خودشناسی کی اہمیت کو جاننے کے بعد آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ خودشناسی کے ادراک کے لئے ہمیں کس ماخذ علم کی طرف رخ کرنا ہوگا۔
ماخذ خودشناسی
خودشناسی میں بلکہ کسی بھی شے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے نسلِ انسانی کے واسطے حضرت آدمٴ سے لے کر اب تک تین بنیادی ماخذ علوم سے استفادہ حاصل کیا جاتا رہا ہے ۔اس کا تذکرہ آیت اللہ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب ’’عقائدِ امامیہ ‘‘ کے دیباچہ میں بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔
آئیے ان پر علیحدہ علیحدہ تفصیلی بحث کریں اور یہ دیکھیں کہ خودشناسی یا کسی بھی شے کے لئے کون سا ماخذ ہمارے بلکہ پورے عالمِ انسانیت کے لئے بہتر ہے۔
(A)علم کے بنیادی ماخذ
علم کے بنیادی ماخذ تین ہیں یعنی:
١۔ وحی الٰہی،٢۔ عقل، ٣۔ سائنس،
i )وحی الٰہی:
یہ علم کا قدیم ترین مگر متنازعہ ترین منبع ہے۔ اس میں اللہ اپنے نبی کو دنیا میں بھیجتا ہے اور پھر وقتاً فوقتاً اپنے اسرارو رموز اس نبی کے دل میں القائ کرتا رہتا ہے۔ دونوں کے درمیان واسطہ فقط ایک فرشتہ حضرت جبرئیل ہوتا ہے۔ نبی کو ان باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے نہ تو کانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی عقل کی ۔ بس خود بخود یہ علم اس کے قلب و ذہن میں داخل ہوتاجاتا ہے اور اس کا ذہن بغیر کسی بحث و تمحیص کے ان باتوں کو قبول کرلیتا ہے۔ ’’وقالوا سمعنا و اطعنا‘‘ کے مصداق نبی ان نظریات کو Varify کروانے کے لئے کسی تجربہ گاہ یعنی Laboratory نہیںجاتا۔
مگر اس کے متنازعہ ترین ہونے کا سبب یہ ہے کہ !
١۔ نبی اس سلسلہ میں اپنی عقل اور حواسِ خمسہ سے کام لیتا ہے یا خدا خودبخود اس تک اپنی باتیں یا نظریات بغیر کسی بھاگ دوڑ اور تفکر کے اس تک پہنچا رہا ہوتا ہے؟ اس کو ’’علمِ وہبی‘‘ یا ’’علم لدُنّی‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
٢۔ دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ سوائے نبی کے باقی تمام انسانیت اس پُراسرار Process سے ناآشنا ہوتی ہے اور مقتدی بن کر نبی کی معيّت میں یہ تمام نظریات قبول کر رہی ہوتی ہے جو بعض اوقات ان کی طبیعت پر گراں گزرتی ہیں جس کے سبب کچھ لوگ قیاس کی بنیاد پر نبی کی تعلیمات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں اور خودساختہ دین بنا کر اس کے مالک و رہنما بن بیٹھتے ہیں۔
ii) عقل:
نبی کو Challange کرنے کی سبب سے بڑی وجہ انسان کا اپنی عقل کو نبی کی تعلیمات پر ترجیح دینا ہے۔ عقل میں انسان اپنے ذہن کو استعمال کر رہا ہوتا ہے مگر حواسِ خمسہ (Vision,Hearig,Smell,Taste,Touch) استعمال نہیں کر رہا ہوتا یعنی اپنے ہتھیاروں میں سے 50% ہتھیار کا استعمال کر رہا ہوتا ہے یوں یہ طریقہ علم وحی سے آگے ہوتا ہے مگر سائنس سے پیچھے نظر آتا ہے۔
