علی(ع) اور عرفان حقیقی
  • عنوان: علی(ع) اور عرفان حقیقی
  • مصنف: علامہ تقی جعفری (رہ)
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 18:8:5 1-10-1403

 

ان کنتم تحبون اللّٰه فا تبعونی
(1گر خدا سے محبت کر تے ھو تو میری پیر وی کر و)

 

علی(ع) کا تعلیم کرد ہ عر فان حقیقی :

پر ور دگا ر ا! اے ھر محبوب سے زیادہ محبوب تر !اے ھر نز دیک سے زیادہ نزدیک تر !
اے بھر وسہ کر نے وا لو ں کی ڈھا رس ! تو ان کو اندھیر وں میں بھی دیکہ لیتا ھے ، تو ان کے دلو ں کے حا لات سے وا قف ھے، تو انکی وسعت بینا ئی کو جا نتا ھے ، انکاھر راز تیر ے سامنے بے پردہ ھے اور انکا دل تیر ے دیدارکا مشتاق ھے۔اگر تنھا ئیوں کا اندھیرا انھیں و حشت زدہ کرتا ھے تو وہ تیری یاد کی شمعیں روشن کرکے اپنے دل کو سکو ن پھونچا لیتے ھیں ۔ اگر تکلیف وپریشا نیاںان پر حملہ کرتی ھیں تو وہ تیری پناہ لے لیتے ھیں چو نکہ جا نتے ھیں کہ ھر کام تیری قدرت سے ھو تا ھے اور ھر کام تیرے ازلی قوا نین سے وا بستہ ھے ۔

 

علی بن ابی طالب(ع)

ھر وہ شخص جس نے قر آن کے نقطئہ نظر یا احادیث کی رو سے اصو ل وفر وع اسلام کا غیر جا نبدار ی کیسا تہ مطا لعہ کیا ھے ، بلا تامل تصدیق کر سکتا ھے کہ اسلام نے انسان کیلئے نہ فقط معر فت وشنا خت کے تمام راستے بیان کر دئے ھیں بلکہ اسلامی نقطئہ نظر سے تخلیق ھستی وکا ئنا ت کی اصل علت و غرض ھی معر فت وکمال ھے ۔ اگر کو ئی شخص دعوی کر ے کہ راہ تکا مل ومعر فت کے حوا لے سے اسلام میںنقص پا یاجاتاھے تو یقینا ایسا شخص یاتو اسلامی تعلیمات سے بے خبر ھے یا کسی ذاتی خود غرضی کی بنا پر ایسا کھہ رھا ھے ۔ اسلام ایک ایسی حقیقت ھے جسمیں ذرہ برابر بھی نقص کا شا ئبہ نھیںپا یاجا تاھے اور یہ دعویٰ بھی ایک ایسا دعویٰ ھے کہ اسلام کے رھنما ؤ ں نے نہ فقط اس صدی یا کسی مخصوص زمانے میں بلکہ صدرا سلام سے لیکر اب تک ھمیشہ دنیا والوں کے گو ش گز ار کیا ھے ۔ ایسی کو نسی جا ودانی وآفا قی حقیقت ھے کہ بشر نے اپنے ضعیف یا قو ی افکا ر میں اسکی پر ور ش کی ھواور اسلام نے اسکی طرف اشا رہ نہ کیاھو ؟
فلسفہ، سائنس، اخلاق،سماجیات،معاشیات،قیامت وغیرہ کے بارے میں جسقدر ممکن تھا اور واقعیت سے مطابقت رکھتا تھا ،اسلام نے بیان کر دیا ھے خواہ بطور کلی۔اگر خدا شناسی کی گفتگو کی ھے تو عقل وقلب کی بلند ترین راھوں کے ذریعے شناخت کرائی ھے ،فلسفہ کے متعلق انسانی عقل کو پیش نظر رکھتے ھو ئے جا مع تر ین نکات بیان کئے ھیں ، اخلا قیات کے مو ضوع پر بحث کی ھے تو مختصر اور جاذب کلمات قصا ر کی صورت میں اخلاقی نکا ت بشر کے حوا لے کئے ھیں ، علم کے درواز ے نہ فقط ھر شخص کے لئے کھلے چھو ڑ دئے ھیں بلکہ کا ئنا ت کے ظو اھر و حقائق کے بارے میں جستجو کو جز ء ایمان قرار دیا ھے ، معا شرے کے ھمیشہ زندہ رھنے والے اصول کو اس طر ح بیان کیا ھے کہ کسی مکتب فکر یا گروہ نے اس طرح بیان نھیں کیا تھا ،نہ ما قبل اسلام اور نہ ما بعد اسلام ۔ ساتھ ھی رھتی دنیا تک اس سلسلے میں اس سے با لا تر اور بھتر طور پر ایک حرف کا اضافہ تک نھیں کیا جا سکے گا ۔
اقتصا دیا تی اصولو ں کی اس حد تک تشریح وو ضا حت کی ھے کہ کوئی اقتصا دی مکتب اسکی دقت سنجیو ں کا مقا بلہ نھیں کر سکتا در حا لیکہ اگر کوئی مکتب فکر معا شرے کے کسی ایک پھلو کو رفوکر تا ھے تو دوسرا پھلو ھزا ر جگہ سے پارہ پارہ ھو جاتاھے ۔
اسلام نے قیامت کا منظر اس طرح سے کھینچا ھے کہ انسا ن ، دنیوی زندگی میں مشغو ل و متوجہ ھو نے کے با وجو د قیامت کا مجسم تصور کر لیتا ھے ۔
اس بات کی ضروت بھی نھیں ھے کہ مشرق ومغرب سے استشھا دلا ئے جا ئیں اور ثا بت کیا جائے کہ بلند وبالا افکار کے ذریعہ حا صل شدہ انسا ن وکا ئنا ت کی حقیقی معر فت کا منبع اسلام ھے کیو نکہ یہ بات خود ھی اظھر من ا لشمس ھے ۔ اسلام نے ماقبل اسلام ، کتب آسمانی اور بشر ی عقل سالم کے ذریعے حا صل ھو نے والے آفاقی حقائق کی تصدیق کی ھے لیکن اسلام کے ظھور کے بعد خدا شناسی ، طبیعت شنا سی اور انسا ن شنا سی کے متعلق بیان کی جانے والی ھر قسم کی حقیقت ، خوا ہ منظوم یا منثو ر ، کا سر چشمہ فقط و فقط اسلام ھی کو سمجھا جا سکتا ھے ۔
مثلا سعد ی شیراز ی کے عا لی مضا مین کو سنکر ھر شخص اپنا سر دھنتا ھے جبکہ سعدی کی عام غز لیا ت اور دا ستانو ں کو اگر مستثنی کر دیا جا ئے تو خو د بخود واضح ھو جا تا ھے کہ سعد ی نے اپنے مضا مین عا لیہ کی تر تیب وتنظیم میں یا تو براہ را ست قرآن یا روایات سے استفادہ کیا ھے یا ان شعراء و حکماء سے استفادہ کیا ھے جنھو ں نے اپنے مضامین ومطا لب اسلام سے اخذکئے ھیں مثلا متنبی ، سید رضی ، مھیا دیلمی وغیرہ ۔ علاوہ از ایں ، مثلاً انسان کی معنو ی اور وحی آزا دی وثبات کے سلسلے میں کھے جا نے والے اشعا ر میں بھتر ین شعر طغر ائی کا مندر جہ ذیل شعر ھے:

