خود شناسی(پہلی قسط)
  • عنوان: خود شناسی(پہلی قسط)
  • مصنف: ڈاکٹر علیم شیخ
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:2:48 1-10-1403

خود شناسی کی تعریف
’’انسان کا اپنے مقام ، اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داری سے آگاہ ہونا۔‘‘
یعنی۔۔
١۔ انسان اس کائنات میں کیا مقام رکھتا ہے؟ وہ خالق ہے یا مخلوق؟ مخلوقات میں اس کا درجہ کیا ہے؟ ایک انسان کس طرح دوسری مخلوقات سے مختلف ۔۔ یا معتبر ہے؟
٢۔ انسان کے اندر کیا کیا صلاحیتیں ہیں؟ کیا ہر انسان کو ان صلاحیتوں کا ادراک ہے؟ کیا وہ ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر رہا ہے؟ اور صلاحیتوں کے استعمال میں اس نے زمان و مکان و شخصیات کی اہمیت کو مدِنظر رکھا ہے؟
٣۔ ہر انسان نہ صرف اپنے آس پاس کے ماحول بلکہ آس پاس کی مخلوقات، بشمول دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے۔ کیا انفرادی حوالے کے ساتھ ساتھ انسان کی اجتماعی ذمہ داریاں بھی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر اس کا کوئی خدا ہے تو خدا ہونے کے ناتے اس انسان پر خدا کے کوئی حقوق ہیں یا نہیں؟ دیگر مذاہب، مغرب اور سب سے آخر میں اسلام ’’خودشناسی‘‘ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ آئیے! ان سب باتوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ایک Break، اور اس Break میں کچھ گلے شکوے، تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے انسان کی خودشناسی سے ناآشنائی نے انسان کو کیسا درندہ بنا دیا ہے ۔۔!

شکوہ

١۔ سائنسی شکوہ:
بلاشبہ موجودہ دور، جدید علوم اور سائنس کا دور ہے کہ جس نے ایک طرف ایٹم کو توڑ کر ایٹم بم بنا ڈالا تو دوسری طرف اپنی دنیا کو چھوڑ کر نئی کہکشاوں کا راستہ نکال ڈالا۔ TV، own کریں یا on کریں (دونوں الفاظ غالباً صحیح ہیں) تو سارے ممالک آپ کے گھر کی دہلیز پر، نیٹ Connect کریں تو آپ دوسرے ممالک کی سرحدوں پر، فون پر بات کریں تو لگتا ہے ڈرائنگ روم میں بیٹھے کسی سے گپ شپ کر رہے ہیں، ہوائی جہاز میں بیٹھیں تو لگتا ہے کہ دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، پوری دنیا کا سفر ایک دن میں گویا زمین کی رفتار سے گھوم رہے ہیں، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ، لیکن ۔۔۔ کن فیکون کے اشتباہ میں پڑنے والے اور سائنس کے حمایتیوں کو اس کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے کہ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں اسی سائنسی دور میں ہوئیں۔ جن قوتوں نے سائنس کی بدولت ایٹم بنا ڈالا انھیں قوتوں نے اسے دوسروں پر گرایا۔ ہیروشیما، ناگاساکی پر حملہ کرنے والوں کے گویا منہ کو خون لگ گیا، جیسے لوگوں کو حرام اور پھر
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
کے مصداق جہاں سینگ سمائے وہیں یہ درندے چل پڑے اور جہاں جہاں گئے وہاں وہاں انسانیت کو اپنے تکبر اور ہوس کے ناپاک قدموں تلے روند ڈالا اور انسانیت کا ایک ایسا نیا تعارف کروایا کہ یہ ’’بدعت‘‘ پوری دنیا میں ’’اوّلیاتِ امریکہ‘‘ کے طور پر بطورِ ثواب جدید ملوکیت کے Syllabus میں بحیثیت ’’لازمی سوال‘‘ کے شامل کردی گئی۔ کبھی افغانستان میں توپوںکی گھن گرج، کبھی عراق میں کیمیکل علی کی Search اور کبھی پاکستان میں ڈرون حملوں کی Surge۔ بظاہر مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی پوست کی کاشت، عراق کا تیل اور پاکستان کا ایٹمی پلانٹ اگر بطور ’’مالِ غنیمت‘‘ ہاتھ لگ جائے تو ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ یا ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ یا ’’ایک تیر سے دو شکار‘‘ یہاں کے عوام کی Tip (اب آپ اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق کچھ بھی سمجھ لیں) کے مصداق سب جائز ہوگا۔ ویسے بھی ان کے نزدیک محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ اور اگر یہ جنگ دہشت گردی کی ہو تو پھر یہ ایک Holy warمیں تبدیل ہوجاتی ہے، جس میں مرنے والا دہشت گرد اور جیتنے والا بہت کچھ بلکہ سب کچھ۔ اس سے پہلے آپ +,-=0 کا نتیجہ نکالیں۔ آج کے دور کے انسان کے باقی ’’کرتوت‘‘ بھی سن لیجئے پھر اکٹھا رزلٹ نکالیے گا۔