یونان کے فلسفی سقراط، افلاطون ، ارسطو، جرمنی کے نٹشے، فرانس کے ڈیکارٹ، اٹلی کے میکاولی، لبنان کے خلیل جبران، انگلینڈ کے بیکن، روس کے لینن و مارکس وغیرہ اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان لوگوں نے وحی الٰہی کا انکار کیا، مذہب کو ذہن کی ’’افیم‘‘ قرار دیا اور جنت کو حقیقت میں ’’بیوقوفوں کی جنت‘‘۔ ان لوگوں نے تو وحی الٰہی اور مذہب کو ’’کمزوروں ‘‘ کی تخلیق کہا کہ چونکہ وہ دنیا میں طاقت و حکمرانی حاصل نہ کرسکے چنانچہ ایک ’’خیالی جنت‘‘ کا خواب لئے اس دنیا میں رہ رہے ہیں یعنی ہمارے محاورے کے مطابق یہ فلسفی حضرات، ’’نقد بڑے شوق سے ادھار اگلے چوک سے‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں (چوک اب جوک Jokeبن کر رہ گیا ہے کہ یہ چوک یعنی موڑ موت کے بعد آتا ہے کہ جس کا یقین نبی ہی دلاسکتا ہے نہ کوئی فلسفی اور نہ ہی کوئی سائنس دان)۔
فلسفیوں کا غرور اس وقت عروج پر پہنچاجب روس میں باقاعدہ ایک جنازہ تیار کیا گیا کہ جس پر ’’خدا‘‘ لکھا گیا۔ اس کی تدفین ہوئی اور کہا گیا کہ ہم نے خدا کو ہمیشہ کے لئے اپنے ملک سے نکال دیا ہے اور اب خداہمیشہ کے لئے مرچکا ہے۔ آج کے بعد کوئی خدا کا نام نہ لے ۔۔۔ اور لوگوں نے 50 سال بعد ہی دیکھ لیا کہ کس طرح سوویت یونین (روس ) کا جنازہ ایک کمزور سی قوم افغانستان کے ہاتھوں نکالا گیا کہ ہمیشہ کے لئے سوویت یونین زندہ درگور ہوگیا۔ Next۔۔۔ امریکہ کے کرتوت بھی اسے اسی منطقی انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
iii) سائنس:
15ویں صدی کے صنعتی انقلاب نے دنیا کی شکل بدل دی گویا پوری دنیا نے حواسِ خمسہ کا Facial کروالیا ہو۔ اس دفعہ سائنسدانوں نے فلسفی حضرات سے بڑھ کر ایک اور بات کہی ہے وہ یہ کہ عقل کو وہی بات قبول کرنی چاہیے کہ جو حواسِ خمسہ کے دائرہ کار میں آرہی ہو۔ لیبارٹری میں Test کی جاسکتی ہو۔ ورنہ یہ نظریہ فقط مفروضہ ہی رہ جاتا ہے حقیقت نہیں۔ چنانچہ سائنس نے ایک طرف تو سائنسی ایجادات کے انبار لگاڈالے تو دوسری طرف مذہب کی دھجیاں بکھیر دیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے جب مغرب میں میڈیا پر مذہب کی اہانت نہ کی جاتی ہو مثلاً چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔۔؟
a)سائنس کی ہرزہ سرائی:
٭ Mercedes والوں نے جب گاڑی بنائی تو کہا ۔۔ ’’اس گاڑی کی ضمانت ہم لیتے ہیں کیونکہ یہ گاڑی خدا نے نہیں بنائی بلکہ ہم نے بنائی ہے۔‘‘لیکن لوگوں نے دیکھ لیا کہ دنیا میں جابجا Mercedes ٹھیک کرنے والوں کے گیراج کھل گئے ہیںاور اس کی جگہ دوسری گاڑیوں نے لے لی۔
