مکان بہت سے ہيں، ليکن کچھ فقط اُس کے ہيں۔
شہر بہت سے ہيں، ليکن کچھ اُسي سے منسوب ہيں۔
شہر بہت سے ہيں، ليکن کچھ اُسي سے منسوب ہيں۔
وقت کا دامن بہت وسيع ہے، ليکن چوبيس گھنٹوں پر محيط وقت کي اس چادر کے کچھ گوشے، اُس نے اپنے لئے منتخب کر لئے ہيں۔
بالکل اسي طرح سال ميں آنے جانے والے موسم بھي بہت سے ہيں، ليکن اُس نے، اُن ميں سے ايک کو اپنے لئے منتخب کر ليا ہے۔ صرف اپنے اور اپنے بندوں کے لئے! تاکہ جو ہميشہ تلاش ميں رہتے ہيں، اس خاص موقع، اس خاص رحمت سے فائدہ اُٹھائيں اور اُس کے ساتھ پہلے سے زيادہ نزدیک ہو جائيں!
اگر کوئي اس سفر ميں پيچھے رہ گيا ہو تو اُسے ايک موقع اور ديا جائے، اور وہ اپنے آپ کو دوسروں تک پہنچا سکے!
اگر کوئي غفلت کا شکار ہے، اور اپني حقيقت بين نظروں کو کھو چکا ہے تو، بينا ہو جائے، بيدار ہو جائے، اور اپني حقيقي کاميابي اور خوشي کو درک کرلے۔۔۔!
يہ سب اُس کي عظیم رحمت کا تقاضا تھا کہ ايک ايسا موسم اپنے بندوں کے لئے فراہم کرے؛ جس ميں وہ اپني رحمت بے کنار کي تجلّياں دکھائے اور اس کے بندے، اُسي کي مدد سے اپنے شوقِ بندگي کا اظہار کريں۔ (ايّاک نعبد و ايّاک نستعين!)
يہ موسم ہے قادر اور بے نياز ربّ کي جانب سے اپنے کمزور اور محتاج، ليکن سرگرداں و پريشاں بندوں کو ’’مہمان‘‘ بنانے کا !
اس نے اپنے مہمانوں کو اس عظیم دعوت کے ليے خود ہي تیار کيا۔ پہلے سے ايک ايسي فضا طاري کردي جو ايک خاص مسافر کي آمد کي نويد دے رہي تھي۔ ايک معطّر اور رنگين فضا۔ آسمانوں کي خوشبو سے معطر، افلاک کے رنگوں سے مزين۔ اُس نے خود ہي يہ بھي سکھايا کہ زمين پر رہتے ہوئے، وہ ديد کيسے حاصل کي جائے جو ان رنگوں کو دیکھ سکے، اُن سے محظوظ ہوسکے۔ کيسے اُس معنوي قدرت تک پہنچا جائے کہ جس سے اِس خوشبو کا احساس ہو۔
راستے ميں رجب اور شعبان کے دنوں اور راتوں کے ساٹھ ديے جلائے، راہ کو منوّر کيا اور بتايا کہ يہ خاص راستہ کسي خاص منزل تک جا رہا ہے۔ رجب ميں ولایت کے پھولوں اور شعبان ميں رسالت اور اہلِ رسالتٴ کي کليوں سے آشنا کيا، اور يوں باغِ ’’توحيد ‘‘ ميں داخل ہونے کے ليے تیا ر کيا۔
اس نے خود بندوں کو مانوس کيا تاکہ جب اُس باغ تک پہنچيں تو تمام مصنوعي روشنيوں سے چشم پوشي کرليں اور فقط اُس باغ ميں موجود حقيقي روشني سے استفادہ کريں۔ ہر پھول کي خوشبو کو اپنے وجود کا حصہ بنائيں اور ہر پھل کي مٹھاس سے لطف اندوز ہوں۔ ايسي معنوي کيفيت کو پاليں کہ جب اُس باغ توحيد ميں، محبوب کي خاص تجلّي رونما ہو، تو آنکھيں اُس کي روشني سے مانوس اور دِل اُس کي زيارت کے ليے تيار ہوں۔ يعني وہي جو اس نعمتوں بھرے باغ کي بہار ہے، اس دسترخوان کي شان ہے، يعني عاشق کے ليے محبوب کے الفاظ۔۔ ’’قرآن کریم‘‘ ۔۔۔!!
ظاہر ہے اگر کوئي اس راستے سے باغِ توحيد ميں داخل ہوا ہو اور اس وسيلے سے بہار رحمتِ خدا کي معرفت حاصل کي ہو، اور ان کا مشتاق ہوا ہو تو يقينا بڑي بے تابي سے اس موسم کا انتظار کرے گا۔ ايک ايک پل گِن گِن کر گذارے گا، اپني تمام توجہات کو ہر طرف سے ہٹا کر صرف اسي بات پر متمرکز کرلے گا کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ کوئي پل گذر جائے اور وہ غافل ہو۔
اسي لئے وہ بیتاب بھي ہے اور محتاط بھي!
ايک سوا ل اُن سے اور خود اپنے آپ سے کرنا چاہتا ہوں!
