شب قدر ایک تقدیر ساز رات
  • عنوان: شب قدر ایک تقدیر ساز رات
  • مصنف: گودرز نجفی
  • ذریعہ: shianet.in
  • رہائی کی تاریخ: 20:26:6 1-10-1403


پیشگفتار

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
انّاانزلناہ فی لیلة القدر، وما ادراک ما لیلة القدر، لیلة القدر خیر من الف شھر، تنزّل الملائکةوالرّوح فیھا باذن ربّھم من کلّ امر،سلام ھی حتّی مطلع الفجر

بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے. اور آپ کیا جانیں یہ شب قدر کیا چیز ہے . شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے .
اس کتابچہ میں ہمارا مقصد سورہ قدر کی تفسیر بیان کرنا نہیں ہے کیو نکہ مفسران قرآن نے اپنی اپنی تفاسیرمیں مفصل طور پر اس کی تفسیربیان کی ہے . ہم صرف اس سورہ کے متعلق کئے گئے سوالات اور شبہات کے جوابات خدا وند عالم کی مدد سے اجمالی طور پر بیان کر یں گے امید ہے کہ مقبول درگاہ حق واقع ہو اور قارئین کرام اس سے مستفیض ہوں . انشاء اللّہ

ربّنا تقبّل منّا انّک انت السّمیع العلیم
کودر زنجفی

شب قدر

تاریخی نقطہ نظر سے آیات اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی و جود میں آئی ہے ( ١) اور سابقہ امتوں میں حضرت آدم کے زمانے سے لے کر اور ان کے بعداسی طرح ہرایک پیغمبر کے زمانے میں ایک رات'' شب قدر'' کے نام سے موجود تھی (٢) جس طرح گزشتہ امتو ں میںماہ رمضان بھی تھا. اور یہ عظیم رات دنیا کے اختتام تک باقی رہے گی۔
ایک روایت میں ابی جعفر شب قدر کی تاریخ کے بارے میں فرماتے ہیں :'' خدا وند متعال نے شب قدر کو کائنات کی تخلیق کی ابتدا میں اور اس وقت جب اپنے پہلے نبی اور وصی کو پیدا کیا، وجود بخشا۔ اس نے ارادہ کر رکھا ہے کہ ہر سال ایک رات قرار دے کہ جس میں آئند ہ سال تک کے تمام امور کی تفسیر نازل ہو۔ اور جو شخص بھی اس حقیقت کا انکار کر ے گو یا اس نے اس کے بارے میں خدا کے علم انکار کیا ہے کیو نکہ انبیاء ا و رر سول اور محدثین
قیام نہیں کر تے مگر یہ کہ ایسی رات میں ان کے ذریعہ اتمام حجت کی جائے ... خدا کی قسم! آدم نے وفات نہیںپائی مگر یہ کہ ان کے وصی تھے اور آدم کے بعد اسی رات میں خدا کا امر ہر نبی(صاحب امر ) پر وارد ہو ا اور اس نے اپنے بعد اپنے وصی کو سونپ دیا۔ (٣)
حضرت امام جواد فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے شب قدر کو خلقت کائنات کے آغاز میں ہی بنایا۔ اسی طرح اس رات میں اپنے پہلے نبی اور وصی کو بھی خلق کیا۔ خدا کی قضا اور حتمی فیصلہ یہ ہے کہ ہر سال ایک ایسی رات ہو جس میں تمام امور اور مقدّرات نازل کئے جائیں ( اور معین کئے جائیں ) خدا کی قسم! اس رات روح اور ملائکہ نازل ہوئے اوروہ مقدّرات امور کو ان کے پاس لا ئے . حضرت آدم نے رحلت نہیں کی مگر یہ کہ اپنے لئے وصی اور جانشین معین کیا ۔ تمام انبیاء جو حضرت آدم کے بعد آئے، ان پر بھی شب قدر میں خدا کا امر نازل ہو تا تھا . اور ہرنبی نے اپنے بعد اس مر تبہ اور مقام کو اپنے وصی کے سپرد کیا (٤)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے حضرت امام صادق سے پوچھا : مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ کیا یہ ایک مخصوص رات تھی جو گزر گئی یا ہر سال آتی ہے ؟ امام نے جواب میں فرمایا: اگر شب قدر اٹھالی جائے تو قرآن بھی اٹھالیا جاتا (٥)
اسی طرح کی ایک اور روایت میں پیغمبر ۖ کے مشہور صحابی ابوذر نے نقل کیا ہے ،ابوذر کہتے ہیں : میں نے پیغمبر ۖ سے عرض کیا: اے رسول خدا ! کیا شب قدر صرف انبیاء کے زمانے
میں ہو تی ہے کہ امر ان پرنازل ہوتا ہے اور جب دنیا سے گزر جائیں تو شب قدر بھی اٹھالی جائے گی ؟ حضرت ۖ نے فرمایا: نہیں بلکہ شب قدر روز قیامت تک باقی ہے '' لا بل ھو الی یوم القیامة '' (٦)
ابن عمر کہتے ہیں . بعض صحابہ کرام نے پیغمبر ۖ اکرم سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا . میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا :'' ھی فی کلّ رمضان '' (٧) یعنی شب قدر ہر ماہ رمضان میں ہوتی ہے۔

مسلمانوں کے درمیان شب قدر کا فلسفہ

خطیب نے ابن مسیب اور اس نے امام حسن (٨)سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اسلام عالم رؤیت میں تھے انہوں نے خواب میں دیکھا بندر مسجد میں جمع ہیں اور منبر پر چڑ ھتے ہیں اور اس سے اترتے ہیں ۔ صبح جبرائیل پیغمبر کے پاس آئے تو انھیں غمگین پایا۔ سبب پوچھا آنحضرت ۖ نے بھی اپنا خواب ان کے سامنے بیان کیا۔ جبرائیل آسمان کی طرف گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مسکرائے ہوئے واپس آ ئے اور پیغمبر کو خواب کی تعبیر سے آگاہ کیا اور کہا یہ بندر بنی امیہ کے افراد ہیں جو آپ کے بعد ناحق آ پ کے منبر پر چڑھیں گے(حکومت ہاتھ میں لیں گے) اور ان کی حکومت کی مدت ١٠٠٠ مہینے ہوگی۔پھر جبرائیل پروردگار کی طرف سے آنحضرت کے لئے سورہ قدر ہدیہ لے کر آئے اور عرض کیا :آپ کے پروردگار نے فرمایا :شب قدر آپ کے لئے بنی امیہ کی حکومت کے ١٠٠٠ مہینوں سے بہتر ہے (٩)
مر حوم محمد تقی شریعتی لکھتے ہیں: شب قدر کے بنی امیہ کی حکومت سے بہتر ہونے کے موضوع
کے علاوہ جو کہ شیعہ اور بعض اہل سنت تفسیروں میں امام حسن سے نقل ہوا ہے جبکہ بنی امیہ کی یہ پلید اورناپاک حکومت امام حسن کی شہادت کے کئی سال بعد ختم ہوئی اس حکومت کی مدت ٹھیک ١٠٠٠ ہزار مہینے واقع ہوئی جو امام کی حقیقی تفسیر پر گواہی دیتی ہے اور قرآن کے معجزوں اور پیشین گوئیوں میں بھی شمار کی جاتی ہے رافعی کے اعجاز القرآن میں اسے علمی معجزات میں ذکر کیاگیا ہے(١٠)
شب قدر کے فلسفہ وجودی کے سلسلے میں اور بھی اقوال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض اقوال کو ذکر کیا جاتا ہے۔
ایک دن پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے اصحاب کے درمیان بنی اسرائیل کے چار پیغمبروں (ایوب ، ذکریا، حزقیل، یوشع )کا نام لیا کہ یہ بغیر کسی نافرمانی کے ٨٠ سال تک دن رات خدا کی عبادت کرتے رہے. آ نحضرت ۖ کے اصحاب نے آرزو کی کہ اے کاش ہمیں بھی اس طرح کی توفیق ملتی اور خدا ہمیںلمبی عمر عطا کرتا تا کہ ہم بھی ان چار عابدوں کی طرح خدا کی عبادت کرتے ۔اس آرزو کے بعد خدا نے پیغمبر ۖ پر یہ سورہ نازل کیا ہے اور فرمایا: '' تمہاری اور تمہاری ذریت اورتمہاری امت کی ایک رات کی عبادت ان کی ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے(١١)
ابن عطانے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے اصحاب سے فرمایا . شمعون بنی اسرائیل کے صالحین میں سے تھا کہ جس نے ہزار مہینوںتک متواتر جہاد کا لباس پہن کر خدا کی راہ میں کفار سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔
صحابہ نے آرزوکی کہ اے کاش انہیں بھی اس طرح کی توفیق اور عمر نصیب ہوتی تا کہ وہ شمعون کی طرح خدا کی راہ میں جہاد کرتے۔
اس آرزو کے بعد خداوند نے شب قدر پیغمبر کو عطا کی اور فر مایا: شب قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شمعون نے خدا کی راہ میں جہاد میں صرف کئے ۔
دوسری حدیث میں ہے کہ خداوندنے اپنے پیغمبر ۖ سے خطاب کیا اورفر مایا: میں نے تمہیں، تمہاری ذریت اور امت کو ایسی رات دی ہے کہ اگر اس رات میں صبح تک عبادت کر وگے تو یہ شمعون کے ان ہزار مہینوں سے، جو اس نے خدا کی راہ میں جہاد میں گزارے،بہتر ہے ۔ ( ١٢)
مجاہد کہتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے فر مایا: قوم بنی اسرائیل میں لوگ اسی سا ل تک دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے پس پیغمبر اکرم ۖ نے خدا سے اپنی امت کے لئے اس کے مانند مانگا، خداوند نے یہ سورہ نازل کیا اور اس میں بیان فر مایا کہ: شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے جو کہ تقریباً ٨٤ سال بنتے ہیں ( ١٣)

