خود شناسی(آٹھویں قسط)
  • عنوان: خود شناسی(آٹھویں قسط)
  • مصنف: ڈاکٹر علیم شیخ
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:4:56 1-10-1403

پچھلی اقساط کا خلاصہ
١۔ خدا وندمتعال سورہ شمس میں ١١ قسمیں کھانے کے بعد ’تزکیہ نفس ‘ کو اصل کامیابی قرار دے رہا ہے ۔ مگر تجزیہ نفس یعنی خودشناسی کے بغیر تزکیہ نفس ممکن ہی نہیں جیسے ایک ڈاکٹر انسانی جسم میں موجود اعضائ کے افعال کو جانے بغیر جسمانی امراض کا علاج نہیں کرسکتا اسی طرح نفس کا علاج نفس کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے۔ جیسے وضو نماز کے لئے واجب ہے اسی طرح تجزیہ نفس (خودشناسی) تزکیہ نفس کے لئے واجب ہوگا۔
اپنے آپ کو پہچاننا خودشناسی ہے۔ یعنی اپنے مقام ، اپنی صلاحیتوں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی، انفرادی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی ابتری اس بات کی دلیل ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو پہچاننے میں ہمیشہ کوتاہی سے کام لیا ہے۔ جب کہ سائنس نے جو علم دیا انسان نے اسے اپنی زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے استعمال کیا نہ کہ خدا شناسی اور تزکیہ نفس کے لئے۔۔!
٢۔ اب مشرق و مغرب، ہندو، انگریز، تمام مکاتبِ فکر خودشناسی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسلام ١٤٠٠ سال سے خودشناسی کا درس دے رہا ہے۔ اگر ہم مزید سستی اور کاہلی کا شکار رہے اور تاخیر سے کام لیا تو یہ تمام لوگ جلد ہی امامِ زمانہٴ کے لشکر سے جاملیں گے اور ہم کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔
٣۔ خودشناسی کا علم حاصل کرنے کے لئے سب سے مستند ذریعہ ’وحی الٰہی‘ ہے نہ کہ سائنس، یا عقل کیونکہ وحی الٰہی کے لائے ہوئے نظریات کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوتے۔ جب کہ باقی دونوں علوم وقتاً فوقتاً غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ’وحی الٰہی‘ کے علم کے اصل وارث ’’اہلِ بیت‘‘ ہیں۔ چنانچہ علم چاہے خودشناسی کا ہو یا پھر کسی اور شے کا‘ ہمارا رخ اہلِ بیت کی جانب ہی ہونا چاہیے۔
٤۔ تعلیماتِ اہلِ بیت خودشناسی کے لئے ہماری راہ متعین کرتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں دو آنکھوں کے علاوہ ایک تیسری آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے جو باطن کی آنکھ کہلاتی ہے۔ اس آنکھ کے بارے میں ہندو، عیسائی پہلے ہی تصدیق کر چکے ہیں اور اب مغربی دنیا CLAIRVOYANCE نامی جدید علم کے طریقے سے تیسری آنکھ کو متعارف کروا رہی ہے۔ تعلیماتِ اہلِ بیت کے مطابق تیسری آنکھ اس صورت میں بیدار ہوسکتی ہے جب انسان ’کثرتِ کلام‘ اور ’کثرتِ آرزو‘ سے پرہیز کرے اور شب و روز دنیا کے کاموں میں مگن ہونے کے باوجود اللہ کی یاد میں کھویا رہے۔
٥۔ انسان، جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زندہ ہونے کی صورت میں یہی روح انسان کا نفس کہلاتی ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب اور فلسفی حضرات روح یعنی نفس پر یقین رکھتے ہیں۔ قرآن کی سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٥ کے مطابق انسان کو روح کا بہت کم علم دیا گیا ہے لیکن کسی شے کا نہ جاننا اس کے عدم کی دلیل نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں آئے دن نت نئے جراثیم اور وائرس دریافت ہوتے رہتے ہیں۔ خارجی نظریہ، وحدتِ شخصی کا نظریہ، نظریہ انطباق، ESR ٹیسٹ وغیرہ۔ روح (نفس) پر دلالت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں روح (نفس) عمر، آغاز، انجام، ارتقائ، مسکن، طبیعت، غرض ہر صفت کے اعتبار سے جسم پر حاوی ہے۔
