خود شناسی(دوسری قسط )
  • عنوان: خود شناسی(دوسری قسط )
  • مصنف: ڈاکٹر علیم شیخ
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:36:54 1-10-1403

پچھلی قسط کا خلاصہ
اپنے آپ کو پہچاننا خود شناسی ہے یعنی اپنی صلاحیتوں ، اپنی ذمہ داری اور اپنے مقام سے آشنائی۔
سائنس اور جدید علوم تمام تر کوششوں کے باوجود انسان کو کچھ نہ دے سکے سوائے تباہی و بربادی اور بے سکونی کے۔
انسان معاشرتی، معاشی، خاندانی، انفرادی حوالے سے تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔۔ اس کی وجہ علم کے حصول میں خلوصِ نیت کی کمی اور حب دنیا کی فروانی اورعلم کا مقصد اپنے آپ کو آرام و آسائش پہنچانا تھا اور یہی فساد کی جڑ تھی۔
تسخیر کائنات پہلے ہی ہوچکی یہ بات سائنس کے مسخروں کو آج تک پتہ نہ چل سکی۔
سائنس بطور شریک سفر چلے تو ’’مرحبا‘‘، رہنما بننے کی کوشش کریگی، تو ’’خدا حافظ‘‘۔
________________________________________

اس سے پہلے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام خودشناسی کے بارے میں کیا کہتا ہے، آئیے دیکھتے ہیں فرنگی اسے کیسے دیکھتا ہے۔

فرنگی اور خودشناسی
عالمی مالیاتی سونامی کے بھنور نے نہ صرف بڑی بڑی مچھلیوں کے چھکے چھڑا دئیے ہیں بلکہ بڑے بڑے مکروہ مگرمچھوں کے پاوں تلے زمین (بلکہ پانی) کھینچ لیا ہے۔ سنا ہے مگر مچھ اپنے ہی انڈے بطور غذا کھا لیتا ہے۔ جو انڈے بچ جاتے ہیں ان سے مستقبل کے Baby مگرمچھ نمودار ہوتے ہیں۔ اگر مگرمچھ اپنے انڈے نہ کھائیں تو دنیا میں مگرمچھ ہی مگرمچھ ہوں یعنی ٹو مچ (Too much) مگرمچھ۔ لیکن ہم یہاں ان مگرمچھوں کی بات کر رہے ہیں جنھوں نے اس دنیا کو ایک تالاب اور خود کو اس تالاب کا بے تاج بلکہ غیر جمہوری (Undemocratic) بادشاہ کہا ہوا تھا اور لوگوں کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ تالاب میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کیسا! بہرحال تالاب کو گندا کرنے کے لئے ایک ہی مچھلی کافی ہوتی ہے

بربادِ گلستان کو بس ایک ہی الو کافی تھا۔۔!
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا

اگر یہ مچھلی امریکی ہو تو کیا کہنا یعنی نہلے پہ دہلا۔ کریلہ وہ بھی نیم چڑھا۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ وغیرہ وغیرہ۔
جس طرح مگرمچھ اپنے ہی انڈے کھاجاتے ہیں اسی طرح آج کل کے فرنگی اپنی ہی تھیوری نگل رہے ہیں بغیر سانس، بغیر پانی پیے، بالکل Non Stop۔ وہ یوں کہ کل کے دانشور مادیت پرستی کا راگ الاپ رہے تھے۔ It`s my life ’’یہ میری زندگی ہے‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ خود غرضی کا ڈھول پیٹ رہے تھے۔ باپ کو Old Houseمیں، بچوں کو نرسری میں اور بیوی کو گھر چھوڑ کر سکون کے لئے Night clubs کا رخ کر رہے تھے۔ رات کے دھندلکے میں منشیات کا دھواں بکھیر رہے تھے۔ خود کو بھلانے کے لئے شراب کی بوتلیں خالی کر رہے تھے۔ آج کے وہی فرنگی سکون نہ پا کر خود کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ سردیوں کی یخ بستہ شاموں میں اپنے آپ کو ڈھوندنے والے یہ بھول گئے ۔۔!!