انما رجل الدنیا وواحدها
من لا یقول فی الدنیا علی رجل

( جو کسی کی پنا ہ نہ لے ، تنھا مر د میدان ھے)

غلام ھمت آنم کہ زیر چرخ کبود
زھر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاد ست

ان دونو ں اشعا ر کا مضمون سینکڑ وں مر تبہ قر آن اور روا یات میں ان مقا مات پر بیان ھو اھے جھاں یہ فر مایا گیا ھے کہ انسان کا ملجا وما ویٰ فقط خدا وند عالم ھے البتہ ھمارے بزر گوںاور رھبروں کا ھمیشہ یہ نقص رھا ھے کہ جب وہ ان مضامین ومطا لب کو بیان کیا کرتے تھے ، خواہ نثر میں خواہ نظم میں ، تو کبھی یہ نھیں کھتے تھے کہ یہ مضمون فلاں آیت یا روایت سے ما خوذ ھے ۔ ظاھر ھے کہ ھمارا معا شرہ بھی عام طور پر عربی زبان سے آشنا نھیں تھا اور فقط کسی حد تک قرآن و روایات سے آشنائی رکھتا تھا، وہ بھی اس وجہ سے کہ مجا لس وغیرہ میں خال خال ان کا تذکرہ ھو تارھتا تھا ۔اس کے علا وہ معا شرے کو اسلام میں پا ئے جانے والے عالی مضامین و مطالب کی نہ شنا خت تھی اور نہ پھچا ن ۔ اسی وجہ سے ھمارے شعر اوادبا کی زبان سے جاری ھو نے وا لے ھر کلا م ومضمون کے بارے میں یھی نظر یہ قا ئم کیا جاتاتھا کہ یہ ان کی اپنی ذھنی جدت و تخلیق ھے، لھذا ھمارا معاشرہ قرآن وروا یات کے مقا بلے میں ان اشعار سے زیادہ مانوس ھو گیا جبکہ اگر گز شتہ حضرات ان مضامین عا لیہ کے منا بع وما خذ کا تذکرہ بھی کر دیا کرتے تو نہ فقط ان کی شان میں کو ئی کمی نہ آتی بلکہ ان کے کلا م کو الھی تا ئید بھی حاصل ھو جا تی ۔ اسی سھو یا غلطی کی بناپر اسلام کو دوطرح کا ضررو نقصان بردا شت کر نا پڑا ھے ؛ ایک تو یہ کہ معاشرہ قر آن وروایات سے دور ھو گیا اور یہ گمان کر لیا گیا کہ شعر ا وحکما کا سارا کلام الھا می ھو تا ھے ۔
دوسرے یہ کہ ان مضا مین کے جاذب ھو نے کی وجہ سے بے سر و پا مضا مین بھی ان کے ساتھ ھی ساتھ معا شرے میں را سخ ھو گئے ھیں ۔ انسا ن اگر ایک مضمون کو بیان کر تے وقت اسکا ما خذ ، قرآن وروایات کو قرار دے ، در حالیکہ وہ مضمون ازاول ، قرآن وروایات میں مو جود تھاتو یہ بذات خود بزرگی روح اور عرفان سے ار تبا ط کی ایک علامت ھے ۔
مختصر یہ کہ اسلام نے ھر اس حقیقت کو بیان کردیا ھے جو کسی نہ کسی صورت میں کمال و تکامل انسانی میں معا ون ثابت ھوسکتی ھے ۔ اس مقا م پر کھا جا سکتاھے کہ ھمارے شعر ا وحکما نے ایک یہ بھی اچھا کام کیا ھے کہ ان عر فانی حقا ئق کو مختلف جاذب،پر کشش اور فنی اصطلا حات کا لباس پھنا دیا ھے یا اس طرح منظوم کر دیا ھے کہ ایک عام انسان کے احساسا ت تیزی کے ساتھ حرکت میں آجاتے ھیں ۔