٢۔معاشرتی شکوہ:
معاشرتی حوالے سے اگر بات کریں تو معاشرہ گویا چڑیاگھر بن چکا ہے یا پھر عجائب گھر۔ بہرحال دونوں گھومنے کی جگہیں ہیں لیکن ساتھ ساتھ عبرت بھی مل جائے تو مالِ غنیمت کی طرح ایک پنتھ دو کاج ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ نیویارک کی سڑک پر ایک شرابی نشے میں دُھت ہے تو سہراب گوٹھ کے فٹ پاتھ پر ہیروئنچی۔ بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہ Weekend پر شراب پیتا ہے اور یہ Weekdays پر ہیروئن۔ بیروزگاری کی یہی تو ایک خوبی ہے کہ working day، weekend میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
Red Signals پر رکنا گویا ’’گناہِ کبیرہ‘‘ اور کانسٹبل کے ہاتھ پر ٹھہرنا ’’مکروہ تحریمی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں وقت اور کھانے دونوں کا ضیاع واجب ہے۔ غیبت کے بغیر گفتگو ایسی جیسے قورمہ میں نمک نہیں اور کلام میں خود پسندی کا نہ ہونا ایسا ہے جیسے بریانی کے ساتھ رائتہ اور French fries کے ساتھ کیچپ مفقود، اور دوسروں کی ٹانگ کھینچنا ایسا ہی جیسے نہاری کی گریبی یا آئس کریم کی Chocolate Topping۔ چلے چھوڑیں۔۔!

٣۔ معاشی شکوہ:
معاشی حوالے سے بات کریں تو عجیب و غریب (جس میں عجیب کم غریب زیادہ) صورتحال ہے۔ قحط سالی ایسی کہ صومالیہ شرما جائے، خشک سالی ایسی کہ ایتھوپیا پناہ مانگے۔ پانی کے نلکوں کے ساتھ اب تو آنکھیں بلکہ خون بھی خشک ہوگیا ہے۔
پہلے مرغی دال سے مہنگی پھر برابر یعنی ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ اس کے بعد دال اوپر مرغی نیچے۔ ایک زمانے میں برطانیہ میں قحط پڑا، لوگ روٹیوں کو ترس گئے، ملکہ برطانیہ کو بتلایا گیا تو اپنی دھن میں مگن ملکہ کہنے لگیں: ’’تو کیا ہوا؟ روٹی نہیں ہے تو کیک کھالو‘‘۔ اسی قسم کے کیک والے، رکیک ریمارکس ہمارے X-Prsident (یعنی Exسابقہ) بھی دے چکے ہیں کہ ’’دال مہنگی ہوگئی ہے تو کیا ہوا لوگ مرغی کیوں نہیں کھاتے‘‘۔
مہینے کا سودا لینے جائیں تو لگتا ہے اپنا ولیمہ کر رہے ہیں۔ یعنی اب مہینہ کے سودے کے لئے سال بھر کی کمیٹی (بیسی) ڈالنے پڑے گی۔ بیسی ڈالنے کا سوچا تو لوگوں نے کہا جتنے پیسے پچھلے سال بیسی کھلنے پر ملے تھے اتنے ہی پیسے اب ہر مہینے دینے ہوں گے۔ سنا ہے کہ ارجنٹائن میں ایک دفعہ معاشی بحران آیا تو ایک شخص روٹی لینے نکلا۔ دکان پر پہنچا تو پتا چلا کچھ پیسے کم ہیں۔ چنانچہ گھر گیا اور بقیہ پیسے لے کر آیا۔ جب وہ دوبارہ دکان پر آیا تو پتا چلا کہ روٹی کی قیمت اب اور بڑھ گئی ہے۔ اب یہ کچھ صورتحال پاکستان میں بھی ہونے والی ہے۔