شب قدر کی منزلت

شب قدر کی عظمت اور منزلت کے بارے میں کتب احادیث میں بہت ساری احادیث اور روایات ذکر ہوئی ہیں جن میں سے ہم چند ایک نمونے کے طور پر نقل کریں گے۔

(١)پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایاکہ: حضرت موسی کلیم اللہ نے اپنی ایک مناجات میں عرض کیا خدایا! مجھے تری قربت مطلوب ہے آواز آئی '' میرا تقرب اس کے لئے ہے جو شب قدر بیدار اور شب زندہ دار(پوری رات جاگتا ) رہے اور عرض کیا خدایا! مجھے صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ چاہیے'' آواز آئی یہ بھی اس کے لئے ہے جو شب قدر میں مسکینوں اور بے چاروں کی مدد کرے'' پھر عرض کیا خدایا! مجھے جنت کے درختوں اور میووں کی طلب ہے ''آواز آئی یہ بھی اس کے لئے ہے جو شب قدر میںتسبیح میں مشغول ہو،حضرت موسی نے کہا :خدایا آگ سے نجات چاہتا ہوں ،آوازآئی : یہ بھی اس کے لئے ہے جو شب قدر استغفار کرے''(١٤)
(٢)پیغمبر اکرم ۖ نے شب قدر کی فضیلت کے بارے میں فر مایا : جو بھی شب قدر کا اہتمام کرے اور روز آ خرت پر ایمان اور اعتقاد رکھتا ہو خدا وند اس کے گناہوں کو بخش دے گا
اور فر مایا: اس رات شیاطین زنجیروں میں اسیر ہوتے ہیں اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے اور اس رات کسی جادوگر کا جادو ،فاسد کا فساد اثر نہیں کر سکتا (١٥)
(٣)ابن عباس نے بھی پیغمبر گرامیۖ سے اس طرح کی روایت نقل کی ہے کہ آ نحضرت ۖ نے فر مایا: جب شب قدر ہو تی ہے فرشتے جو سدرة المنتہی کے مقام پر ہوتے ہیں روح اور جبرائیل کے ہمراہ نازل ہوتے ہیں جبرائیل جبکہ ان کے ساتھ کئی پر چم ہو تے ہیں ان میں سے ایک پر چم میری قبر پر، ایک بیت المقدس پر، ایک مسجد الحرام کی چھت پر اور ایک طور سینا پر نصب کرتے ہیں اور کوئی مومن مرد اور عورت باقی نہیں رہتی مگر یہ کہ فرشتے اسے سلام کرتے ہیں سوائے شراب خور،سور کا گوشت کھانے والے کے اور وہ جو زعفران سے اپنے آپ کو آ لودہ کرے ۔(١٦)
(٤)ایک اور حدیث میں آ یا ہے کہ اس رات میں بیداری اور عمل ان ہزار راتوں سے بہتر ہے کہ جن میں شب قدر اور ماہ رمضان کے روزے نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات دوسرے اوقات سے زیادہ با فضیلت ہو تے ہیں کیو نکہ اس میں خیر اور نفع ہو تا ہے پس چونکہ خدا وند نے شب قدر میں بہت زیادہ خیر رکھی ہے لہٰذا ہزار مہینے سے کہ، جن میں شب قدر والی خیر و برکت نہ ہو،یہ رات بہتر ہے۔(١٧)
علامہ طباطبائی فر ماتے ہیں جیسا کہ مفسرین نے تفسیر کی ہے ہزار راتوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کی زیادہ فضیلت ہے اور قرآن کی غرض بھی
یہی ہے اور قرآن کے ساتھ بھی یہی معنی مناسب ہے چونکہ قرآن کی غایت اور توجہ اس میں
ہے کہ لو گوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ اور خدا سے نزدیک کرے اور اس رات عبادت کرتے ہوئے شب گزارنا دوسری ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔ ( ١٨)
(٥)امام جعفر صادق نے شب قدر احیاء کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: مبارک ہو اس کے رکوع اور سجدہ کرنے والوں پر، اور انہیں جو اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں ،مجھے امید ہے کہ ایسے لوگ بارگاہ ربوبیت سے نا امید نہیں ہو ںگے۔
اسی طرح امام صادق نے رسول خدا ۖکی زبانی فر مایا : خدا نے دنوں میں جمعہ کو انتخاب کیا اور مہینوں میں ماہ رمضان کو اور راتوں میں شب قدر کو (١٩)
بہرحال شب قدر کی فضیلت میں اتناہی کافی ہے کہ خدا کا کلام یعنی قرآن کریم اس رات حضرت آدم کے بہترین فر زند یعنی حضرت محمد ۖ پر نازل ہوا اور خدا نے اس رات کو مبارک قرار دیا۔ اس رات میں فرشتے روح اور جبرائیل کے ساتھ فوج در فوج زمین پر نازل ہوتے ہیں اور مئومنین و مؤمنات پر سلام و تحیت پیش کرتے ہیں ۔