عرفان حقیقی ایک ایسا مکتب ھے کہ رسول گرا می اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علی(ع( اور آپ کی اولاد نے اس پر بطور مطلق حکو مت کی ھے۔
اس بحث کا عنو ان عرفان حقیقی اس لئے رکھا گیا ھے کیو نکہ نفس انسانی ، معر فت خدا وند ی کے تمام مبا دیات وعلل اور روح کے بلند او صاف کی شنا خت اور اس کے مطابق روش ، اسی طرح تمام دوسرے حقا ئق اور حوا دث ھستی و کائنات کی شناخت کو نہ فقط تجویز کر تا ھے بلکہ ضروری ولا زم بھی سمجھتاھے ۔
اس عر فان حقیقی سے روح کا مثبت پھلو مراد ھے یعنی عقل وا شراقات قلبی کی بنا پر جو حقا ئق روح پر نازل ھو تے ھیں ، کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز بھی ھوتے ھیں اور اس طرح ھر وہ حقیقت یا واقعہ جو روح کے اس مثبت دائر ے سے باھر ھے اسکو عرفان حقیقی میںخیال ، تو ھم اور تجسیم سے تعبیر کیا جاتا ھے ۔عرفان حقیقی کے اعتبار سے عظمت خدا ئی اور طبیعت(nature( قطعاًً ھم سنخ نھیں ھیں ،عرفان حقیقی ان تمام او صاف عا لیہ وکمالات کو انسان کے لئے ضروری سمجھتا ھے کہ جنکو منا دیا ن تو حید نے ھم تک پھو نچا یا ھے ، مثبت عر فان قر ب خدا کیلئے انبیا ء کرا م کے ذریعے بیان کردہ دستو ر ات کو ضرو ری گر دا نتا ھے ،عرفان حقیقی تمام انسانو ں کو تمام کمالات روحی ومقا مات معنو ی حاصل کر نے کے قابل سمجھتا ھے ،عرفان حقیقی میں مبداء اعلی کی طرف تو جہ کے وقت ھر قسم کا وا سطہ جو تجسیم قلبی کی صورت میںھو ، شرک ھے خواہ یہ مجسم شدہ واسطہ پیامبر اکرم(ص( کی صورت میں ھی کیو ں نہ ھو ۔
عرفان حقیقی کا او لین وآخرین کا مل نمونہ ، اپنے دست مبارک سے زرا عت کر نے وا لے ، شب کی تا ریکی وتنھا ئی میں اپنے محا سبہ نفس کے بعد بار گا ہ خدا وند عالم میں حا ضر ھو نے والے ، اشتیا ق دیدار وخوف وپر یشا نی فرا ق معشو ق میں بے خود ھو نیو الے علی بن ابی طالب(ع( ھیں۔ عرفان حقیقی اس کے علاوہ اور کچہ نھیں ھے جس کو ر ھبر ان ما وراء الطبیعت نے بیان کیا ھے۔اسکے علاوہ جو کچہ بھی ھے وہ فقط و فقط خیا لات و تخیلا ت کے ذر یعے تسکین رو ح کا با عث اور عمر گز ار نے کیلئے ھی قا بل قبو ل ھوسکتا ھے اور بس ۔
علی(ع( کی زند گی ھمارے لئے عر فان کی حقیقت کو وا ضح طور پر بیان کر تی ھے ۔ علی(ع( کے عر فان میں خدا ستا ئی کے عنوا ن سے خودستا ئی عین شر ک ھے ۔
ایک مشھور دا ستان ھے کہ امیر المو منین(ع( نے با غ بفیغہ کے پا نچ وسق( تقر یباً 847/ کلو گرام ( خر مے ایک شخص کے پا س ارسال کئے ۔ اس وقت ایک دوسر ا شخص بھی امام(ع( کے نزدیک مو جود تھا ۔اس نے امام سے کھا کہ کہ اے علی(ع( !اس شخص نے آپ سے سوال نھیں کیا تھا پھر بھی آپ یہ خرما کیوں ارسال کر رھے ھیں۔ امیر المو منین(ع( نے فر مایا:” خدا تجھ جیسے افراد کو مو منین کے در میان زیا دہ نہ کر ے ۔ میں دے رھا ھو ں اور تو کنجو سی اور بخل کر رھا ھے ۔ اگر ان خر موں کو اسکے دست سوال دراز کر نے کے بعددیتا تو اس وقت اپنی اس عطا کی قیمت(اس کے سوال کی صورت میں(مجھے مل چکی ھو تی کیونکہ دست سوال دراز کرنے کے بعد وہ شخص مجبوراًاپنی آبرو وعزت دیکر خر مے حا صل کر تا ۔