ہماري کيا کيفيت ہے؟ کيا ہم مشتاق ہيں؟ کيا ہم انتظار کر رہے ہيں ۔۔ اس موسم کا؟ کيا ہم اُس کے راستے پر چل رہے ہيں؟ کيا ہم نے ولایت کے ديوں سے روشني حاصل کي ہے؟ کيا ہم رسالت کے موتيوں کو چننے کے ليے تيار ہيں؟ اور کيا ہميں باغِ توحيد کي خوشبو اور رونق للچا رہي ہے۔۔۔؟
اگر نہيں تو کيوں؟ کيا ہم محتاج نہيں؟ يا اِس موقع کي تاثير کو نہيں پہچانتے؟ وجہ کيا ہے۔۔۔؟
اور اگر ہاں تو شکر کا مقام ہے، ليکن کيا ہميں ويسي معرفت حاصل ہے جس کے ليے يہ ساري تياري کي گئي ہے؟
ہاں ہم بھي منتظر ہيں اور اس موسم کے استقبال کے ليے جاتے ہيں! ليکن کن سوچوں کے ساتھ۔۔۔؟ ذرا اپنے دِل سے پوچھيں۔
ماہ مبارک رمضان کا نام سنتے ہي کيا خيال ذہن ميں آتا ہے؟ روزوں کي تکليف اور ناقابلِ تحمّل بھوک و پياس کا تصوّر؟ بعض کے لئے اُن کي جيب پر آفت کا تصور؟ مختلف کھانوں اور افطار پارٹيوں کي رنگينيوں کا تصوّر؟ کرکٹ کے نائٹ ميچوں کا تصور؟ عيد کي تياريوں کے اخراجات، اور پوري پوري رات بازاروں ميں گھومنے کا تصوّر؟
البتہ ان مادي تصورات کے ساتھ کوئي نہ کوئي روحاني اور آخرتي تصور بھي آتا ہوگا، محافلِ قرآن، دين فہمي کے پروگرام اور سحري کي خاص نشریات کا خيال بھي ذہن ميں آتا ہوگا، ليکن سوال يہ ہے کہ اُن کي ہمارے دل ميں کتني جگہ ہے؟ اور اگر ہے، تو کيا اُن کي مناسب جگہ وہي ہے؟
اس سوال کے جواب اور فرق کو درک کرنے کے لئے ہميں بحرِ معرفت کے ساحل پر جانا ہوگا، اور يہ ديکھنا ہوگا کہ کہاں اُن کي عميق گہرائياں اور کہاں ہماري گھونٹ بھرگدلي شناخت!!
شيخ صدوق ۲ حضرت عليٴ سے روايت کرتے ہيں کہ پيغمبر اسلام ۰ نے شعبان کے مہينہ ميں مسلمانوں کے درميان ايک خطبہ ارشاد فرمايا جس ميں خدا کے اس نمائندہ نے اُس کے بندوں کو آنے والي دعوت سے مطلع کيا۔ اگرچہ رسول اکرم۰ اس زمانے کے مسلمانوں کو خطبہ دے رہے تھے، ليکن يوں فرماتے ہيں:
’’ايھا النّاس قد اقبل اليکم شهرُ اللّٰه....‘‘
اے لوگو! اللہ کے مہينہ نے تمہاري طرف رُخ کيا ہے۔۔۔
گويا رسول اللہ ۰ نے تمام بني نوعِ انسان کو مخاطب قرار ديا اور اُنھيں اس آنے والے خاص مہمان کي نويد دي ہے۔ گويا آج بھي اُن کي آواز ہم سے مخاطب ہے۔ پس ماہ رمضان سے پہلے، اس آواز سے بہتر اور کونسے الفاظ ہونگے جن سے ہم اس مہينہ کا استقبال کريں اور جان ليں کہ کون ہے جو ہماري طرف آرہا ہے؟
شہر اللّٰہ الاکبر:
ہر چيز جو پاک اور مقدس ہو، خدا سے تعلق پيدا کرتي ہے۔ مسجد ايک پاک سرزمين اور مقدس مکان ہے اسي لئے ’’بيت اللہ‘‘ ہے؛ قرآن کتاب مقدس ہے اسي لئے ’’کلام اللہ‘‘ ہے۔ امام حسينٴ بھي اللہ کے پاک بندوں ميں سے ہيں اس لئے ’’ثار اللہ‘‘ ہيں (السّلام عليک يا ثار اللّٰہ)۔ اسي طرح اس مہينہ کے خاص مقام اور قداست کي دليل يہ ہے کہ اسے ’’شہر اللہ‘‘ يعني اللہ کا مہينہ کہا گيا ہے۔ويسے تو کون و مکان ميں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے؛ (لہ ما في السمٰوات و ما في الارض۔ جو کچھ آسمان و زمين ميں ہے سب اسي کا ہے۔ (سورہ بقرہ آيہ ١١٦) ليکن اس مہينہ کا ايک خاص تعلق ہے خداوند لا یزال سے جس کي توضيح اس خطبہ کے آنے والے جملہ دے رہے ہيں۔