٭ Titanic جہاز بنانے والوں نے یہ دعوی کیا کہ اگر خدا بھی چاہے تو اس جہاز کو نہیں ڈبو سکتا، مگر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ یہ جہاز، جس کا نام Titanic یعنی ’’عظیم‘‘ رکھا گیا تھا، اپنے پہلے ہی سفر میں خدا کی بنائی ہوئی چٹان سے ٹکرا کر سمندر کی تہہ میں ریزہ ریزہ، بلکہ خدا کے آگے ’سجدہ ریز‘ ہوگیا۔ جس کو خدا کے سامنے بطور Challange پیش کیا گیا اس کو ایک چٹان نے ’زیر‘ کرلیا اور یوں Titanic اور اس پر غرور کرنے والوں کا تکبر’زیروزبر‘ ہوگیا۔ جس میں Titanic والوں کا غرور ’پیش پیش ‘تھا۔ Titanic پر بننے والی فلم ایک حقیقی کہانی تھی مگر افسوس اس کا اصل پس منظر فلم کے رومانوی منظر میں کھو گیا۔ افسوس کہ لوگ اسے عبرت کی حکایت کے بجائے ایک Love story کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہیں۔
٭ امریکہ کی Ellen نامی ایک Anchor نے اپنے Talk Showمیں کہا کہ ’’میں نے خدا کو خواب میں دیکھا ہے وہ اداس تھا۔ میں نے پوچھا تو اس نے کہا آج کل لوگ مجھ سے نہیں ڈرتے اب تو لوگ میرے معجزات سے بھی Impress نہیں ہوتے کہ سائنسی ایجادات کے سامنے میرے معجزوں کی اہمیت ماند پڑگئی ہے۔ ارے جنابہ Ellen صاحبہ اپنے سائنس دانوں سے پوچھئے سائنسی ایجادات کے پیچھے سائنس دانوں کے تجربات کا کمال ہے یا خدا کی تخلیقات و تمثیلات کا۔۔۔
٭ آبدوز بنائی گئی تو کس کو دیکھ کر۔۔۔ خدا کی پیدا کی ہوئی مچھلیوں کو دیکھ کر۔
٭ ہوائی جہاز بنائے گئے تو کس کو دیکھ کر۔۔۔ خدا کے بنائے ہوئے پرندوں کو سوچ کر۔
٭ کمپیوٹر تخلیق کئے گئے تو کسے دیکھ کر۔۔۔ انسانی ذہن کو پرکھ کر۔
٭ Mercedes میں کون سے اجزا شامل ہیں۔۔۔لوہا، تانبا، تیل، پٹرول۔ یہ کون پیدا کرتا ہے؟؟۔۔Atom bomb بنانے والوں کو چیلنج ہے کہ Atom بناکر دکھائیں۔ ارے یہ تو مکھی بھی نہیں بنا سکتے ارے یہ کیا مکھی بنائیں گے یہ تو اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں اُڑاسکتے۔
b)سائنس کی مذہب سازی
سائنس نے یہیں پہ بس نہ کیا بلکہ اپنے آپ کو مکمل کرنے کے لئے سائنسی تجربات کی بنیاد پر لیبارٹری کی رپورٹس پر مشتمل باقاعدہ ایک مذہب تشکیل دے ڈالا جس کا نام ’’Scien tology‘‘ رکھا۔ اس کا صدر مقام امریکہ میں ہے اور اب تک اس کے 6000پیروکار وجود میں آچکے ہیں سنا ہے امریکہ کے مشہور اداکار اس کے ممبر ہیں۔ یعنی خدا کے مذہب میں انبیائ کی اتباع، اور انسانوں کے مذہب میں اداکاروں کی تقلید۔۔ Wow!
آخری خبریں آنے تک سائنس نے فلسفیوں کو بھی آخری وارننگ دے دی ہے کہ وہ فلسفے کے صرف ان قوانین کو تسلیم کریں کہ جو حواسِ خمسہ کے احاطے میں آتے ہیں اور عقل بے چاری سائنس کی اس بے وفائی پر منہ تکتی رہ گئی
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
(B)ماخذِ علوم کا تجزیہ
اوپر دی گئی بحث کے بعد چلتے ہیں ایک نظر بورڈ پر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں آج کے دور کا So Called فاتح کون ہے۔
ماخذعلوم ذہن حواسِ خمسہ
١۔ سائنس + +
٢۔ عقل + -
٣۔ وحی الٰہی - -
Table تو یہی بتا رہا ہے کہ سائنس جیت گئی عقل اور وحی الٰہی سے۔ مگر آپ کو یہ سن کر حیرت اور خوشی ہوگی کہ خودشناسی بلکہ کسی بھی علم کا سب سے بے اعتبار ماخذ سائنس اور بااعتبار وحی الٰہی ہے۔ آئیے اس کو Retrograde Method سے ثابت کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے تاریخی اور تجرباتی واقعات سے یہ ثابت کرنا کہ تاریخ انسانی میں جتنی Theories سائنس کی غلط ثابت ہوئی ہیں اتنی عقل کی نہیں اور جتنی عقل کی ہوئی ہیں وحی الٰہی کی نہیں بلکہ وحی الٰہی کا ماضی تو بالکل بے داغ ہے یعنی Spotless Track Record۔
