يا ايها اَلّذ ِينَ آمَنُوا کُتِبَ عَلِيکُمْ الصِّيام کَمٰاکُتِبَ عَََََلَی الَّذِ ينَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔''
ا ے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کردئے گئے
جیسے تم سے پہلی امتوں پر فرض تھے تاکہ تم پرہیزگا ر بن جاؤ۔''( سورہ بقرہ ١٨٣ )
مذکورہ آیہ مبارکہ اپنے بعد والی آیت کے ہمراہ ہمیں تین اہم موضوع کی طرف متوجہ کرتی ہے : روزہ ،دعا اور قرآن یہ تینوں آیت آپس میں ایسی منسجم ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتی ہیں لہذا یہ ماہ منور ایسا بابرکت مہینہ ہے جسمیں لوگوں کا رجحان صرف اور صرف عبادات الٰہی کی طرف رہتا ہے ۔جس آیہ شریفہ کو ہم نے بیان کیا ہے وہ روزہ پر ایک محکم دلیل ہے اور مبارک مہینہ بھی روزہ اور روزہ داروں سے مخصوص ہے اس لئے ہر انسان کو ان دنوں اس پر ایک خاص توجہ دینی چاہیئے کیونکہ یہ مہینہ لوگوں کے تزکیہ نفس کا ہے ۔
قرآن مجید کے خطابات کا ایک نرالہ ہی انداز ہے کبھی اس نے ''ياايهاالناس ''کہہ کرلوگوں کو خطاب کیا ہے تو کبھی ''یا اہل الکتاب ''اور کبھی ''يا ايها الذین آمنوا ''ان تمام خطابات میں سب سے لطیف لحن قرآن کا یہ ہے کہ اس نے مومنوں کو بڑے پیارے انداز میں خطاب کیا ہے کہ ''یا ایھا الذین آمنوا''اے ایمان والو!جو سب سے بہترین لحن مانا جا تا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرما یا: ''لذّة ما فی النداء ازال تعب العبادة و العناء .''یعنی :خطاب کی لذت ''یا ایھا الذین آمنوا'' عبادت کی سختی و مشقت کو دور کر دیتی ہے ۔(مجمع البیان جلد ٢ صفحہ ٤٩٠)
در حقیقت روز ہ، روزہ داروں کی سختیوں اور پریشانیوں کو دور کر دیتا ہے ،روزہ انسان کے زاد وتوشہ کو تأمین کرتا ہے کیوںکہ انسان دنیا میں مسافر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسافروں کو سفر میں زاد و راہ توشہ کی اشد ضرورت پڑتی ہے ۔ ''و تزّودو ا فانّ خیر الزّاد التقویٰ ( سورۂ بقرہ ١٩٦)
روزہ انسانی زندگی میں تقوی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کہ یہ عمل صرف خدا کے لئے ہو تا ہے اور اسمیں ریا کا ری کا امکان نہیں ہے ۔روزہ صرف نیت ہے اور نیت کا علم صرف پروردگار کو ہے ۔پھر روزہ قوت ارادی کے استحکام کا بہترین ذریعہ ہے جہاں انسان حکمِ خدا وندی کی خاطر ضروریات زندگی اور لذّات حیات سب کو ترک کر دیتا ہے کہ یہی جذبہ تمام سال باقی رہ جا ئے تو تقوی کی بلند ترین منزل حاصل ہو سکتی ہے ۔ روزہ کی زحمت کے پیش نظر دیگر اقوام کا حوالہ دے کر اطمینان دلا یا گیا ہے اور پھر سفراور مرض میںمعافی کا اعلان کیا گیا ہے اور مرض میں شدت یا سفر میں زحمت کی شرط نہیں لگا ئی گئی ہے ۔یہ انسان کی جہالت ہے کہ خدا آ سانی دینا چاہتا ہے اور وہ آج اور کل کے سفر کا مقابلہ کر کے دشواری پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح خلاف حکم ِ خدا روزہ رکھ کر بھی تقویٰ سے دور رہنا چاہتا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ''لَعلَّکم''(شاید)کا لفظ علم خدا کی کمزوری کی بنا پر نہیں نفس بشری کی کمزوری کی بنا پر استعمال ہو ا ہے ! اور یہ یاد رہے کہ روزہ صرف روزہ بھی تقویٰ کے لئے کا فی نہیں ہے ۔روزہ کی کیفیت کا تمام زندگی باقی رہنا ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ سارا وجود روزہ دارہو۔برے خیالات ،گندے افکار ،بد عملی ،بد کر داری وغیرہ زندگی میں داخل نہ ہو نے پا ئیں ۔