٦۔ ابراہام ماسلو کے نظریہ کے مطابق انسان کی زندگی کے بنیادی اہداف بالترتیب جسمانی ضروریات، تحفظ، تعلقات، انا اور خودشناسی ہیں۔ خودشناسی کا ادراک کرنے کے بعد انسان کا نفس اُس کے جسم پر حاوی ہو جاتا ہے اور پھر خدا سے ملاقات کے لئے انسان سرگرم ہو جاتا ہے اور اس کا تعلق عالمِ ملکوت سے زیادہ اور دنیا سے کم ہوتا چلا جاتا ہے، بالکل ایک مسافر کی طرح۔
روح کو زمین پر بھیجنے کا مقصد اس وعدہ کی پاسداری کا امتحان لینا ہے جو ’عالمِ ذرّ‘ میں تمام انسانوں نے خدا کے سامنے کیا تھا۔ سورہ اعراف آیت نمبر ١٧٢ میں ائمہٴ کی روایات کے مطابق انسانوں کو آزمانے کے لئے ہی دنیا میں بھیجا گیا ہے کہ کہیں وہ دنیا کی بھول بھلیوں میں خدا کو بھول تو نہیں جائے گا۔
نفس کو سمجھنے کے لئے آئیے پہلے غیر اسلامی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی نقطہ نگاہ سے نفس کو پرکھنے کی کوشش کریں گے۔
٧۔فلاسفر اور ماہرِ نفسیات کے مطابق خواہشات کا نفس میں ابھرنا فطری ہے اور اس کے صحیح غلط ہونے کا دارومدار انسان کے اپنے اقدار اور نظریات پر ہے کہ اس کے نزدیک ایک صحیح یا غلط کا میزان کیا ہے مثلاً خود والدین، معاشرہ، ملکی قوانین یا پھر اس کا مذہب۔ ہمارا جواب ہے ’’خدا‘‘۔ دیگر مذاہب نفس کی مخالفت میں ہی انسان کی عافیت ڈھونڈتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک نفس چار اجزائ کا مرکب ہے:
عقل جو دیگر قوی کو اعتدال میں رکھنا چاہتی ہے۔
وہم جو دیگر قوتوں میں بغاوت پیدا کرنا چاہتی ہے۔
شہوت انسان کو فائدہ سے قریب اور
غضب انسان کو نقصان سے دور رکھنا چاہتی ہے۔
یہ تمام قوی اگر عقل کے تابع ہوں تو انسان فرشتوں سے افضل ، اگر یہ تمام قوتیں وہم کے تابع ہوں تو شیطان سے بدتر اور اگر غضب غالب آجائے تو انسان درندوں سے بدتر، شہوت کے غلبہ کی صورت میں انسان حیوانوں سے بدتر ہوجاتا ہے۔
ٍ نئے سال کی تیاریاں پورے عروج پر ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں رسالہ آنے تک عیسوی کیلنڈر کے سال آغاز ہوچکا ہوگا۔ جب کہ ہجری کلینڈر کا آغاز اس سے پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ ہجری کیلنڈر (اسلامی ، قمری ) اور عیسوی (عیسائی، شمسی) کیلنڈر کا انحصار سورج پر ہے۔ ہجری کلینڈر کی تواریخ متغیر ہوتی ہیں یعنی رمضان کبھی گرمیوں میں کبھی سردیوں میں ۔ لیکن عیسوی کیلنڈر مستقل ایام کے ساتھ ہوتا ہے یعنی کرسمس اور نیا سال ہمیشہ یخ بستہ سردیوں میں منایا جاتا ہے۔ لیکن دونوں کیلنڈر میں سب سے اہم فرق یہ ہے عیسوی کیلنڈر کھیل، کود، تفریح، لہو و لعب اور شراب کے نشے میں شروع کیا جاتا ہے جبکہ ہجری کیلنڈر ایام عزا میں گریہ و زاری کے ساتھ۔ ایک گروہ خوشیاں مناتا ہے دوسرا غم، ایک مکتبِ فکر رونے پر ہنستا ہے اور دوسرا لوگوں کے ہنسنے پر روتا ہے۔
سنا ہے عیسوی نئے سال کے آغاز کے غل غپاڑے کی وجہ سے مغرب میں جیلیں بھر جاتی ہیں جب کہ ہجری کے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں۔ وہاں سڑکوں پر حادثات ڈرائیونگ کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں جبکہ یہاں جلوس عزا میں لاکھوں افراد کے پائے استقامت سے لغزش نہیں آتی۔ جوش وہاں بھی ہوتا ہے جوش یہاں بھی ہوتا ہے۔ آگ وہاں بھی لگی ہوتی ہے اور آگ یہاں بھی
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
بس فرق اتنا ہے کہ وہاں لوگ آگ پر Fire Danceکرتے ہیں اوریہاں آگ پر ماتم۔ اس مرتبہ تو گویا قدرت نے دونوں event ایک ساتھ منعقد کروا کر تمام عالمِ انسانیت کو دلچسپ تقابل کی دعوت دی ہے یعنی مغرب میں ڈسکو کلبز میں پاوں کی دھمک اور عالمِ اسلام میں سینے پر ماتم کی تھپک ایک ساتھ

سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سُن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
(اقبال)

کہتے ہیں انسان کی زندگی کی ابتدائ بھی رونے سے ہوتی ہے یعنی اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو اس کو ASPHYXIA کی بیماری ہو جاتی ہے اور رونے کی عدم موجودگی میں تنفس کا عمل شروع نہیں ہو پاتا اور جسم کو آکسیجن کی دستیابی خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور اگر رونے کا عمل 10 منٹ تک شروع نہ ہو تو بچہ ہمیشہ کے لئے ذہنی معذور ہو جاتا ہے۔
امامِ مظلومٴ پر گریہ کرنے والے گویا ہر سال کی ابتدائ گریہ سے کر کے قلب کو ’’ایمانی آکسیجن‘‘ سے سیراب کرتے ہیں۔
عزاداری کی بہترین پیداواری فصل خودشناسی ہے۔ انسان کے آنسو ان دس دنوں میں گویا آئینہ کا کام کرتے ہیں کہ اس میں وہ اپنے سراپے کاجائزہ لے کر اپنے ظاہر یا باطن کا سراغ لگا سکتا ہے۔ دس دنوں کے اس ’’فری کلینک‘‘ سے فائدہ اٹھائیے اور ’’سالانہ روحانی چیک اپ‘‘ کرواکر نفسانی امراض کی تشخیص اور ان کا علاج کروانے کے لئے کمر بستہ ہوجائیے۔
اجزائے نفس سمجھنے کے بعد آئیے ان تمام اجزائ پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہیں کہ مغرب ، غیر اسلامی افکار کو کیسے لیتے ہیں اور اس کے بارے میں کیا رویہ رکھتے ہیں؟ سب سے پہلے عقل اور اس کے نظریات، تغیرات بمعہ تفصیل کے پھر دیگر اجزائے ترکیبی!

عقل کی تعریف
’’کسی شے یا عمل کے صحیح یا حق ہونے کی معلومات جو انسان کے کردار، عمل اور خودشناسی سے مربوط ہو۔یعنی عقل اس اختیار کی جامعیت کا نام ہے جس کے سبب انسان بہترین طرزِ عمل اختیار کرتا ہے۔‘‘
٭ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ ’’عقلمند وہ ہے جو دو صحیح عوامل میں صحیح ترین عمل اور دو بدترین عوامل میں بدترین عمل کا فیصلہ کرسکے۔‘‘
یعنی Choose the best، اور یہی طرزِ عمل اور بنیاد آج دنیا بھر میں ہر قسم کے تعلیمی امتحان میں میزان کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ جس کا جدید نام MCQ (Multiple Choice Questions)ہے جو ان MCQ میں Best Answer کو ڈھونڈنکالتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب اور عقلمند کہلاتا ہے۔

اجزائے عقل
عقل کے اجزا میں علم، سمجھ، تجربہ، نظم و ضبط، تمیز کی صلاحیت اور جبلی فہم شامل ہے۔ ان اجزائ کا صرف موجود ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ان کا صحیح اور برجستہ استعمال بھی ضروری ہے تاکہ مسائل کو حل کیا جاسکے۔ یعنی یہ تمام اجزائ عقل کی مشین کو مکمل کرتے ہیں اور اگر مشین اپناکام نہ کرسکے (مسائل کا حل تلاش کرنا، سوالات کے جوابات ڈھونڈنا) تو پھر عقل نامکمل یا ناکارہ کہلائے گی۔
ان اجزائ کا ہونا ’’عقل‘‘ اور ان اجزائ کا استعمال کرنا ’’ذہانت‘‘ ہے۔