یہ وھی عر فا ن حقیقی ھے کہ جو اولاد آدم کو فر د ومعاشر ے سے متعلق ذمہ دا ریو ں اور وظا ئف کا احسا س دلا تا ھے ۔ یہ وھی عر فان حقیقی ھے کہ اگر بشر یت ؛ فر د ، معا شرے اور حکو مت کے در میان ھر انسا نی جھت سے ممکنہ روا بط کی اصلا ح کیلئے غور و فکر کر ے تو خود بخود مجبور ھو جا ئیگی کہ اس عر فان کو اپنا سر نامہ عمل قرار دے ۔
یہ و ھی عر فان حقیقی ھے کہ ھمارے الھی رھنما ؤ ں نے جسکی طرف ساری دنیا کو دعوت دی ھے ۔ یہ عر فا ن ، اسلامی شر یعت کے وہ دروس ھیں جنھیں قرآن مجید ھر صبح و شام دنیا وا لو ں کیلئے بیان کر تا رھتا ھے : ” قل ان کنتم تحبو ن اللّہ فا تبعو نی “( اے رسول کھہ دو !1گرخدا کو دوست رکھتے ھو تو میری پیروی کرو ۔(
اس عر فان میں معا شرے کے افرادایک دوسرے کے عضو کی ما نند ھیں یعنی ان اعضا میں سے ھر عضو کو دوسرے عضوکے آرام وسکون کی خا طر حتی الا مکان سعی و کو شش کر نا چا ھیے ۔ اگر کسی عضوکی تکلیف ودرد کا علا ج رات میں کیا جا سکتا ھو لیکن اسکو اگلی صبح پر مو قو ف کر دیا جا ئے تو ایسی صورت میں عر فان ، عر فان حقیقی نھیں ھے اور ایسا عمل انجام دینے والا شخص بھی عارف نھیں ۔
عر فان حقیقی روز مرہ زندگی کے امور کی تنظیم وتر تیب کو نھا یت اھمیت دیتا ھے:” من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الا ٓخرة اعمی “ یعنی جو شخص اس دنیا میں نا بینا ھے وہ آخرت میں بھی نا بینا رھے گا ۔ اس کے علا وہ ” من لا معا ش لہ لا معا دلہ “ یعنی جس شخص کی زندگی مر تب نہ ھو ، اس کیلئے قیا مت بھی نھیں ھے ۔
اسی حوالے سے امام(ع( فر ماتے ھیں :” اللّٰہ اللّٰہ فی اصلا ح ذات البین ونظم امر کم “ یعنی اے میرے بیٹو ! خدا سے ڈرو اور اپنے امو ر کو مرتب ومنظم رکھو۔عرفان حقیقی میں کائنا ت سے متعلق غور وفکر ا شد ضروری ھے :” ان فی اختلاف اللیل والنهار لآ یات لا ولی الا لباب الذین یذکرون اللّٰه قیاماً و قعو داً وعلی جنوبهم ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذ ابا طلاً سبحا نک فقنا عذاب النار “( بیشک لیل ونھا ر کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کیلئے قدرت خدا کی نشا نیا ں ھیں ۔ جو لو گ اٹھتے ، بیٹھتے ، لیٹتے خدا کو یاد کر تے ھیں اور آسمان وزمین کی خلقت میں غور وفکر کر تے ھیںکہ خدا یا تو نے یہ سب بیکا رنھیں پیدا کیا ھے۔ تو پاک و بے نیاز ھے ھمیں جھنم سے محفوظ فر ما !(