روزہ برائیوں سے پر ہیز اور محرمات سے اجتناب کی ایک ریاضت ہے ۔روزہ بھوک ،پیاس اورمحنت و مشقت کا نام نہیں ہے،روزہ دار کے ذہن اور دل و دماغ کو غلط تصورات و خیالات سے ویسے ہی پاک و پاکیزہ ہو نا چائیے جس طرح اس کا شکم کھانے اور پینے سے خالی اور صاف رہتا ہے ۔
روزہ بھوک و پیاس کی مشق کے لئے واجب نہیں کیا گیا بلکہ محرمات اور گناہوں سے پرہیز کا عادی بنانے کے لئے واجب کیا گیا ہے ۔
شہزادی کو نین دختر نبی اکرم ۖ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فرمایا : ''وہ روزہ دار جو اپنی زبان ، اپنے کان، اپنی آنکھوں اور اپنے جوارح کو گناہ سے محفوظ نہ کرسکے تو اسکا روزہ روزہ نہیں ہے۔''
امیر المو منین علیہ السلام نے فرمایا:قلب کاروزہ زبان کے روزہ سے بہتر ہے اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ سے افضل ہے ۔
کتنی اچھی اور قابل غور بات علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم نے کہی ہے کہ :روزہ ترک لذّات کا نام ہے تیاری ٔ لذّات کا نہیں ۔'' مگر افسوس آج مسلمان معاشرہ کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ مسلمان کا وقت ،روزہ کے زمانے میں بھی زیادہ حصہ کھانے کی تیاری پر صرف ہو جا تا ہے ۔ عورتیں دو پہر کے بعد مستقل باورچی خانہ کی نذر ہو جاتی ہیں اور انواع و اقسام کے کھانے کی تیاری میں مشغول رہتی ہیں ایسا معلوم ہو تا ہے کہ روزہ بھوک و پیاس کے ذریعہ عبرت اور اصلاح نفس کی تحریک نہیں ہے بلکہ بہترین کھانوں کی تحریک ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ مسلمان معاشروں میں ماہ مبارک رمضان میں کھانے کا بجٹ عام زمانوں سے زیادہ ہو تا ہے اور مسلمانوں کی توجہ کھانے کے انواع و اقسام پر سال بھر سے زیادہ ہو تی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ ترک لذات اور ریاضت کا ذریعہ نہیں بلکہ بھوکے رہ کر کھانوں سے لذت اندوزی کا ذریعہ ہے ! ''
روزہ بہترین عبادت ہے جسے پروردگارنے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمد نے مشکلات میں اسی ذریعہ سے کام لیا ہے ۔کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے ۔یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمدۖ نے روزہ کی نذر کر لی اور وفا ئے نذر میں روزے رکھ لئے تو پروردگار نے پورا سورۂ دہر نازل کر دیا ۔
آل محمد کے ماننے والے اور سورہ ٔ دہر کی آیات پر وجد کرنے والے کسی حال میں روزے سے غافل نہیں ہو سکتے اور صرف ماہ مبارک رمضان میں نہیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سہارا بنا ئیں گے ۔ کیونکہ یہ مہنیہ تمام مہینوں کا سردار ہے اس ماہ مبارک میں تما م چیزیں یکجا ہو جا یا کرتی ہیں جتنی فضیلت اس مہینہ کو حاصل ہے کسی اور مہینہ کو نہیںحاصل ہے اس ماہ میں روزہ داروں کا ہر ہر لمحہ کبھی قرآن مجید کی تلاوت ،کبھی دعا اور کبھی نماز واجبہ کے ہمراہ نماز مستحبی پڑھنے میں گذرتا ہے ۔ اس ماہ میں نزول قرآن کے سبب اس کی عظمتوں میں اور چار چاند لگ گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ معصوم نے فرمایا ہے کہ''مَنْ قَرَأَ فِیْ شَھْرِ رَمْضَانَ ٰاٰٰ یَةً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ کَانَ کَمَنْ خَتَمَ اَلْقُرْٰانَ فِیْ غَیْرِہِ مِنَ اَلْشُّھُوْرِ۔''یعنی امام رضا فرماتے ہیں کہ:جو بھی ماہ رمضان میں کتاب اللہ کی ایک آیت کی تلاوت کریگا تووہ اس شخص کے مانند ہے جو بقیہ مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا ''یہ جان لو کہ جو بھی قرآن کو سیکھے اور اسکے بعد دوسروں کی اس کی تعلیم دے اوراس پر عمل کرے تو میں جنت کی طرف اس کی رہنمائی کرنے والا ہوں۔''نیز آپ ۖ نے فرمایا کہ ''اے میرے بیٹا! قرآن پڑھنے سے غافل نہ رہو ،کیونکہ قرآن دل کو زندہ کرتا اور فحشاء و گناہ سے دور رکھتا ہے ۔
