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ جو معاشرہ اجتماعی طور پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اقدام نہ کرے ،یعنی اس معاشرہ میں انفرادی کام دوسرے افراد سے کوئی ربط نہ رکہتے ہوں ،تو اسے معاشرہ کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ ا سی طرح جن قوانین کا وجود میں آنا یا ان کا نفاذ ،لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کی خوشبختی اور سعادت کا سبب بننے میں کوئی اثر نہ رکہتے ہوں ،وہ حقیقی قوانین یعنی لوگوں کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والے قوانین نہیں کہلاتے ۔ایسے قوانین وضوابط کا وجود ضروری ہے جو کم وبیش ،مکمل طور پر یاناقص صورت میں معاشرہ کی ضرورتوں کو پوراکر سکیں اور لوگوں کے لئے قابل قبول ہوں۔ان قوانین کی ہر انسانی معاشرہ میں حتی وحشی اور پسماندہ معاشروں میں بہی ضرورت ہوتی ہے ۔منتہی پسماندہ معاشروں کے قوانین اورقومی ضوابط عادات اور رسوم کی صورت میں غیر منظم تصادم کے نتیجہ میں تدریجًا وجود میں آتے ہیں ،یا ایک آدمی کے بیہودہ ارادوں کے ذریعہ یا چند طاقتور لوگوں کی طرف سے لوگوں پر ڻہونسے جاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر اجتماعی زندگی کا اغلب حصہ تمام یا اکثرلو گوں کے لئے ایک واضح اور قابل قبول اصول پر مستحکم ہوت ہے ۔اس وقت دنیا کے گوشہ وکنار میں ایسے لوگ بہی ملتے ہیں جو قومی آداب ورسوم پر زندگی بسر کرتے ہیں بدون اس کے کہ ان کی اجتماعی زندگی کاشیرازہ بکہرجائے۔ ت رقی یافتہ معاشرے میں ،اگر معاشرہ دینی ہو تو آسمانی شریعت حکومت کرتی ہے اور اگر معاشرہ غیر دینی ہو تو ان قوانین پر عمل در آمد ہوتا ہے جنہیں معاشرہ کے اکثر لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ وجود میں لاتے ہیں ۔بہر حال ایک ایسے معاشرہ کا سراغ نہیں مل سکت ہے جس کے افراد کسی نہ کسی قسم کے قوانین وضوابط کے پا بند نہ ہوں اور ایسا معاشرہ پیدا کرنا مشکل ہے ۔
اجتماعی اورانسانی ضرورتوں کی تشخیص کا وسیلہ- چنا نچہ معلوم ہوا کہ قوانین اور ضوابط کا اصلی عامل زندگی کی ضرورتیں ہیں۔ لیکن دیکہنا چاہئے ان ضرورتوں -جو در حقیقت وہی اجتماعی اور انسانی ضرورتیں ہیں -کو کس طرح تشخیص دی جائے ۔
ا لبتہ یہ ضرورتیں انسان کے لئے بالواسطہ یابلاواسطہ قابل تشخیص ہونی چاہئیں اگر چہ اجمالی اور کلّی طور پر ضمنًا یہ سوال پید ہوتا ہے کی کیا انسان اپنی زندگی اور اجتماع کی تک لیف کی تشخیص میں بہی کبہی خطا سے دوچار ہوتا ہے یا جس چیز کو بہی تشخیص دےدے اسی میں اس کی سعادت وخوشبختی ہوتی ہے اور اسے چون چرا کے بغیر قبول اور نافذ کرن چاہئے ؟یعنی انسان کی وہی چاہت ،اس کے حقیقی ہو نے کی صورت میں ،اسے ضروری طور پر قبول اور نافذ کرنے کی لیبل لگا دے گی ۔
ل یکن آج کی ترقی یافتہ دنیا کی اصطلاح میں دنیا کے اکثر لوگ انسان کی چاہت کو قانون کی تشخیص دینے والی چیز بتاتے ہیں ،لیکن اس کے پیش نظرکہ ایک ملت کے تمام افراد کی چاہت یا باکل یکساں نہیں ہوتی یا اگر کہیں توافق پیدا ہو جائے تو وہ بہت کم اور اختلافی موارد کے مقا بلہ میں نا چیز ہوتا ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ،لہذا مجبورًا لوگوں کی اکثریت(نصف بعلاوہ ایک) کو قابل اعتبار جان کر اقلیت (نصف منہای ایک)کو مسترد کرکے اقلیت کی آزادی کو پائمال کیا جاتا ہے ۔