لھذا عرفان حقیقی ایک ایسی حالت نھیں ھے کہ بعض موا قع پر کچہ لمحو ں کیلئے حاصل ھو جا ئے اور بقیہ عمر ھو یٰ وھو س کی پیر وی کر تے ھو ئے گز اردی جا ئے کہ جسمیں نہ ایسی زندگی کی خبر ھے جو قر ب الھی کا وسیلہ ھو ا ور نہ ذمہ داریو ں اور وظا ئف کا احساس بلکہ عرفان حقیقی قطعاً اس کے بر عکس ھے ۔ عرفان حقیقی میں انسان کا مرتبہ ، اشرف المخلو قات تک پھونچ جا تا ھے یعنی انسا ن ایک ایسا مو جود ھے جس کے مد نظر ھمیشہ اور ھر مقا م پر زندگی کا عالی تر ین ھدف رھتا ھے ۔ اس کیلئے مادی اور ظاھری دنیا قرب الھی کی راھو ں کو مسدو د نھیں کرتی ھے ،رو ح کی عظمت وبرتری کے مقا بل موجو د ات کے ظاھری اجسام کی کوئی حیثیت نھیں ھے البتہ اتنا ضرو رھے کہ یھی اجسام ، باطن کے تصفیے ، خود سازی اور روح کی عظمت کو فعلیت کی حد تک پھو نچا نے کا بھتر ین وسیلہ ھیں، لھذا عرفان حقیقی میں کا ئنا ت کے متعلق غور وفکر اور اسکے حقا ئق وموجود ات سے حتی الامکان استفادے کو تکامل انسانی کے لئے اصل وا ساس قرار دیا گیا ھے ۔
عرفان حقیقی میں محبت سے مرا دوہ عبادت ھے کہ جس کیلئے خود خدا( معشو ق ( کی طرف سے حکم جاری ھو اھے تاکہ روح ، علا ئق دنیو ی سے خود کو آزاد کر سکے کیونکہ اس عر فان میں محبت وعشق برا ہ راست فقط خدا ھی سے کیا جا سکتا ھے ۔ ھا ں ،دوسرے تما یلا ت وعلا ئق بھی اگر فر مان خدا وندی کی پیروی کے عنوان سے انجام دئے جائیں تو انکا شما ر بھی درحقیقت عشق خدا میں ھی کیا جا ئیگا ۔ اگر کو ئی شخص کسی دوسرے شخص سے محبت یا دوستی کر تا ھے تو جب بھی اسے کو ئی نا گوا ر حا دثہ پیش آتا ھے ، پھلا شخص دوسرے کو صبر کی تلقین کر تا ھے ، تعزیت پیش کرتا ھے تا کہ اسکو تسکین قلب حا صل ھو سکے، اگر وہ مر یض ھو جا تا ھے تو اسکی عیادت کرتاھے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام موا رد حقیقتا ًمحبت خدا ھی سے سر چشمہ حاصل کر تے ھیں کیو نکہ روز قیامت خدا وند عالم سوال کر یگا کہ میں مر یض تھا تو نے میری عیادت کیو نھیں کی ؟ بند ہ سوال کر یگا کہ خدا وند ا آخر تو کیسے بیمار ھو تا ھے ؟ خدا فر مایئگا کہ میراایک بندہ مریض تھا تو اس کی عیادت کے لئے نھیں گیا ۔ اسی طرح کے وا قعات انبیا ئے کرا م اور خا ندان عصمت میں اس کثر ت سے پا ئے جاتے ھیں کہ شمار ھی نھیں کیا جاسکتا ۔روز روشن کی طرح وا ضح ھے کہ خدا وند عالم کو قر ض کی قطعاً کو ئی حاجت نھیں ھے لیکن قرآن کریم فر ماتا ھے :” من ذالذ ی یقرض اللّٰہ قرضاً حسناً “( کون ھے جو خدا کو قر ض حسنہ دے ؟(
لھذا معا شرے میں پا ئے جا نے والے اس طرح کے جا ئز ار تبا طات وتعلقا ت عین محبت خدا ھیں اور کیو ںکہ عین محبت خدا ھیں لھذا عرفان حقیقی کے اصول مسلمہ میں سے بھی ھیں۔
حقیقی عر فا ء اپنے خدا کے ساتھ جس محبت وعشق کا شکار ھو تے ھیں وہ قطعی طور پر عشق حقیقی ھے نہ کہ عشق مجازی ۔عشق حقیقی ومجازی کی مزید وضاحت کے لئے ضروری ھے کے ایک مختصر تمھید بیان کی جائے ۔