عبادتوں کے چمن کی بہار ہے رمضان
علاج گردش لیل و نہار ہے رمضان
پئے طہارت دل آبشا ر ہے رمضان
پیام رحمت پروردگا ر ہے رمضان
ہوا کریم کا احساں اسی مہینے میں
ملارسول (ص)کو قرآن اسی مہینے میں
پیام اعظمی
علاج گردش لیل و نہار ہے رمضان
پئے طہارت دل آبشا ر ہے رمضان
پیام رحمت پروردگا ر ہے رمضان
ہوا کریم کا احساں اسی مہینے میں
ملارسول (ص)کو قرآن اسی مہینے میں
پیام اعظمی
ماہ مبارک رمضان کی اتنی ہی زیادہ عظمت و فضیلت ہے کہ انسان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ مہینہ خدا کا مہینہ ہے جس طرح ماہ رجب ماہ ولایت(امیرالمومنین ) اور ماہ شعبان ماہ رسالت (رسول اکرم ۖ)ہے اسی طرح سے یہ بابرکت مہینہ بھی ماہ خدا وند عالم ہے جس کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہو لہذا اگر کو ئی اسمیں داخل ہو نا چاہے تو سب سے پہلے درِولایت سے داخل ہو ۔اور انسان کے اعمال کی قبولیت بغیر ولایت اہلبیت علیہم السلام میسر ہی نہیں ہے !اس لئے ضروری ہے کہ انسان عقل سلیم سے کام لے اور اس ماہ میں خدا و رسول ۖ کے ساتھ ساتھ اہلبیت اطہار کی ولایت سے بھی متمسک ہو جا ئے تا کہ اس میں تزکیہ نفس کی خوی اور خدا شناسی کا شعور اور دعا کرنے کا سلیقہ پیدا ہو سکے ۔
ہم نے ماہ مبارک رمضان میں شائع ہو نے والے اکثر رسالوں کو دیکھا ہے ان میں مضامین تو بڑے عمدہ عمدہ شائع ہوا کرتے ہیں لیکن ان میں دعا وغیرہ کی کمی رہتی ہے لہذا ناچیز نے اس مختصر سے نوشتہ میں ماہ مبارک رمضان کے مشترک اعمال، دعا وغیرہ عربی عبارات کے ساتھ آپ روزہ داروں کی خدمت میں پیش کیا تا کہ آپ قرآن و نماز کے ساتھ ساتھ دعاؤ ں سے بھی کسب فیض حاصل کریں اور اپنے قلوب کو دعاؤں کے ذریعہ جلا بخشیں ۔
دعا کا معنی :
ارباب لغت نے یوں بیان کیا ہے کہ'' دعا'' یعنی: کسی کو صدا دینا وکسی کو پکارنا ۔یہ لغوی معنی ہے لیکن اصطلاح میں یہ ایسی شئی کا نام ہے جو انسان اور خدا کے درمیان کا ایک وسیلہ ہے انسان راز و نیاز کے ذریعہ ہی اپنے معبود حقیقی کی لقاء کو حاصل کرتا ہے روایت میں ہے کہ رسول اکرم ۖ کے ارد گرد اصحاب جمع تھے ایک دفعہ رسول اسلام ۖ اصحاب کی طرف ر خ کر کے فرماتے ہیں کہ ''کیا میں تمہیں ایک ایسے اسلحہ کی معرفی نہ کرو ںجو تمہیں تمہارے دشمن سے محفوظ رکھے گا اور تمہارے رزق میں کشادگی کا سبب بنے گا ؟آپۖ کی بزم میں جمع شدہ اصحاب نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ضرور ہمیں اس کی رہنمائی فرما ئیں !پس رسول اکرم ۖ نے فرما یا کہ ''شب وروز تم اپنے پروردگار کی تسبیح کرو اور اسکا نام لو اور دعا کرو کیونکہ دعا مومن کا اسلحہ ہے ''فان سلاح المومن الدعا ''(اصول کافی جلد ٢ باب الدعا ح٣)دعا انسان کو باطنی اور روحی توانا ئی عطا کرتا ہے قرآن مجید میں ہے کہ خدا وند عالم نے رسول اسلام سے فرما یا کہ اگر تم چا ہتے ہو کہ اس بار سنگین کو پا یہ تکمیل تک پہنچا دو تو دعا سے استفادہ کر و۔