اگر قارئين غور کريں تو يہ نہيں فرمايا کہ تم ايک ايسے مہينہ ميں داخل ہو رہے بلکہ خود اس مہينہ کي آمد کا ذکر ہے۔ يہ خود علامت ہے اس محبت کي جو خدا کو اپنے بندوں سے ہے، چنانچہ ايک ايسے مہينہ کو اُن کي طرف بھيجا تاکہ وہ اس سے قرب اور اپنے کمال کا راستہ پا سکيں۔
ايک او ر نکتہ يہ کہ: چونکہ يہ مہينہ خدا سے منسوب ہے، اس لئے اس کي تعظيم اور احترام، اللہ کے مقام کي تعظيم ہے، اور اس کي اہانت اور بے حرمتي، اللہ کے با عظمت مقام کا (نعوذ باللہ) مذاق اُڑانا اور بے احترامي کرنا ہے۔
برکت‘ رحمت اورمغفرت: ’’... بالبرکة و الرحمة و المغفرۃ...‘‘
(اللہ کے مہينہ نے تمہاري طرف رُخ کيا ہے) برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔يہ مہينہ خالي ہاتھ نہيں آيا بلکہ مالک کي طرف سے غلام کے لئے خاص تحفے لے کر آيا ہے۔
’’ برکت کے ساتھ‘‘۔ يعني اچھائيوں، خير اور نعمتوں کے ساتھ جو باقي رہيں گي اور ترقي کرتي جائيں گي۔ پس انسان کے لئے اچھا موقع ہے کہ وہ اللہ کي ان نعمتوں کو حاصل کرے جو اس کے پاس رہيں گي ۔
بعض لوگ يہ سوچتے ہيں کہ يہ نعمتيں اور برکتيں، سحر اور افطار کے سفرے کا رنگين اور انواع و اقسام کي غذاوں سے پُر ہونا ہے۔ ليکن يہ خيال ايسے لوگوں کا ہے جن کا مقصد اور منزل فقط يہ دنيا اور اس کي مادي چيزيں ہيں اور وہ لوگ اللہ اور اس کي عطاوں کي معرفت نہيں رکھتے۔ ليکن، جيسا کہ يہ خطبہ آگے چل کر خود اعلان کرتا ہے، اللہ تعالي کي حقيقي اور ہميشہ باقي رہنے والي برکتيں کچھ اور ہي ہيں۔
رحمت کے ساتھ:
رحمت يعني اللہ تعاليٰ کي خاص توجہ، بھلائي اور عطائيں۔ ’’اللہ کي رحمت‘‘ درحقيقت وہ ’’وسائل‘‘ ہيں جن کي انسان کو اپنے کمال تک پہنچنے کے لئے ضرورت ہے۔ ويسے تو اللہ تعاليٰ کي رحمت تمام ذراتِ کون و مکاں کو گھيرے ہوئے ہے، ’’و رحمتي وسعت کل شيئ‘‘ (الاعراف ۔ ١٥٦) اور سال کے باقي گيارہ مہينوں ميں بھي، بہانے بہانے سے اللہ کي طرف سے بندوں پر اس کي رحمت نازل ہوتي رہتي ہے، کبھي عمومي طور پر اور سب کے لئے اور کبھي خصوصي طور پر اور صرف اس کے خاص بندوں کے لئے؛ کبھي مادي، تو کبھي روحاني؛ اور کبھي کسي اور شکل ميں۔۔۔ ليکن دوسرے ايام کي رحمت ايک طرف اور ماہِ مبارک کي رحمت ايک طرف۔ اس مہينہ کا ايک ايک پل، ايک خاص غذا لے کر آتا ہے تاکہ انسان اس دسترخوان سے اپني روح کو پوري طرح سيراب کرلے۔ يہ ايسي غذا ہے جو صرف اسي مہينہ ميں ميسر ہوتي ہے۔ اب اگر کوئي ان ميں سے کسي ايک کو بھي تناول کرلے، تو کيا اُس کا آج اُس کے گذرے ہوئے کل کي طرح ہوگا؟ جس طرح ايک مقوي اور صاف غذا کھانے کے بعد، ايک خاص قسم کي توانائي ملتي ہے، چہرے اور جسم پر اس کے خاص اثرات مر تب ہوتے ہيں، اسي طرح روزہ دار کي روح پر بھي ان روحاني غذاوں کے اثرات مترتب ہونے چاہئيں۔ قرآن کا نزول، اچھے اعمال کے اثرات ميں اضافہ، معصومينٴ کي طرف سے دعاوں کے ايک عظيم اور قيمتي خزانہ کا تعارف، ۔۔۔ يہ سب اور بہت سي دوسري مثاليں رحمت کي نشانياں ہيں۔مغفرت کے ساتھ:
اللہ کا يہ مہينہ انسانوں کو موقعہ فراہم کرتا ہے کہ اگر چاہيں تو نہايت آسان وسيلوں کي مدد سے اپنے ربّ کي طرف پلٹ آئيں۔۔۔ اگر گناہ کئے ہيں اور اس کي طرف رُخ کرنے سے کترا رہے ہيں،
۔۔ اگر شرم و حيا کي وجہ سے اس کے گھر کي طرف قدم اُٹھ نہيں پارہے، کہ وہاں اس کے اچھے اور ديندار بندے ہميں ديکھ کريہ نہ سوچيں کہ: ’’يہ يہاں کہاں؟!!‘‘
