اسلامی عرفان اور حکمت
  • عنوان: اسلامی عرفان اور حکمت
  • مصنف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:4:56 1-10-1403

پیشگفتار

انسان اس دنیا میں فضا کے اندر چھوڑے گئے توپوں کے مانند ھیں کہ جو اپنے اندر پرواز کے لئے چھپی ھوئی توانائیوں کو لامتناھی دنیا میں باھر نکالتے ھیں، لیکن زمین کے لذیذ جاذبے اور کشش انھیں طبیعی دنیا کی پستیوں میں کھینچتے ھیں اور سقوط والخطاط آور حرکت ان کے اندر پیدا کرتے ھیں، نفسانی خواھشات اور شیطانی چکنی چپڑی باتوں کی چمک دمک، مادی کلچر و تمدن کی سرعت کو بڑھاتے ھیں۔ ان کے درمیان بھت کم افراد اور گروہ ایسے ھیں کہ جنھوں نے اپنے دلوں کی آنکھوں کو معنوی حقائق کے لئے کھول کر نیز اپنے کانوں کی سماعت کے ذریعہ الٰھی پیغامات سے آشنا ھوئے اور کمر ھمت باندھ کر اپنے کو حیوانی آلودگیوں سے بچا لیا اور نورانی ملکوت کے آفاق کی طرف پرواز کرتے ھیں، اپنے ارتقاء کے راستہ میں صعودی رفتار کا۔ ساری خوبیوں، شان و شوکت، قوت تازگی و شادابی اور کمالات کے بے انتھا منبع اور ایک جملہ میں یہ کہ "اللہ کی جانب" قریب ھونے کے لئے۔ آغاز کرتے ھیں، لیکن جو لوگ زمین پر گرے ھوئے توپوں کی طرح سقوط کرتے ھیں، مادّیات کے شکست خوردہ لوگوں کی طرح مشکل میں پھنس جاتے ھیں اور اس کے مشابہ سرعت کے ساتھ، سقوطی وانحطاطی سیر کے بر عکس بالا ترین جھان کی طرف مائل ھو جاتے ھیں اور ایسا بھی ھے کہ یہ واقعہ بارھا تکرار ھوتا ھے۔
اس عکس العمل کو اب بھی غربی انحطاط کے کلچر سے شکست خوردہ لوگوں کی جماعت میں بخوبی دیکھا جا سکتا ھے کہ معنوی قدر و قیمت کی بے انتھا پیاس اور شوق کا اپنے اندر احساس کرتے ھیں اور پاک و صاف ماحول و آب زلال کی تلاش میں ادھر ادھر جاتے ھیں، مگر افسوس کہ اکثر اس طرح کے لوگ جادو گروں کے جال میں پھنس جاتے ھیں جو معرفت کی مٹھاس کے بجائے گمراھی و ضلالت کی تلخی ان کے دھن میں ڈالتے ھیں اور گڑھوں سے بھاگنے والوں کو مصیبت و ھلاکت کے کنویں کی طرف راھنمائی کرتے ھیں اور پچھلے دروازہ سے انھیں تباھی و ھلاکت کے دیار میں بھیج دیتے ھیں!