مترادفاتِ عقل
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چند الفاظ ’عقل‘ کے مترادف سمجھے جاتے ہیں مگر ان اصطلاحات اور عقل میں باریک سا فرق ہے جس کا سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً

١۔ INTELLIGENCE(ذہانت):
اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت۔ یہ عقل کے قریب ترین اصطلاح ہے۔ لیکن عقل انسان کو مادی و معنوی دونوں جہتوں میں کامیاب کرتی ہے لیکن جب دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑجائے تو عقل معنوی طور پر سفر کرنا پسند کرتی ہے جب کہ ذہین آدمی فقط دنیاوی نفع نقصان یا ظاہری نفع نقصان کو مدِنظر رکھتا ہے۔
مثلاً قحط کے زمانے میں اناج ذخیرہ کرنا ذہانت ہے اور اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردینا عقلمندی ہے۔ جنگ میں دریا پر قبضہ کرلینا اور دشمن کو ایک گھونٹ پانی نہ دینا ذہانت ہے مگر دریا پر دسترس ہونے کے باوجود اپنے دشمن کو بھی اس پانی کو استعمال کرنے سے نہ روکنا عقلمندی ہے ،کربلا میں کون عقلمند تھا کون ذہین اب اس کا فیصلہ کرنا آسان ہے۔
آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذہین آدمی چالاک، مکار، عیار، خود غرض ہوسکتا ہے مگر عقلمند ہمیشہ مخلص عادل، بے غرض ہوتا ہے۔ کہتے ہیں اسرائیل کی یونیورسٹی میں ہر سال 500 سے زیادہ Phd پاس ہوتے ہیں جو دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں پاس ہونے والے Phd افراد سے بھی زیادہ ہیں! آپ انھیں کیا کہیں گے ذہین یا عقلمند!!