شب قدر کون سی رات ہے ؟

اسلامی عقائد میں بعض چیزوں کا صحیح وقت پوشید ہ ہے . جیسے موت کا وقت، حضرت مہدی کے ظہور کا وقت، قیامت کا وقت ، تا کہ گنہگار اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے وسیلہ قرار نہ دیں اور جب بھی مذکور ہ چیزوں کے واقع ہونے کا احتمال دیں تو نیک کام شروع کر دیں و گناہ کی طرف نہ جائیں۔
شب قدر بھی ماہ رمضان کی آ خری دس راتوں میں پوشیدہ ہے کہ مصلحتوں کی بنا پر دقیق طور سے اس کا وقت معین نہیں ہوا ہے دوسری طرف سے چالیس اقوال اس بارے میں ذکر ہوئے ہیں کہ کون سی رات'' شب قدر'' ہے . تفسیروں میں نقل ہوا ہے کہ ٹھیک طرح سے واضح نہیں ہے کہ آخر شب قدر کون سی رات ہے لیکن روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی ا خری دس راتوں میںہی شب قدر ہے اور چنا نچہ ایسی متواتر روایات، جو طاق راتوں کے سلسلے میں زیادہ تا کید کرتی ہیں، کو قبول کیا جائے تو یقیناً شب قدر ان تین راتوں یعنی١٩،٢١ اور٢٣ کی راتوں سے خارج نہیں ہے۔ ( ٢٠)
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ان تین راتوں میں سے ہر رات خود اپنے آپ شب قدر ہے، بہر حال مفسرین کی نظر یہی ہے کہ شب قدر ان راتوں میں سے ایک ہے ۔ ماہ رمضان کی کوئی ایک رات ، ١٥ شعبان کی رات ، سال میں ایک مخصوص لیکن غیر معین رات(٢١) مہینے کی پہلی رات، ساتویں رات، ستر ہویں کی رات، ١٩ویں کی رات، ٢١،٢٣،٢٧،٢٩، ویں کی رات .... ( ٢٢)
جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا شیعہ مفسرین نے متواتر احادیث سے استناد کرتے ہوئے جو کہ پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ اطہار سے نقل ہوئی ہیں . ١٩ ،٢١، ٢٣ ویں کی رات کو شب قدر جاناہے اور پیغمبر اکرمۖ اور ائمہ اطہار ان کے اصحاب اور اہل بیت کے گفتار و کردار کو شاہد کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ شب قدر حتمی طور پہ ماہ رمضان کی ٢٣ ویں شب ہے اس بنا پر وہ دو راتیں ( ١٩، ٢١) مصالح اور دلائل کی بنا پر ٢٣ کی رات میں داخل ہونے کے لئے مقدمہ اور تمہیدہیں۔ (٢٣)
اہل معرفت اور عرفاء کے مطابق سیر و سلوک اور حضرت حق کی طرف سفر کرنے کے تین کلی مرحلے ہیں۔(١) تخلیہ(٢) تحلیہ(٣) تجلیہ
ایسا لگتا ہے کہ یہ تین راتیں ترتیب سے ان تین مقامات یعنی تخلیہ ،تحلیہ ،تجلیہ کی حامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ١٩ ویں کی رات میں تخلیہ کا مر حلہ انجام پذیر ہو تا ہے یعنی بندہ خدا کوہمیشہ کے لئے گناہ ترک کرنے اور توبہ کا ارادہ کر نا چاہیے ۔ ٢١ ویں کی رات کو تحلیہ ک
مرحلہ یعنی خدا کی بارگا ہ میں استغاثہ کر نا چاہیے اور عہد کر لینا چاہیے کہ آج کے بعد آداب بندگی کو اپنی طاقت کے مطابق بنحوا حسن انجام دے گا اور اس وقت خداوند متعال ٢٣ کی رات میں تجلیہ کے مر حلہ میں اس ہجرت اور رجعت کی جزا اپنی تجلی اور جلوہ کے ذریعہ عطا کرے گا(٢٤)
مرحوم کلینی نے کافی میں اپنی سند کے ساتھ زرارہ سے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق نے فرمایا: ١٩ ویں کی شب میں امور کی اندازہ گیری ہوتی ہے، ٢١ ویں کی رات ابرام اور ٢٣ کی رات میں ان پرحتمی اور قطعی دستخط ہوتا ہے ۔ (٢٥)

شب قدر کے پوشیدہ ہونے کا کیا راز ہے ؟

شب قدر کے مذکورہ گیا رہ راتوں میں پو شیدہ ہو نے کی یقینا کو ئی حکمت اور مصلحت ہے اور شاید اس کے پو شیدہ ہونے کا سبب یہ ہو کہ لوگ اس مہینے کی تمام راتوں یا کم از کم ان تین راتوں میں زیادہ عبادت کریں اور اپنے آپ کی اصلاح کریں اور اپنی روح و جان کو دنیوی پلیدگیوںسے پاک کریں تا کہ ان راتوں میں زیادہ مستفیض ہو سکیں اور زیادہ مشق و تمرین کے ذریعہ اس کے وجود میں ملکہ فاضلہ اور فضائل و اخلاق محکم تر اور پائد ار تر ہو جائیں ( ٢٦)
جیسا کہ اشارہ چکا ہے کہ بہت سے افراد معتقد ہیں کہ شب قدر اس لئے مخفی ہے تا کہ لوگ ماہ رمضان کی تمام راتوں کو اہمیت دیں .اسی طرح جس طرح خداوندنے اپنی خوشنودی کو مختلف طاعات و عبادات میں پوشید ہ کر رکھا ہے تا کہ لوگ تمام عبادتیں انجام دیں ،اسی طرح اپنے غیظ و غضب کو گنا ہوں میں مخفی کر رکھا ہے تا کہ لوگ تمام گناہوںسے اجتناب کر یں، اپنے دوستوں کو لو گوں میں چھپا ئے رکھا ہے تا کہ سب کا احترام
کریں،اجابت کو دعا میں چھپا ئے رکھا ہے تا کہ لوگ سب دعاؤں کی طرف رجوع کریں اسم اعظم کو اپنے اسماء میں چھپا رکھا ہے تا کہ سب کو محترم اور بزرگ سمجھیں، موت کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ سب ہر حال میں تیار رہیں (٢٧)
مولانا کہتے ہیں :


حق شب قدراست در شبھا نھان
تا کند جان ہر شبی را امتحان
نہ ہمہ شبھا بود قدر ای جوان
نہ ہمہ شبھا بود خالی از آن(٢٨)