مادّی کلچر کے مرکز سے بھاگنا اور معنوی کلچر میں پناہ لینا، صرف شخصی خواھشات میں خلاصہ نھیں ھوتا ھم آج اسلام خواھانہ جنبشوں کی وسعت کو دنیا کے گوشہ و کنار، بلکہ آلودہ ترین، پلید ترین نیز آفت زدہ سر زمینوں میں بھی مشاھدہ کر رھے ھیں، جس نے ان تحریکوں کو سرعت عطا کی ھے وہ ایک عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی ھے کہ جو ایک بلند مرتبہ عارف کی قیادت میں آیا ھے کہ جس نے اسلامی معارف کے انوار کی شعاعوں میں لوگوں کی شگفتہ اور نکھری ھوئی استعدادوں سے استفادہ کرتے ھوئے تمام شیطانی طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا اور بڑی سے بڑی رکاوٹوں کے باوجود جو ھر طرف سے ان کی راہ میں کھڑی کی جاتی ھیں، اسی طرح ارتقاء کی راھوں کو طے کر رھا ھے، اگرچہ یہ پھلی بار نھیں ھے کہ ایک ربّانی عارف اور الٰھی انسان نے لوگوں کی تحریک "انقلاب" کو اپنے ذمہ لیا ھے، لیکن کسی دوسرے نمونہ کی نشان دھی اتنی وسعت، گھرائی، استوار اور پائداری کے ساتھ آسان نھیں ھے۔ بھر حال یہ حادثہ بھی اپنی بہ نسبت معنوی رجحانات کے وجود کا ایک قوی ترین باعث ھو سکتا ھے اور خاص سے طور اسلامی عرفان کا نقش انسانوں کی زندگی میں ایک مطلوب و مثبت تحوّلات ایجاد کر سکتا ھے۔

اسلامی دنیا میں عرفان

دنیائے اسلام میں عرصۂ دراز سے "عرفان" اور "تصوّف" کے نام سے کچھ رجحانات پائے جاتے ھیں اور چوتھی صدی ھجری سے لے کر آٹھویں صدی ھجری تک بھت سے ملکوں میں جیسے ایران اور ترکی میں اپنے عروج کو پھنچے ھیں، اب بھی صوفیوں کے مخلتف مذاھب اسلامی دنیا میں پائے جاتے ھیں، اس سے مشابہ رجحان تمام ادیان کے ماننے والوں میں بھی موجود رھے ھیں۔ لھٰذا اسی ایک مشترک نقطہ کو نظر میں رکھتے ھوئے یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا اسلام میں کوئی چیز اسلامی عرفان کے نام سے پائی جاتی ھے، یا مسلمانوں نے اس کو دوسروں سے لیا ھے اور جو کچھ "اسلامی عرفان " کے نام سے یاد کیا جاتا ھے وہ در حقیقت مسلمانوں کا عرفان ھے نہ کہ اسلامی عرفان؟ اور اس صورت میں کہ اسلام "عرفان " کے نام سے کوئی چیز لایا ھو تو کیا یہ وھی چیز ھے کہ جو آج مسلمانوں کے درمیان موجود ھے یا اس تحریف و تبدل بھی واقع ھوا ھے؟
اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے اسلام میں عرفان کے وجود کا بالکل انکار کر دیا ھے اور اس کو ایک بدعت آمیز اور باطل چیز شمار کیا ھے۔ بعض دوسرے لوگوں نے اسے اسلام سے خارج، مگر اس کے سازگار و موافق جانا ھے۔ اس سلسلہ میں بعض افراد نے کھا ھے کہ تصوّف ایک پسندیدہ بدعت ھے، جیسے عیسائیوں میں رھبانیت، جیسا کہ اس کے بارے میں قرآن کا فرمان ھے: (و رھبانیۃً ابتدعُوھا ما کتبناھا علیھم الاّ ابتغاء رضوان اللہ) (حدید۲۷) "اور جس رھبانیت کو ان لوگوں نے خود سے ایجاد کر لیا تھا اس کا ھم نے انھیں پابند نہیں بنایا تھا مگر یہ کہ رضاء الٰھی کو کسب کرنے کے لئے انجام دیں "