اب پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں۔۔!
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کس طرح تو ہوتا ہے کس طرح کے کاموں میں۔۔ مطلب یہ کہ جب انسان خود کو بھلا بیٹھے تو وہ انسان نہیں جانور بن جاتا ہے۔ وہ بھی تماشہ دکھانے والا جانور یعنی وہی ’’بندر‘‘!(پچھلی قسط والا!)
بہرحال صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ آج کل کے فرنگی اپنے اپنے ماہرِ نفسیات سے اپناپتہ پوچھ رہے ہیں۔ میں کون ہوں؟ میں کہاں سے آیا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں؟ اور یہ بے چارے ماہرِ نفسیات اور So Called دانشور اپنی اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق لوگوں کو ٹوٹے پھوٹے مشورے دے دیتے ہیں۔ جیسے کوئی جاہل عطائی Quake اپنے تجربے کی بنیاد پر کوئی پڑیا ۔۔ آئیے ان پڑیاوںمیں کیا ہے ایک نظر دیکھتے چلیں۔
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

Dr. NATHANIEL BRANDEN.1:
امریکہ کا مشہور ماہرِ نفسیات جو 20 سال سے لوگوں کی خودشناسی کو ان پر آشکار کر رہا ہے۔ اس نے اب تک خود شناسی کے موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ یہ لوگوں کے اندر کھوج لگاکر ان کی اصل شخصیت منکشف کرتا ہے۔ اس کی Psycho- theropy سے ہزاروں لوگ مستفیض ہورہے ہیں۔’’ How to raise your self-esteem‘‘ اس کی مشہور کتاب ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ :
’’انسان اس وقت تک خوش نہیں رہ سکتا جب تک وہ دوسروں کا غلام رہے۔ یعنی اگر خوش رہنا ہے تو اپنے آپ کو، اپنی خواہشات کو، اپنے خوابوں کو اہمیت دو اور وہی کرو جو تمہارا دل کہتا ہے۔‘‘
اس موقع پر مولاٴ کا قول یاد کیجئے:
’’لوگ آزاد پیدا ہوئے ہیں تم نے کب سے انھیں غلام بنالیا۔‘‘

2 . Dr MILTON ERICKSON:
پچھلی صدی کا نامور ڈاکٹر اور ماہرِ نفسیات جو بچپن میں پولیو کا شکار تھا اور چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ دن بھر بستر پر لیٹا رہتا اور اپنے بہن بھائیوں کو کھیلتا دیکھتا رہتا تھا۔ لیکن اس حالت میں اس نے ہمت نہ ہاری اور مشاہدات و تفکر کے بل بوتے پر آس پاس کے ماحول سے تجربات سمیٹ کر اس نے ایسی ہمت پیدا کی کہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنا۔ HYPNOTISM کو سائنس میں شامل کرنا اور Psychotheropy میں بطور علاج رائج کرنا اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر ملٹن ایریکسن کو نئی زندگی دینے والی شے کوئی بیرونی امداد نہیں تھی اور نہ ہی کسی کا سہارا، فقط اس کی خودشناسی اور اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کہ اس نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ لوگوں کو بھی ان کی منزلوں تک پہنچادیا۔ بیشک
’’ انسان کی قیمت اس کی قابلیت ہوتی ہے۔‘‘ (مولا علی )