۔۔ اگر سال کے دوسرے دنوں ميں، کسي بھي وجہ سے ہچکچاہٹ تھي بھي، تو جان ليں کہ ماہِ مبارک رمضان
محروموں کا مہينہ ہے۔
دور ہو جانے والے بندوں کا خالق سے قريب ہونے کا مہينہ ہے۔اُس کا دروازہ تو ہميشہ ہي کھلا تھا، ليکن يہ مہينہ بندوں کي خاموش اور شرمندہ زبانوں کے قفل توڑ دينے کا مہينہ ہے۔
کسي کو يہ حق نہيں کہ اس ماہ ميں کسي کي طرف ديکھ کر تعجب کرے۔ کيوں کہ يہ دعوت عمومي ہے۔ سب ہي کو بلايا گيا ہے۔ اور اُن کے ربّ کي دعوت پر، عزت و احترام کے ساتھ لائے گئے ہيں تاکہ وقار سے آئيں اور چپکے سے اپنے آقا کي مغفرت و رضا لے جائيں۔ اس ماہ ميںمغفرت کے بہانے اس قدر زيادہ ہيں کہ اسي خطبہ ميں پيغمبر اکرم ۰ فرماتے ہيں:
’’شقي ہے وہ شخص جو اس مہينہ ميں خدا کي مغفرت سے محروم ہو۔‘‘
اللہ تعاليٰ کے ہاں مقام:
اگلے جملات ميں رسول اکرم ۰ فرماتے ہيں:’’يہ ايک ايسا مہينہ ہے جو اللہ تعاليٰ کے نزديک تمام مہينوں سے افضل ہے۔ اس کے دن بہترين دن، اور راتيں بہترين راتيں ہيں، اور اس کے اوقات (لمحات اور گھنٹے) بہترين اوقات ہيں۔‘‘
يہ جملہ بھي دوسرے جملوں کي طرح حقائق سے پردہ اُٹھا رہا ہے۔ يہ ہميں بتاتا ہے کہ اللہ کے نزديک اس مہينہ کا کيا مقام ہے، اس کے دنوں اور راتوں کي کيا اہميت ہے، تاکہ اس کے بندے بھي ان کو اسي نظر سے ديکھيں۔ يعني اگر کوئي مہينہ ہماري نظر ميں سال کا بہترين مہينہ ہے تو وہ ماہ رمضان ہونا چاہيے۔ اگر ہم سے سال کے بہترين دنوں اور راتوں کا سوال کيا جائے تو ہم فوراً اسي مہينہ کا نام ليں، نہ کہ دوسرے دنوں اور راتوں کا۔ يہ حقيقي مسلمان اور مومن کي پہچان ہے، کہ آيا اس کي پسند اور ناپسند بھي خدا اور اس کے چاہنے والوں کي پسند اور نا پسند کے مطابق ہے يا نہيں؟
بندوں کا مقام:
’’...ايسا مہينہ ہے کہ جس ميں تمہيں اللہ کي دعوت کي طرف بُلايا گيا۔ اور اس ميں تم کو اللہ کے اہل کرامت (بندوں) ميں سے قرار ديا گيا۔ اس (مہينہ) ميں تمہاري سانسيں تسبيح اور تمہارا سونا عبادت ہے۔ تمہارا عمل مقبول اور دعا مستجاب ہے۔ پس اللہ، اپنے ربّ سے مانگو، سچي نيتوں اور پاک دلوں کے ساتھ کہ وہ تمہيں اس مہينہ کے روزے رکھنے اور اپني کتاب کي تلاوت کرنے کي توفيق دے۔ یقینا شقي ہے وہ شخص جو اس عظيم مہينہ ميں اللہ کي مغفرت سے محروم رہے۔‘‘اس مہينہ کي عظمت کو بيان کرنے کے بعد پيغمبر اکرم۰ اللہ کے ان بندوں کا مقام بتا رہے ہيں جن کو يہ مہينہ نصيب ہوا اور اس کي برکت سے وہ عزت و احترام کا محور بن گئے ہيں۔ دعوت کے حوالے سے يہاں چند نکات قابل غور ہيں:
١۔ ميزبان اپنے مہمان کي عزت کرتا ہے۔ يہ ايک فطري تقاضا ہے اور اس کي اہميت کو سمجھانے کے لئے کسي خاص دين يا ثقافت کي بھي ضرورت نہيں۔ خاص طور پر ايسے مہمان کا احترام لازمي ہے جسے خود دعوت دے کر بُلايا گيا ہو۔ ايسے مہمان کو کبھي بھي نفرت کي نگاہ سے نہيں ديکھا جاتا يا اسے قبول کرنے سے انکار نہيں کيا جاتا۔
٢۔ مہمان کي تمام ضروريات کو پورا کرنا، ميزبان کي ذمہ داري ہوتي ہے۔ يہاں تک کہ ايک اچھا ميزبان، مہمان کے اظہار کرنے سے پہلے ہي، اُس کي ضرورت کي چيزيں فراہم رکھتا ہے۔ اب يہ مہمان کا کام ہے کہ وہ ان وسائل سے استفادہ کرے يا نہ کرے۔