آئیے اس کے لئے کچھ مثالیں دیکھتے چلیں۔
i) سائنس کی بے بسی:
٭ جب ہم MBBS کے فائنل ائیر میں تھے تو اس وقت Peptic Ulcer کے مریض کو Antibiotic دینا گناہِ کبیرہ ہوا کرتا تھا اور اگر غلطی سے کوئی یہ کہہ دیتا کہ Peptic Ulcer کسی Infection سے ہوتا ہے تو اس کو بے وقوف سمجھا جاتا۔ آج اسی Peptic Ulcer کے لئے ایک نہیں، دو نہیں پوری تین Antibiotics دی جاتی ہیں فقط ایک جراثیم Helicobecter pylori کو مارنے کے لئے۔
٭ ایک زمانے میں Appendix کو ایک اضافی عضو قرار دے کر ہر ممکن انسان کے جسم سے نکالنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج پتا چلا ہے کہ اسی Appendix میں کچھ بیکٹریا انسان کے جسم کے لئے کچھ مفید مادے تیار کرتے ہیں۔
٭ Newton کے قوانینِ حرکت کو برسوں پڑھایا جاتا رہا اور Einstein نے اپنی Theory of relativity پیش کر کے نیوٹن کے قوانینِ حرکت کو رد کر دیا۔ اور بے چارا نیوٹن اپنا سامنہلے کر رہ گیا۔ سائنس میں یہ اصول عام ہے کہ جو جتنا دوسرے قوانین کو غلط ثابت کرے وہ اتنا ہی بڑا سائنس دان۔
ii) عقل کی بدحواسی:
خود ساختہ علوم انسانی کے دوسرے اہم رکن یعنی عقل کے ٹھیکیداروں یعنی فلسفیوں کے کرتوت بھی دیکھتے چلیں۔
٭ سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر انہ صفات رکھتا تھا گو کہ مسلمان نہ تھا اور نہ ہی کسی مذہب کا پیروکار۔ اس کا شاگرد افلاطون اس کے نظریات کو لے کر آگے بڑھا لیکن افلاطون کے شاگرد ارسطو نے گستاخی کا مظاہرہ کر کے علی الاعلان کہا کہ میں سقراط کے نظریات کو صحیح نہیں سمجھتا۔ ارسطو نے اپنے روحانی دادا یعنی سقراط کو آنکھیں دکھانی شروع کیں تو اسے اس وقت کی پہلی یونیورسٹی سے استعفی دینا پڑا اور پھر اپنے نظریات کے حامیوں کی مدد سے ایک نئی یونیورسٹی Lyceum کی بنیاد رکھی۔ یوں فلسفہ میں اختلاف کی بنیاد رکھنی پڑ گئی۔
٭ یہی کچھ فرائڈ کے بعد آنے والوں نے اس کے ساتھ کیا اور اس کی Theories کو اس کی بچپن کی محرومیوں کا شاخسانہ قرار دیا۔ یعنی فرائڈ نے بحیثیت مریض نفسیات کے مفروضات ترتیب دیئے نہ کہ ڈاکٹر یا محقق بن کر۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ لوگ ساحر لدھیانوی کی شاعری کو اس کے بچپن کی احساسِ محرومی سے موسوم کرتے ہیں
میں نے تو چاند ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو تو رات کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