آخر کار ایک گروہ نے عرفان کو اسلام کا ایک جزء، بلکہ اس کے مغز و روح کا مرتبہ دے دیا ھے کہ جس کو تمام اسلامی احکام کی طرح، قرآن کریم اور سنت نبوی سے حاصل کیا گیا ھے، نہ یہ کہ تمام مکاتب فکر و مسالک سے اقتباس کیا گیا ھو اور اسلامی عرفان اور سارے عرفانوں کے درمیان شباھت کا ھونا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ان سے حاصل کیا گیا ھے، جس طرح سے شریعت اسلام کا دوسری تمام آسمانی شریعتوں کے مشابہ ھونے کے معنیٰ یہ نھیں ھیں کہ اسلامی شریعت کو ان سے اقتباس کیا گیا ھے۔
آخری نظریہ ممدوح اور بڑا پسندیدہ ھے اور ھم اس پر اضافہ کرتے ھیں کہ اسلامی عرفان کا اصیل ھونا اس معنیٰ میں نھیں ھے کہ جو کچھ عالم اسلام میں "عرفان " اور "تصوف " کے نام سے جانا جاتا ھے اس کو صحیح مانیں، جس طرح ھر وہ عقیدہ یا سلوک و رفتار جو اسلام سے منسوب جماعتوں میں موجود ھے اس عقیدہ یا رفتار کو اسلامی نھیں شمار کر سکتے، ورنہ اسلام کو متضاد و متناقض عقیدوں اور اھمیتوں کا مجموعہ ماننا پڑے گا یا ھم متضاد و متعارض اسلام رکھتے ھوں۔ بھر حال ھم اسلامی عرفان کے اصیل ھونے کے اعتراف کے با وجود وہ عرفان جس کا اعلیٰ مرتبہ پیغمبر اکرم (ص) اور ان کے سچے جانشینوں کو حاصل تھا۔ مسلمان عرفاء اور صوفیوں کے درمیان بیگانہ عناصر کے وجود کا انکار بھی نھیں کرتے اور بھت سے آراء و نظریات اور صوفیوں کے مختلف گروھوں کے سیر و سلوک کو قابل تنقید جانتے ھیں۔

عرفان، تصوف، حکمت اور فلسفہ کا مفھوم

اسلامی عرفان کی اصلیت کے بیان سے پھلے مناسب ھے کہ عرفان اور تصوف کے کلمات کی وضاحت کرتا چلوں تا کہ بعض غلط فھمیوں اور خلط مبحث سے رکاوٹ کی جا سکے۔
لفظ "عرفان"، "معرفت" کے مثل و مانند کلموں کی طرح لغت میں شناخت و پھچاننے کی معنیٰ میں ھے، مگر اصطلاح میں خاص شناخت سے مخصوص ھے کہ جو حس و تجربہ کے طریقہ سے یا عقل و نقل کے ذریعہ حاصل نھیں ھوتا ھے، بلکہ اندرونی شھود اور باطنی ادراک کے ذریعہ حاصل ھوتا ھے۔ ان شھود کو ایسے خبری جملوں میں عمومیت دی گئی ھے کہ جو مشاھدات و مکاشفات کی حکایت کرتے ھیں۔ اس دلیل کے تحت کہ ایسے کشف و شھود کے حصول کو معمول کے مطابق ایک طرح کی خاص تمرینوں اور ریاضتوں پر موقوف جانتے ھیں، عملی طریقوں یا سیر و سلوک کے آئین کو بھی "عرفان" کا نام دیا گیا ھے اور انھیں "عملی" کی قید کے ذریعہ معین کیا گیا ھے جس طرھ شھود کے بارے میں حکایت کرنے والی خبری جملوں کو "عرفان نظری" کا نام دیا گیا ھے اور بعض لوگوں نے فلسفۂ اشراق کی طرح ایک قسم کے عقلی استدلال سے جوڑ دیا ھے۔
لفظ "تصوف" ظاھر ترین احتمالات کی بنا پر لفظ "صوف" سے لیا گیا ھے اور پشمینہ پوشی کو سخت ترین زندگی بسر کرنے کے نمونہ کے عنوان سے اور تن پروری و لذّت پرستی سے دوری کے معنیٰ میں جانتے ھیں نیز "عرفان عملی " سے کافی حد تک مناسبت رکتھا ھے جس طرح لفظ "عرفان" "عرفان نظری" سے بھت زیادہ مناسبت رکھتا ھے۔ اس ترتیب کے مطابق عرفان کی طبیعت میں کم از کم تین عنصر کی شناخت کرائی جا سکتی ھے:
اول: کچھ خاص دستور العمل ھیں کہ جو سفارش کرنے والوں کے دعویٰ کے مطابق؛ انسان کو شھودی و باطنی معرفت اور علم حضوری کے ذریعہ آگاھانہ طور پر خدائے متعال، اسمائے حسنیٰ، صفات علیا اور ان کے مظاھر تک پھنچاتے ھیں۔