2۔ Polymath:
یہ اصطلاح ان لوگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو بیک وقت کئی شعبوں میں ماہر (Genius) ہوں۔
آج کل امریکہ میں ’’دُہرے پیشہ وری‘‘ کا دور دورہ ہے یعنی Double Professional یعنی ایک ڈاکٹر میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قانون میں LLB کی ڈگری بھی لے لیتا ہے اور پھر صحت سے متعلق مقدمات لڑتا ہے۔ دُہرے نقطہ نظر اور معلومات کے پیشِ نظر ایسا ڈاکٹر وکیل بن کرزیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس طرح ایک ڈاکٹر IT Professional بن کر میڈیکل کے تمام ریکارڈ کو کمپیوٹر میں بہتر منظم کر سکتا ہے بلکہ اب تو میڈیکل اور کمپیوٹر سے متعلق دس سے زیادہ combinations دستیاب ہیں مثلاً Medical Transcriptions, Telemedicine, وغیرہ، مگر ہمارے نزدیک ’’علمِ طب‘‘ کا بہترین Combination ’’علمِ دین‘‘ کے ساتھ ہے کیونکہ جسمانی امراض جاننے کے بعد روحانی امراض باآسانی پڑھے، سمجھے اور علاج کیے جاسکتے ہیں۔
کہتے ہیں لکھنو میں ایک زمانے میں عالمِ دین کو حکمت (مشرقی طب) کی تعلیم دی جاتی تھی تاکہ عالمِ دین کے نان و نفقہ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور وہ اپنی پریکٹس کے ذریعے لوگوں میں اثر و رسوخ کے سبب دعوت و تبلیغ کا کام باآسانی کرسکے۔
ایک زمانے میں کراچی کے ڈاو میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم میڈیکل اسٹوڈینٹس نے امام خمینی۲ کو خط لکھا کہ ہم میڈیکل چھوڑ کر انقلاب میں آپ کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں، امام خمینی۲ نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ ’’ہمیں ایسے عالمِ دین چاہئیں جن کے سر پر عمامہ اور گلے میں Stethoscope ہو۔‘‘
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ روایتوں کے مطابق امامِ زمانہٴ کے خاص اصحاب جن کی تعداد ٣١٣ ہے میں ٣٦ یا ٢٩ خواتین بھی ہوں گی جن میں بیشتر ڈاکٹر یا نرس ہوں گی۔ یعنی امامٴ کو ہر قسم کے علوم کے ماہر لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ بہرحال اس طرح انجینئرنگ اور MBA کا Combination بھی ہے۔ کمپیوٹر سوفٹ وئیر اور MBAوغیرہ بھی رائج ہے۔
اگر آپ ہمیں مزید تفصیل کی اجازت دیں تو ہم یہ دلچسپ انکشاف کرنا چاہیں گے کہ انگریزوں نے Polymath یعنی ’’Double Porfession‘‘ یا ’’Poly-profession‘‘ کی اصطلاح کو ئی آج کل کے لوگوں کو دیکھ کر ایجاد نہیں کی بلکہ پرانے زمانے کے مسلمان علمائ کو دیکھ کر کی، جو بیک وقت ایک سے زیادہ علوم اور شعبوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ مثلاً جابر بن حیان (عالم+ کیمیادان بلکہ بابائے کیمیا)، بوعلی سینا (عالم، فلسفی، طبیب)، علامہ حلّی (عالمِ دین، ماہر فلکیات)، شیخ بہائی (عالمِ دین، ریاضی دان) (جب ہمارے علمائ کا یہ حال ہے تو ائمہ طاہرین کے علم کے مختلف پہلووں کا کیا حال ہوگا)۔ ایسی مثالیں پرانے زمانے میں ہی نہیں بلکہ موجودہ دور میں بھی مل جائیں گی۔ مثلاً حال ہی میں پاکستان کے A Level کے طالب علم ’’علی معین نوازش‘‘ نے ٢٣ میں سے ٢١ مضامین میں A گریڈ لے کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوایا ہے۔
ایران کے سید محمود حسابی نے آٹھ مضامین میں Phd کیا ہوا ہے الیکٹرک انجینئرنگ، شاعری، فزکس، طب، ریاضی، فلکیات، ارضیات، حیاتیات۔
محمد صادق وزیری جو پاکستان سے ایران گئے، انھوں نے ١٢ سال کی عمر میں قرآن ، نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ حفظ کرلی تھی۔ محمد حسین طباطبائی نے فقط ساڑھے پانچ سال کی عمر میں انگلینڈ کی ’’جی ز یونیورسٹی‘‘ سے قرآن میں Phd کی ڈگری لے لی۔ پاکستان کی ٩ سالہ فاطمہ نے بل گیٹس کے امتحان M,C.S,E کو پاس کر کے دنیا کی کم عمرترین طالبہ کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ بہرحال ان تمام ہوشربا مثالوں اور حیرت میں ڈالنے والے افراد کے بارے میں سن کر ایک اور حیرت میں ڈالنے والا نکتہ سنئے کہ ’’انسان نے اب تک اپنے دماغ کا فقط 1% حصہ استعمال کیا ہے‘‘۔ تعریف اس خدا کی جس نے تجھے بنایا۔ اب لوگوں کے پاس یہ جواز نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے کے پاس اسکول کی تعلیم کے لئے وقت نہیں ہے تو مدرسہ کی تعلیم کے لئے وقت کہاں سے لائیں؟! یہ فقط ایک شیطانی وسوسہ ہے جو اَب دور ہوجانا چاہیے۔

٣۔ SMART:
یہ لفظ بظاہر خوبصورتی پر دلالت کرتا ہے لیکن حقیقتاً Smart اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت جلد نئے ماحول کا عادی بن جائے یا نئے کام کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
علم کیا ہے مسلسل ایک نئی بات یا نظریہ کا اضافہ۔ چنانچہ ہر علم درحقیقت انسان کے لئے ایک نیا چیلنج ہے ۔ ہر مسئلہ ایک نیا پن ہے۔ چنانچہ جو بھی نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی مردانہ وار صلاحیت رکھتا ہوگا اسی کو Smart کہا جائے گا۔