 

عرفان اور عشق حقیقی

لفظ”عرفان“ بھی ان الفاظ میں سے ھے کہ تاریخ علم وفلسفہ ابھی تک جنکے صحیح اور حقیقی معنی پیش نھیں کرسکی ھے یعنی یہ ایک ایسا لفظ ھے کہ ھر شخص نے اس کے لئے اپنے طور پر ایک معنی فرض کرلئے ھیں۔ بھر حال لغوی اعتبار سے لفظ ” عرفان “ بھی ”معرفت “ کی مانند ایک مصدر ھے ” معرفت“ یعنی شناخت لھذا عارف یعنی وہ شخص جو حامل شناخت ھو ۔
ادبی اعتبار سے عارف اور عالم کے درمیان دو طرح کا فرق پایاجاتاھے :
(1(۔عارف صرف اس شخص کو کھہ سکتے ھیںجو کسی چیز کے بارے میں پھلے سے نہ جانتا ھواور اب وہ چیز اسے معلوم ھوگئی ھو لیکن عالم میں ایسا نھیں ھے بلکہ ممکن ھے کہ آدمی ،عالم کھے جانے سے پھلے بھی اس چیز کو جانتا ھو۔ اسی وجہ سے خداکو عالم کھا جاتاھے نہ کہ عارف کیونکہ اسکے علم سے پھلے جھل کا تصورنھیں ھے ۔
(2(۔ لفظ ”معرفت“ کا استعمال اکثر وبیشتر جز ئیات میں کیا جاتا ھے جبکہ ”علم “ جزئیات کے ساتھ ساتھ کلیات میں بھی مستعمل ھے ۔
لیکن فلسفہ اور حکمائے متا خرین(بوعلی سینا اور ان کے بعد ( کی اصلاح میں ” عرفان “ ایک مخصوص معنی میںمختلف انداز سے استعمال ھوتا رھاھے ۔ عرفان کے لئے استعمال شدہ ان تمام معانی و اصطلاحات کی گنجائش اس مختصر مقالہ میں قطعاًً نھیں ھے لھذا یھا ں فقط عرفان کے وھی معنی بیان کئے جارھے ھیں جو کسی حد تک آپس میں قدرمشترک رکھتے ھیں اور مشھور ھیں ۔
عارف : اس شخص کو کھا جا تا ھے جو تمام علائق سے انقطا ع پیدا کر کے عا م کتا بو ں میں نو شتہ شدہ راہ و روش کے ذ ریعے قرب خدا حاصل کر لیتا ھے اور یہ قرب تد ریجاً انسان کو مقا م فنا فی اللہ میں تبد یل کر دیتا ھے کہ جسکو اصطلاحاً” ھو ھو بعینہ “ بھی کھا جاتا ھے۔عر فان کے مذکورہ معنی مختلف انداز واطور سے ارباب عرفان کے در میان ، نظم ونثر دونو ںمیدانوں میں ، قابل قبول اور متفق علیہ رھے ھیں ۔
یھاں ایک سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ آیا اس عر فان کے مقد مات محبت سے شروع ھو تے ھیں یا تمام دیگر موجود ات کی بے ثبا تی اس عرفان کا سر چشمہ ھے یا پھر تجسما ت روح یا وھم اسکا باعث بنتے ھیں ؟ ان تمام سوالو ں کے جوابات تفصیلی طور پر ” عر فان منفی “ میں ھی دئے جا سکتے ھیں ۔
عرفان کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ھیں کہ عرفا ن ھر اس شخص کا مخالف ھے کہ جومنکر ھے یعنی عرفان کے اس دائرے میں کسی بھی صورت میں کو ئی منکر داخل نھیں ھو سکتا کیو نکہ ایسا کون سا شخص ھو گا جو معر فت و شنا خت سے دوری اختیار کر نا چا ھیگا اور انکار کر یگا لیکن عرفان کے اس معنی سے سرسر ی طور پر نھیں گز را جاسکتا بلکہ یہ ایسے معنی ھیں کہ جو نھا یت احتیاط اور دقت سنجیو ں کا مطا لبہ کر تے ھیں مبا دا خیال و پند ار ھائے غلط اور غیرصحیح اپنا سر اٹھا لیں ۔ پس لا محا لہ عرفان حقیقی ھی ایسا عر فان ھے جو انسان کو کمال وتکامل کی آخری منازل تک لے جا سکتا ھے ۔ خود خدا وند عالم انسانو ں کیلئے عر فان کے معنی کو اس طر ح بیان فر ما رھا ھے:” قل ان کنتم تحبو ن اللّٰہ فا تبعونی“(اے پیغمبر ! کھدو کہ اگر تم لو گ اللہ سے محبت کر تے ھے تو میری پیروی کرو !(
وجو د انسا نی میں عشق کو د و قسموں میں تقسیم کیا گیا ھے
(1(عشق مجا زی: اس عشق کا منبع محبو ب کے وہ دلنشیں او صاف ھو تے ھیں جو انسان کے نفس کے سا تہ ھم آھنگ اور اس سے مطا بقت رکھتے ھیں یعنی انسان کا نفس ان اوصاف کا گر وید ہ ھو جا تا ھے ۔
(2( عشق حقیقی :اس عشق کا منبع محبوب کے وہ کمالات ھو تے ھیں جو انسان کی رو ح سے مطا بقت رکھتے ھیں یعنی روح انسان ان کمالات تک پھنچنا چا ھتی ھے جیسے کمال علم ، علم ودانش کی محبت کو عشق حقیقی کھیں گے ۔ اسکے بر خلا ف مال وجمال جیسی چیز و ں کی محبت کو عشق مجازی کھیں گے۔ عرفان حقیقی میں اساسی کردار ، عشق حقیقی کا ھو تا ھے کیونکہ عرفان حقیقی میں محبوب ،کا مل مطلق خدا ھے کہ جس میں ذرہ برا بر نقص کا شا ئبہ محال ھے ۔ حکماء کی اصلا ح میں یہ ایسا کمال مطلق ھے جو فو ق التما م ھے اور ایسا تمام ھے جو فوق ا لکما ل ھے ۔ علا وہ از ایں، عشق مجا زی میں محبوب ھمیشہ فنا ھو جانے وا لا ھو تا ھے جب کہ عشق حقیقی میں محبوب ھمیشہ دائم وقائم اور باقی رھنے وا لا ھے ۔
عشق مجازی میں مبتلا افرادکی نگاہ میں عشق حقیقی کی حیثیت ایک غیر مانوس اورغیر موزوں آھنگ یا نغمے کی سی ھوتی ھے جب کہ ارباب عشق حقیقی کی نظر میں عشق مجازی میں گرفتار شخص اس پرندے کے مانند ھوتا ھے کہ جسکو ایک قفس میں محصور و مقید کر دیا جائے اور ھر لمحے اس پرندے کی خواھش وکوشش یھی رھتی ھے کہ کسی طرح اس قفس سے آزاد ھوجائے در حالیکہ وہ اس بات سے غافل ھو تا ھے کہ قفس میں موجود سوراخ یا شگاف اسکو آزاد نھیں کراسکتے۔
اسی بنا پر کھا جاتا ھے کہ گنھگاروں کے سامنے عشق حقیقی سے متعلق گفتگوکرنا خود اس عشق پر ایک قسم کا ظلم وستم ھے #