دوم: خاص روحی و نفسانی ملکات و حالات ھیں کہ جس کے نتیجہ میں سالک راہ کے لئے کچھ مشاھدات و مکاشفات حاصل ھوتے ھیں۔
سوم: کچھ بیانات اور گزارشیں ھیں کہ جو حضوری و شھودی نتائج کی حکایت کرتےھیں یھاں تک کہ ان لوگوں کے لئے جنھوں نے شخصی طور پر عملی عرفان کے راستے کو طے نھیں کیا ھے ان کے لئے بھی کم و بیش جاننے کے قابل ھیں گرچہ ان کی حقیقت اور کنہ کو جاننا سچے عارفوں سے مخصوص ھے۔
ان توضیحات سے واضح ھو گیا کہ حقیقی عارف وہ شخص ھے جو ایک عملی پروگرام کو انجام دے کر خدائے متعال، اس کے صفات و افعال کی نسبت شھودی و حضوری معرفت تک پھونچ گیا ھو اور نظری عرفان در حقیقت، اس چیز کی شرح و تفسیر ھے کہ جس میں بھت سے نقائص و کمیاں بھی پائی جاتی ھوں، اور ایک طرح کی چشم پوشی و اصطلاح میں وسعت دے کر، تمام سیر و سلوک کو حقیقت کو پانے اور کامیابی تک پھونچنے کے لئے انجام دی جاتی ھے اور ان سے وجود میں آنے والے روحی و شھودی حالات کو عرفان کا نام دیا جا سکتا ھے، اس طرح کہ ھندی، بودھائی اور افریقہ کے بعض قبائل اور باشندوں میں جانے والے عرفان کو بھی شامل ھو، لفظ "دین " بھی اسی وسعت اور چشم پوشی کی بنا پر بدّھسٹ، توتم پرستی(قدیم زمانے میں بعض اقوام و قبائل میں مرسول تھا کہ بعض درختوں اور حیوانوں کا خاص احترام کرتے اور ان کو اپنے قبیلہ و قوم کا حافظ و نگھبان جانتے تھے) اور ان جیسوں پر اطلاق ھوتا ھے۔
یھاں پر مناسب ھے کہ حکمت و فلسفہ کے سلسلہ میں بھی ایک اشارہ کرتا چلوں! "حکمت " کہ جو ایک اصیل عربی لفظ ھے اور محکم و متفق معرفت کے معنیٰ میں استعمال ھوتا ھے اکثر عملی معارف کے موقع پر استعمال ھوتا ھے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انھیں مورد میں استعمال ھوا ھے: (اسراء آیت۳۹) ۔ لیکن رائج اصطلاح میں، الٰھی فلسفہ کے معنیٰ میں اور عملی فلسفہ و علم اخلاق کے معنیٰ میں بھی استعمال ھوتا ھے۔ علم اخلاق میں خاص اصطلاح کے مطابق، ملکۂ نفسانی کے معنیٰ میں کہ جو عقل کو عمل میں لانے سے ارتباط رکھتا ھے زیرکی و دانائی اور کند ذھنی کے درمیان حد وسط کے عنوان سے استعمال ھوتا ھے۔ بھر حال الحادی اور شکاکیت کے فلسفہ کے مورد میں استعمال نھیں ھوتا، لفظ "فلسفہ" کے بر خلاف کہ جو اصل میں یونانی زبان سے لیا گیا ھے اور ھر طرح کی فکری و عقلی تلاش کے معنیٰ میں، ھستی کے کلی مسائل کے فھم کے لئے استعمال ھوتا ھے، چاھے یقینی و ثابت معرفت کے انکار کا باعث بنے اور حتیٰ کہ وجود خارجی کے انکار کا باعث ھو۔
اسلامی عرفان کی اصالت جو شخص قرآن کریم کی آیتوں، پیغمبر اکرم(ص) اور اھل بیت(ع) کے کلام میں دقت کے ساتھ غور و فکر سے کام لے گا تو بے شک وہ، بھت بلندو عمیق مطالب، عرفان نظری کے دائرے میں اور بے شمار آداب دستور العمل، عرفان اور سیر و سلوک کے متعلق پائے گا۔ نمونہ کے طور پر توحید ذات، صفات اور افعال سے متعلق آیتون کو سورۂ توحید، سورۂ حدید کی ابتدائی آیات، سورۂ حشر کی آخری آیات اور اسی طرح ان آیتوں کو جو تمام عالم ھستی کو الٰھی حضور اور تمام موجودات پر اس کا احاطہ، تمام مخلوقات کا خدا کے لئے تسبیحات اور تکوینی سجدہ کرنے پر دلالت کرتی ھیں، ان کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ھے۔