سورہ بقرہ کی ١٨٦ ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے کہ ''و اذا سالک عبادی عنّی فانی قریب اجیب دعوةالدّاع اذا دعان فلیستجیبوالی ولیؤمنوا بی لعلھم یرشدون ۔''اور اے پیغمبر !اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں ۔ پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی وہ پکارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پر ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں ۔
حضرت ا مام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ''تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو ضرر نہیں پہنچا تی ہیں:
١۔سختی اور پریشانی کی حالت میںدعا۔
٢۔گناہ کے وقت استغفار ۔
٣۔نعمت ملنے کے وقت خدا وند عالم کا شکر ۔(امالی شیخ طوسی صفحہ ٢٠٧ بحار الانوار جلد ٩٠صفحہ ٢٨٩)
رسول اکرم ۖ نے فرمایا:''انّ عاجز الناس من عجز عن الدعا ۔''''یعنی :عاجزترین شخص وہ ہے جو جو دعا کرنے سے عاجز ہو ! (حوالہ سابقہ صفحہ ٨٧ و صفحہ ٢٩١)
سواکرنے والوں نے امام علی بن ابیطالب علیہمالسلام سے سوال کیا کہ ''وہ کون سا کلام ہے جو خدا وندا عالم کے نزدیک سب سے افضل ہے ؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ خدا وندعالم کو یاد کرنا ،گریہ وزاری کرنا اور اسکی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ اسکی بارگاہ میں دعا کرنا ۔(امالی صدوق صفحہ ٢٣٧ بحار الانوار جلد ٩٠ صفحہ ٢٩٠)
رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ ''ما من شیئٍ اکرم علی اللّٰہ تعالی من الدعا ''''یعنی :خدا وند عالم کے نزدیک دعا سے بہتر کو ئی شئی ہی نہیں ہے ۔'' اگر انسان اس ماہ مبارک میں ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہو ئے خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرے تو اسکے آثار و برکات ایسے ہیں کہ یقیناً انسان کے وجود سے نور کی شعائیں پھوٹ پڑیں گی اور انسان کے اندر خدا سے راز و نیاز کا سلیقہ پیدا ہوگا اور جب یہ سلیقہ پیدا ہوگا تو اسے خود کی شناخت ہو گی اور جب وہ اپنے آپ کو پہچانے گا تو اسے خدا کی شناخت کے ساتھ ساتھ اسکی معرفت بھی حاصل ہو گی اور جب اسے اس معبود حقیقی کی معرفت حاصل ہو جا ئیگی تو اس کے اندر تواضع کی خوی پیدا ہو گی اور جب وہ تواضع کے لباس میں ملبوس ہو گا تو اس کے دل میں ولایت خدا اور ولایت رسول ۖ کے ساتھ ساتھ ولایت اہلبیت سے سرشار ہو جا ئیگا اور جب وہ ان تمام ولایت کے سر چشموں سے مستفید ہو گا تو اس کادل تمام ہمّ و غم ،شرک ،نفاق ، معاصیت ،بغض و حسد ،کینہ ،تعصب اور گناہ اور تمام بیماریوں سے پاک ہو کر اس حدیث کا مصداق ہو کر قلب ِ سلیم کا مصداق ہو جا ئیگا.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ''القلب حرم اللّٰه فلا تسکن حرم اللّٰه غير اللّٰه '' یعنی! آپ نے فرمایا کہ ''قلب حرم ِخدا ہے لہذا اس میں کسی غیر خدا کو جگہ نہ دو۔ ''(بحار الانوار جلد ٢٧ باب حب اللہ .)
لہذا انسان اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نماز ،قرآن اور دعا کے ذریعہ خدا کے در پر دق الباب کرے کیونکہ قرآن مجید میں خود خدا تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ''الابذکر اللّٰه تطمئنُّ القلوب ''یعنی آگاہ ہو جاؤ یاد خدا کے ذریعہ دلوں کو سکون و اطمینان میسر ہوتا ہے ۔'' (سورۂ رعد ٢٨)
امید ہے کہ آ پ تمام قرائین کرام اور بالخصوص عزیز روزہ داران حضرات ان دعاؤں سے استفادہ کریں گے اور تمام اپنی دعاؤں میں اس ناچیز کو فراموش نہیں کریں گے ۔