٤۔ خاندانی شکوہ:
خاندانی حوالے سے با ت کریں تو فخریہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے مغرب کے خاندانی طرزِ زندگی کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ، کم از کم اس میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
گھر کے ایک کمرے کے ایک کونے کی ایک ٹیبل پر بیٹھا ہوا لڑکا کینیڈا میں بیٹھی ’’شخصیت‘‘ کے ساتھ chatting کر رہا ہے۔ اس لڑکے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ برابر والے کمرے میں اس کی ماں کی شوگر کی گولیاں کون سی ہیں۔ ہاں اسے یہ ضرور معلوم ہوگا کینیڈا میں بیٹھی ’’شخصیت‘‘ کو کون سی چاکلیٹ پسند ہے۔ اس کو تو یہ بھی نہیں معلوم اس کے باپ کی بلڈ پریشر کی گولیاں ختم ہوگئیںہیں، لانے کا کہو تو کہتا ہے رات بہت ہوگئی ہے اور 12 بجے کے بعد دکان بند ہو جاتی ہے (اور ویب سائٹ open)۔ اس کے پاس تو ماں کے پاس بیٹھنے کو 5 منٹ بھی نہیں ہیں۔ وہ ماں جو رات گئے اس کی راہ تک رہی ہوتی ہے کہ اس کا شہزادہ آئے تو اس کو گرم گرم روٹی بناکر کھلائے اور صاحب زادے آکر کہتے ہیں ’’رہنے دو ماں میں دوستوں کے ساتھ نکڑ سے بن کباب کھاکر آیا ہوں‘‘۔ اس لڑکے نے تو ماں کو کنیز بھی نہ سمجھا کہ 5 منٹ بیٹھ کر ماں سے اس کا حال پوچھ لیتا۔ اگر خود کینیڈا میں ہوتا تو شاید اتنا ہی ٹائم دے پاتا یا شاید اس سے 5 منٹ زیادہ۔
اب آئیے اپنے نکتے کو واضح کرنے کے لئے ایک مقامی روایت بھی سناتے چلیں۔ امریکہ میں ایک شہر ہے کلفٹن۔ کراچی میں بھی ایک علاقہ ہے جسے کلفٹن کہتے ہیں۔ دونوں میں اب زیادہ فرق نہیں رہا۔ بس اتنا کہ امریکہ کا کلفٹن ’’C‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور کراچی کا کلفٹن ’’ک‘‘ سے۔ بہرحال اس ’’ک‘‘ سے کلفٹن کے ایک گھر میں کسی بیٹے کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ لاش تین دن تک پڑی رہی۔ بیٹا سمجھ ہی نہیں پایا کہ یہ لاش کی بدبو ہے کہ اس کے گل کی خوشبو۔ پڑوسیوں نے آکر کہا تمہارا باپ مرگیا ہے۔۔ (جیسے اس کا ضمیر، جس کے مرنے کا اسے ابھی تک پتا نہ چلا) کسی نے کہا دفنا دو وگرنہ پولیس تمہیں شک میں پکڑ کرفنا کردے گی۔ بیٹا (خوفِ خدا کی بجائے) خوفِ پولیس میں باپ کو دفنا آتا ہے اور یوں سوئم کے دن باپ کی تدفین ہوتی ہے اور لوگوں نے تیجے کے چنے تدفین کے دن کھائے، چلو کچھ بچت تو ہوئی بیٹے کی نہیں چنوں کی۔

٥۔انفرادی شکوہ:
ان تمام عجائبات کے درمیان زندگی گزار گزار کر ایک اچھا بھلا انسان بھی نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ اور آس پاس کے ماحول کا انسان پر کیوں اثر نہ ہو،

کیوں گردشِ ایام سے گھبرا نہ جائے دل
انساں ہوں کوئی پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