٭ معاشی میدان کو بھی دیکھ لیجئے؛ جب امریکی مفکر Capitalism کا راگ الاپ رہے تھے، اس وقت سوویت یونین کا Socialism جوانی کی انگڑائیاں لے رہا تھا۔ لیکن ایک Unsung Hero کی طرح سوشلزم اپنے وقت سے پہلے ہی بغاوت کے کینسر میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ سنا ہے امریکہ کے Capitalism کو بھی GFCیعنی Global Financial Crisis کا انفیکشن ہوگیا ہے۔ یہ Septicہوکر جسم میں پھیل کر اس کی موت کا سبب کب بنتا ہے، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
iii) وحی کی بے نیازی:
اس دوران جب سائنس و عقل کے ماننے والے اپنے ہی نظریات کاپوسٹ مارٹم کررہے تھے، وحی الٰہی کے ماننے والے اپنے چہروں پر ایک لطیف مسکراہٹ لئے لوگوں کو حقانیت کی طرف بلارہے تھے۔ کبھی آپ نے سنا نوحٴ نے آدمٴ کو جھٹلایا ہو۔ عیسی ٴ نے موسی ٴ کی تکذیب کی ہو، رسول ۰ نے گذرے پیغمبروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہو۔ بلکہ آنے والے پیغمبر نے گذرے ہوئے انبیائ کا نام عزت و احترام سے لیا اور ان کی باتوں کی تصدیق بھی کی۔
الحمدللہ سائنس اور عقل نے جب بھی وحی الٰہی کو غلط ثابت کیا، ہمیشہ منہ کی کھائی لیکن اس کے باوجود وحی الٰہی سے اپنے دونوں رقیبوں کو عزت دی بلکہ ان کو استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ،مثلاً ۔۔
a)وحی اور عقل
اصولِ کافی کے پہلے باب ’’کتاب العقل‘‘ میں ہمارے ساتویں امامٴ سے روایت ملتی ہے۔
’’خدا کی دو حجتیں ہیں اس کے دو پیغمبر ہیں۔ ایک پیغمبر باطنی ہے وہ انسان کی عقل ہے اور دوسرا پیغمبر ظاہری ہے۔ ‘‘
دوسری روایات میں ملتا ہے ۔
’’عقل مند کا سونا جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
’’عقل مند کا کھانا جاہل کے روزے سے بہتر ہے۔‘‘
’’ عقل مند کی خاموشی اور سکون جاہل کی حرکت سے بہتر ہے۔‘‘
’’خدا نے کوئی پیغمبر معبوث نہی کیا مگر یہ کہ پہلے اس کی عقل کو اس طرح کمال کی حد تک پہنچایا کہ ا س کی عقل اس کی ساری امت سے زیادہ کامل تھی۔ ‘‘
اللہ تعالی قرآن میں رسول ۰ کی خلقت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’ جوان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور ان کو کتاب و عقل کی باتیں سکھاتے۔‘‘ (سورہ جمعہ آیت ٢)
b)وحی اور سائنس
قرآن کہتا ہے کہ انسان کے حواسِ خمسہ اہم ہیں بلکہ جو لوگ عقل اور حواسِ خمسہ کو استعمال نہیں کرتے قرآن نے ان کو چوپائے کہا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔
’’یقینا جن و انس کے بہت سے گروہوں کو ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ ایسے دل(اور ایسی عقل) رکھتے ہیں کہ جن سے( وہ سوچتے نہیں اور) سمجھتے نہیں اور ایسی آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ایسے کان رکھتے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ چوپاوں کی طرح ہیں بلکہ وہ زیادہ گمراہ ہیں (اور ) وہ غافل ہیں۔ (کیونکہ ہدایت کے تمام اسباب میسر ہونے کے باوجود وہ گمراہ ہیں) (سورہ اعراف آیت ١٧٩)
قرآن تو بار بار دقیق مشاہدہ کی تاکید کر رہا ہے اور آنکھوں کا صحیح مصرف بتلا رہا ہے۔