اسی طرح وہ آیتیں جو آداب اور مخصوص سنن کے بارے میں موجود ھیں ان کو اسلامی سیر سلوک کے آئین کا نام دیا جا سکتا ھے، جیسے وہ آیتیں جن میں تفكّر، تامّل، ذکر، دائمی توجہ، سحر خیزی، شب زندہ داری، راتوں میں سجدہ، طولانی تسبیحیں، خضوع و تواضع، گریہ کرنے، قرآنی آیتوں کو پڑھنے یا سننے پر سجدہ ریز ھونے، عبادات میں خلوص، خدا سے عشق و محبت کی بنا پر نیک کاموں کو انجام دینا، قرب و منزلت اور رضائے الٰھی تک پھنچنے کے اسباب وغیرہ کا تذکرہ ھے، نیز وہ آیتیں جن میں پروردگار کے حضور میں تسلیم و رضا اور توکل کا تذکرہ ھے۔ اور جو کچھ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطھار(ع) کے بیانات اور ان کی دعائوں و مناجاتوں میں، ان مطالب سے متعلق باتیں موجود ھیں انھیں شمار نھیں کیا جاسکتا۔
ان آیات بیّنات اور پیغمبر اکرم(ص) و اھل بیت طاھرین(ع) کے فصیح و بلیغ بیانات کے ھوتے ھوئے ایک گروہ نے تفریط اور دوسرے نے افراط کا راستہ اختیار کرلیا ھے: پھلے گروہ نے تنگ نظری و ظاھر بینی کی بنا پر ان بیانات اور آیات کو متروک و سادہ معانی میں استعمال کیا ھے یھاں تک کہ خداواند علام کے لئے متغیر حالات اور جسمانی اعتبار سے اوپر نیچے چڑھنے اترنے کے قائل ھو گئے ھیں اور مذکورہ مطالب سے متعلق آیتوں و روایتوں کو ان کے بلند و بالا مطالب سے گرا دیا ھے، یہ وہ لوگ ھیں جو کلّی طور پر اسلام میں "عرفان'' نامی چیز کے وجود کے منکر ھو گئے ھیں، دوسرے گروہ نے مختلف معاشرتی اسباب سے متاثر ھو کر بیگانہ عناصر کو غیروں سے حاصل کرتے ھوئے اسے قبول کر لیا ھے اور اس کے نتیجہ میں ایسے امور کے معتقد ھو گئے ھیں کہ انھیں دینی متون اور کتاب و سنت سے حاصل شدہ مضامین میں نھیں شمار کیا جا سکتا ھے، بلکہ شاید ان میں سے بعض صریح نصوص کے مخالف اور غیر قابل تاویل بھی ھوں، اسی طرح ایک طرف مقام عمل میں آداب و رسوم کو اپنی طرف سے وضع کر لیا ھے یا غیر اسلامی فرقوں سے ادھار لے لیا ھے اور دوسری طرف عارف کامل سے شرعی واجباب اور دینی وظائف کے سقوط کے قائل ھو گئے ھیں۔
البتہ وہ لوگ جو تمام عرفاء اور صوفیوں کے بارے میں بے حد حسن ظن کے قائل ھوئے ھیں انھوں نے ان سارے مطالب کے لئے تاویلوں اور توجیھوں کو ذکر کیا ھے، لیکن انصاف تو یہ ھے کہ ان میں بعض کلام قابل قبول توجیھ نھیں رکھتے اور ایسے افراد کی عرفانی و عملی شخصیتوں کی عظمت ھمیں اس طرح متاثر نہ کر دے کہ ھم ان کی ساری گفتگو اور نوشتوں کو آنکھ اور کان بند کر کے قبول کر لیں اور اس کی تائید کریں اور ان کے آثار کے بارے میں دوسروں سے ھر طرح کی تنقید و تحقیق کا حق سلب کر لیں، ھاں یہ واضح ھے کہ تنقید کے حق کو قبول کرنے کے معنیٰ، نا پختہ و نا سنجیدہ قضاوت، متعصبانہ وغیر منصفانہ اظھارات اور مثبت و اھم نقطوں کو نظر انداز کرنے کے معنیٰ میں نھیں ھے، بھر حال ھم کو حق و حقیقت کی جستجو میں رھنا چاھتے اور عدل و انصاف کی راہ پر چلنا چاھئے، اور خوش بینی یا بدبینی میں افراط اور تفریط سے پرھیز کرنا چاھئے اور خداوند عالم سے حق کی معرفت اور حق کی راہ میں پائیداری کی خاطر مدد مانگنی چاھئے۔