٢٣ کی رات یاجہنی کی رات جیسے کہ پہلے گزرچکا ،زیادہ امکان یہی ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان کی ٢٣ رات میں ہو لہٰذا ہم یہاں ایسی روایات ذکر کر رہے ہیں جو ٢٣ کی رات کو شب قدر قرار دیتی ہیں۔،
محمد بن حمران نے سفیان بن سمط سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے امام صادق سے ماہ رمضان میں امید دلانے والی مخصوص راتوں کے بارے میں پوچھا ،امام نے فر مایا: ١٩،٢١ اور ٢٣ کی راتیں، میں نے کہا: اگر انسان کوسستی یا کوئی مشکل پیش آجا ئے تو ان تین میں کس رات کو اخذ کرے اور اس پہ اعتماد کر ے امام نے فرمایا: ٢٣ کی رات۔
اس طرح عبد اللہ بن بکیر کی روایت میں ہے کہ زرارہ نے اس روایت کو امام باقر یا امام صادق سے نقل کیا ہے کہ جس میں امام نے ماہ مبارک رمضان کی راتوں کی ان راتوں کے بارے میں سوال کیا جن میں غسل مستحب ہے ، توامام نے فرمایا: انیسویں رات ، اکیسویں رات اور تئیسویں رات۔ پھر امام نے فرمایا: تئیسویں رات، شب جھنی ہے اور اس کی حکایت یوںہے کہ جہنی نے رسول اکرمۖ سے عرض کیا: میرا گھر مدینہ سے دور ہے ( لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں ان چند راتوں کی بیداری کی خاطر مد ینہ نہیں آسکتا ہوں )(٢٩)لہٰذا مجھے ایسی رات کے بارے میں بتا ئیںجس میں مدینہ آ سکوں۔ حضرت رسول اکرمۖ نے اس شخص سے فر مایا : تئیسویں رات کو مدینہ آ جاؤ(٣٠) لہٰذا اس بناپر تئیسویں رات ' شب جھنی کے نام سے مشہور ہوئی ۔
اسی طرح سے عبد اللہ بن عمیر کہتا ہے کہ ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں آ یا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے خواب میں دیکھا کہ شب قدر ساتویں رات ہے کہ جو باقی رہ گئی ہے ، رسول اکرم ۖنے فرمایا : میں جانتا ہوں کہ آپ کا خواب صحیح اورتئیسویں رات کے مطابق اور موافق ہے پس جو بھی آپ میں سے چاہے کہ ماہ مبارک رمضان میں کسی رات میں قیام کرے اور شب بیداری کرے پس اسے بتائیں کہ تئیسویں رات کو بیداری کرے ۔(٣١)
اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے کہ خلیفہ دوم نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا ہے : شب قدر کو آ خری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔ آپ لوگوں کی نظر میں کونسی رات ہے ؟ اکثر افراد نے طاق رات کے بارے میں جواب دیا۔
ابن عباس کہتا ہے کہ خلیفہ دوم نے مجھ سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ بات نہیں کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا :اللہ اکبر ! قرآن میں '' سبع '' کا بہت ذکر ہوا ہے خدا وند عالم نے
آسمانوں، زمینوں، طواف اور رمی جمرات کی تعدار سات رکھی ہے اور بنی نوع انسان کو بھی خداوند عالم نے سات چیزوں سے خلق کیا ہے اور سات چیزوں میں اس کارزق قرار دیا ہے۔
خلیفہ دوم نے کہا : جو کچھ تو نے یہاں کہا میں نے جان لیا لیکن یہ بات جو تم نے یہاں کی ہے کہ انسان کو سات چیزوں سے خلق کیا گیا ہے اور سات چیزوں میں ہی اس کا رزق قرار دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ میں نے کہا کہ: خداوند متعال نے انسان کی خلقت کے سات مراحل بیان کئے ہیں:
'' ولقد خلقنا الانسان مِن سلالة مِن طِین ثم جعلناہ نطفة فِی قرار مکِین ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عِظاما فکسونا العِظام لحما ثم انشناہ خلقا آخر فتبارک اللہ ا حسن الخالِقِین''(سورہ مؤمنون١٢،١٤)'' اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ تیار رکھا ہے پھر نطفہ کو علقہ بنایاہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیا ںپیدا کی ہیں اور پھر ہڈ یوں پر گوشت چڑھا یا ہے پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا ہے تو کس قدر با بر کت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے''
خدا سات نعمتوں کے بارے میں جن میں انسان کا رزق قرار دیا گیا ہے . فر مایا ہے :
''انا صببنا الماء صبا ثم شققنا الارض شقا فنبتنا فیھا حبا و عنبا وقضبا وزیتونا و نخلا و حدائق غلبا و فاکھة و ابا''(سورہ عبس ،٢٥۔٣١ ) ''بیشک ہم نے پانی بر سایا ہے پھر ہم نے زمین کو شگافتہ کیا ہے پھر ہم نے اس میں دانے پیدا کئے ہیں اور انگور اور تر کا ریاں اور زیتوں اور کھجور اور گھنے گھنے باغ اور میوہ اور چارہ''
پس میں اس کو تئیسویں ماہ مبارک رمضان سمجھتا ہوں اس کے بعد خلیفہ دوم نے کہا: تم لوگ اس جوان کے مانند لانے سے عاجز ہوجس کی داڑھی ابھی تک نہیں نکلی اور پھر کہا : اے ابن عباس تمہاری رائے میری رائے سے متفق ہے پھر اس کے شانے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا : تم علم ودانش کے لحاظ سے لوگوں میں کچھ کم نہیں ہو (٣٢)
حضرت علی سے مروی ہے کہ پیغمبر اکرمۖ ماہ مبارک رمضان کے آ خری دس دنوں میں اپنا بستر جمع کرتے تھے اور ماہ مبارک کے آخری ایام کو عبادت میں مشغو ل ہو تے تھے اور تئیسویں رات گھر کے تمام افراد کو شب بیداری کا حکم دیتے تھے اور جن پر نیند کا غلبہ ہوتا تھا ان پر پانی چھڑکا کرتے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شب قدر کے فیض محروم ہو جائیں.(٣٣)
اس مبارک شب میں نیز حضرت فاطمہ زہرا گھر کے کسی فرد کو بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ سو جائے . شب قدر سے پہلے والے دن ان کو سونے کی دعوت دیتی تھیں تا کہ شب قدر کی رات کو احیاء میں بسر کریں اور اس رات غذا ان کو کم دیتی تھیں اور فر ماتی تھیں : محروم ہے وہ انسان جو آ ج کی شب سے محروم ہو جائے .(٣٤)
ایک اور روایت میں آ یا ہے کہ حضرت امام صادق ایک شب قدر میں سخت بیمار ہو گئے امام نے اصحاب سے فر مایا کہ میرا بستر مسجد میں لے جاؤ اصحاب نے امام کے حکم کی تعمیل کی
اور امام نے پوری رات صبح تک مسجد میں ذکر و عبادت میں بسر کی ۔(٣٥)
ایک اور روایت میں امام صادق سے مروی ہے کہ فر مایا جو شخص شب قدر میں سورہ قدر ' روم اور عنکبوت کی تلاوت کرے خداوند عالم اس کو بخش دے گا ۔(٣٦)
ایک اور معتبر روایت میں آ یا ہے کہ حضرت امام باقر تئیسویں شب قدر کوبیداری میں گزارتے تھے ایک دن ایک عرب شخص نے امام باقر سے پو چھا کہ ہم شب قدر کوکیسے پہچانیں؟ امام نے فر مایا: ماہ مبارک رمضان کے داخل ہوتے ہی ہر شب سو مرتبہ سورہ حم اور سورہ دخان کی تلاوت کرو اور جب تئیسویںکی رات آئے گی تو جو سوال تو نے پوچھا ہے اس کا جواب تمہیں مل جائے گا ۔(٣٧)
حمزہ بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں قبیلہ بنی سلمہ کی جماعت میں سے تھا انہوں نے کہا کہ : کون مدینہ جائے اور حضرت رسول اکرم ۖ سے شب قدر کے بارے میں پو چھے گا؟ میں نے کہا کہ میں جاؤں گا اس کے بعد میں چل پڑا یہاں تک کہ میں رات میں مدینہ پہنچا حضرت کے گھر کھانا کھانے کے بعد ایک ساتھ ہم مسجد میں گئے ،حضرت رسول اکرمۖ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں کو ئی کام ہے ؟ میں نے کہا : اے خدا کے رسول! قبیلہ بنی سلمہ نے مجھے یہاں ب بھیجا ہے تا کہ میں آ پ سے یہ پو چھوں کہ شب قدر کون سی رات ہے ؟ حضرت نے فر مایا: آج کی رات مہینہ کی کونسی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا: بائیسویں رات ہے حضرت نے فرمایا: کل کی رات تئیسویں رات ہے اور یہی شب قدر ہے۔ (٣٨)