3 . RICHARD BANDLER:
جدید نفسیات کے علم Neurolinguistic(NLP) Programming کا بانی۔ اس علم نے اس وقت نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ اس سائنس کے امریکہ میں 86 مراکز، انڈیا میں 17 اور پاکستان میں فقط دو مراکز ہیں۔ انگلینڈ میں ١٢ دن کا کورس کرنے پر ٥ لاکھ روپے اور پاکستان میں پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ (احقر نے یہ کورس کر رکھا ہے)۔ ویسے یہ کورس 300 روپے میں بھی ہوسکتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں ملااحمد نراقی کی کتاب ’’معراج السعادۃ‘‘۔ ہمیں بھی کتاب پڑھنے کے بعد ملا احمد نراقی پر پیار اور رچرڈ بینڈلر پر بڑا غصہ آیا تھا!
اس جدید علم کی بدولت لوگ اپنی صلاحیتوں کو پہچان رہے ہیں اور اپنی قابلیت سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علم نفسیات آپ کو Abnormal سے Normal بناتا ہے اور NLP آپ کو Normal سے Super-Normal بناتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں Superman یا Superwomen!
NLP کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ انسان کے لئے کامیابی کا حل خود اس کے پاس ہوتا ہے قرآن بھی یہی کہتا ہے۔
’’خدا اس قوم کی حالت اس وقت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔‘‘ (سورہ رعد١١)

4 . ANTHONY ROBINS:
یہ NLP کا ایک اور ماہر ہے جو کئی کتابیں تصنیف کر چکا ہے۔ اس کی مشہور کتاب ’’The giant within you‘‘ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس نے لوگوں میں ایسی ایسی صلاحیتیں بیدار کردی ہیں کہ لوگ خود اپنے اوپر حیران ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں اس نے ایک دفعہ لوگوں میں اتنی قوتِ ارادی پیدا کردی کہ سیمینار کے اختتام پر اس نے کوئلے جلائے اور لوگوں کو ان جلتے ہوئے کوئلوں پر چلوادیا۔
٭ انتھونی صاحب کبھی برصغیر میں ہونے والے آگ کے ماتم کو دیکھئے کہ کس طرح نوجوان، بچے اور بوڑھے ’’یاحسین‘‘ اور ’’یاعلی مدد‘‘ کے نعروں کی گونج میں بغیر کسی ٹریننگ اور سیمینار کے جلتے ہوئے کوئلوں پر چلتے ہیں۔ چنانچہ محرم الحرام کا جوش پورے سال اور عاشور کا ایمان پوری زندگی رہے تو مومن کے لئے آگ ہو کہ آگ کا دریا دونوں گل و گلزار سے کم نہیں۔

5 . JHOSE SILVA:
امریکہ کا مشہور ماہر خودشناس جس نے گھر بیٹھے تفکر اور تدبر کر کے ایک ایسا علم ایجاد کیا جس کے تحت وہ انسان کی چھٹی حس بیدار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلے اس نے یہ تجربہ اپنے بچوں پر کیا۔ ماہرِ نفسیات نے اسے پاگل اور اس کے تجربات کو محض اتفاق کہا لیکن جب اس نے یہ تجربات شہر کے لوگوں پر کئے تو امریکہ کے ماہرینِ نفسیات خود پاگل ہوگئے کہ جنھوں نے کتابوں میں عمر گنوا دی وہ کہیں نہ پہنچے اور جس نے تفکر میں زندگی گزاری اس نے ایک نیا علم ایجاد کر ڈالا خودشناسی کا، جس کا نام JHOSE SILVA METHOD پڑ گیا۔ JHOSE SILVA ایک اَن پڑھ آدمی تھا جس نے اپنے تفکر اور خودشناسی کی بنیاد پر اپنے آپ کو ہلاک ہونے سے بچا لیا۔
’’جو شخص اپنی معرفت سے آگاہ نہیں وہ ہلاک ہوگیا۔ ‘‘
(مولاعلی )

کافر اور خودشناسی
اس سے پہلے کہ ہم اسلام اور خودشناسی کا باہم مطالعہ کریں، آئیے دیکھتے ہیں ایک کافر خودشناسی کے بارے میں کیا کہتا ہے (ویسے بھی ہمارے اذہان انڈین فلموں اور ڈراموں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر ’’راوی‘‘ کا تعلق ہندوستان سے ہو تو روایت کی صحت پر شک کرنے کے بجائے رشک کرنے کا جی چاہتا ہے)۔