ایسے ماحول میں نہ صرف ہوش اڑ جاتے ہیں بلکہ نیند بھی ۔۔ بچہ گھبرا جائے تو دادی جی کی لوریاں سلا دیتی ہیں اور دادی خود گھبرا جائیں تو پھرا ن کو نیند کی گولیاں ہی سلا سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ دوائیاں جو کبھی ڈاکٹرز کو بڑی مشکل سے ذہن میں رکھنی پڑتی تھیں اب بچے بچے کی زبان پر بلکہ نوکِ زبان پر، Diazopam Lexotanil, Ativan, Valium, Dorimicum وغیرہ، اب نہ صرف میڈیکل اسٹور پر بلکہ کچن کے ڈور پر بلکہ سامنے چینی، پتی کے ڈبے اور ڈبوں پر ان گولیوں کے پتے کہ رات کی ایک کپ چائے کے ساتھ دو نیند کی گولیاںبالکل مفت۔ سنا ہے اب تو میڈیکل اسٹور والوں نے ان گولیوں کی Sale لگا دی ہے اور آخری خبریں آنے تک بات ’’Buy one get one free‘‘ کی Deal تک پہنچ گئی ہے ۔
اور اگر یہ گولیاں سکون نہ دیں تو پھر 11 روپے والی گولی جو کافی ہے عمر بھر کی نیند سلانے کے لئے۔ او رویسے بھی کچھ لوگوں کے لئے دوا کی نہیں آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مرض حد سے آگے بڑھ جائے تو عضو کاٹ دینا بھی بہتر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کس کس عضو کا علاج کرایا جائے، بہتر ہے خود کو Kill کرلیا جائے۔ یعنی ’’خودKilly‘‘ (خود کشی)۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اور اس کھیل میں امرائ غربائ سے بازی لے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا آخر
امیر شہر نے ہیروں سے خودکشی کرلی

٦۔ حاصلِ شکوہ:
کہاں تک لکھیں کہیں آپ دل پہ نہ لے جائیں، ڈر لگتا ہے اب تو سچ لکھتے ہوئے۔ لیکن کیا کریں ہماری داستاں ہے ہی اتنی عجیب کہ سنتا جا شرماتا جا۔
ایسے میں اگر کوئی کسی کے کان میں سرگوشی کرے کہ ’’اللہ سے ڈرو، قیامت قریب ہے‘‘ تو سننے والا کہتا ہے کہ میں کیسے اللہ سے ڈروں کہ
وہ دنوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا۔۔۔۔!
۲ٰلیکن ’’سلام‘‘ اس مومن پہ کہ ان مشکل حالات میں بھی اس کی زبان پر بس یہی ہے : الهی عظم البلاء و برح ۔۔
’’خداوندا آزمائشوں کی یورش ہے، رسوائی کا سامان، پردے مٹ چکے۔۔ امید منقطع ہوگئیں۔۔! زمین تنگ ہوگئی۔۔ آسمان کے دروازے بند ہوگئے۔ اب تیراہی سہارا ہے۔۔ تو ہی فریاد رس ہے۔ تیرا ہی سہارا ہے ۔۔ تمام سختیوں اور آسانیوں میں۔‘‘ (دعائے فرج)

جوابِ شکوہ
١۔ ایک اشکال:

ان حالات میں اس ترقی یافتہ دور کا جدید طرزِ زندگی کا حامل، سائنسی علوم سے آشنا، نت نئی آسائشوں سے استفادہ حاصل کرنے والا انسان یہ سوچتا ہے ۔۔کیا ’’علم ‘‘ غلط تھا؟
جواب ہے علم کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ ’’العلم نور‘‘ علم ایک نور ہے، علم ایک روشنی ہے، علم ایک نشانِ راہ ہے، علم رہبر ہے، علم تو ہادی ہے، علم سیڑھی ہے عروج تک پہنچنے کی۔ علم تو معرفت کی منزل کا نشان ہے۔ ہاں علم کا استعمال کرنے والا غلط تھا، بلکہ غلطی پر تھا اور ہے ! بچے کے ہاتھ چھری دے کر آپ اس سے یہ توقع کریں کہ وہ اس سے سبزی کاٹے گا تو جناب وہ بچہ Lady finger تو نہیں بلکہ Finger کاٹ سکتا ہے۔ اور وہ Finger آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔۔

٢۔ بندر اور ڈارون:
سائنس انسان کے ہاتھ میں ایسی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل، جس کو وہ کبھی اپنے سر پر مارتا ہے اور کبھی دوسروں کے سر پر (امریکہ کی صورت میں ہمیشہ دوسروں پر)۔ دیکھ لیجئے اس وقت یہ بندر کا تماشہ عروج پر ہے اور انسان کی بندریت بھی اپنے جوبن پر۔ بندر کی مثال پر آپ ناراض ہوں یا نہ ہوں، Darwin اپنی قبر میں پڑا مسکرارہا ہوگا کہ آج دنیا نے میرے ’’نظریہ بندریت‘‘ پر یقین کرہی لیا کہ انسان بندر تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ حیران ہورہا ہوگا کہ میں نے تو کہا تھا کہ انسان بندر تھا اور ترقی کرتے کرتے انسان بنا لیکن یہ کیا ہوا۔۔؟ انسان ترقی کرتے کرتے اچانک بندر کیسے بن گیا۔ یعنی یہ ہوئی Reverse Darwin Theory۔ کہتے ہیں کہ ڈارون کا باپ اس کو پادری بنانا چاہتا تھا اور وہ بن گیا سائنسدان، بلکہ بندروں کا ترجمان۔
اس موقع پر رسول ۰ کی روایت یاد آرہی ہے جس کا مفہوم ہے کہ میرے بعد میرے منبر پر بندر ناچیں گے۔ یعنی انسان تو بہت پہلے ہی بندر بن چکا تھا اور یہ بندریت اس کو اسلام کی حقانیت اور خود شناسی کو چھوڑ نے پر سزا کے طور پر ملی تھی۔ (خداکا شکر ہے قوم عاد و ثمود کی طرح انسان حقیقت میں بندر کی شکل میں اب تک ظاہر نہیں ہوا۔ یہ رحمت خداوندی ہے اس رحمۃ للعالمین۰ کے صدقے جس نے عرب کے بدووں کو سدھارا بلکہ سدھایا اور جانور سے انسان بنایا)۔
F.A.Q`s
Q-1: کیا سائنس نے انسان کو کچھ نہیں دیا؟
A-1: کسی حد تک صحیح ہے لیکن اس کے بدلے بہت کچھ لیا اور انسان کو Bankrupt کر دیا۔ سائنس کی دَین، امریکہ کی give & takeکی طرح ہے، جس میں give زیادہ اور take کم ہوتا ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔ سائنس اور جدید علوم کے حمایتوں سے معذرت کے ساتھ کہ سائنس نے انسان کو نکھٹو اور نکما بنا دیا ہے، جسمانی اور ذہنی دونوں زاویوں سے۔ پیدل چلنا انسان کے لئے اتنا دوبھر ہوچکا ہے کہ ڈرائنگ روم تک جانے کے لئے بھی جی چاہتا کہ رکشہ کرلیں۔ ہم لوگ AC کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بجلی چلی جائے تو خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ TV ہو یا Stereo ریموٹ کے بغیر کام نہیں چلتا، بلکہ اب تو ریموٹ والے پنکھے بھی آگئے ہیں۔ اب دکاندار کے بقایا پیسوں کو بھی گننے کا جی نہیں چاہتا کہ گھر جاکر Calculater استعمال کرلیں گے۔ پہلے 10، 10 فون نمبر ذہن نشین ہوتے تھے، اب اپنا ذاتی فون نمبر یاد نہیں ہو پاتا کہ اگر کوئی مانگے تو نمبر دینے کے بجائے Miss call دے دیتے ہیں۔ پہلے بہوئیں سل بٹے سے خود مصالحہ بنالیا کرتی تھیں پھر Grinder نے بہووں کے کچن کے Visits کم کر دیئے۔ بلکہ اب تو ڈش اچھی بن گئی تو شانِ بہو میں اضافہ، بگڑ گئی تو شان مصالحہ میں کمی۔ پہلے زمانے میں لوگ باڑے سے بھینس کا تازہ دودھ پیتے تھے اور بیمار نہیں پڑتے تھے اب Tetra پیک پیتے ہیں اور انھیں الرجی ہو جاتی ہے۔ اینٹی بائیوٹک کے غیر ضروری استعمال نے لوگوں کو چاول سے زیادہ کیپسول کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پہلے لوگ ناشتہ میں گڑ، گھی میں ڈبو کر کھاتے اور پھر چائے سے پہلے دو لسی کے گلاس حلق میں انڈیل لیتے اور پتا بھی نہ چلتا۔ آج کے انسان کو دو سلائس (مکھن والے) Angina کا مریض بنائے دیتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہم سے پوچھا: ڈاکٹر صاحب دودھ کونسا اچھا ہے، دودھ والے کا یا Tetra پیک کا؟ ہم نے کہا آپ کو Infection سے مرنے کا شوق ہے یا Cancer سے۔؟ وہ ہکا بکا ہوکر دیکھنے لگے۔ ہم نے کہا، سائنس نے انسان کو چھوٹی بیماریوں سے نکال کر بڑی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ Status phobia میں مبتلا کوئی شخص اب یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا باپ بڑا آدمی تھا وہ ملیریا سے نہیں بلکہ Heart attack سے مرا تھا۔ بہرحال سب سے بری موت وہ ہے جس میں آدمی اپنے آپ کو پہچانے (یعنی خودشناسی کے) بغیر مر جائے۔
ذہنی کاہلی بھی اپنے عروج پر ہے۔ کسی زمانے میں بچے بچے کو 17 کا Table یاد ہوتا تھا۔ TV نے لوگوں سے نہ صرف ماں باپ، عزیز و اقارب چھین لئے بلکہ اچھی کتابیں اور رسائل بھی غصب کرلئے۔ شاذ و نادر ہی اب آپ کو کوئی ایسا شخص ملے گا جو کتابوں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہو۔ (ایسے میں ’طاہرہ‘ کا مطالعہ کرنا قابلِ فخر بات ہے، قارئین کے لئے بھی اور طاہرہ کے لکھاریوں کے لئے بھی! اس کو کہتے ہیں ایک تیر دو شکار۔۔ آپ کی بھی تعریف ہوگئی اور اپنی بھی۔۔!)
کہتے ہیں امریکہ میں I.Q لیول گرنے کی ایک وجہ TV دیکھنے کا رجحان زیادہ ہونا ہے۔ پہلے TV کے پروگرام کو دیکھنے کے لئے ایک گھنٹہ لگتا تھا اور اب اچھے چینل کے اچھے پروگرام کو ڈھونڈنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ایسے میں علمائ کی طرف سے TV کا بائیکاٹ کرنا اور کروانا عین عقلی نظر آتاہے ،
Q-2: کیا سائنس اور جدید علوم تجسس کا نتیجہ نہیں؟
A-2: سائنس اور جدید علوم کے حمایتی یہ کہتے ہیں کہ سائنس اور جدید علوم انسان کے اندرونی تجسس کا نتیجہ ہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے آس پاس کیا ہے ؟ کیوں ہے؟ او رکیسے ہے؟
معذرت کے ساتھ! سائنسدانوں کی اکثریت بشمول عوام الناس برطانوی دانشور ’’بیکن‘‘ کے ہم خیال اور ہم زبان ہیں کہ سائنس اور جدید علوم انسان کی سہولتوں میں اضافہ کے لئے ہیں اور بس۔۔ thats it!! اس مو قع پر ایران کے مشہور عالم ’’وحید خراسانی ‘‘کی بات یاد آرہی ہے کہ ’’ہمیں افسوس ہے کہ آج کل کے انسان کی ساری تگ و دو صرف اس بات کے لئے ہے کہ اس کی زندگی آرام سے آرام دہ کس طرح بنے؟‘‘
آرام و آسائش پر تجسس کا پردہ نہ ڈالئے کیونکہ اس سے کان کا پردہ پھٹنے اور عقل پر پردہ پڑنے کا گمان ہے ۔
Q-3: سائنس نے کائنات کو مسخر کر لیا ہے۔ کیا یہ سائنس کی فتح نہیں؟
A-3: جی نہیں ۔ یہ کائنات پہلے ہی مسخر ہوچکی تھی۔
سورہ لقمان آیت ٢٠ میں اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے!
’’کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمینوں میں ہے، غرض سب کچھ خدا نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔‘‘
یعنی !