ا لبتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے ارادہ اور چاہت کا اس کی زندگی کے حالات سے براہ راست ربط ہوتا ہے ۔ایک امیرآدمی ،جو اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے ،اپنے دماغ میں ہزاروں آرزوئیں رکہتا ہے کہ ایک مفلس و حاجتمند کے ذہن میں یہ آرزوئیں پیدا بہی نہیں ہو سکتی ہیں ۔یا بہوک کی وجہ سے جس شخص نے اپنا تاب وتحمل کہو دیا ہو ،وہ ہر لذیذ اور غیر لذیذ کہانے کو کہا لیتا ہے ،اگر چہ وہ کسی اور کا مال بہی ہو ۔جب کہ امیر آدمی ناز ونخروں سے صرف لذٰیذ کہانوں کی طرف ہاتہ بڑہا تا ہے ۔انسان آرام و آسائش کی حالت میں اپنے ذہن میںبہت سے خیا لات کو پاتا ہے جن کا سختی اور مشکلات میں تصور تک نہیں کرتا!
ا س لحاظ سے اجتماعی زندگی کی ترقی کے پیش نظر انسان کی ضرورتیں تدریجاًبدل جاتی ہیں اور ان کی جگہ پر دوسری ضرورتیں جانشین ہو تی ہیں اور انسان قوانین کے ایک سلسلہ کے اعتبار اور نفاذ سے بے نیاز ہو کر نئے اور دوسرے قوانین وضع اورنا فذ کرنے یا پرانے قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوتا ہے ۔اس لئے زندہ قو موں میں پرانے قوانین مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے قوانین لیتے ہیں ۔یہ بات واضح ہوئی کہ اس کی حقیقی علت یہ ہے کہ قوانین کو وجود میں لانے والااوراس کی حمایت کرنے والا سبب ملت کے افراد کی اکثریت کی چاہت ہے اور یہی اکثریت کی مرضی قوم کے قواعدو ضوابط کو قانونی شکل دے کر ان پر حقیقت کی مہر لگا دیتی ہے ، حتی اگر ان کے معاشرہ کی حقیقی مصلحت ان قوانین میں نہ ہو،کیونکہ مثال کے طور پر فرانس کا ایک شخص فرانسیسی معاشرہ میں اس معاشرہ کا رکن اورجز اور اکثریت کے موافق ہونے کے ناطے محترم ہے اور مثال کے طور پر فرانس کا قانون جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک فرانسیسی فرد کو تحفظ بخشے اور وہ بہی بیسویں صدی میں نہ یہ کہ ایک برطانوی فرد کی یا ایک فرانسیسی فرد کی دسویں صدی میں (قابل غوربات ہے !) اس سلسلہ میں بیشترغور وخوض کر نے کی ضرورت ہے کہ کیا مذکورہ عامل انسان کی خواہشات میں مؤثر ہے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتہ ساتہ ان میں ہر لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔؟
ا ور یا پوری تاریخ بشریت میں انسانی معاشروں کے درمیان کوئی مشترک پہلو باقی نہیں رہتا ہے ؟