١۔ گاندھی اور خودشناسی:
ہندوستان میں قائد اعظم کا ہم عصر اور رقیب گاندھی، آخری وقت میں خودشناسی کا قائل ہوگیا اور اس نے وہ کچھ کہہ ڈالا کہ مسلمان ششدر رہ گئے۔
گاندھی جی نے اپنی کتاب ’’یہ ہے میرا مذہب‘‘ میں کہا کہ :
میں نے اپنی اپنشدوں سے عمر بھر فقط تین اصول سیکھے:
١۔ فقط ایک حقیقت ، اپنے آپ کو پہچاننا۔ فرنگی نے دنیا کو پہچانا اور اپنے آپ کو نہیں پہچانا اسی لئے اپنے آپ کو بھی تباہ کیا اور دنیا کو بھی۔
٢۔ جو اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے وہ خدا اور دوسروں کو بھی پہچان لیتا ہے۔
٣۔ فقط ایک طاقت، اپنے آپ پر تسلط کی طاقت۔ جو شخص اپنے اوپر تسلط رکھتا ہے اس کا دوسری چیزوں پر تسلط صحیح اور درست ہے ۔
گاندھی کے یہ نظریات پڑھ کر گاندھی پر مسلمان ہونے کا شک ہونے لگتا ہے۔

واعظِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

دیکھ لیجئے گاندھی کی وسعت نظری کا نتیجہ! جب ہی تو ہندوستان آزاد ہے اور پاکستان آج تک غلام جہاں اب تک فوجی اور سویلین حکمرانوں کے درمیان ہر دس سال بعد ٹاس ہوتا ہے کہ کون پہلے بیٹنگ کرے گا۔ بہرحال بیٹنگ کسی نے بھی کرنی ہو چھکے عوام کے ہی چھوٹنے ہوتے ہیں یعنی ہاتھیوں کی لڑائی میں گنے کا کھیت تباہ،کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ، بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ وغیرہ وغیرہ۔
جہاں چور بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو رہا کریں یا سزا بامشقت جاری رکھیں ۔
جہاں فقط چوروں کی ترقی ہوتی ہے جو کبھی 10% تھے آج 100% بن بیٹھے ہیں۔
جہاں ایٹمی سائنسدان (عبدالقدیر) جیل میں اور چور روپے پیسے کی ریل پیل میں۔
دوسری طرف ہندوستان کا اپنا سائنسدان (عبدالکلام) ملک کا صدر او ر سر آنکھوں پر۔

٢۔ بے فکری کی سزا:
ویسے اتنا تو دنیاوی صلہ ملنا ہی چاہیے تھا گاندھی جی کو خودشناسی میں اسلامی نظریہ اپنانے پر۔ اگر گاندھی مسلمان ہوتا تو ہم جیسے So Called مسلمان کہاں جاتے۔
فی الحال تو پاکستان کے مسلمان باجماعت تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ہندوستان کی۔ جب سونیا گاندھی سے پوچھا گیا آپ پاکستان پر کب حملہ کر رہی ہیں تو اس نے کہاہمیں پاکستان کو فتح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم ثقافتی طور پر پاکستان کو پہلے ہی فتح کرچکے ہیں۔ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا بسنت کی بہارہم اتنے انہماک سے ہندوانہ رسمیں پوری کررہے ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی مستحب چھوٹ نہ جائے اور اگر کوئی احتیاط واجب لگادے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں احتیاط واجب کی بھی کوئی فکر نہیں کیونکہ انڈین فلمیں ہماری ’’اعلم‘‘ اور انڈین ڈرامے ہمارے لئے ’’فالاعلم‘‘ ہیں ۔
ٹھیک ہی تو کہا تھا اندراگاندھی نے 16دسمبر 1971کو سقوطِ ڈھاکہ والے دن کہ ’ہم نے آج دو قومی نظریہ کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے‘۔
پاکستان کے مسلمانوں میں غیرت ہوتی تو اس جملے پر چلُو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔ خدارا وہ فلمیں تو نہ دیکھیں جس میں کھلم کھلا پاکستان کی مخالفت اور ہمارے دین کی ہنسی اڑائی جارہی ہے۔ نہ جانے ہم کس دن جاگیں گے۔ کیا ہم کسی دوسرے سقوطِ ڈھاکہ کے انتظار میں ہیں؟! ہماری بے حسی تو یہی بتارہی ہے۔