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے

آپ تو جمادات، نباتات اور حیوانات پر حکومت کر کے فخر کر رہے ہیں، خدا نے تو حضرت آدمٴ کو پیدا کرتے ہی اس وقت کی بہترین مخلوق کو سرنگوں کروادیا آدمٴ کے آگے۔ بغیر کچھ کئے ہی خلیفہ بنا ڈالا دنیا کا، انی جاعل فی الارض خلیفۃ، کہہ کر۔
’’جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب کے سب جھک گئے سوائے شیطان کے ۔‘‘
یعنی جو انسان کے آگے سرنگوں ہوا (یعنی فرشتے) وہ خدا کے آگے سرخرو ہوا اور جو اس حکم پر پریشان ہوا‘ شیطان ہوا۔
یعنی انسان کو کچھ کئے بغیر ہی اس کائنات کو پلیٹ میں رکھ کر بطور تحفہ یا زادِ راہ کے دے دیا گیا۔ مگر ’نفس‘ کو نہیں۔ نفس شناسی اور نفس کی فتح خود انسان کے ذمے لگا دی گئی ہے۔ بات مشکل لگ رہی ہے تو کچھ مثالیں اس مشکل کو آسان کرسکتی ہیں۔
٭ حضرت موسی کا عصا سانپ بن گیا اور جادوگروں کے سانپوں کو کھاگیا۔
٭ حضرت عیسی پانی پر چل سکتے تھے۔ (معراج السعادہ)
٭ رسول اکرم۰ نے چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ (رسول اللہ ۰ سے کم و بیش 4000معجزات منسوب ہیں)۔
٭ امام علیٴ ہوا میں اڑ سکتے تھے۔ (معراج السعادہ)
اب آپ کہیں گے ارے جناب معصوم سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ’’آپ کہاں کی بات کہاں لے گئے جذباتی ہوکر‘‘
چلیں، آپ کی اس معصومیت پر غیر معصومین کی مثالیں دیئے دیتے ہیں۔
٭ مقدس اردبیلی جب مولا علیٴ کے حرم میں جاتے تو حرم کا قفل ان کے لئے خود بخود کھل جاتا تھا۔
٭ اس قسم کا ملتا جلتا واقعہ سندھ کے ایک عالم کے ساتھ پیش آیا جب وہ مولا علیٴ کی زیارت کے لئے گئے اور جب سلام کیا تو روضہ اقدس سے سلام کا جواب آیا جو وہاں موجود لوگوں نے سنا۔
٭ آیت اللہ بہجت سے کسی شخص نے جو ایٹمی پلانٹ میں کام کیا کرتا تھا، کہا ’’آپ سے زیادہ ہم ایران کی خدمت کر رہے ہیں کہ آپ تو فقط تدریس و عبادات میں مصروف ہیں اور ہم ایران کو ایٹمی توانائی دے رہے ہیں۔‘‘ آیت اللہ بہجت نے ایک پرچی پر فارسی میں کچھ لکھ کر اس کو دیا جو اس نے اپنے ایٹمی پلانٹ کے سائنسدان کو دکھایا۔ سائنسدان پرچی پر لکھی تحریر کو دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اس سے پوچھا: ’’ تمہیں کس نے ہمارے اگلے منصوبے کا پتا بتادیا۔‘‘
یہ ہیں وہ مومنین جن کے ہاتھ اٹھ جائیں تو امریکہ پر بم گرجائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ابرھہ کے لشکر پر ابابیل کی کنکریاں ۔
امام خمینی۲ کے پاس کون سا ایٹم بم تھا سوائے تقوی، پرہیزگاری اور علم و عرفان کے سمندر کے، جس کے سونامی نے اب تک امریکہ کو Phobia میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ برسوں سے ایران پر حملہ کے دھمکی دے رہا ہے مگر ہمت نہیں ہورہی۔ ہمارا دعوی ہے کہ امریکہ خدا سے زیادہ ایران سے ڈرتا ہے اور ایران امریکہ سے زیادہ خدا سے (پاکستان کے حکمران نوٹ فرما لیں)۔ امریکہ نے دنیا کو فتح کرنے کوشش کی لیکن اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایران دنیا تو نہ فتح کرسکا (جو اس کا ہدف ہی نہیں تھا)، مگر اپنے آپ کو پہچان لیا ہے اس لئے اسے کوئی فتح نہ کرسکا۔ تو جناب ایران ہوا ہمارے لئے خودشناسی کا Role model!! اسی لئے کہتے ہیں: ’’طالب علموں( طالبان ) کا انقلاب اور ہے اور علمائ کا انقلاب اور۔‘‘