شب قدر،شب بیداری کیوں کریں ؟

شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں کا مل تر ین کتاب ( قرآن ) نازل ہو ئی ہے اس رات کوشب بیداری میں گزارناچاہیے تا کہ اس کے فیض اورمعنوی بر کتوں سے استفادہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ قرآن کے سایہ ائمہ سے توسل کر کے خدا وند عالم سے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور قرآن کی نوارنی آیات ہمیشہ ہماری فکر و اندیشہ میں ہوں اور اس مبارک رات میں خضوع و خشوع کی حالت کے ساتھ اپنے آپ سے عہد کر یں کہ ہمیشہ اس عظیم کتاب کے بلند و عالی دستوارت کو واقعی طور پر اپنی عمل زندگی میںجاری کریںتاکہ ہماری زندگی قرآنی اور خدائی بن جائے ۔
حضرت آیة اللہ حسن زادہ آملی دام ظلہ فر ماتے ہیں :
شبہائے قدر میں قرآن کو دل میں اتار و نہ یہ کہ قرآن کو فقط سر پر رکھو . پہلی صورت میں قرآن تمہاری ذات کا حصہ بن جا تا ہے اور دوسری صورت میں قرآن ذات کا حصہ نہیں بنتا ہے بلکہ تیری ذات سے جدا ہوجاتا ہے ۔ (٣٩)
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ اگر شب قدر بیداری میں گزاریں تو اس شب کی عبادت کی اہمیت دوسری راتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے اور اس رات کے حسین لمحات میں ملائکہ جوق در جوق صبح تک مومنین اور مؤمنات پر دور و سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ملائکہ خود اشرف المخلوقات انسان کے رکوع و سجود کے شاہد و گواہ ہوتے ہیں تا کہ یہ ملائک دوسرے ملائکوں کے سامنے انسان کے اشرف و خلیفہ خدا ہونے کی تفسیر و تشریح کریں اور حضرت آدم کے سامنے ملائکہ کے سجود کر نے کا راز کشف کریں ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان سالک سیر و سلوک کی طولانی راہ کو ایک رات میں طے کر لیتا ہے اور اس رات میں انسان بہتر طر یقے سے اپنے نفس کی تہذیب و تزکیہ کر سکتا ہے کیو نکہ اس رات میں تمام شیاطین قید میں ہوتے ہیں اور تمام انسان اس رات میں شیاطین کے وسوسوں سے امان میں ہوتے ہیں مگر یہ کہ انسان خدانخواستہ اپنے نا شائستہ فعل سے شیاطین کی رسیوں کو کھول کر انہیں اسارت سے آ زاد کر دے ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں معنویات زندہ ہو جاتی ہیں، کثرت تلاوت قرآن کی وجہ سے ا نسان کانفس زندہ ہو جاتا ہے، تو بہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ،انسان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے بشرطیکہ انسان اس شب کی عظمت کو درک کر ے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان کے ایک سالہ امور مشخص کئے جاتے ہیں اور تمام موجودت عالم کی تقدیر اس رات میں رقم کی جاتی ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں حضرت امام مہدی ہر انسان کے ایک
سالہ مقدّارت پر دستخط کرتے ہیں اور یہ رات امام عصر کی شناخت کی رات ہے اور خلاصہ یہ کہ شب قدر انسان کامل کی رات ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں اہل معرفت و عرفان اپنے معشوق کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہو تے ہیں۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں ایک انسان کا مل حضرت علی کی شہادت واقع ہوئی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں عاشق اپنے معشوق سے ملاقات کرتا ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں مسلمانان عالم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ اگر نہ ہوتی تو انسان کی بد بختی انتہا تک نہ پہنچتی اور اس کی نیک بختی کبھی بھی طلوع نہ کر تی، استعماری طاقتوں کی اسارت سے کبھی بھی آ زاد نہ ہو تا۔
شب قدر بشر کی آزادی، انسانی حقوق اور حکومت عدل کے اعلان کی رات ہے ۔
شب قدر محروم اور غفلت میں پڑی ہوئی اور فساد و گمراہی میں آلودہ ہوئی ملتوں کی ہدایت،کا میابی اور بیداری کی رات ہے۔
شب قدر ایسی رات ہے کہ جس میں ایک ایسی کتاب نازل ہوئی ہے کہ جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی اور اس کتاب کی عظمت کے لئے اتنا ہی کا فی ہے کہ انسان کی سعادت و ہدایت کی ضامن ہے انسان کو ظلمتوں سے نکال کر نوارنی راتوں میں پہنچاتی ہے۔
اگر یہ رات نہ ہوتی، نہ اسلام ہو تا اور نہ ہی مسلمان ، نہ مسجدہوتی اور نہ ہی نمازی ، نہ آزادی ہوتی اور نہ ہی معارف واخلاق اور نہ ہی مکتب اسلام میں عظیم شخصیات ہو تیں اور نہ ہی اخلاق ،حقوق، فقہ، فلسفہ و عرفان کی گرانقدر کتابیں ہوتیں اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی ہو تی بالاخرہ نہ ہی آج کے دور میں انسان کی یہ بلند پر واز یں ہوتیں ... یہ تمام چیزیں اسی رات کی بر کتوں سے ہیں انسان نے قرآن کے نزول کے بعد جو مراحل طے کئے ہیں یا وہ مراحل جو ابھی طے نہیں کئے ہیں تمام اسی شب کی برکتوں سے ہیں ۔
یہاں جو کتاب اس مبارک شب میں نازل ہوئی ، اس نے اندیشہ و افکارکو بدل دیا، انسان کی شخصیت کو احترام بخشا ، انسانی حقوق کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ، انسانوں کی پر ستش کی مذمت کی ، مطلق العنان حکومتوں کی ربوبیت توڑ دی ، اسراف و تبذیر،نسلی امتیازات، لوگوں کو اذیت و آزار وغیر ہ تمام کی کھل کر مذمت کی۔ بالاخر ہ حاکم و محکوم ، امیرو مامور ، غلام و آقا تمام کے حقوق کو یکسان قراد دیاہے۔
شب قدر ایک عظیم اور قیمتی فرصت کا نام ہے پس ہمیں چاہیے کہ اس رات کو قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ دینے میں گزار یں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کے ساتھ کتنا ارتباط بر قرار کیا ہے ہم نے اپنی عملی زندگیوں کو قرآن کے مطابق کتنا چلایا ہے ؟ اگرہماری زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں تو خداوند عالم سے مزید توفیقات کا تقاضا کریںاور اگر یہ دیکھ نظر آئے کہ ہماری زندگیاں قرآن کی تعلیمات کے بجائے کسی اور سمت میں جارہی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ خداوند عالم سے عہد و پیمان کریں کہ آج کے بعد ہم قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو منورو مزیّن کر یں گے۔
ان تمام تفاصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ آیا شائستہ ہے کہ ایک مسلمان انسان اس شب کی عظیم برکات وفیوضات سے اپنے آپ کو محروم کرے ۔(٤٠)

حضرت امام مہدی اور ایک سال کے امور کا متعین کرنا

جو کچھ روایات سے حاصل ہو تا ہے وہ یہ ہے کہ زمین ابتدائے خلقت سے فنا تک کبھی بھی حجت سے خالی نہیںہو گی . خداوند عالم شب قدر میں تمام مقدرات کو اپنے حجت کے پاس بھیج دیتا ہے اور اس عصر میں حجت وہ ہے کہ جس کی ولادت ١٥ شعبان ٢٥٥ھ میں ہوئی ہے یعنی اسی شب و روز میں روایات کی تفسیر کے مطابق روز و شب قدر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
ابوالضحیٰ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ قضا پندرہویں شعبان کی رات میں معین کی جاتی ہے پھر اس کو شب قدر میں اپنے صاحبان( ہر عصر کا امام ) کے سپرد کیا جاتا ہے ۔(٤١)
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ہر سال شب قدر میں ملائکہ اور روح امام زمانہ پر نازل ہوتے ہیں اور سال کے مقدّرات امام کی خدمت میںپیش کرتے ہیں ۔
اسی طرح سے امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ شب قدر میں ہر سال کے امور کی تفسیر امام عصر کی خدمت میں نازل ہوتی ہے جس میں خود اور دوسروں کے بارے میں احکام ہوتے ہیں۔(٤٢)
ایک اورروایات(٤٣) میں آ یا ہے کہ خداوند عالم نے قرآن کو شب قدر میں بیت المعور پر اتار ا پھر تیئس سا ل کی مدت میں تدریجی طور پر بیت المعور سے حضرت رسول اکرم ۖ پر نازل
کیا ِ'' فیھا یفرق کل امر حکم ،، یعنی شب قدر میں حق اور باطل اور پورے سال کے تمام امور کومقدر کیا جاتاہے بلکہ ان تمام امور میں خدا کی مشیت اور بدا شامل ہے یعنی موت وحیات ، روزی روٹی، مشکلات و آسانیاں ، بیماریاں وغیرہ میں ہیں جس امر کو بھی چاہیے مقدم و مؤخر کرتا ہے اور اپنے ارادے کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ رسول خدا نے یہ امر امیر المومنین کی طرف القا کیا اور آپ نے دیگر ائمہ کی طرف القا کیا یہاں تک کہ یہ امر حضرت صاحب الزمان تک پہنچا اور آپ کے لئے ان امور میں تقدم ومؤخر کی شرط مقرر ہوتی ہے۔
تفسیر برہان کی ایک تفصیلی روایت کے ذیل میں آیا ہے کہ سائل نے امام سے پو چھا وہ حجتیں کون سے افراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ رسول خدا ۖ اور دوسرے ایسے افراد جو ان کے نائب ہیں . خدا کے ایسے برگزیدہ انسان ہیں جنہیں خدا نے اپنے اور اپنے رسول کے مقرّبین میں سے قراردیا ہے اور لوگوں پر ان کی اطاعت کوایسے ہی واجب قرار دیا ہے جیسے اپنی اطاعت واجب قرار دی ہے اور یہی دین کے حامیان امرہیں جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے:
'' اطیعوا اللّہ و اطیعوا الرّسول و اولی الامر منکم ''(سورہ نسائ۔٥٩)''ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو''
اور مزید ان کے بارے میں فرمایا:
''واذا جاء ھم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردّوہ الی الرّسول واولی الامر منکم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم''(سورہ نسائ،٨٣)''اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فوراً نشر کر دیتے ہیں حالانکہ اگر رسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹادیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے''
سائل نے پوچھا امر سے مراد کیا ہے امام نے فرمایا : یہ وہی امر ہے جس کو فرشتے ایسی رات میں اپنے ساتھ اتارتے ہیں جس رات کو ہر حکمت آمیز امر کو مقدر کیا جاتا ہے. جیسے ، خلقت ، روزی، موت و حیات، کردار، آسمان و زمین کا علم غیب اور ا یسے معجزات جو خدا اور اس کے منتخب . افراد اورسفیروں کے علاوہ کسی اور کے لئے شایستہ نہیں ہے یہی وجہ اللہ ہیں '' اینما تو لوا فثمّ وجہ اللّہ ،، ان ہی کی نسل میںبقیة اللہ ہیںیعنی مہدی جو ایک معین مدت کے بعد آئیں گے اور زمین کو ایسے ہی عدل و انصاف سے بھر دیں گے . کہ جس طرح سے ظلم و جور سے بھری تھی، سر کشی اور طغیان سے عام ہونے اور انتقام کے وقت ،یہی حضرات خدا کی پوشیدہ ایات ہیں ۔(٤٤)
حضرت امام علی فر ماتے ہیں: ہرسال شب قدر آتی ہے اس میں ملائکہ تمام سال کے معاملات لے کر آتے ہیں بے شک اس امر کے لئے رسول اللہ کے بعد کچھ والیان امر
٤٤۔ستارہ درخشان ،ترجمہ الشیعہ والرجعہ، سید محمد میر شاہ ولد ص ٤٧٦
مقرر ہو ئے ہیں اور وہ ،میں اور میرے صلب سے گیارہ امام جو محدث ہیں ( ان میں سے آخری امام حضرت امام مہدی ہیں ) (٤٥)
حضرت امام محمد تقی فرماتے ہیں . ہر سال شب قدر میں تمام امور کی تفسیر امام زمان
کی خدمت میں نازل ہوتی ہے جس میں خود امام اور لوگوں کے بارے میں احکام ہوتے ہیں
اور اس طرح سے شب قدر کے علاوہ جب بھی خداوند عالم چاہتا ہے امام کی خدمت میں لوگوں کے اعمال کی تفسیر نازل فرماتا ہے۔(٤٦)