واضح سی بات ھے کہ عرفان، تصّوف، حکمت، فلسفہ اور ان میں ایک دوسرے سے رابطہ نیز اسلام کا ان میں سے ھر ایک سے رابطہ کی تحقیق کوئی ایسا کام نھیں ھے کہ جسے ایک مقالہ میں پیش کیا جاسکے۔ اس لئے اختصار کی رعایت کرتے ھوئے مورد نظر اھم نکتوں کو بیان کرتے ھیں اور وسیع و کامل تحقیق کو کسی دوسرے موقع کے حوالہ کرتے ھیں۔

عرفان اور عقل کا رابطہ

ایک بنیادی مسائل میں سے کہ جو عرفان کے طرفداروں اور مخالفوں کے اختلاف کا مورد رھا ھے، وہ یہ ھے کہ عرفان سے حاصل شدہ چیزوں کے بارے میں کہ بر فرض جو درونی کشف و شھود کے ذریعہ حاصل ھوتی ھیں۔ کیا عقل کوئی قضاوت کر سکتی ھے مثال کے طور پر ان میں سے بعض کی نفی کر سکتی ھے یا نھیں؟ ان سوالوں کے جواب، اس اعتبار سے اھمیت رکتھے ھیں کہ بھت سے عرفاء ایسے مطالب کا اظھار کرتے ھیں کہ جو عقلی اعتبار سے قابل بیان نھیں ھیں اور وہ دعویٰ کرتے ھیں کہ ان چیزوں کو انھوں نے باطنی طریقہ سے حاصل کیا ھے، عقل انھیں درک نھیں کر سکتی ھے اور عقل فطری طور پر ان کے نفی و انکار کا حق بھی نھیں رکھتی ھے۔
اھم ترین موضوع کہ جو ایسی گفتگو میں معرکۃ الآراء رھا ھے وہ (وحدت وجود "کا مسئلہ ھے جو مختلف طریقہ سے بیان ھوا ھے: ان میں سے ایک یہ کہ بنیادی طور پر خدائے متعال کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہ ھے اور نہ ھوگا، اور جن چیزوں کو موجودات کا نام دیا جاتا ھے وہ توھّمات و خیالات سے زیادہ کچھ نھیں ھیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ھے کہ کوئی چیز ذات خدا سے خارج یا علم الٰھی کے حدود سے خارج وجود نھیں رکھتی ھے، اور اس طریقہ سے، ایک قسم کی کثرت، وحدت کے اندر مانی جاتی ھے۔ اس دعویٰ کی دوسری صورت جو زیادہ شائع ھے وہ یہ ھے کہ سالكِ راہ اپنی انتھائی سیر میں منزل فنا تک پھونچ جاتا ھے اور اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نھیں رہ جاتا، آخر کار، اس مدّعیٰ کی معتدل ترین صورت یہ ھے کہ سالک ایسے مقام پر پھونچ جاتا ھے کہ خدا کے علاوہ کسی چیز کو نھیں دیکھتا ھے اور ساری چیزیں اس کے اندر محو ھو جاتی ھیں۔ دقیق ترین تعبیر کے مطابق، تمام چیزوں کو خدائے متعال کے اندر محو مشاھدہ کرتا ھے؛ جیسے ضعیف نور کا خورشید کے نور کے اندر محو ھانا۔ ایسے مقامات پر مخالفین معمول کے مطابق عقلی دلیلوں سے استفادہ کرتے ھیں، جب کہ مدعی لوگ اس کے بارے میں آخری بات جو کہتے ھیں وہ یہ ھے کہ اس طرح کے مطالب عقل کی حدود سے بالاتر ھیں اور اس طریقہ سے، اپنے مدّعا کو عقلی طور پر سمجھانے اور واضح کرنے سے بچا لیتے ھیں۔