٤۔ GENIUS:
کسی بھی خاص شعبہ میں مہارت یا کامیابی حاصل کرنے والا شخص Genius کہلاتا ہے، مثلاً کوئی طالب علم کسی خاص مضمون میں یا اپنی کلاس میں Genius کہلاتا ہے مگر اس کی یہ صفت جزوی ہوگی یا پھر وقتی۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ حافظے کے بل بوتے پر بڑے مقبول ہو جاتے ہیں۔ ان کو نہ صرف قرآن‘ بلکہ انجیل، زبور، گیتا تک حفظ ہوتی ہے۔ مگر ان تمام معلومات، حافظہ اور علم کے باوجود وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کر پاتے کہ یزید کو رضی اللہ تعالی عنہ کہنا چاہیے کہ نہیں۔ رسول۰ سفارش یا وسیلہ کا سبب بن سکتے ہیں یا نہیں۔ (غور فرمائیے گا!)
اسی لئے رہبر کے انتخاب کے لئے Genius کے انتخاب کی بجائے عقلمند شخص کا انتخاب ہی عقلمندی ہے۔

عقل کے غیر مذہبی نظریات
١۔ عقل اور نفسیات

علمِ نفسیات کے نزدیک عقل چار اجزائ کا مرکب ہے ۔
a) ذاتی معلومات: اس کے ذریعہ انسان اشیائ کو سمجھتا اور پرکھتا ہے۔
b) اخلاص: جس کے تحت غیر جانبدار ہوکر کوئی فیصلہ کرتا ہے تاکہ اس کا فیصلہ عدل پر مبنی ہو ۔
c) قول و فعل میں یکسانیت: یعنی قول و فعل میں تضاد انسان کے عقلمند ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اگر ایسا شخص کامیاب بھی ہے تو اسے ایک مکار، عیار شخص تو کہیں گے، مثالی آدمی نہیں۔ مولا علی علیہ السلام کے مطابق اگر وہ عیاری کرنے پر آتے تو پورے عرب میں ان جیسا کامیاب حکمران کوئی نہ ہوتا مگر مولاٴ مکار نہیں تھے۔
d) صلاحیتِ رہبری: دنیا میں کوئی ایسا بیوقوف آدمی نہیں گذرا جس نے کسی گروہ کی رہنمائی کی ہو۔ عقلمند شخص نہ صرف خود کو راہِ راست پر رکھ سکتا ہے بلکہ لوگوں کی سچ کی طرف رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔ ٢۔ عقل اور فلسفہ
فلسفہ کے مطابق، دستیاب معلومات کا بہترین استعمال عقل مندی ہے۔

a۔ ارسطو کا نظریہ:
ارسطو کے مطابق اشیائ کے ہونے کے سبب کا ادراک ہو نا ہی عقلمندی ہے۔
یعنی اگر انسان کو کائنات اور اپنے وجود کی وجہ اور پس منظر پتا چل جائے تو بس یہی عقل ہے۔
حدیثِ رسول۰ ہے کہ: ’’عقل مند وہ ہے جو قیامت کی تیاری کرے‘‘۔ ظاہر ہے کہ قیامت کی تیاری خودشناسی اور خداشناسی کے بغیر ممکن نہیں۔

b۔ کنفیوشس کا نظریہ :
٤٧٩۔٥٥١ قبل مسیح کا فلسفی جس کے افکار آج بھی چین، کوریا، جاپان، ویتنام میں عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس کے مطابق عقل کو تین طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے:
i۔ تفکر (Reflection) کے ذریعے : اعلی ترین طریقہ۔
ii۔ تقلید (Imitation) کے ذریعے: آسان ترین طریقہ۔
iii۔ تجربہ (Experience) کے ذریعے: تلخ ترین طریقہ۔
٭ اتفاق سے ہمارے ہاں اسلامی احکامات میں عمل کرنے کے تین طریقے ہیں ۔
i۔ انسان خود سے مجتہد بن جائے(تفکر کے ذریعے)
ii۔ دوسرے مجتہد کی تقلید کرے، (تقلید کے ذریعے)
iii۔ احتیاط کو پیشِ نظر رکھے (یعنی تجربہ کے ذریعے معلوم کرے احتیاط کس میں ہے؟)

c۔Free Thinkersکا نظریہ :
یہ مکتب فکر کہتا ہے کہ عقلمندی سببیت (reasoning)، فطری اور روحانی طریقے سے حاصل ہوتی ہے۔
یعنی عقل ’’کسبی‘‘ بھی ہوسکتی ہے اور ’’وہبی‘‘ یعنی خدائی عطیہ بھی، جس کا کلی مظاہرہ انبیائ اور ائمہٴ میں نظر آتا ہے اور غیر معصوم انسانوں میں جزوی طور پر ۔