’’تو پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھے کوئی شگاف نظر آئے گا؟ پھر دوبارہ آنکھ اٹھا کر دیکھ تو (ہر بار تیری) نظر ناکام اور تھک کر تیری طرف پلٹ آئے گی۔‘‘
بلکہ قرآن کانوں اور آنکھوں کے استعمال نہ کرنے والوں کو ناکامی کا مژدہ سنا رہا ہے صم بکم عمی فھم لا یرجعون (سورہ بقرہ) ’’بہرے، گونگے، اندھے ہیں اور وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ
’’یعنی وحی سر ہے تو سائنس و عقل اس کے دونوں ہاتھ!‘‘
C۔ وحی الٰہی کا وارث کون ؟
چلیے ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ وحی الٰہی ہی اصل میں خود شناسی یا کسی بھی علم کا اصل منبع ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علم وحی الٰہی کے دعویداروں میں بہت سے مذاہب ہیں اور ہر مذہب میں کئی گروہ یا فرقے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کون سا مکتبہ فکر حق ہے۔
یہودیوں نے موسی کو آخری نبی کہا اور خود کو حاملانِ وحی الٰہی کا دعویدار ۔ لیکن ان کا یہ دعوی دھرا کا دھرا رہ گیا جب عیسی آئے۔ چنانچہ گیند عیسائیوں کے کورٹ میں چلی گئی اور یوں عیسائی اس علم کے دعویدار بن بیٹھے۔لیکن حضرت محمد مصطفی ۰ کے آنے کے بعد ان کے ارمانوں پر بھی اوس پڑ گئی اور گیند ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے کورٹ میں آگئی۔
لیکن افسوس مسلمانوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور اس علم کے حصے بخرے کر دیئے اور ہر گروہ اپنے اپنے حصے کا مالک بن بیٹھا ۔ اور یہ فرقے ٢ نہیں ٣ نہیں بلکہ ٧٣ فرقوں میں بٹ گئے۔
i) فرقہ واریت کی وجہ:
خودشناسی کا متلاشی چاہے جتنی بھی تڑپ لئے ہوئے ہو، اس علم کو حاصل کرنا چاہئے۔ جب تک صحیح منبع تک نہ پہنچے گا دھوکہ کھائے گا۔ چنانچہ بہت احتیاط سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں اصل حاملانِ علمِ وحی یا وارث کون ہیں؟
آپ یوں سمجھ لیجئے اسلام کی حد تک تو وحی الٰہی بلاشبہ ایک غیر متنازعہ مسئلہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ’’صاحبِ وحی‘‘ پر متفق ہیں لیکن مسئلہ رسول۰ کے بعد کھڑا ہوا کہ’’ محافظانِ وحی ‘‘ کون ہیں یا حقیقی وارثِ وحی الٰہی کون ہیں۔
٭ ایک مکتبہ فکر نے کہا محافظانِ وحی 1,24,000 اصحابِ رسول۰ ہیں جو کہ غیر معصوم ہیں۔ دوسرے مکتبہ فکر نے کہا محافظانِ وحی 12 ائمہ ہیں جو کہ معصوم ہیں۔
ان 12 ائمہ یا محافظانِ وحی و شریعت کا تذکرہ دونوں مکتبوں کی کتابوں میں موجود ہیں یہاں ہم اول الذکر گروہ کے حوالہ جات کا تذکرہ کر رہے ہیں تاکہ بات زیادہ قابلِ قبول ہوجائے۔
ii) وارثِ وحی الٰہی کا فیصلہ:
٭ صحیح بخاری جلد ٣ صفحہ ٨٩٥ ۔
’’میرے بعد١٢ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔‘‘
٭ ینابیع المودۃ صفحہ ٩٦ (مولف سید سلیمان قندوزی حنفیہ نقشبندیہ) میں ان بارہ آئمہٴ کے نام بھی درج ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کے بعد محافظِ شریعت نہ 1,24,000 ہیں نہ ٥٩ (اسماعیلی)، نہ ٣٥ (بوہری) ،نہ ١٦(فاطمی خلفائ )اور نہ ہی ٤ !!