٣۔ ’مہمان‘ کي خاطر تواضع ’ميزبان‘ کے معيار کے مطابق ہوتي ہے۔ مہمان کتنا ہي غريب اور مسکين ہو، ميزبان اپني شان کے مطابق دسترخوان سجاتا ہے۔ مہمان کي طرف سے فقط ايک توجہ درکار ہے کہ وہ ان نعمتوں کي طرف ديکھے اور اُن سے حتي المقدور استفادہ کرے۔
٤۔ جو ميزبان فقط مہمان کے آجانے سے خوش ہوتا ہو، يا گھر ميں سونے پر بھي اس کي عزت کرتا ہو، وہ درحقيقت يہ اعلان کرتا ہے کہ اسے اپنے مہمان سے بے انتہا محبت ہے۔ يہاں تک کہ وہ اس بات کا بھي انتظار نہيں کرتا کہ مہمان اس سے کچھ چاہے اور وہ عطا کرے بلکہ بغير مانگے ہي عنايت کر ديتا ہے۔
٥۔ دعوت سے بہترين استفادے کے لئے پوري توجہ ہونا ضروري ہے۔ لہذا توجہات کو دوسري جانب سے ہٹانا اور ميزبان کي رہنمائي کے مطابق عمل کرنا لازمي ہے۔ اس دعوت ميںچونکہ حق تعاليٰ انسان کو اس کے بھولے ہوئے مقام کي طرف توجہ دلانا چاہتا ہے اسي لئے اسے حکم ديا کہ کچھ دير کے لئے اپنے آپ کو ظاہري نعمتوں سے دور رکھے اور اُن کي طرف توجہ بھي نہ کرے تاکہ اس کے دل کي آنکھيں کھل جائيں اور وہ حقيقي نعمتوں کو ديکھ سکے۔ شايد اسي لئے فرمايا کہ اس مہينہ ميں روزہ رکھنے کي توفيق طلب کي جائے۔
٦۔ اگر ميزبان سفرے پر موجود کسي نعمت کا بذاتِ خود تعارف کرائے اور اس پر فخر کرے، تو يقينا وہ چيز دسترخوان کي شان ہوگي۔ مہمان کو چاہيے کہ اُس سے محروم نہ رہے۔ قرآن کريم اس مہينہ کي نعمتوں کا نقطہ عروج ہے۔ اس کي تلاوت کي توفيق حقيقتاً طلب کرنے کے لائق ہے۔
٧۔ اس تمام جود و سخا کے باوجود اگر کوئي اس دعوت سے خالي ہاتھ لوٹ آئے تو اُسے کيا کہيے گا؟ آيا ’’شقاوت‘‘ کے علاوہ بھي کوئي اور لفظ ہے؟ (العياذ باللہ)
٨۔ اتنے کريم اورشفيق ميزبان کي ان عطاوں کو حاصل کرکے کيا مہمان شکر کا دروازہ کھولنا نہيں چاہے گا؟ کيا اس کي محبتوں کا جواب بے رُخي سے دے گا؟ کيا بے زاري کے ساتھ يہ کہنا کہ ’’روزوں کا يہ سلسلہ نجانے کب ختم ہوگا۔۔‘‘ خود اپني ہي جہالت اور غفلت کا ثبوت نہيں ہے؟
ہر صاحبِ عقل مہمان ميزبان کي تمام عطاوں سے لطف اندوز ہونے کي پوري کوشش کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ يہ نعمتيں ہميشہ اس کے ساتھ رہيں، بلکہ اُس کے وجود کا حصہ بن جائيں۔ ميزبان کي باتوں کو، جو وہ اُس سے کرنا چاہتا ہے، غور سے سنے گا۔ اُس کے کلام کو پڑھے گا۔ ان نعمتوں کو پاکر، اپنا دل و جان ميزبان کے سامنے تسليم کردے گا۔ بلکہ ميزبان سے، خود اُسي کو مانگ لے گا۔ البتہ ان سب کا دارومدار بندہ کي معرفت اور شناخت پر ہے۔
روز ہ دار کي ذمہ دارياں:
اس کے بعد رسول اکرم ۰ نے اُن وظائف اور ذمہ داريوں کا ذکر کيا ہے جو روزہ دار کي ہيں، تاکہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکے۔ ہم يہاں چند ايک کو ذکر کرتے ہيں:’’اس ميں اپني بھوک اور پياس سے، روز قيامت کي بھوک اور پياس کو ياد کرو۔‘‘
جب ايک انسان اپني آخرت کو، روزِ قيامت کو اور اس دن کي ضروريات کو ياد کرے گا تو يقينا اس دن کي آساني کے لئے کوشش بھي کرے گا۔ بعد والے نکات، اسے اس ہدف ميں مدد ديں گے۔
’’فقرائ و مساکين کو صدقہ دو۔
اپنے بڑوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر رحم کرو۔
صلہ رحم انجام دو۔
اپني زبانوں کي حفاظت کرو۔
جس چيز کا ديکھنا خدا نے حلال نہيں کيا، اس سے اپني آنکھوں کو بند کرلو۔