ان حالات و واقعات کو دیکھتے ھوئے یہ بنیادی سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا ایسے حقائق موجود ھیں عقل جن کے درک کرنے اور نفی یا اثبات کرنے کی توانائی نہ رکھتی ھو؟ جو چیز یھاں پر اختصار سے کھی جا سکتی ھے وہ یہ ھے کہ اگرچہ عقل کا سرو کار ھمیشہ مفاھیم سے رھا ھے اور عقل کا کام عینی وجود کی حقیقی معرفت اور کسی بھی خارجی مصداق کی کنہ کو پانا نھیں ھے۔۔ چہ جائیکہ خدائے متعال کے وجود کی حقیقیت۔۔ لیکن عقل کے ایجابی یا سلبی احکام اس صورت میں جب کہ بدیھی یا بدیھیات پر منتی ھو، وہ قابل نقض نھیں ھیں اور مصادیق خارجی پر مفاھیم کے طریقہ سے منطبق ھوتے ھیں، عقل کے ایسے احکام کو غلط فرض کرنے کا لازمہ تناقض ھے دوسرے الفاظ میں: گرچہ عقل کا کام کلی طور پر وجود کی شناخت نھیں ھے، لیکن مذکورہ شرط کے ساتھ فی الجملہ معرفت میں شک و تردید کو روا نھیں رکھا جا سکتا ۔
ھاں، وحدت وجود کے خاص مسئلہ میں کھنا چاھئے کہ: خدائے متعال کے غیر سے وجود کی نفی اور کثرت کی بطور مطلق نفی کا لازمہ نہ صرف احکام عقل کے اعتبار کی نفی ھے بلکہ علوم حضوری کہ جو نفس، افعال و انفعالات سے متعلق ھیں ان کے اعتبار کی بھی نفی ھے۔ ایسی صورت میں، کس طرح کشف و شھود کے لئے کسی اعتبار کے قائل ھوا جاسکتا ھے، جب کہ اس کے اعتبار کی اعلیٰ ترین سند اس کا حضوری ھونا ھی ھے۔ پس وحدت وجود ایسی تفسیر کے ساتھ کسی بھی طرح قابل قبول نھیں ھے، لیکن اس کے لئے قابل قبول تفسیر کو نظر میں رکھا جا سکتا ھے کہ جو حکمت متعالیہ میں بیان کی گئی ھے، جس کا خلاصہ یہ ھے کہ مخلوقات کا وجود خدائے متعال کی بہ نسبت ربطی و تعلقی ھے، اور دقیق تعبیر کے مطابق کھا جا سکتا ھے کہ ان کا وجود عین ربط و تعلق ھے اور وہ خود کوئی استقلال نھیں رکھتے ھیں اور جس چیز کو عارف پاتا ھے وہ یھی تمام موجودات سے استقلال کی نفی ھے کہ اس کو حقیقی وجود کی نفی کا نام دیا جاتا ھے۔
یھاں پر سوال کو دوسرے انداز میں بیان کیا جا سکتا ھے وہ یہ کہ: کیا حکم عقل کو ضمیر و وجدان اور کشف و شھود پر مقدم جانا جا سکتا ھے؟ دوسرے الفاظ میں، کیا حکم عقل کی بنیاد پر کہ جو ایک قسم کا حصولی علم ھے، علم حضوری کے اعتبار کا انکار کیا جا سکتا ھے۔
جواب میں کھنا چاھئیے: خالص علم حضوری در حقیقت، خود واقعیت کو پانا ھے اس لئے قابل تخطیہ نھیں ھے، لیکن عام طور سے حضوری علم، ذھنی تفسیر کے ھمراہ ھوتا ھے، اس طرح سے کہ ان میں سے ایک دوسرے کی تفکیک و علٰیحدگی بھت زیادہ وقت کی محتاج ھے اور یہ ذھنی تفسیریں جو علوم حصولی کی قسموں میں داخل ھیں قابل خطا ھیں اور جو کچھ عقلی دلائل سے رد ھوجاتا ھے وہ یہی مشاھدات اور علوم حضوری کی ذھنی تفسریں ھیں نہ کہ وہ چیزیں بطور دقیق علم حضوری کے مورد میں واقع ھوئی ھیں، وحدت وجود کے بارے میں بھی جو چیز دقیق طور پر مورد شھود میں واقع ھوتی ھے وہ خدائے متعال سے استقلالی وجود کا مخصوص ھونا ھے کہ جس کو مسامحہ کے طور پر وجود حقیقی سے تعبیر کیا جاتا ھے اور اس کی بنیاد پر حقیقی وجود سارے موجودات سے نفی ھو جاتا ھے۔
لائق ذکر ھے کہ بزرگ اسلامی عرفاء نے تصریح کی ھے کہ بعض مکاشفات، شیطانی و نا معتبر اور بعض شواھد کے ذریعہ وہ مکاشکات پرکھنے و تشخیص کے قابل ھیں، و بالآخر ان کو یقینی عقلی دلیلوں اور کتاب و سنت کے ذریعہ بھی پھچانا جاسکتا ھے۔ واضح رھے کہ مکاشفات و مشاھدات کے اقسام اور علوم حضوری کے انواع، نیز ذھن میں ان کے منعکس ھونے کی کیفیت، ان کی بعض ذھنی تفسیروں کے غلط وجھیں اور صحیح کی غیر صحیح سے شناخت اس مقالہ کی وسعت و حدود میں نھیں ھے۔