نہلے پہ دہلا یہ کہ اس گروہ کے سربراہ یعنی حضرت علیٴ کو شروع ہی سے متنازعہ بنادیا گیا حالانکہ حضرت علیٴ نے کئی مواقع پر اس کا فیصلہ کردیا تھا کہ رسول ۰ کے بعد محافظِ شریعت آپٴ ہی ہیں ، مثلاً
٭ ’’جنگِ صفین کے موقع پر آپٴ نے کہا ’’خدا کی قسم مسلمانوں میں ٧٣ فرقے ہوکر رہیں گے اور بدترین فرقہ وہ ہوگا جو میرا مخالف ہوگا‘‘۔ (تاریخ طبری)
٭ آپٴ نے فرمایا: ’’تمام علوم قرآن میں بندہیں اور قرآن کا علم بسم اللہ الرّحمن الرّحیم میں اور بسم اللہ کا علم ب میں ، ب کا علم ب کے نقطہ میں اور میں ہی ب کا نقطہ ہوں‘‘۔
٭ ایک اور جگہ آپٴ نے فرمایا:
’’علم ایک نقطہ تھا جس کو جاہلوں نے پھیلادیا۔‘‘
سچ کہا مولا علیٴ نے۔ کچھ جاہلوں نے اس نقطہ کو افراط سے کام لیتے ہوئے اوپر تک پھیلادیا اور علیٴ کو (نعوذ باللہ) خدا بنادیا۔ ان کو ’نصیری‘ کہا گیا اور وہ دین سے اس طرح خارج ہوگئے جیسے کمان سے تیر۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے علیٴ کو اتنا گرا دیا کہ علیٴ کو کافر (نعوذ باللہ) قرار دے دیا۔ ان کو ’خوارج‘ کہا گیا یہ بھی دین سے اس طرح خارج ہوگئے جیسے کمان سے تیر ۔
(ویسے اس طرح کا ایک گروہ ’طالبان‘ کے نام سے افغانستان اور پاکستان میں سرگرم ہے جو اپنے سوا سب کو کافر سمجھتا ہے۔ جو یہود و نصاری کو تو شاید اتنی بیدردی سے نہ قتل کرتا ہو جیسے مومنین او رشیعیانِ علیٴ کو ذبح کرتاہے۔ جس کا دستاویزی ثبوت Internet کی video clips کی صورت میں موجود ہے)
بہرحال علیٴ کو ان کے اصل مقام پر رکھنے والے ہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں علمِ حقیقی سے سیراب ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھو ں نے نا صرف محافظانِ شریعت کو پہچان لیا ہے بلکہ دین کے رہنماوں کو بھی اچھی طرح جان لیا یعنی ’’محبانِ اہلبیتٴ!!‘‘
D۔حرفِ آخر
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا شخص کو لو بلڈ پریشر کی گولی دے دی جائے اور ذیابیطس کے مریض کو شوگر زیادہ کرنے کی دوا تو مرض بجائے کم ہونے کے بڑھتا ہی جائے گا چاہے مریض، مرض کے خاتمے میں کتنا ہی پرخلوص کیوں نہ ہو۔ منزل پر پہنچے کے لئے فقط جوش ہی نہیں ہوش کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
خودشناسی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے اس گھر کی طرف رخ کیا جائے جہاں سے کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ گاندھی جی، Dr. Milton Erickson, Anthony Robins, Richard Bandler اور Nathniel Brander نے خودشناسی کا عشر عشیر بھی اب تک نہیں پایا جو درِ اہلبیت کے چاہنے والوں نے پالیا ہے۔
ہمارے لئے تو بس ایک ہی نام کافی ہے اور وہ ہے ۔۔ ’’اولنا محمد۰، و اوسطنا محمد۰، وآخرنا محمد۰ ۔‘‘ ہاں کسی اور کی کوئی بات اہلِ بیت کی تعلیمات پر پوری اتری تو ضرور قبول کریں گے لیکن میزان ’’تعلیماتِ اہلبیتٴ‘‘ ہی ہوگا۔ ورنہ ساری زندگی کا سفر انگریزی کے Suffer میں تبدیل ہوجائے گا اور منزل پھر بھی نہیں ملے گی
لوٹ آئیں تو نہیں پوچھنا بس دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی یہ راستہ کوئی اور ہے
نوٹ:
ہاں آخری بات! علوم کے انتخاب میں احتیاط کیجئے ’’ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ نہ کھائیے۔ طبیعت زیادہ خراب ہو تو مستند ’عالمِ دین‘ سے رجوع کیجئے۔ تمام علوم کو بدنیتوں (ناصبیوں) سے دور رکھیے!‘‘
(خودشناسی کے لئے چشمِ بصیرت کیونکر ضروری ہے؟ یہ کیا ہے اور کیسے بیدار ہوتی ہے؟ یہ سب کچھ اور بہت کچھ لیکن کچھ دنوں بعد ۔ اس دوران اس بات کا اہتمام کیجئے اپنے تمام علوم کا قبلہ علیٴ کی ذات کو قرار دیں۔ جس طرح مسلمانوں نے اپنے تمام سجدوں کا قبلہ ، کعبہ کو قرار دیا ہے)۔