اسلام اور خودشناسی
آئیے سیتا کی کہانیوں اور گیتا کی حکایتوں کے بعد قرآن و عترتٴ کا رخ کرتے ہیں۔

١۔ اسلامی نظریہ خودشناسی:
١۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔
’’عنقریب ہم اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کے نفسوں میں بھی دکھادیں گے۔‘‘ (سورہ حٰم سجدہ۔ ٥٣)
٢۔ امام علی رضا فرماتے ہیں:
’’ جو کچھ وہاں ہے اسے پہچانا نہیں جاسکتا مگر اس کے ذریعے سے جو یہاں ہے۔‘‘
یعنی خدا کو دو طریقوں سے پہچانا جاسکتا ہے ۔
١۔ آفاق کے ذریعے ۔

٢۔ خود انسان کے ذریعے۔
لیکن انسان کے ذریعے پہچاننا زیادہ بہتر ہے‘ آفاق کو پہچان کا وسیلہ بنانے سے ۔
جس حقیقت کا اعتراف گاندھی نے آج کیا، اس کا انکشاف مولا علی نے ١٤ سو سال پہلے ہی کردیا ،یعنی!
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘

٢۔ دلائل:
ایسا کیوں ہے کہ انسان ہی بہتر وسیلہ ٹھہرا خدا کو پہچاننے کا؟ اس کی ٣ اہم وجوہات ہیں :
i۔ آپ سے کوئی پوچھے کہ ایڈیسن کیوں کر پہچانا جاتا ہے آپ فوراً کہیں گے کہ اس لئے کہ اس نے ’’بلب‘‘ ایجاد کیا حالانکہ ایڈیسن نے اس کے علاوہ اور بھی چیزیں ایجاد کیں مگر بلب اس کی بہترین ایجاد ہے، اس لئے ایڈیسن کا بہتر ین تعارف بلب ہے۔ اسی طرح کسی شاعر کو پہچاننا ہو تو اس کا بہترین کلام پڑھا جاتا ہے، کسی ادیب کو جاننا ہو تو اس کی بہترین تصنیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے، کسی مصور کو جاننا ہو تو اس کی بہترین تصویر کو دیکھا جاتا ہے۔ یعنی کسی شخصیت کا تعارف اس کا بہترین کارنامہ ہے اور کسی خالق کا بہترین تعارف اس کی بہترین تخلیق ہے چنانچہ ’انسان‘ خدا کا Master Piece ہونے کے ناطے خدا کا بہترین تعارف ہے۔
ii۔ دوسری اہم دلیل یہ ہے کہ آفاق کے سب اجزائ سب جگہ موجود نہیں۔ مثلاً کوہِ ہمالیہ کے پہاڑ مصر کے صحرا میں نہیں، مصر کے صحرا، انٹارٹیکا کے برفانی تودوں کی جگہ نہیں، انٹارٹیکا کے برفانی تودے لاس اینجلس کے باغات میں نہیں، لاس اینجلس کے باغات بحیرہ عرب کے سمندر میں نہیں، بحیر ہ عرب کے سمندر Amazon کے جنگلات میں نہیں۔
iii۔ تیسری دلیل یہ کہ تمام چیزیں اگر ایک جگہ اکٹھا بھی ہوجائیں تو ان میں انسانی قدریں کہاں سے لائیں گے آپ؟! مثلاً شجاعت، حکمت، محبت، خلوص، شرم و حیا، ہمدردی، یہ تمام جذبات و احساسات انسانی اقدار کا خاصہ ہی ہیں۔ یہ خواص جمادات، نباتات، حیوانات میں نہیں پائے جاسکتے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ انسان و ہ واحد مخلوق ہے جس میں کائنات کی ہرشے کی ہر صفت جمع ہوچکی ہے۔
’’دنیا کائناتِ اصغر ہے اور انسان کائناتِ اکبر۔‘‘
(مولا علی ٴ)
اسی لئے ایک کافر کائنات کے رازوں میں گم ہے اور مومن خود اپنے آپ میں۔

کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سمِ افرنگ کا تریاق
اک نکتہ میرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق۔۔!
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

آپ قرآن اٹھاکر دیکھ لیجئے کہ قرآن الحمدللہ یعنی اللہ سے شروع ہوتا ہے اور والناس یعنی انسان پر ختم ہوتا ہے۔ اور قرآن (جوکہ خودشناسی کا سب سے اہم خزانہ ہے) کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور دوسرا سرا خود انسان کے پاس۔ پس اپنے پاس والے سرے کو پکڑ کر چلتے چلے جائیے بالآخر ایک دن آپ خدا تک پہنچ ہی جائیں گے۔
ارے خدا تو کہتا ہے کہ تمہیں سفر کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی: اپنی طرف کی ڈور پکڑ لو یعنی فقط اپنے آپ کو پہچان لو میرا تعارف میرے ذمے۔ مجھے تم خود سے دور نہیں پاو گے ، ارے میں تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں ۔
نحن اقرب الیہ من حبل الورید (سورہ ق۔ ١٦)

حرفِ آخر
روایتوں میں آیا ہے کہ قیامت سے پہلے سورج مغرب سے طلوع ہوگا ۔
اخباروں میں آیا ہے کہ امریکہ میں سب سے زیادہ لوگ مسلمان ہورہے ہیں۔
ذہن میں آیاہے کہ کہیں روایت کا مطلب یہ تو نہیں کہ امامِ زمانہ علیہ السلام کا اسلامی انقلاب مغرب سے طلوع ہوگا۔ ویسے کچھ علمائ یہی تعبیر کرتے ہیں اس روایت کی۔
ذرا سوچئے اگر Nathiel Barden نے داڑھی رکھ لی، Dr. Milton Erickson نے عمامہ پہن لیا، Richard Bandar نے ہاتھ میں تسبیح لے لی، Anthony Robins نے ماتم کرنا شروع کردیا۔ Jhose Silva نے نمازِ شب شروع کردی اور یہ سب لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے تو ہم جیسے So Called مسلمان کہاں جائیں گے؟ کون نسلی مسلمان ہوگا؛ ہم یا یہ مغرب والے ؟ کون اصلی مسلمان ہوگا؛ یہمغرب والے یا ہم ؟
امام کو کن مسلمانوں کی ضرورت ہوگی؟ اصلی یا نسلی۔ مغرب والوں کی یا ہماری۔۔!
یہ نہ ہو کہ امامٴ کا ظہور ہو تو مغرب والے ہم سے بھی آگے اور ہم ان کی تقلید میں پیچھے۔) ویسے تقلید تو ہم آج بھی کر رہے ہیں۔ آج امامٴ سے چھپ کیمجبوراًکل امامٴ کے ڈر سے جبراً)۔ یہ نہ ہو کہ ہم امامٴ کے مقابل آجائیں اور دوسرے کعبہ کے پاسبان بن جائیں۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔۔!
٭ خود شناسی کی شرائط کیا ہیں؟
٭ خود شناسی کا حقیقی ماخذ کیا ہے علمِ جدید یا علم قدیم۔۔؟
٭ چشمِ باطن کیا ہے۔ تیسری آنکھ یا چھٹی حس ؟
٭ یہ سب کچھ اور بہت کچھ لیکن کچھ دنوں بعد۔ اس وقت تک سوچئے کہ ہم دوسروں کے بارے میں تو کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے ’’کیا ہم اپنے بارے میں بھی سنجیدہ نہیں‘‘؟