جس چيز کا سننا حلال نہيں کيا اُس سے اپنے کانوں کو بند کرلو۔
لوگوں کے يتيموں سے شفقت کرو تاکہ تمہارے يتيموں سے شفقت کي جائے۔‘‘
طلب توبہ، استغفار اور دعا:
’’۔۔ اپنے ہاتھوں کو، نماز کے اوقات ميں اللہ کي طرف اُٹھاو۔ کيونکہ وہ بہترين اوقات ہيں کہ جن ميں خداوند عز و جلّ، اپنے بندوں پر رحمت کي نظر کرتا ہے اور جب وہ اُس سے مناجات کرتے ہيں تو وہ جواب ديتا ہے، اور اُن کي پکار پر لبيک کہتا ہے، اور اُن کي دُعا کو قبول کرتا ہے۔۔‘‘اس مہينہ ميں ايک بہت ہي دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ميں بندہ اور خالق دونوں کي طرف سے ايک دوسرے کے لئے پيغام رساني ہوئي ہے۔ ربّ نے اپنے محبوب نبي ۰ کے ذريعہ اپنے بندوں کو پيغام بھيجا نيز ہر سال شبِ قدر ميں سال بھر کے امور اپنے ولي (عج) پر نازل فرماتا ہے اور دوسري طرف سے بندوں سے بھي کہا کہ اپنے دل کي باتيں، اپني خواہشات اور اپني آنکھوں ميں اشک لے کر مجھ سے بات کرنے چلے آو۔ خاص طور پر اہل بيتٴ کے در سے، اس ماہ کي دعاوں کا جو موجيں مارتا سمندر مسلمانوں کو عطا ہوا ہے، وہ کسي خزانہ سے کم نہيں۔
پس خالق سے مخلوق کي طرف اور مخلوق سے خالق کي طرف يہ دوطرفہ گفتگو رواں دواں ہے، اور رسالت اور خاندانِ رسالتٴ اس ميں واسطہ اور وسيلہ ہيں ۔
اعمال کا نتيجہ چند گُنا ہوجاتا ہے:
اس خطبہ ميں ارشاد کردہ رسول اکرم ۰ کے بہت سے جملوں سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال، جو وہ اس مہينہ ميں انجام ديتا ہے، آخرت ميں اسے چند گُنا ہوکر مليں گے۔١۔طولاني سجدہ:
’’اے لوگو! ۔۔ تمہاري پيٹھ پر تمہارے گناہوں کا بھاري بوجھ ہے۔ پس اپنے سجدوں کو طولاني کر کے اسے ہلکا کرو۔ ‘‘٢۔نمازي اور سجدہ گذار:
’’۔۔جان لو کہ خداوند عز و جلّ نے اپني عزت کي قسم کھائي ہے کہ وہ نمازيوں اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہيں کرے گا اور اُن کو اُس دن جب لوگ تمام عالمين کے ربّ کے حضور حاضر ہوں گے، آگ سے نہيں ڈرائے گا‘‘۔يہ ہے اس مہينہ ميں طولاني سجدوں اور نماز کي جزا۔
٣۔روزہ دار کو افطار کرانا:
’’اے لوگو! تم ميں سے جس نے بھي اس مہينہ ميں ايک مومن روزہ دار کو افطار کرايا، اس کے بدلہ اللہ کے ہاں اس کے لئے غلام آزاد کرنے کے (ثواب کے) برابر ہے اور گزشتہ گناہوں کي مغفرت ہے۔‘‘يہ ايک مومن رو زہ دار کي افطار کا ثواب ہے اگرچہ کھجور يا ايک گلاس پاني ہي سے افطار کيوں نہ کرايا ہو۔ ليکن ظاہر ہے يہاں بھي نيت دوسرے تمام اعمال کي طرح خالص ہوني چاہيے۔ يعني عمل صرف خدا کے لئے ہو؛ دُنيا کو دکھانے، اپنے اسٹيٹس کو برقرار رکھنے يا خدا نخواستہ کسي کو نيچا دکھانے کے ليے نہ ہو۔
يہاں وہ افطار پارٹياں يقينا مُراد نہيں ہيں جن کي کھجوريں اور نمک تک بيت المال اور عوام کے حق کو غصب کر کے مہيّا کيا جاتا ہے اور اُن محلوں ميں سجائي جاتي ہيں جن کي بنيادوں ميں مظلوموں اور غريبوں کا خون ہوتا ہے۔
٤۔ اچھا اخلاق:
’’اے لوگو! جس نے اس مہينہ ميں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کيا، يہ اُس کے لئے (پُلِ) صراط کا پروانہ ہوگا، اُس دن جب قدم لڑکھڑا رہے ہوں گے۔‘‘بھوک اور پياس برداشت کرنے کي تياري کے ساتھ ساتھ اس ماہ کي تياريوں ميں ايک اہم عادت اخلاق کا ٹھيک کرنا ہے۔ معاشرہ ميں يہي ديکھا گيا ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا روزہ دار کے لئے ايک کٹھن امتحان بن جاتا ہے۔ اچھي بات کا اچھا جواب دينا تو کوئي کمال نہيں، مشکل وہاں آتي ہے جب زيادتي کے جواب ميں زيادتي سے ہاتھ روکنا پڑتا ہے۔ليکن اگر ہمارا پہلے سے يہ عزم ہو اور اس جزا کو سامنے رکھيں کہ جو اس کنٹرول کے مقابلہ ميں ملے گي تو شايد يہ چيزآسان ہوجائے
٥۔ماتحتوں پر مہرباني:
’’تم ميں سے جو کوئي بھي اپنے غلاموں سے کم کام لے گا، خدااُس کے اوپر حساب کو آسان کردے گا۔ اور جس نے اپنے شر کو (دوسروں سے) روکے رکھا، خدا اپنے غضب کو اُس سے روک دے گا۔‘‘ہوسکتا ہے کسي کے ذہن ميں خيال آئے کہ آج کل تو غلام و کنيز نہيں ہوتے پھر کيسے اس نصيحت پر عمل کرکے اس کي جزا تک پہنچا جائے؟ يہ صحيح ہے کہ آج غلام و کنيز نہيں ہوتے، ليکن غور کرنے کي ضرورت ہے کہ جولوگ انسان کے اختيار ميں ہيں، اور اُسے يہ حق حاصل ہے کہ وہ جتنا چاہے اُن سے کام لے، اگر وہ ايسے لوگوں سے اس مہينہ ميں کم کام ليتا ہے تو خدا اُس کے لئے عظيم جزا قرار دے گا۔ جو لوگ اپنے چند گھنٹے اُسے ديتے ہيں، اُس کے پاس کام يا جاب کرتے ہيں، اُن کو اوور ٹائم پر مجبور نہ کرنا اور جاب کے وقت بھي اُن سے زيادہ بھاري کام نہ لينا شايد اس سے بھي زيادہ جزا رکھتا ہو۔ اب ہم اُن کي بات کيا کريں جو اپني مرضي سے اور انسان کي مدد کے لئے اس کے گھر وغيرہ ميں، مفت ميں اس کي خدمت کرتے ہيں؛ مثلاً انسان کے بيوي بچے۔ ليکن اکثر اوقات اُن کي مرضي پوچھے بغير ہي سارے مہينہ کي سحري اور افطار کا مينو، اُن کے سامنے رکھ ديا جاتا ہے، اور توقع يہ ہوتي ہے کسي چيز ميں کوئي کمي نہ ہو اور ہر چيز ٹائم پر ملني چاہيے۔ آيا رسول اللہ ۰ کے بتائے ہوئے روزہ دار کا يہي طريقہ ہونا چاہيے؟ يہ الگ بات ہے کہ گھر والے خود، ايک مومن کي افطار کے ثواب کے ليے، اللہ کي خوشنودي کے ليے يہ کام خوشي سے انجام ديں، تاکہ خود بھي سرخرو ہوں اور اپنے مرحومين يا والدين کو بھي سرخرو کريں۔
٦۔نماز :
’’۔۔۔ اور جو شخص اس ميں مستحب نماز ادا کرے، خدا اس کے لئے آتش (جہنم) سے آزادي کا برآت نامہ لکھ دے گا۔ اور جس نے اس ماہ ميں واجب کو انجام ديا اس کے لئے، دوسرے مہينوں ميں ادا کي جانے والي، ستّر واجبات کا ثواب ہوگا۔‘‘٧۔صلوات:
’’۔۔۔ اور جس نے اس ماہ ميں مجھ پر بہت زيادہ درود بھيجا، خدا اس دن جس دن ميزان ہلکے ہوں گے، اُس کے ميزان کو بھاري کردے گا۔‘‘
اللہ تعالي کي رحمتوں اور نعمتوں تک اللہ کے بنائے ہوئے واسطوں کے بغير پہنچنے کي کوشش کرنا، ايک سعيِ لاحاصل ہے۔ جب تمام اعمال؛ يعني نماز، روزہ، حج وغيرہ کا حساب ہوچکے اورمومن کا ميزان پھر بھي ہلکا رہے، تب انہي وسيلوں اور واسطوں کي ضرورت پڑے گي۔ يہ نکتہ بھي واضح ہے، اور مختلف دلائل بھي اس بات پر دلالت کرتے ہيں کہ رسول اللہ ۰ پر صلوات اُن کي آل پر درود بھيجے بغير کامل نہيں ہوتي۔
٨۔تلاوت قرآن:
’’اور جس نے اس ماہ ميں قرآن کي ايک آيت کي تلاوت کي، اُس کے لئے باقي مہينوں ميں ايک ختمِ قرآن کے برابر ثواب ہے۔‘‘قرآن کريم اور رمضان المبارک، ايک ايسا مربوط موضوع ہے جسے اُجاگر کرنے کے ليے کئي مقالات اور کتابيں درکار ہيں۔ يہ مختصر جملہ اسي کو بيان کر رہا ہے، اور بتا رہا ہے کہ يہ مہينہ قرآن کي بہار ہے، اور اس کي تلاوت اور اس ميں غور و فکر، ماہ مبارک کے پروگرام کا ايک ضروري حصہ ہونا چاہيے۔