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کائنات سے زیادہ اپنا مطالعہ کیا، سائنس سے زیادہ علومِ الٰہی کو سمجھنے میں وقت گزارا اور اس کو اپنا رہبر اور ہادی سمجھا!
Q-4: آپ سائنس کو اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں؟
A-4: اتنی خشک و ثقیل گفتگو کے بعد ایک بریک پر جانے کا جی چارہا تھا، مگر مضمون اختتام پر ہے اس لئے حکایتی لطیفہ جو ہمارے کالج کے زمانے کا حقیقی واقعہ بھی ہے اور آپ کے ذہن میں ابھرنے والے اس سوال کا جواب بھی کہ ’’آخر ہمیں سائنس سے اتنی ’’چڑ‘‘ کیوں ہے؟ اور کیوں ہم اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟
ہمارے کالج کے زمانے میں ہمارے ایک دوست جو ہمارے Circle of Friends میں تھے( مگر ہمارے School of Thought سے تعلق نہیں رکھتے تھے)، وہ کسی دوشیزہ پر فریفتہ ہوگئے اور ہر وقت ان کا پیچھا کرتے ہوئے نظر آتے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے ایک عابد دوست کی ڈیوٹی لگائی کہ ان سے یہ حرکت چھڑوائی جائے یعنی پیچھا کرنے والی۔ ہمارے دوست نے بڑی سادگی سے ایک دن ان صاحب سے سوال کیا ! ’’جناب یہ دوشیزہ ہمیشہ آپ کے آگے آگے ہی کیوں چلتی ہیں؟‘‘
وہ صاحب یہ سن کر اتنے شرمندہ ہوئے کہ ہمیشہ کے لئے اس حرکت سے توبہ کرلی اور شادی کرلی (کسی اور سے)۔ لطیفہ بے قت ہے نہ بے محل وہ اس لئے کہ سائنس اگر اپنی اوقات میں رہ کر اپنی ذمہ داری نبھائے تو سر آنکھوں پر لیکن جب یہ سائنس، علومِ الہٰیہ سے آگے آگے چل کر اپنے آپ کو رہبر ور ہنما ثابت کرنے پر تل جائے گی تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں، کیونکہ۔۔
٭ سائنس سہولتیںتو فراہم کرسکتی ہے، سکون نہیں،
٭ راستہ دکھلا سکتی ہے منزل نہیں،
٭ زادِ راہ ہوسکتی ہے ہدف نہیں،
٭ ذہن تراش سکتی ہے نظریہ نہیں،
٭ جسم ڈھال سکتی ہے روح نہیں،
٭ راحت دے سکتی ہے رضائے الٰہی نہیں،
٭ کائنات شناسی کرواسکتی ہے خود شناسی نہیں!!

حرفِ آخر
آپ لوگوں میں سے کسی کی ملاقات عالمِ برزخ میں Darwin سے ہو تو ہمارا یہ پیغام پہنچا دیجئے گا (برزخ سے سگنل نہیں آتے ورنہ ہم خود SMS کر دیتے) کہ تحقیق کے مطابق ہر بندر کے دو دماغ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بندر کا بندر ہی رہا۔ انسان کا ایک دماغ ہوتا ہے، اگر اس نے سائنس کی مانی تو وہ بھی بندر اور خدا کی مانی تو ابوذر۱ ۔!
تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خود ی کا رازداں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوجا۔۔!
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سیر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا
تو جناب ہم سائنس کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ سائنس ہمارے آگے آگے چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

٭ گاندھی جی کا نظریہ خود شناسی کیا ہے؟
٭ مغرب اس ضمن میں کیا کررہا ہے؟
٭ NLPسیکھئے اور Super (wo)man بن جائیے۔
٭ کیا مغرب خود شناسی میں ہم سے بازی لے جائے گا۔؟
یہ سب کچھ اور بہت کچھ مگر کچھ دنوں بعد ۔۔ اس وقت تک سوچئے، کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تنقید و تبصرے کے لئے ہمیں Email کیجئے۔