آیا تمام ممالک میں ایک ہی شب قدر ہو تی ہے ؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر افراد کے ذہن میں شب قدر کے بارے میں پیدا ہوتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ دنیا کے مختلف شہرو ں میں قمری مہینوں کا آغاز یکسان نہیں ہوتا اور یہ ممکن ہے کہ ایک علاقہ میں تو آج اول ماہ ہوااور دوسرے علاقہ میں دوسری تاریخ ہو اس بنا پر شب قدر سال میں ایک معین رات نہیں ہو سکتی . کیونکہ مثال کے طور پر مکہ کی تئیسویں رات ، ایران وا عراق میں بائیسویں رات ہو سکتی ہے اس طرح سے۔ اصولی طور پر ہر ایک کی علیحدہ شب قدر ہو گی کیا یہ بات اس چیز سے، جو آیات روایات سے معلوم ہو تی ہے، کہ شب قدر ایک معین رات ہے، سازگا ر ہے ؟
اس سوال کا جواب ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ رات وہی کرہ زمین کے آدھے سایہ کوہی کہتے ہیں جو کرہ زمین کے دوسرے حصہ پر پڑتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سایہ گردش زمین کے ساتھ حرکت میں ہے اور اس کی ایک مکمل گردش دورہ چو بیس گھنٹوں میں انجام پاتی ہے اس بنا پر ممکن ہے کہ شب قدر رات کا زمین کے گرد ایک دورہ ہو ۔ یعنی تاریکی کی چو بیس گھنٹے کی مدت جو زمین کے تمام نقاط کو اپنے سائے میں لے وہ شب قدر ہے جس کا آغاز ایک نقطہ سے ہوتا ہے اور دوسرے نقطہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے (٤٧)

شب قدر میں کون سے امور مقدر ہوتے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں کہ اس رات '' شب قدر ،، کا نام کیوں دیا ہے بہت کچھ کہا گیا ہے من جملہ یہ کہ :
١۔ شب قدر کو شب قدر کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدّرات اسی رات میں معین ہوتے ہیں اس معنی کی گواہ سورہ دخان کی آیت ہے جس میں آیا ہے کہ:
'' انا انزلنا ہ فی لیلة مبارکة اناکنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم''(دخان٤٣)'' ہم نے اس کتاب مبین کو ایک پر برکت رات میں نازل کیا ہے اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہے ہیں اس رات میں پر امر خداوند عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعین ہوتاہے''
یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اسی رات میں انسان کے ایک سال کے مقدورات کی تعیین ہوتی ہے اور رزق ، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کئے جاتے ہیں ۔ البتہ یہ چیز انسان کے ارادہ اور مسئلہ اختیار کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الہی لوگوں کی شائستگیوں اور لیاقتوں اوران کے ایمان اور تقوی اور نیت اعمال کی پاکیزگی کے ہو تی ہے یعنی ہر شخص کے لئے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیار کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے۔
٢۔بعض نے یہ کہا ہے کہ اس رات کو اس وجہ سے شب قدر کہا جاتاہے کہ یہ ایک عظیم قدر و شرافت کی حامل ہے
٣۔بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ ، قدر و منزلت والے رسول پر اور صاحب قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہوا ہے ۔
٤۔یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدر ہوا ہے۔
٥۔یا یہ بیان ہواہے کہ جو شخص اس رات کو بیدار رہے تو صاحب قدر و مقام و منزلت ہو جاتاہے ۔
٦۔ یا یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لئے زمین تنگ ہو جاتی ہے کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں آ یا ہے'' و من قدر علیہ رزقہ''(طلاق٧)
ان تمام تفاسیر کا '' لیلة القدر''کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پورے طور ے پر ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیرزیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔(٤٨)

ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟

ائمہ معصومین سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میںہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شب قدر میں قرآن سر پر رکھیں اور قرآن و ائمہ سے متوسل ہوکے خداوند معتال سے اپنی حاجات طلب کریں شب قدر ایسی مبارک شب ہے کہ جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور ایسی شب ہے کہ جس میں ہماری زندگی کا سالانہ پروگرام مقدّر اورمرتب کیا جاتا ہے اور ہم بھی اپنے عمل سے اس پرواگرم میں شریک ہیں بہترین عمل اس شب میں یہ ہے کہ انسان قرآن کا مطالعہ اور اس میں غور فکر کرے اور دعا مناجات کرے اور یہ بات واضح ہے کہ دعامیں حضرت حق کے محضر میں اس کے بہترین اور مقرّبین بندوں اور اس کے دوستوں کو شفیع قرار دینا چاہیے اس سے بہتر کیا ہو سکتاہے کہ ہم قرآن کی پناہ لے کر خدا کے محضر میں قدم رکھیں اور قرآن و عترت سے متوسل ہو جائیں ۔
قرآن سر پر رکھنا اور قرآن و اہل بیت کو وسیلہ قرار دینا یہ سب ان کی عظمت ،جو خداوند عالم کے نزدیک ہے ،کی وجہ سے ہے اور ہمارا تواضع ثقلین کے مقابلے میں ہے در واقع ثقلین کے مقابلے میں ادب کرنا خدا کے مقابلے میں ادب کرنے کے برابر ہے اور یہی بندگی کے حدود کی رعایت کرنے کا نام ہے اور یہ عمل ہم نے خود ائمہ معصومین سے سیکھا ہے ۔
مرحوم آ یت اللہ میرزاجواد ملکی تبریزی ( امام خمینی کے عرفان کے استاد) فرماتے ہیں :
قرآن سر پر لیتے وقت چار نیتیں دل میں رکھو ۔
١۔ دماغ قرآن کی وساطت سے قوی ہوجائے ۔
٢۔ انسان کی عقل قرآن اور علوم قرآن سے کامل ہوجائے ۔
٣۔ عقل قرآن اور اس کی عظمت کے آگے خاضع ہو جائے ۔
٤۔ نور عقل نور قرآن کے ساتھ مخلوط ہو جائے ۔
حقیقت میں ہم اس عمل سے دکھا رہیں کہ ہماری فکر اور عقل بلکہ ہمار اپورا وجود قرآن کے زیر سایہ ہے اور کتاب خدا کے ذریعہ سے ہی ہم خدا کی جانب رخ کرتے ہیں ۔(٤٩)


شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں ؟ شب قدر کے اعمال بہت سارے ہیںیہاں پرہم بعض کاتذکرہ کریںگے۔

الف : شب قدر کی فرصت کو غنیمت سمجھنا ۔

خداوند معتال نے قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم ۖسے مخاطب ہو کر فرمایا :
'' انّاانزلناہ فی لیلة القدر، وما ادراک ما لیلة القدر'' ''ہم نے قرآن کو شب قدر نازل میں کیا ہے مگر آپ کیا جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ ''
شب قدر کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس شب میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو انسان اس سے با خبر ہو وہ زیادہ ہو شیاری سے اس قیمتی وقت سے استفادہ کرے گا ۔لہٰذا شب قدر کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل یہی ہے کہ انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھے یہ فرصت انسان کو ہر بار نہیں ملتی ہے ۔