ی ا اصل انسانیت -جبکہ فطر تًازندگی کی چند ضرورتیں اس سے مربوط ہیں (چنانچہ کچہ دوسری ضرورتیں مختلف علا قوں اور زندگی کے مراکز کے حالات اور ماحول کے مختلف ہونے سے مر بوط ہوتی ہیں ) -تدریجاًبدل گئی ہے ؟اور پہلا انسان مثلاًآنکہ، کان ،ہاتہ پاؤں ،دماغ ،دل ،گردے ،پہیپہڑے ،جگر اور نظام ہاضمہ کے اعضا ء -و ہم میں پائے جاتے ہیں -نہیں رکہتا تہا ی ان اعضاء کی سر گرمی ایک دن ایسی نہیں تہی جیسی آج پائی جاتی ہے ؟ کیا گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آنے والے حالات ،جیسے جنگ و خون ریزی اور صلح وآشتی کے معنی انسان کو نابود کرنے یا اسے محفوظ رکہنے کے علاوہ کچہ اور تہے ؟ کیا شراب پینے کی صورت میں پیدا ہونے والی مستی ،مثلاً(شراب کے افسانہ کے موجد)“جمشید” کے زمانہ میں آج کے زمانہ میں رکہنے والے مفہوم کے علاوہ کچہ اور مفہوم رکہتی تہی ؟اور اسی طرح کیا، “نکسیا”اور “باربد ”جیسے موسیقی کاروں کی مو سیقی کی لذت آج کی موسیقی کی لذتوں کے علاوہ کچہ اور تہی ؟
مختصر یہ کہ کیا گزشتہ انسان کے وجود کی پوری بناوٹ آج کے انسان کی بناوٹ سے بالکل مختلف تہی ؟یا قدیم انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات آثار،عمل اور ردٌعمل ،آج کے انسان کے علاوہ کچہ اور تہے ؟
ا لبتہ ان تمام سوالات کے جوابات منفی ہیں ۔کسی بہی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکت ہے کہ انسانیت تدریجاًنابود ہو گئی ہے اور کوئی اورچیز اس کی جانشین بن گئی ہے یا جانشین ہوگی ،یا یہ کہ اصل انسانیت جو سیاہ فام وسفیدفام، بوڑہے جوان، عقلمند اوربیوقوف ،قطب میں رہنے والے اور خط استواپر رہنے والے اور پرانے زمانے کے انسان اور آج کے انسان میں مشترک ہے ،مشترک ضروریات نہیں رکہتی ۔یا اگریہ ضروریات مشترک بہی ہوں تو انسان کی خواہش اورارادہ ان کو پورا کرنے سے مربوط نہیں ہے۔
جی ہاں ،حقیقت میں یہ ضرورتیں موجود ہیں اورکچہ ثابت اور دائمی قوانین کی متقاضی بہی ہیں جن کا بدلنے والے قوانین سے کوئی ربط نہیں ہے ،کوئی بہی قوم کسی بہی زمانہ میں اس کی زندگی کے لئے قطعی طور پر خطرہ بننے والے دشمن سے ممکن صورت میں جنگ کرنے سے گریز نہیں کرتی اور اگر ایسے دشمن سے نجات پانے کے لئے اسے قتل کرنے کے علاوہ کوئی اورچارہ نظر نہ آئے تو خوں ریزی برپا کرنے سے پیچہے نہیں رہتی ۔ مثلاً کوئی معاشرہ اپنے افراد کی زندگی کے لئے ضروری تغذیہ کو نہیں روک سکتا ہے ،یا ان کے جنسی تمایلات پر پابندی نہیں لگا سکتا ہے ۔اس قسم کے بہت سے نمونے موجود ہیں جو نا قابل تغیراحکام کی نشاندہی کرتے ہیں اور قابل تغیراحکام سے ان کا کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
مذکورہ بیانات سے چند موضوع واضح ہو جاتے ہیں : ١۔معاشرہ اور اجتماعی قوانین و ضوابط کی پیدائش کااصلی عامل زندگی کی ضروریات ہیں ۔
٢۔تمام اقوام حتی وحشی قومیں بہی اپنے لئے کچہ قوانین اورضوابط رکہتی ہیں ۔
٣۔موجودہ دنیا کی نظر میں زندگی کی ضرورتوں کو تشخیص دینے والا وسیلہ معاشرہ کے لوگوں کی اکثریت کی مر ضی ہے ۔
۴۔ اکثریت کی رائے ہمیشہ حقیقت کے مطابق نہیں ہوتی ۔
۵۔زمانہ کے گزر نے اور تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتہ ساتہ کچہ قوانین بدلتے رہتے ہیں اور یہ قوانین خاص حالات سے مر بوط ہوتے ہیں ،لیکن قوانین کا ایک اور سلسلہ جو “انسانیت”کی بنیاد سے مربوط اور تمام ادوار کے انسانوں اور تمام شرائط اور ماحول میں مشترک ہیں ،ناقابل تغیر ہیں ۔اب جبکہ یہ مو ضو عات واضح ہوگئے،ہم دیکہتے ہیں کہ اسلام ک نظریہ کیا ہے ؟