مدح توحیف است بازندانیاں
گویم اندر محفل روحانیاں

(اے عشق حقیقی ! حیف ھے کہ میں تیرا قصیدہ گنھگارو ں کے در میان پڑ ھو ں بلکہ اس قصیدے کا مقا م تو عشق حقیقی میں ڈو بے ھو ئے دل ھیں ۔(
عشق مجا زی اپنے مو ضو ع کے رفتہ رفتہ متغیر ھو نے کی وجہ سے خود بھی متغیر ھو تا رھتا ھے ۔ با لفرض اگر اسکو کمال حاصل ھو بھی جا ئے تو ایک نہ ایک دن اسے اپنے محبوب سے دل بر دا شتہ ھو نا ھی پڑ تا ھے جبکہ اس کے بر خلاف عشق حقیقی اگر عقل وقلب کو مد نظر رکھتے ھو ئے شر وع کیا جا ئے تو ھمیشہ لا منتا ھی کمال وتکامل کی جانب بڑ ھتا چلا جاتاھے ۔
یہ ھے عرفان حقیقی میں عشق کا مفھو م ومعنی کہ جسکی او لین علامت معشو ق از لی وابدی کی فر مائشا ت و خواھشات کی انجام آوری ھے یعنی عرفان حقیقی میں ” لا حو لا ولاقو ة الا باللّٰہ “ کھا جا ئے تو دل کی گھرا ئیو ں سے کھا جانا چاھئے ۔
دل کی گھرا ئیو ں سے نکلنے والا جملہ ” لا حو ل ولا قو ة الا باللّٰہ “ انسان کو خدائی اوا مر ونو اھی کا پیر و بنا دیتا ھے اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ھے کہ جب خود عا شق کا وجو د اس جملے کی نشا ندھی کر نے لگتا ھے یعنی جیسے ھی نماز کیلئے اللہ اکبر کھتا ھے خود کو محراب عبادت میں اپنے ھی خون میں نھلا نے تک کیلئے آمادہ اورتیار کر لیتا ھے ۔
عرفان حقیقی میں جملہ ” لا حول ولا قو ة الا باللّٰہ “ عارف کے مقد س دا من کو کلمہ ”میں“ سے مکمل طور پر پا ک کردیتا ھے ۔ ایک عارف کیلئے ” میںایسا کر تا ھو ں “ یا ” میں نے یہ کیا “ جیسے جملے لا یعنی اور لغوھو کر رہ جا تے ھیں لیکن ان افعا ل کے ما سو اجو اختیا ر ی اور اسلامی احکا مات کا محو ر ھیں کیو نکہ عارف جانتا ھے کہ