تمام مقدمات فراہم ہيں۔’’ہے کوئي مرد؟!!‘‘:
’’اے لوگو! جنت کے دروازہ کھلے ہيں، پس اپنے ربّ سے دُعا کرو کہ تمہارے لئے بند نہ ہو جائيں۔ اور جہنم کے دروازے بند ہيں، پس اپنے ربّ سے درخواست کرو کہ تمہارے اوپر کھول نہ ديئے جائيں۔ اور شیاطین زنجيروں ميں جکڑے ہوئے ہيں ، پس اپنے ربّ سے چاہو کہ اُن کو تم پر مسلّط نہ کرے۔۔‘‘
خطبہ کے اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہميشہ کي سعادت اور کاميابي کے تمام راستے اس مہينہ ميں کھلے ہيں۔ نہ صرف يہ کہ جنت کي طرف جانے والي راہ صاف ہے بلکہ جہنم کے راستے کو بھي بند کرديا گيا ہے۔ اور تو اور، انسان کے بيروني دشمن کو بھي قيد ميں ڈال ديا گيا ہے کہ اس مہينہ ميں انسان کو تنگ نہ کرسکے۔ پس انسان کے پاس صرف اُس کا اندروني دشمن ہے يعني اُس کا نفس۔ اگر کوئي خود چاہے اور اپنے نفس کو لگام دے کر رکھ سکے، تو اپنے ليے اس ماہ ميں سعادت اور جنت کو خريد سکتا ہے اور جہنم کي آگ کو خود پر حرام کرسکتا ہے۔ اس مقدمہ کے ساتھ، اس کے بعد آنے والا سوال، جو ايک وصي کا اپنے آقا سے، ايک جانشين کا اپنے مولا سے ہے، انتہائي مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اس ماہ کا بہترين عمل:
يہاں حضرت امير المومنينٴ رسول اللہ ۰ سے پوچھتے ہيں: ’’يارسول اللہ! اس ماہ ميں بہترين عمل کيا ہے؟‘‘رسول اللہ ۰ نے فرمايا: ’’اے ابو الحسن! اس مہينہ ميں سب سے بہترين عمل، حرامِ خدا سے پرہيز ہے۔۔‘‘
اللہ کے نبي۰ سے يہ سُن کر کہ اس ماہ ميں تمام وسائل تیار اور ساري راہيں کھلي ہوئي ہيں، يہ شوق پيدا ہوتا ہے کہ کونسا عمل کريں جو اس مہينہ ميں سب سے افضل ہو؟
روزہ ہے ہي دوري اور پرہيز کا نام۔ صرف مادي چيزوں سے پرہيز نہيں، بلکہ آنکھوں کا پرہيز، کانوں کا، ہاتھوں کا، زبان کا، نيت کا، دل کا ۔۔ غرض پورے وجود کا حرامِ خدا سے پرہيز کرنا اور صرف بندگي کي ذمہ داريوں کي ادائيگي کا نام روزہ ہے۔ شايد اسي ليے حرام سے پرہيز کو اس مہينہ کا بہترين عمل کہا گيا ہے۔
يہ سوال اور يہ جواب، يہ سوال کرنے والا اور جواب دينے والا، اور اس کے بعد رونما ہونے والا واقعہ اور گفتگو، يہ سب اپنے اندر حقائق کا ايک سمندر، اور ايک عظيم دُنيا سموئے ہوئے ہے، جو مصنف کے احاطہ علمي سے باہر اور اِس تحرير کے دامن سے دور ہے اور موضوع کي حدود ميں بھي گنجائش نہيں۔
قارئين نے يقينا توجہ کي ہوگي کہ اس مہينہ ميں گناہوں اور حرام سے پرہيز کي اتني تاکيد اور اہميت ہے کہ رسول اللہ ۰ نے عليٴ جيسے سوال کرنے والے کے جواب ميں بھي اسي کو بہترين عمل قرار ديا۔ اور جواب پانے والے کے بھي مقام کو سمجھنے کي ضرورت ہے کہ کس طرح اپنے رہبر ۰ کي نصيحت کو اپنے دل ميں اُتارا اور نہ صرف اس مہينہ ميں بلکہ اپني تمام عُمر ميں اسے ہاتھ سے نہ جانے ديا، اور آخر تک اپنے آپ کو اپنے ربّ کي ناراضگي سے بچايا۔ يہاں تک کہ اسي ماہ کي شب قدر کے بعد فرمايا:
’’فُزتُ و ربّ الکعبة‘‘
خدائے متعال اپني محبوب ہستيوں کے صدقے ميں ہم سب کو اس بہترين موقعے کے لئے تيار کرے اور خود ہي ہماري سعادت کے راستوں کو ہمارے لئے استوار فرمائے۔ آمين!