(ب) توبہ :

اس شب کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل توبہ ہے جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں: خدا کی قسم ایک ورزش ایک دن کی ہے اس کا ایک گھنٹہ ایک گھنٹہ ہے اگر ایک رات کی تاخیر کریں تو اشتباہ کیا ایسا مت کہے کہ کل کی رات تئیسویں کی رات ہے شب قدر کی ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہتر ہے کہ نہیں ۔آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہے آج کا ایک گھنٹہ آنے والے کل کے گھنٹہ سے بہتر ہے ہر ایک لمحہ آنے والے لمحہ سے بہتر ہے عبادت توبہ کے بغیرقبول نہیں ہوتی پہلے توبہ کرلینا چاہیے ،پہلے اپنے آپ کو دھونا چاہیے پھر اس پاک و پاکیزہ جگہ میں وارد ہونا چاہیے ہم تو بہ نہیں کرتے ہیں تو کیسی عبادت کرتے ہیں ؟ !ہم توبہ نہیں کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اورنماز پڑھتے ہیں ؟!توبہ نہیں کرتے ہیں اورحج پر چلے جاتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاور قرآن پڑھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاورذکر کہتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں ! خدا کی قسم اگر آپ پاک ہونے کے لئے ایک توبہ کریں تاکہ پھر توبہ اور پاکیزکی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں وہی ایک دن رات کی عبادت آپ کو دس سال آگے بڑھائے گی اور پروردگا کے مقام قرب کے قریب پہنچائے گی ہم نے دعا کے سوراخ کو گم کیا ہے اور اس کے راستے کو بھی نہیں جانتے ہیں ۔ امام علی توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
١۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
٢۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
٣۔ حقوق الناس ادا کرنا۔
٤۔ حقوق الہیٰ ادا کرنا ۔
٥۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن پر چڑھے ۔
٦۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں اسے قرار دیتا ہے۔ (٥٠)

(ج)دعا:

اب جبکہ بندہ گمراہی اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کے ہدایت اور نور کے راستے کی طرف چل پڑا ہے اور اپنے خدا کی جانب روا ںدو اںہے اب خدا کو پکارے اور اس کے ساتھ ارتباط بر قرار کرے دعا کرے دعا کے اصل معنی یہی ہیں کہ انسان اپنے دل کا حال بیان کرکے در واقع خدا سے ارتباط پیدا کرے ۔

(د) تفکر اور معرفت :

اس کے بعد کہ انسان نے فرصت کو غنیمت سمجھ کے اپنے افکار اور اعمال کے اشتباہات سے واقفیت حاصل کرکے یہ ارادہ کر لیا کہ اب کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا اپنی اصلاح کرے گا دل شناحت اور معرفت کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے بڑی معرفت ہے اور اس سے دل نوارنی ہو جاتا ہے اور حقیقی معرفت انسان کو بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا کے خلافت الہی کا وارث بنا دیتی ہے البتہ خود شناسی اس معرفت حقیقی کے لئے پیش خیمہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے: '' من عرف نفسہ فقد عرف ربہ '' یعنی خود شناسی خد
شناسی کا سبب بنتی ہے ۔(٥١)

شبہائے قدرکے مخصوص اعمال

حضرت امام جعفرصادق نے ابو بصیر سے فرمایا :ماہ مبارک رمضان کی اکیسویں اور تئیسویں رات کو سورکعت نماز پڑھو اور اگر ہو سکے ان دو راتوں میں شب بیداری کرو اور غسل بجالاؤ۔
ابو بصیر نے عرض کیا کہ:اگر میں کھڑے ہوکے نماز نہیں پڑھ سکا تو میری ذمہ داری کیا ہے؟
امام نے فرمایا :بیٹھ کے نماز پڑھو ۔
ابو بصیر نے عرض کیا کہ:اگر بیٹھ کے نہیں پڑھ سکا تو میرا فریضہ کیا ہے ؟
امام نے فرمایا :کوئی مانع نہیں ہے کہ اگر رات کے اول حصہ میں تھوڑا سا سو جاؤگے اور جان لو کہ ماہ مبارک رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور شیاطین قید میں ہوتے ہیں اور ملائکہ مؤمنین کے اعمال کو قبول کرتے ہیں بالآخر ماہ مبارک رمضان ایک اچھا مہینہ ہے ۔حضرت رسول اکرم ۖ کے زمانے میں اس ماہ کو ماہ مرزوق کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔(٥2)
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص شب (شبہائے)قدر میں شب بیداری کرے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے خواہ وہ تعداد میں آسمان کے ستاروں اور وزن میں پہاڑوں اور مقدار میں دریاؤں کے برابر ہوں ۔
جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شب قدر میں تمام امور مقدر کئے جا تے ہیں لہٰذا پورے سال کے حالات کی اصلاح کے لیے دعا کرنا چاہیے خصوصاً حصول ِخیردنیا و آخرت کے لیے بالاخص اپنے آخری امام کے ظوراور ان کے اعوان و انصار میں شامل ہونے کی دعا کرنا چاہیئے۔

ان شبوں کے اعمال یہ ہیں :
٭…آخر شب میں غسل کرنا۔
٭…ان راتوں میں پہلے دو رکعت نماز شب قدر کی نیت سے پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سات مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور پھر نماز سے فارغ ہو نے کے بعد:
٭… سو مرتبہ :اَسْتَغْفِرُالْلّٰہَ رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیْہِ۔پڑھے۔
٭… سو مرتبہ:اَلْلّٰہُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ اَمِیْرِالْمُومِنِیْنَ ۔پڑھے۔
٭…دعائے مکارم الاخلاق کا پڑھنا مستحب ہے ۔
٭…سورۂ عنکبوت، سورۂ روم ، سورۂ حم اور سورہ دخان کا پڑھنا بھی مستحب ہے۔
٭…سورۂ قدر کوہزار مرتبہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
٭…ساری رات شب بیداری کرنامستحب ہے ۔
٭… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورائمہ علیہم السلام پر زیادہ سے زیادہ صلوات پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
٭…سجدہ کی حالت میں سو مرتبہ ذکریو نس :
لا الہ الِاّ اَنْتَ سُبْحٰانَکَ اِنِّی کنتُ منَ الظّا لمینَ۔ پڑھے۔
٭…زیارت امام حسین کا پڑھنابہت ثواب رکھتا ہے ۔
٭…دعائے جوشن کبیرکے پڑھنے کی تاکید وارد ہو ئی ہے ۔
٭…قرآن کو سامنے کھول کر رکھے اور یہ پڑھے:
اَلْلّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِکِتٰابِکَ الْمُنْزَلِ وَمٰافِیْہِ وَفِیْہِ اِسْمُکَ الْاَکْبَرُوَ اَسْمٰآوُکَ الْحُسْنٰی وَمٰایَخٰافُ وَ یُرْجٰی اَنْ تَجْعَلَنِی مِنْ عُتَقٰآئِکَ مِنَ الْنّٰارِ۔
اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرے اور پھر قرآن مجید کو سر پر رکھ کریہ دعا پڑھے:
اَلْلّٰہُمَّ بِحَقِّ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ وَ بِحَقِّ مَنْ اَرْسَلْتَہ بِہِ وَ بِحَقِّ کُلِّ مُومِنٍ مَدَحْتُہ فِیْہِ وَ بِحَقِّکَ عَلَیْہِمْ فَلاٰ اَحَدَاَعْرَفُ بَحَقِّکَ مِنْکَ۔اس کے بعد اس طرح کہے الہی!
بِکَ یٰا اللّٰہُ۔
٭دس مرتبہ بِکَ یٰا اَلْلّٰہُ. ٭دس مرتبہ بِمُحَمَّدٍۖ
٭ دس مرتبہ بِعَلِیٍّ . ٭دس مرتبہ بِفٰاطِمَةَ ۖ
٭دس مرتبہ بِالْحَسَنِ . ٭دس مرتبہ بِالْحُسَیْنِ
٭دس مرتبہ بِعَلیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ .٭دس مرتبہ بِمُحَمَّد ِبْنِ عَلَیٍّ
٭دس مرتبہ بِجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ. ٭دس مرتبہ بِمُوسیٰ بْنِ جَعْفَرٍ
٭دس مرتبہ بِعَلِیِّ بْنِ مُوسیٰ ٭دس مرتبہ بِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ
٭دس مرتبہ بِعَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ. ٭دس مرتبہ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ
٭دس مرتبہ بِالْحُجَّةِ الْقٰائِمِ کہے اس کے بعد جو بھی حاجت رکھتا ہو خدا سے طلب کرے اور پھر اس دعا کو پڑھے:
اَلْلّٰہُمَّ اِنِّی اَمْسَیْتُ لَکَ عَبْداً دٰاخِراً لٰا اَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعاً وَ لاٰ ضَرّاً وَ لآٰ اَصْرِفُ عَنْھٰا سُوئً اَشْھَدُ بِذٰلِکَ عَلٰی نَفْسِی وَ اَعْتَرِفُ لَکَ بِضَعْفِ قُوَّتِی
وَ قِلَّةِ حِیْلَتِی فَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَنْجِزْ لِی مٰا وَ عَدْ تَنِی وَجَمِیْعَ الْمُومِنِیْنَ وَ الْمُومِنٰاتِ مِنَ الْمَغْفِرَةِ فِی ھٰذِہِ الْلَّیْلَةِ وَ اَتْمِمْ عَلَیَّ مٰااَتَیْتَنِی فَاِنیِّ عَبْدُکَ الْمِسْکِیْنُ الْمُسْتَکِیْنُ الْضَّعِیْفُ الْفَقِیْرُالْمَھِیْنُ اَلْلّٰہُمَّ لاٰتَجْعَلَنِی نٰاسِیاًلِذِکْرِکَ فِیْمٰااَوْلَیْتَنِی وَلاٰغٰافِلاً لِأِحْسٰانِکَ فِیْمٰااَعْطَیْتَنِی وَلاٰاٰ یِساًمِنْ اِجٰابَتِکَ وَاِنْ اَبْطَأَتْ عَنِّی فِی سَرّٰآئِ اَوْضَرّٰآئِ اَوْشِدَّةٍاَوْرَخاٰئٍ اَوْعٰافِیَةٍ اَوْبَلآٰئٍ اَوْبُئْوسٍ اَوْنَعْمٰآئَ اِنَّکَ سَمِیْعُ الْدُّعاٰئِ۔