بربا د فنا تا ندھی گرد خودی را
ھرگز نتوا ں دید جمال احدی را

( یعنی جب تک اپنی خود ی اور انانیت کو خود سے دور نھیں کر لو گے اس وقت تک خدا ئے وحدہ لا شریک کے جمال کا مشا ھدہ نھیں کر سکتے ۔
عا رف مثبت ” اپنی عقل کو زندہ رکھتا ھے اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیتا ھے ۔ اسکا جسم باریک ھو جاتا ھے اور اسکا بھاری بھر کم بدن ھلکا ھو جاتا ھے اور جب وہ اس ریا ضت کو انجا م دے لیتا ھے تو عالی ترین حقا ئق کا اس طرح احساس کر تا ھے جس طرح ایک باریک بال کا ۔ اس کے دل میں بھترین ضو پا ش نو ر ھدا یت چمک اٹھتا ھے اور اس نور کے ذریعے راہ ھدایت کو حاصل کر لیتا ھے ۔ تمام دروازے اسے سلامتی کے دروازے اور ھمیشگی کے گھر تک پھو نچا دیتے ھیں اور اس کے قدم طمانیت بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ھو جا تے ھیں کہ وہ اپنے دل کو استعمال کر تا ھے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ھے ۔“(1(
”اے ابوذر ! اب جبکہ ان لو گوں نے اپنی دنیا کی خاطر تم کو معاشرے سے نکال دیا ھے مبادا تم غیر از خدائے ودود ، کسی سے انس پیدا کرو اور غیر از باطل کسی شئی سے خوف کھاؤ۔“(2(
مناسب ھے کہ اس مبحث کا خاتمہ ان جملوں کو قرار دیا جائے جو عرفان حقیقی کا شاھکار ھیں یعنی وہ عرفانی جملے جو روز عرفہ فرزند امیر لمو منین حسین بن علی علیھماالسلام کی زبان مبارک سے جاری ھوئے تھے:
خدایا ! تیرے ماسوا ایساکون ھے جو تجھے ظاھر کر سکے۔۔۔۔
خدایا! میں اپنی مالداری میں بھی فقیر ھی ھوں تو غربت میں کس طرح فقیرنہ ھو ں گا اور اپنے علم کے باوجود جاھل ھو ں تو جھالت میں کس طرح جاھل نہ ھوں گا۔ تیری تدبیروں کی نیرنگی اور تیرے مقدرات کی سرعت تبدیلی نے تیرے با معرفت بندوں کو روک رکھا ھے، عطا پر سکون سے اور مصیبت میں ناامید ھونے سے۔
پروردگارا!میری طرف سے وہ سب کچہ ھے جو میری ذلت و پستی کے مطابق ھے تو تیری طرف سے بھی وہ سب کچہ ھونا چاھئے جو تیرے کرم کے شایان شان ھے ۔
خدا یا!تونے اپنی تعریف لفظ لطیف ورؤوف سے کی ھے اور میرے ضعف کے وجود کے پھلے سے اسکا مظاھرہ کیا ھے تو کیا اب ضعف ظاھر ھوجانے کہ بعد اسکو روک دے گا ؟
پروردگارا! اگر مجھ سے نیکیوں کا ظھور ھو تو وہ تیرے کرم ھی کا نتیجہ ھے اور اگر برائیاں ظاھر ھوں تویہ میرے اعمال کا نتیجہ ھیں اوران پر تیری حجت تمام ھے ۔ خدایا ! جب تو میرا کفیل ھے تو دوسرے کے حوالے کس طرح کریگا اور جب تو میرامددگار ھے تو میں ذلت سے کس طرح دو چارھوں گا ۔ تو میرے حال پر مھربان ھے تو مایوس اور ناکام ھونے کی کیا وجہ ھے!
اب میں اپنی فقیری ھی کو واسطہ قرار دیتا ھوں لیکن اسے کس طرح واسطہ قراردوں جبکہ تیری بارگاہ تک پھونچنے کا سوال ھی نھیں ۔ میں اپنے حالات کاشکوہ کس طرح کروں کہ تو خود ھی بھتر جا نتا ھے ۔ اپنی زبان سے کس طرح تر جمانی کرو ں کہ سب کچہ تو تجھ پر خودھی روشن وواضح ھے یا کیو نکر تو میری امیدوں کو ناامید ی میں تبدیل کرسکتا ھے کیو نکہ وہ تیر ے ھی کرم کی بار گاہ میں پیش کی گئی ھیں اور کیسے حالات کی اصلاح نھیں کر یگا جبکہ انکا قیام تیری ھی ذات سے وا بستہ ھے ۔
خدا یا! میری عظیم ترین جھا لت کے باو جود تو کس قدر مھر بان ھے اور میرے بدترین اعمال کے باوجود تو کسی قدر رحیم وکریم ھے ۔ خدا یا !تو کس قدر مجھ سے قر یب ھے اور میں کسی قدر تجھ سے دور ھو ں اور جب تو اس قدر مھر بان ھے تو اب کون درمیان میں حائل ھو سکتا ھے ۔
خدا یا !آثار کے اختلاف اور زمانے کے تغیرات سے میں یہ سمجھتا ھو ں کہ تو ھر چیز اور رنگ میں اپنے کو ظاھر ووا ضح کر نا چا ھتا ھے کہ میں کسی بھی طر ح جا ھل نہ رہ جا ؤ ں اور ھر حال میں تجھے پھچان سکو ں ۔
خدا یا ! جب میری ذلت میری زبان کو بند کر نا چا ھتی ھے تو تیرا کرم قوت گو یائی پیدا کر دیتا ھے اور جب میر ے حالات و کیفیات مجھے مایو س بنا ناچاھتے ھیں تو تیرے احسا نات پھر پر امید بنا دیتے ھیں ۔
خدا یا !میں، جسکی نیکیا ں بھی بدی جیسی ھیں تو اسکی برا ئیو ں کا کیا حال ھو گا اور جسکی نگاہ کے حقا ئق بھی دعو ے سے زیادہ حیثیت نھیں رکھتے ھیں تو اسکے دعوو ں کی کیا حیثیت !
خدا یا !تیرے نا فذ حکم اور تیری قھرمان مشیت نے کسی کے لئے بو لنے کا موقع نھیں چھوڑااور نہ کسی کو کسی حال پہ ثابت رھنے دیا۔
خدایا !کتنی ھی بار میں نے اطاعت کی بنا رکھی ا ور حا لات کو مضبوط بنایا لیکن تیرے عدل وانصاف نے میرے اعتماد کو منھدم کر د یاا ور فضل و کرم نے مجھے سھار ا دیا۔
خدایا ! تجھے معلو م ھے کہ فعل وعمل کے اعتبار سے میری اطاعت دائمی نھیں ھے تو محبت اور عز م وجزم کے اعتبار سے تو بھر حال دائمی ھے۔


(1)۔ قد احیی عقله و امات نفسه حتی دق جلیله و لطف غلیظہ و برق له لامع کثیر البرق، فابان له الطریق و تدافعته الابواب الی باب السلامة و دار الاقامة و ثبتت رجلاء بطمانینة بدنه فی قرار الامن و الراحة: بما استعمل قلبه و ارضی به۔(نهج البلاغة خطبه/220)
(2)۔یا اباذر!۔۔۔۔ لا یوٴنسک الا الحق و لا یوحشنک الا الباطل۔(نهج البلاغه)