d۔INUITکا نظریہ:
انٹارٹیکا کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کا نظریہ ہے کہ ’’عقلمندی یہ ہے کہ انسان کو بتائے بغیر معلوم ہے کہ کس وقت اسے کیا کرنا چاہیے‘‘۔
اسلام میں عقل کا عروج ’’حکمت‘‘ کہلاتا ہے اور حکمت اُس صلاحیت کو کہتے ہیں جس کے تحت انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس وقت کیا کرنا ہے؟ اور جب انسان اپنی رضا اللہ کی رضا میں شامل کر دیتا ہے تو گویا وہ کائنات کا مالک بن بیٹھتا ہے کہ سارا کاروبارِ زندگی اسی کی منشائ و مرضی کے مطابق چلتا ہو۔
ایک دن بہلول سے کسی نے کہا، ’’بہلول کیا حال ہے؟‘‘ بہلول نے جواب دیا: ’’اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جس کی مرضی سے ساری کائنات چل رہی ہے؟‘‘ پوچھنے والے نے وضاحت چاہی۔ بہلول نے کہا کہ ’’میں نے اپنی مرضی خدا کی مرضی میں شامل کردی ہے۔ اب خدا جو چاہتا ہے میں بھی وہی چاہتا ہوں، جو وہ کرتا ہے میری مرضی بھی اس میں شامل ہوتی ہے چنانچہ کائنات خدا چلا رہا ہے اور اس کے ساتھ میں بھی اس کا شریک ہوگیا ہوں‘‘۔
حقیقت ہے کہ قطرہ بذاتِ خود کچھ نہیں مگر جب وہ سمندر میں فنا ہوجاتا ہے تو سمندر کہلانے لگتا ہے۔

e۔ Holismکا نظریہ:
اس نظریہ کے مطابق ’’انسان کا عقلمند ہونا دراصل انسان کا آس پاس کے ماحول کی مطابقت سے مربوط ہے‘‘۔ یعنی انسان جتنا اپنے ماحول میں کھپ جائے گا وہ اتنا ہی عقلمند کہلائے گا۔ یعنی ۔۔
٭ ہر حال میں خوش رہنے والا اور ماحول کے مطابق قدم اٹھانے والا شخص۔ یعنی دوستوں کے حلقوں میں نرم دل اور جنگ کے میدان میں فولادی چٹان
ہو حلقہ یاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
قرآن کے مطابق اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفّارِ رُحَمَائُ بینھم
کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل!
یہی وجہ ہے کہ جو انگلیاں میدانِ جنگ میں ذوالفقار کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہیں وہی انگلیاں گھر میں دال چنتی ہوئی نظر آتی ہیں اور رسول۰ جب یہ منظر دیکھتے ہیں تو علیٴ کو اہلِ خانہ کی گھر کے کاموں میں مدد کا ثواب حج و عمرہ کے ثواب سے بھی زیادہ بتا کر خوش خبری دیتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ اگر انسان فقط اللہ کی رضا کو مدِنظر رکھے تو ہر حال میں ثواب سمیٹتا ہوا نظر آئے گا۔چاہے وہ ہجرت کی رات بسترِ رسول۰ پر پہلی اور آخری شب بھر کی نیند کے مزے ہی کیوں نہ لوٹ رہا ہو۔

Nioholes Maxwellکا نظریہ :
اس کے مطابق عقلمندی یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم ہو کہ ’’زندگی میں اس کے لئے اور دوسروں کے لئے کیا چیز قیمتی ہے‘‘۔
دوسرے لفظوں میں انسان اپنے لئے جیئے تو ’’خود غرض‘‘ کہلاتا ہے اور دوسروں کے لئے جیئے تو ’’بیوقوف‘‘۔ حق یہ ہے کہ انسان کا طرزِ زندگی ایسا ہونا چاہیے جو خود ا س کے لئے اور دوسروں کے لئے قابلِ قبول ہو۔ اسی کو توازن، میانہ روی اور صراطِ مستقیم کا راستہ کہتے ہیں۔ اسلام خود اعتدال پسندی کا مذہب ہے۔