علامہ مجلسی نے فرمایا:ان شبوں میں بہترین اعمال طلب آمرزش ہے اور دنیا وآخرت اپنے والدین،عزیزواقارب،برادرِ دینی ،مومنین کرام اور تمام مردوں کے لیے دعائیں کرنا چاہئے۔(٥3)
٭٭٭

مصادر

١۔اصول کافی، ابو جعفر کلینی ،ج ١ ،ص ٣٦٦

٢۔تفسیر قرآن ، استادشہید مطہری ؛ ص ٣٤٥
٣۔پرتوی از قرآن ، آیت اللہ سید محمود طالقانی ،قسمت ٢ جزء ٣٠ ،ص ١٩٦
٤۔اصول کافی، ج١،ص٣٥٠
٥۔من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ص٥٠٢
٦۔ نور ا لثقلین ،ابن جمعہ ،ج. ٥ ص ٦٢٠، مجمع البیان،ج ٢٧،ص١٩٩
٧۔ در المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج٦،ص٣٧١
٨۔ در المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج٦،ص٣٧١،من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ص٥٠٢
٩۔تفسیر نمونہ ،آیت اللہ مکارم شیرازی ،ج٢٧، ص٧ ١٥
١٠۔تفسیر نوین ،محمد تقی شریعتی،ج ٢ ،ص ١٥٧
١١۔ در المنثور ،ج ٦، ص ٣٧١، مخزن العرفان در تفسیر القرآن ج،بانو نصرت اصفہانی ،ج ٤، ص ٢٠٥
١٢۔مجمع البیان ، علامہ امین الاسلام طبرسی ج٧ ٢، ص ٢٠٤، منہج الصادقین،مولی فتح اللہ کاشانی
١٣۔تفسیر سورہ قدر ، محمد رضا حاج شریفی ،ص ١٧١
١٤۔ پروش روح ،سید محمد شفیعی ،ج ٢ ،ص ٢٠٧
١٥۔منہج الصادقین،مولی فتح اللہ کاشانی ،ج ١٠،ص ٣٠٨
١٦۔مجمع البیان ، علامہ امین الاسلام طبرسی ج٧ ٢، ص ١٩٦
١٧۔مجمع البیان ، علامہ امین الاسلام طبرسی ج٧ ٢، ص ١٩٦
١٨۔ تفسیرالمیزان، علامہ محمد حسین طباطبائی، ج ٢٠ ص ٧٦٧
١٩۔ بحار الانوار،علامہ مجلسی ، ج ٩٧، ص ٧
٢٠۔مکتب عالی تربیت اخلاق،آیت اللہ لطف اللہ صافی، ص٢٠٦
٢١۔المیزان، ج ٢٠ ص ٧٦٥
٢٢۔مجمع البیان ج ٢٧ ،ص ١٩٥ ، ٢٠٠،٢٠٢
٢٣۔تفسیر نوین ،ج ٢ ،ص ١٥٩
٢٤۔ روز نامہ اطلاعات،ش، ١٩٥٧٨
2٥۔اصول کافی،ابو جعفر کلینی،ج ١،ص ٢٥٩
٢٦۔مکتب عالی تربیت واخلاق، ص ٢٠٧
٢٧۔ دیا ر عاشقان در تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ ، شیخ حسین انصاریان ،ج٧ ،ص ٤٣١
٢٨۔ مثنوی،مولانا رومی،ج ١،ص ٤١١
٢٩۔ وسائل الشیعہ ،حر عاملی ،ج ٧،ص ٢٥٩
٣٠۔من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ،ص٥٠٢
٣١۔من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ،ص٥٠٢
٣٢۔مجمع البیان ج ٢٧ ،ص ٢٠١،٢٠٢
٣٣۔معارف ومعاریف ،سید مصطفی حسینی،ج ٤ ص ١٧٦٢
٣٤۔بحار الانوار،ج ٩٧ ،ص ٤
٣٥۔مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی
٣٦۔تفسیر ابو الفتوح رازی ،ج ٢٠
٣٧۔تفسیر جامع ،آیت اللہ ابراہیم بروجردی،ج ٧ ص ٢٦٠
٣٨۔تفسیر سورہ قدر ،محمد رضا حاج شریفی ،ص ٥١
٣٩۔ہزار ویک نکتہ،آیت اللہ حسن زادہ آملی،نکتہ ٤٩٠
٤٠۔ تلخیص ازمکتب عالی تربیت واخلاق،آیت اللہ صافی، ص ٢٠٧
٤١۔مجمع البیان ،ج ٢٧ ،ص١٩٨
٤٢۔تفسیرالمیزان، ج ٢٠ ،ص ٧٦٥،تفسیر نوین ،ج ٢ ،ص١٥٨
٤٣۔تفسیر نمونہ۔ج٢٧
٤٥۔اصول کافی،ابو جعفر کلینی،ج ١،ص ٢٥٩
٤٦۔اصول کافی،ابو جعفر کلینی،ج ١،ص٢٥٩
٤٧۔تفسیر نمونہ ، دانشمندوں کی ایک جماعت،ج ٢٧،ص ١٩٢،پرشش ھا و پاسخ ھای مذہبی ،آیات عظام مکارم شیرازی و جعفر سبحانی ،
٤٨۔تفسیر نمونہ ، دانشمندوں کی ایک جماعت،ج ٢٧،ص ١٨٧
٤٩۔شب قدر ،پاسخھای دانشجوئی،ناشر معارف اسلامی
٥٠۔نہج البلاغہ، حکمت ٤١٧
٥١۔شب قدر ،پاسخھای دانشجوئی،ناشر معارف اسلامی
٥2۔من لا یحضرہ الفقیہ ، ابن بابویہ،ج٢ ،ص٥٠٦
٥3۔مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی،شب قدر کے مخصوص اعمال کے ذیل میں رجوع کریں۔