عرفان اور شریعت

ایک دوسرا اھم مسئلہ جو مناسب ھے کہ اس مقالہ کے آخر میں مورد توجہ قرار پائے وہ عملی عرفان کا شرعی احکام سے رابطہ یا طریقت کا شریعت سے رابطہ ھے ایک گروہ نے تصور کیا ھے کہ عملی عرفان کشف حقائق کا ایک مستقل راستہ ھے جو احکام شرعی کی رعایت کے بغیر مورد استفادہ قرار پاسکتا ھے اور اسلام نے بھی اس کی (بدعت مرضیّ) کے نام سے تائید کی ھے یا حد اقل اس سے منع نھیں کیا ھے، اس سلسلہ میں بعض لوگ اس قدر آگے بڑھ گئے ھیں کہ بنیادی طور پر عرفانی مقامات تک پھونچنے کے لئے کسی دین و مذھب کے پابند ھونے کی ضرورت نھیں جانتے ھیں، بعض دوسرے لوگ، ادیان میں سے کسی ایک کے پابند ھونے اور بھترین تعبیر میں، ادیان الٰھی میں سے کسی ایک سے وابستہ ھونے کو کافی جانتے ھیں۔
مگر اسلامی نظریہ کے مطابق، عرفانی سیر و سلوک، شریعت کے مقابل میں کوئی مستقل راستہ نھیں ھے، بلکہ اس کا دقیق و لطیف ترین حصّہ ھے اور اگر ھم اصطلاح "شریعت " کو احکام ظاھری سے اختصاص دیں تو چاھئے کہ ھم کھیں: شریعت ھی میں طریقت یا شریعت کے باطن میں طریقت موجود ھے اور فقط احکام شریعت کی رعایت کے ذریعہ قابل تحقق و وجود ھے۔ نمونہ کے طور پر، شریعت، نماز کے احکام ظاھری کو معین کرتی ھے، جب کہ طریقت حواس کے متمرکز ھونے اور اس میں حضورِ قلب، عبادات کے کمال کی شرائطوں کی ذمہ دار ھے۔ شریعت، عذاب الٰھی سے محفوظ رھنے کے لئے عبادات کو انجام دینے اور بھشتی نعمتوں تک پھنچنے پر تاکید کرتی ھے، مگر عرفان نیت کو ان چیزوں سے خالص کرنے کی تاکید کرتا ھے جو خدا کے علاوہ ھے؛ وھی چیز کہ جس کو اھل بیت(ع) کی روایات کی زبان میں(احرار کی عبادت) کا نام دیا گیا ھے، اسی طرح شریعت شرک جلی وھی بتوں کی پرستش اور اس کے مانند چیزوں کی عبادت ھے، لیکن طریقت میں، شرک خفی و اخفیٰ بیان ھوتا ھے اور ھر طرح امید غیر خدا سے رکھتا، اس کے غیر سے ڈرنا، غیر اللہ سے مدد چاھنا اور اس کے غیر سے عشق و محبت کرنا۔ اس صورت میں کہ جب یہ سب اصالت و استقلال کا پھلو رکھتے ھوں اور اللہ کے امر کی اطاعت کی بنیاد پر نہ ھوں۔ ایک قسم کا شرک شمار ھوتا ھے۔
اس بنا پر، بدعتوں کے انواع و اقسام اور ساختگی آئین و مذاھب نہ صرف یہ کہ مطلوب نھیں ھیں بلکہ حقیقی عرفان تک پھونچنے میں مانع بھی ھیں، چہ جائیکہ ان امور سے استفادہ کیا جائے کہ جو صریحی اور یقینی طور پر مورد نھی و تحریم واقع ھوئے ھیں، گرچہ ممکن ھے کہ بعض کام وقتی طور پر عرفانی حالات پیدا کریں مگر اس کا انجام اچھا نھیں ھے اور ممکن ھے کہ انتھائی سقوط و انحطاط کے لئے شیطانی جال ھو اور ان کے مکر و فریب میں نھیں آنا چاھئے، خلاصۂ کلام یہ کہ حق کا راستہ وھی ھے کہ جس کو خدائے متعال نے بیان فرمایا ھے: فماذا بعد الحق الاّ الضّلال (یونس، ۳۲) "اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نھیں ھے"